Search This Blog

Total Pageviews

Thursday, May 31, 2012

القاعدہ کے اصل سربراہ۔ سعودی عرب کے سب سے امیر شخص کو گرفتار کرنے سے امریکی خوفزدہ ہیں۔


سعودی عرب کے سب سے امیر شخص اور دنیا کے بیسویں سب سے امیر شخص، نوے سالہ سعودی شیخ سلیمان بن عبدالعزیز الراجحی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ساری دولت، جو تقریبا بیس ارب ڈالر بنتی ہے، اسلامی فلاحی کاموں کے لئے اپنی قائم کردہ ایک این جی او کے نام کررہے ہیں اور اس کے لئے قانونی کارروائی مکمل کردی گئی ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے اس پر پریشانی کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل شیخ الراجحی اپنی دولت القاعدہ کے حوالے کررہے ہیں جس سے دنیا میں دہشت گردی کو مزید بڑھاوا ملے گا۔ واضح رہے کہ شیخ الراجحی کو القاعدہ کا اصل سربراہ سمجھا جاتا ہے مگر ان کا خاندان دنیا بھر اور سعودی عرب میں اس قدر بارسوخ ہے کہ امریکہ بھی شیخ الراجحی کو گرفتار کرنے یا دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ان کا نام سرعام لینے سے گریز کرتا ہے۔ شیخ الراجحی اس وقت سعودی عرب میں مقیم ہیں اور ان کی عمر نوے برس ہے، ان کی کئی بھائی، بھیتیجے، بھانجے، بیٹے اور بیٹیاں ان کے کاروبار کو سنبھالتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں اگر بادشاہ کے بعد کوئی امیر شخص ہے تو وہ شیخ الراجحی ہیں۔ شیخ الراجحی کے کئی لوگ براہ راست القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو بھاری رقوم پہنچاتے پکڑے گئے ہیں اور ان کو امریکہ نے سزا بھی دی ہے، امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت کئی عرب ممالک میں شیخ الراجحی کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں اور القاعدہ و دیگر جہادی گروپس کی مدد کرنے والے منظم گروپوں کو گرفتار کیا گیا ہے مگر کبھی بھی شیخ الراجحی کا نام کسی کی زبان تک نہیں آیا۔ کیوں؟ اس کی وجہ بتانے سے قبل ہم آپ کو شیخ الراجحی کا تفصیلی تعارف کراتے چلیں۔
شیخ سلیمان بن عبدالعزیز الراجحی صحرائے نجدمیں پیدا ہوئے اور نسلی طور پر ایک بدو ہیں۔ ان کے والد ایک سخت گیر اسلام پسند اور جہادی تھے اور اسی ماحول میں انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ جب بچے بڑے ہوئے توان کے والد نے کہا کہ وہ حاجیوں کی خدمت کو ہی اپنا رزق بنائیں اور اس طرح شیخ الراجحی نے اپنے بڑے بھائی صالح کے ساتھ مل کر صحرائی راستوں میں زائرین حج وعمرہ کے اونٹوں کے قافلوں کی مکہ و مدینہ تک راہنمائی کا کام شروع کردیا۔ یہ دونوں بھائی صحرا کے چپے چپے سے واقف تھے اور انہیں مکہ و مدینہ تک کے راستے ازبر تھے۔ وہ حاجیوں کے اونٹوں کے قافلوں کی رہنمائی مکہ مدینہ تک کرتے اور انہیں ڈاکوئوں سے بچانے کا ذمہ بھی لیتے۔ اس طرح انہیں معقول معاوضہ مل جاتا تھا۔
الراجحی برادارن کے کاروبار کو زیادہ ترقی ستر کی دہائی میں اس وقت ملی تھی جب تیل کی ییداوار شروع ہوتے ہی غیر ملکیوں کا سرزمین عرب کی طرف تانتا بندھ گیا تھا۔ یہ غیر ملکی یہاں کام کرنے کے بعد اپنی رقم اپنے ملک بھجوانا چاہتے تھے اور شیخ الرجحی نے غیر ملکیوں کو اپنے وطن میں پیسہ بھجوانے کے سلسلے میں مدد دیناشروع کردیا جو بعد ازاں ایک کاروباراور بینک کی صورت اختیار کرتا گیا۔اپنی محنت اور لگن کی بدولت1983 میں انہیں سعودی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کا پہلا باقاعدہ نجی بینک کھولنے کی اجازت مل گئی اور آج الراجحی بینک سعودی عرب کاسب سے بڑا نجی بینک اور پوری دنیا میں سب سے بڑا اسلامی بینک ہے۔ ابتدا ہی سے الراجحی برادان نے بینک کے سب سے زیادہ شئیر اپنے پاس رکھے ہیں۔ بینک کھولنے اور اسے کامیاب ترین ادارہ بنانے کے بعد الراجحی برادران نے دیگر کاروبار پر توجہ دینا شروع کیا اورجلد ہی سعودی عرب میں ہر شعبے پر چھا گئے۔ اس وقت سعودی عرب میں شعبہ زراعت میں سب سے بڑی کمپنی الراجحی گروپ انہیں کا ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف کیمکلز، سمینٹ اور کھاد بنانے اور تجارت کرنے پر بھی ان کا ہی زیادہ کنٹرول ہے۔ سعودی عرب میں اسٹیل کی انڈسٹری ان کی ملکیت ہے اور کئی کارخانے ہر طرح کی مصنوعات بناتے ہیں۔ ریاض کے چیمبر آف کامرس کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت سعودی عرب کی سب سے بڑی کمپنی، الراجحی گروپ ہے اور دوسری کوئی کمپنی اس کے قریب تک موجود نہیں اس لئے شیخ الراجحی کی دولت کو فی الحال کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔ الراجحی برادران نے اپنی فضائی کمپنی قائم کررکھی ہے اور ان کی ذاتی کنٹینر کمپنی اور بحری جہاز کمپنی ہے جس کے چالیس رجسٹرڈ جہاز دنیا بھر میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی اپنی 2008 کی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اگر امریکی دبائو پر سعودی عرب شیخ الراجحی کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے کہ ان کا گروپ سعودی معیشت کو دنوں میں برباد کردے گا کیونکہ ان کے خفیہ کاروبار، اثاثوں اور سرمایہ کاری کا کسی کو علم نہیں۔ الراجحی خاندان نے عرب معشیت پر اس طرح کنڑول قائم کررکھا ہے کہ انہیں چھیڑنے کی صورت میں وہ پوری دنیا کو ہی معاشی جھٹکا پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں اور یہی وجہ سے ہے کہ ان کے خلاف تمام ثبوت ہونے کے باوجود کوئی ان کی طرف انگلی اٹھانے کو تیار نہیں، امریکہ بھی نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں الراجحی بینک اور دیگر کمپنیوں کے سینکڑوں دفاتر قائم ہیں مگر انہیں کبھی بند نہیں کیا گیا نا اس کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ امریکی اور یورپی معشیت کی دیوار میں اہم اینٹ کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
شیخ الراجحی خود بھی ایک انتہائی پراسرار شخصیت ہیں۔ان کی عمر نوے سال ہوچکی ہے مگر انہیں بھی مکمل تندرست اور چاق و چوبند دیکھا گیا ہے۔ وہ کبھی بھی انگریزی لباس نہیں پہنتے اور ہمیشہ عربی جبا اور سر پر اسامہ بن لادن کی طرح عربی رومال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی داڑھی چھوٹی نہیں کرائی۔ اسامہ بن لادن کی طرح ہی انہوں نےچار شادیاں کیں اور ان کے تیس بچے ہیں۔ شیخ سلیمان بہت ہی کم لوگوں سےملتے ہیں اور ان کے ملاقاتیوں میں زیادہ تر بڑے علما اور شیوخ ہوتےہیں یا پھر ان کے کاروباری ملازمین۔ کسی کو کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کوئی الیکڑانک ڈیوائس مثلا، گھڑی، موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال نہیں کرتے۔ نائن الیون واقعے کے بعد سے وہ کبھی سعودی عرب سے باہر بھی نہیں گئے۔ گو کہ امریکی حکومت کی طرف سے شیخ پر کبھی کوئی الزام نہیں لگایا گیا نا انہیں مطلوب قرار دیا گیا ہے مگر ان کے قائم کردہ اداروں، کمپنیوں اور ملازمین پر الزامات لگتے رہے،گرفتاریاں ہوئیں اور سزائیں بھی ہوئیں۔ شیخ نے خود بھی کبھی اس بارے میں آج تک ایک لفظ نہیں کہا ہے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ البتہ بعض امریکی اخبارات نے2008 میں امریکی خفیہ اداروں کے حوالے سے دعوی کیا تھا کہ اصل میں القاعدہ کا چیف شیخ سلیمان الراجحی ہی ہیں جو سعودی عرب میں بیٹھ کر دھڑلے سے دنیا بھر میں اپنا جہادی نیٹ ورک چلا رہے ہیں مگر امریکہ سمیت کسی میں یہ ہمت نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے یا کم از کم ان کا نام ہی لے سکے۔ حتی کہ2005 میں شیخ الراجحی کے نیویارک میں قائم مرکزی دفتر پر امریکی ایف بی آئی نے ایک چھاپہ مارا تھا اور تین افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔ یہ افراد شیخ الراجحی کے ذاتی ملازم تھے اور ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ سعودی بادشاہ کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کررہے تھے۔ بعد میں یہ معاملہ خاموشی سے ختم کردیا گیا۔
الراجحی خاندان کو سعودی عرب کے بادشاہ کے بعد سب سے زیادہ امیر ترین اور دینا بھر کے مخیر ترین افراد میں سرفہرست سمجھاجاتاہے۔ شیخ الراجحی اور ان کے بھائیوں کو دنیا کا سب سے سخی انسان بھی قرار دیا گیا ہے مگر وہ اپنی خیرات اصرف مسلمانوں پر ہی خرچ کرتے ہیں۔ا مریکی ایف بی آئی نے کئی بار یہ الزام لگایا ہے کہ الراجحی کے قائم کردہ خیراتی ادارے جہادیوں کو دنیا بھر میں سفر کرنے اور رقم فراہم کرنے کا کام کررہے ہیں۔ یہ ادارے دنیابھر میں القاعدہ کے افراد کو اپنا کارکن ظاہر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ بحفاظت پہنچاتے ہیں اور رقوم بھی اسی طرح فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کے اپنے ذاتی ہوائی جہاز اور بحری جہاز ہیں اس لئے القاعدہ کے افراد کی گرفتاری یا سراغ لگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ الراجحی نے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ ان کی ہر کمپنی ایک این جی او بھی قائم کرے گی اور اسے چلائے گی بھی اور اس کا تمام خرچہ بھی خود اٹھائے گی، شیخ الراجحی ایسی تمام این جی اوز کی کارکردگی خود مانیٹر کرتے ہیں۔
الراجحی کی جانب سے خیراتی اداروں، این جی اورز اور دیگر فلاحی اداروں کا ایک جال چلایاجارہا ہے جس کی تعداد پچاس کے قریب ہے اور یہ خیراتی ادارے، پاکستان، افغانستان، بوسنیا، چین، امریکہ، یورپ سمیت دنیا بھر میں ہر جگہ موجود ہیں اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر بھی کام کرتے ہیں اورا سے فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں اس لئے انہیں اقوام متحدہ کابھی تعاون حاصل ہے۔ الراجحی کے قائم کردہ خیراتی ادارے اس قدر امیر ہیںکہ ان کے اپنے ذاتی ہوائی جہاز اور بحری جہاز ہیں۔ا مریکہ کا الزام ہے کہ یہ سارا پیچیدہ ترین نیٹ ورک دراصل القاعدہ کو سپورٹ کررہا ہے اور جو لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ القاعدہ کس طرح افغانستان کے غاروں سے دنیا بھر فتوحات حاصل کررہی تو اسے سمجھنا چاہئے کہ افغانستان کے غار صرف آپریشنز کے القاعدہ استعمال کرتی ہیں جب کہ پلاننگ اور انتظامی امور کے لئے اس کے پاس دنیا بھر میں عالی شان دفاتر، جدید ترین مواصلاتی نظام اور قابل ترین پروفیشنل افراد میسر ہیں جو الراجحی کے خیراتی اداروں کی صورت سرگرم ہیں ۔ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تھی تو بیس مارچ 2002 کو ایف بی آئی کی جانب سے کئے جانے والے آپریشن گرین میں الراجحی کے خیراتن اداروں کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا تھا اور امریکہ میں اس کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولا گیا تھا مگر چند گھنٹے کے اندر اندر یہ آپریشن روک دیا گیا اور ان خیراتی اداروں کو واچ لسٹ میں شامل کرلیا گیا مگر انہیں بند نہیں کیا گیا نا ہی کسی ادارے پر براہ راست کوئی الزام لگایا گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ پیسے کی طاقت تھی کیونکہ امریکہ کے بعض اہم ترین افراد کے مالی مفادات شیخ الراجحی کے قبضے میں ہیں۔ مثلا تیل کی تجارت اور دیگر کئی کاروباری مفادات۔
امریکی ایف بی آئی نے بعد ازاں دو افراد کو قصوروار ٹھہرایا تھا کہ اپنے طور پر القاعدہ کی مدد کررہے تھے مگر الراجحی گروپ یا اس کی خیراتی ادارے اس میں شامل نہیں۔ ان گرفتار شدگان میں ایک عبدالرحمان المودی تھے۔ عبدالرحمان المودی الراجحی خاندان کی جانب سے مذکورہ فلاحی اداروں کی چین کو چلانے میں معاون تھے اور دنیا بھر میں پھیلے الراجحی گروپ کے تمام خیراتی ادارے انہیں کی زیر نگرانی تھے۔
کہا جاتا ہے کہ القاعدہ نےا مریکہ کو شکست دینے کے لئے دو بنیادی اصولوں پر کام شروع کیا تھا، ایک میدان جنگ میں شکست دینا تھا جس کے لئے افغانستان کو مرکز اور میدان جنگ بنایا گیا اور اسامہ بن لادن یہاں قیادت کرتے رہے دوسرا اصول معشیت تھا۔ جس کی نگرانی سعودی عرب میں بیٹھ کر شیخ سلیمان الراجحی نے کی اور انتہائی کامیابی سےہدف حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی کاروبار، اور دولت سے اس قد ر طاقت حاصل کی اور اپنے کاروباری جال میں امریکہ اور یورپ کی اہم ترین شخصیات کو اس طرح جکڑا کہ کوئی بھی ان کا نام تک لینے کو تیار نہیں۔ الراجحی آج بھی دنیا کے دولت مند ترین انسانوں میں شمارہوتے ہیں اور ان کی کمپنیاں نا کبھی خسارے میں گئیں اور نا ہی کبھی انہوں نے گذشتہ برس سے کم منافع حاصل کیا۔ جب کہ ان کے مخالفین، امریکہ اور یورپ شدید ترین معاشی بد حالی کا شکار ہوچکے ہیں۔ شیخ الراجحی کی معیشت اور تجارت میں دلچسپی اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا اندازہ کی ذاتی یونیورسٹی سے لگایا جا سکتا ہے۔
الراجحی نے اپنے گاوں میں ہی سلیمان الراجحی کے نام سے ایک عظیم الشان یونیورسٹی کررکھی ہے۔ یہ یونیورسٹی صرف دو شعبوں میں ہی ریسرچ اور تعلیم دیتی ہے ان میں سےایک اسلامی معیشت اور دوسرا شعبہ کاروباری طریقے ہیں۔ الراجحی گروپ کا ہر ملازم لازمی طور پر یہاں ایک کورس کے لئے بھیجا جاتا ہے۔
الراجحی گروپ کے خلاف سب سے بڑی امریکی کارروائی صرف 2002 ہوئی تھی جو کہ چند دن بعد ہی روک دی گئی اور پھر کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس معاملے کا کیا ہوا۔ اسی کارروائی کے دورانمارچ 2002 میں ایف بی آئی حکام نے بوسنیا کے دارالحکومت سراجیو میں قائم الراجحی کے ایک دفتر پرچھاپہ مارا۔ یہ دفتر یورپ میں سرگرم میں الراجحی کے ایک خیراتی ادارے بی آئی ایف فائونڈیشن کا مرکزی دفتر تھا اور ایف بی آئی کا الزام تھا کہ یہاں سے القاعدہ کو بڑی بڑی رقوم بھیجی گئیں اور یہ رقوم براہ راست اسامہ بن لادن کے لئے تھیں۔،
مذکورہ چھاپے میں ایف بی آئی کے ہاتھ ایک ایسا خط بھی لگا جسے ہاتھ سے تحریر کیا گیا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ اسامہ بن لادن کو دینے کے لئے کون کون سا تاجر رقم فراہم کرر ہا ہے۔ا خبارات نے اس فہرست کو گولڈن چین لسٹ قرار دیا تھا اور اس لسٹ میں لکھے گئے نام بیس بڑے سعودی تاجروں کے تھے جن کی کمپنیاں ہی سعودی اور عرب معیشت کی بنیاد ہیں۔ شاید اسی لئے ان کےخلاف کبھی کارروائی نہیں کی جا سکی اور یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا گیا کہ دراصل یہ رقوم اسامہ بن لادن کو نائن الیون حملے سے قبل فراہم کی گئی تھیں ۔مذکورہ فہرست میں پانچ نام ایسے تھے جن کی جانب سے فراہم کئے گئے فنڈز براہ راست اسامہ بن لادن کو بھیجے گئے تھے۔یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ مذکورہ فہرست کو کب مرتبہ کیا گیا تھا۔ البتہ بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ اسے 1988مین مربت کیا گیا تھا۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے ماہر رچرڈ کلارک کا ماننا تھا کہ مذکورہ فہرست کو 1989 میں مربت کیا گیا تھا کیونکہ القاعدہ کی بنیاد 1988 کے اخر میں پڑی تھی۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی حکومت نے ان سعودی تاجروں اور شیخ الراجحی کے خلاف کارروائی اسلئے نیہں کی کہ اس بات کا ثبوت کہیں سے نہیں ملا تھا کہ مذکورہ فہرست میں درج افراد القاعدہ کی مسلسل مدد کررہے تھے بلکہ القاعدہ کی جانب سے امریکیوں کو نشانہ بنانا شروع کرنے کے بعد ان کی جانب سے القاعدہ کی مدد نہیں کی گئی تھی کیونکہ ان نامون میں سے اکثر ایسے تھے جو امریکی سرکاری افسران کی زیرنگرانی تھے اور اگر وہ اسامہ کو رقوم دیتے تو فورا پتہ چل جاتا۔ گولڈن چین لسٹ میں درج ذیل نام شامل تھے؛

 بن لادن برادر:اس فہرست میں ان کے ناموں کے ابتدائی حصے درج نہیں تھے۔ ان کی جانب سے بن لادن کو رقم فراہم کی گئی تھی۔ بعدازاں ماہرین کا خیال تھاکہ ان کے نام ایک ایسی فہرست میں شامل ہونے سے سے جو سراجیو سے ملی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے کسی ایسے بھائی کی جانب سے یہ رقم فراہم کی گئی تھی جو انہی کی کیٹیگری کے کام کررہا تھا مگر وہ کون تھا یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا اور نا ہی معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ بن لادن گروپ سعودی عرب کا اس قدر بڑا تجارتی گروپ ہے کہ امریکہ اس کی طرف انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ شاید اسی وجہ سے امریکی اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنا نہیں چاہتے تھے کہ اس کے بھائی اور خاندان والے اسے کسی بھی قیمت امریکی جیل تک نہ جانے دیتے اور سعودی عرب لے جاتے۔

 عادل بیترجی:ایک معروف سعودی بزنس مین جن کی جانب سے بی آئی ایف اور لجنۃ البر الاسلامیہ کی قائم کی گئی تھی۔مذکورہ فہرست کے مطابق انہوں نے تین مرتبہ رقوم فراہم کی تھیں ، اسی بنیاد پر ایف بی آئی کی جانب سے انہیں 2004مین دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والے افرادکی فہرست میں شامل کیا گیا تھامگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

 واعل حمزہ جلیدان:یہ ایک معروف سعودی ارب پتی اور القاعدہ کی بنیاد رکھنےو الے افراد میں سے ہین۔ امریکہ کی جانب سے انہیں 2002میں دہشت گردوں کی مالی مدد فرہام کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا مگر ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔


 صالح کمال: یہ ایک معروف سعودی تاجر اور معروف سعودی بزنس گروپ دلۃ البرکہ کے اکثر شئیر رکھنےو الے صاحب ہیں۔2003 میں فوربز کی جانب سے انہیں دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل کیا گیا تھا۔فہرست کے مطابق انہوں نے بیترجی کو رقم فراہم کی تھی جو اسامہ بن لادن تک پہنچا دی گئی۔ ان کے خلاف بھی کبھی کوئی الزام نہیں لگایا گیا نا ہی کارروائی کی گئی۔


 سلیمان عبدالعزیز الراجحی: القاعدہ کے اصل سربراہ، ایف بی آئی نے 2002میں ان کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے مگر پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر کارروائی روک دی گئی تھی۔


  خالد بن محفوظ: بن محفوظ گروپ کے ایک وکیل کی جانب سے بعد ازاں وضاحت کی گئی تھی کہ ان کی جانب سے اگرچہ1980کے آخر میں ایک محدود رقم مجاہدین کو فراہم کی گئی تھی لیکن یہ امریکی اور سعودی حکومت کی اجازت سے تھی

غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی عورتوں کے چکر میں سی آئی اے کے ہتھے چڑھا۔ اہم انکشافات


امریکی خبر ايجنسي نے دعوي کيا ہے کہ اسامہ کی مخبری کرنے والا غدار پاکستانی ڈاکٹر شکيل آفريدي ايک بدعنوان اوررنگين مزاج شخص ہے جو خوبصورت عورتوں کے عوض کچھ بھی کرسکتا ہے اور اسی کمزوری کے باعث سی آئی اے نے اسے پھانس لیا تھا.خبر ايجنسي نے پاکستان کے متعدد حاضر اور سابق اہلکاروں سے انٹرويوز کئے ،جنہوں نے اسامہ بن لادن کي تلاش ميں امريکا کي مدد کرنيوالے ڈاکٹر شکيل آفريدي کو شراب پينے والااور خواتين کا رسيا قرارديا،جس پر خواتين سے زيادتي،انہيں ہراساں کرنے اور چوري جيسے الزامات لگ چکے ہيں. ان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ شکيل آفريدي کا اصل جنون دولت کا حصول تھا.2002 کي محکمہ صحت کي دستاويزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شکيل افريدي کوبد عنوان اور سرکاري نوکري کے لئے ناقابل اعتبار اور ناموزوں سمجھا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کام کرنے والی کسی بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں رہتی تھی۔ امریکیوںنے بھی اسے کچھ رقم اور کچھ عورتوں کے عوض استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اسے گرفتار کرنے کےبعد پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں نے اس کے گھر کی تلاشی لی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ برہنہ فلموں کا ایک ذخیرہ اس کے ذاتی کمرے میں موجود تھا جب کہ کئی فلمیں خود اس کی اپنی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک جنسی جنونی شخص ہے۔ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے سی آئ اے نے پاکستان میں اس کی ہینڈلر بھی ایک امریکی خوبرو خاتون کو مقرر کر رکھا تھا جو اکثر اس سے ملنے پشاور جایا کرتی تھی۔ اسامہ آپریشن کے کچھ قبل وہ امریکی خاتون فوری طور پر ملک چھوڑ گئی تھی۔.
امریکہ کے لئے جاسوسی پر 33 سال قید کی سزاء پانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے 1991ء میں ایم بی بی ایس کیا، 2010ء میں ہیلتھ آفیسر تعینات ہونے کے بعد کئی بار بدعنوانی کے الزام میں معطل اور پھر اثر و رسوخ پر بحال ہوتا رہا اسے خیبر پختون میں بر سر اقتدار اے این پی میں خاصا رسوخ حاصل تھااور اسی باعث اب اے این پی کے رہنما اسے ہیرو قرار دینے اور رہا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امریکہ نے بھی اسے قومی اعزاز کے لئے بھی نامزد کیا، خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر شکیل آفریدی ملک دین خیل میں 1962ء میں پیدا ہوا اور 1991ء میں خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، شکیل آفریدی کی اہلیہ امریکی شہری ہے جو درہ آدم خیل میں کالج کی پرنسپل رہی۔ ڈاکٹر شکیل کو ملازمت کے دوران کئی دفعہ بدعنوانیوں کے الزام پر معطل کیا گیا، تاہم اثر و رسوخ ہونے کے باعث وہ بحال ہوتا رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کے لئے زمینی نیٹ ورک قائم کرنے میں سی آئی اے کی مدد کی تھی اور اس کا تیار کردہ نیٹ ورک مسلسل قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کے لئے جاسوسی کررہا تھا۔ اس نیٹ ورک کا خاص ٹاسک یہ ہوتا تھا کہ وہ ٹارگٹ کی نشاندہی کرئے اور اس کے قریب ایک مخصوص چپ پھینک دے جو سگنل دے کر ڈرون طیارے کو ہدف کی نشاندہی کرتی تھی اور پھر اس ہدف پر میزائل برسائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر شکیل نے اپنی دشمنی اور اس کے نیٹ ورک میں شامل افراد نے بھی اپنی د شمنی میں کئی خاندانوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنوایا جن کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
ڈاکٹر شکیل فروری 2010ء میں خیبر ایجنسی کا ہیلتھ آفیسر تعینات ہوا، جس کے بعد اس نے پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں ایک قیمتی بنگلے میں رہائش اختیار کرلی، سی آئی اے کا رابطہ اسامہ کے کورئیر سے ہونے کے بعد ڈاکٹر شکیل نے سی آئی اے کی ایماء پر اسامہ بن لادن کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کیلئے ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نیٹ ورک کی معاونت سے ایبٹ آباد میں 17 مارچ اور 20 اپریل 2011ء کو انسداد پولیو اور ہیپاٹائٹس بی کی جعلی مہم چلائی۔ 2 مئی کو امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو 22 مئی 2011ء کو ڈاکٹر شکیل کو پشاور سے گرفتار کیا گیا۔جعلی پولیو مہم اور ہیپاٹائٹس مہم کے لئے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے جمرود ہسپتال سے پولیو کی 6 کٹس چوری کیں، ایبٹ آباد میں حفاظتی ٹیکوں کی جعلی مہم کے دوران ڈاکٹر شکیل خیبر ایجنسی کے محکمہ صحت میں او ایس ڈی کے طور پر کام کررہا تھا ۔
اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی سی آئی اے کے لیے پولیواور ہیپاٹائٹسٹیکوں کی جعلی مہم چلانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ نے غداری کا الزام ثابت ہونے پر 30 برس قید اور جرمانے کی سزا سنادی ہے۔پاکستان کے خفیہ اداروں نے 22 مئی 2011ء کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ڈیوٹی سے گھر جاتے ہوئے حیات آباد کے قریب کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔خیبر ایجنسی میں پولیٹکل انتظامیہ کے ایک افسر صدیق خان نے میڈیا کو بتایا کہ تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ ناصر خان کی عدالت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں30 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ڈاکٹر شکیل کے خلاف ایف سی آر کی شق نمبر 121 اے کے تحت خیبر ایجنسی میںمقدمہ چلایا گیا کیونکہ وہ وہیں کا رہائشی ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے شکیل آفریدی پرغداری اور ریاست کے خلاف سرگرمیوں کا الزام ثابت ہونے کے بعد سزا دی ہے اور ایف سی آر کے تحت اس پر ساڑھے3 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ مزید3 سال جیل میں گزارے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سینٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنی سزا پوری کرے گااور شاید ہی اپنی زندگی میں جیل سے باہر نکل پائے۔ اہلکار کے مطابق ڈاکٹر شکیل پر یہ الزام ثابت ہوگیا ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کا پتا چلانے میں امریکا کی مدد کی تھی۔خیال رہے کہ صوبائی محکمہ صحت نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کے بارے میں امریکیوں کو معلومات فراہم کرنے کے الزام میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پہلے ہی نوکری سے برطرف کر دیا تھا اس واقعے کے بعد سے اس کے امریکی بیوی بچے بھی روپوش ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل کی امریکی بیوی کا بھائی پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور اس کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ وہ اس کی رہائی کے لئے خاموش مہم چلا رہا ہے۔یاد رہے کہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی گرفتاری کیلیے امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سی آئی کے اہلکار سیٹلائٹ اور دیگر ذرائع سے اس عمارت کی نگرانی کر رہے تھے لیکن وہ ایک دوسرے ملک میں پرخطر حتمی کارروائی سے پہلے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ اسامہ بن لادن واقعی وہاں موجود ہیں۔اس مہم کو چلانے کے لیے مبینہ طور پر سی آئی اے کے ایجنٹوں نے اپنے ایک مقامی ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی ف کو ٹاسک دیا جو خیبر ایجنسی میں صحت کے شعبے کا انچارج تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی مارچ میں یہ کہتے ہوئے ایبٹ آباد گیا تھا کہ انہوں نے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے مفت لگانے کے لیے فنڈ حاصل کیے ہیں۔ سب سے پہلے برطانوی اخبار گارڈین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا نے اسامہ بن لادن کا سراغ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے لگایا ۔امریکا کی طرف سے پاکستان پر شکیل آفریدی کی رہائی کا شدید دبائو رہا ہے ۔ سزا کے حوالے سے جب امریکی سفارتخانے کا مؤقف جاننے کیلئے مارک اسٹرا سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔واضح رہے کہ جنوری میں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے تصدیق کی تھی کہ شکیل آفریدی امریکی انٹیلی جنس کیلئے کام کرچکاہے اور اس نے اسامہ بن لادن کے ڈی این اے کی تصدیق میں مدد دی تھی ، انہوں نے پاکستانی حکام کے شکیل آفریدی سے سلوک پر تشویش ظاہر کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ شکیل آفریدی نے پاکستان کے ساتھ کوئی غداری نہیں کی بلکہ اس نے دہشت گردی کیخلاف مدد فراہم کی ہے، میرے نزدیک اس کیخلاف کسی قسم کی کارروائی بڑی غلطی ہوگی ۔

رقم نہیں ہے.....................۔ سود خوروں کی دنیا کے ہولناک انکشافات



لاہور کے نواحی دیہات میں کبیرخان نامی ایک پٹھان کپڑے کا کاروبار کرتا ہے جس کا اپنا ایک طریقہ کار ہے ۔ وہ کپڑا نقد قیمت پر فروخت نہیں کرتا بلکہ3 سے 6 ماہ کے ادھار پر بیچتا ہے۔ اس نے اپنے اس کاروبار میں دیگر ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔کبیر خان کے کپڑے کے نرخ لاہور کی لوکل مارکیٹ سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ادھار کی وجہ سے اس کا کپڑا لوگ ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔ کبیر خان اپنے گاہکوں سے کہتاہے کہ آپ کپڑا خرید لو اور پیسوں کی فکر نہ کرو۔ وہ ہم بعد میں لے لیں گے۔ اس کے گاہکوں میں زیادہ تر گاﺅں کے متوسط اور غریب طبقے کے افراد ہوتے ہیں جو 3سے 6 ماہ کے وعدے پر کپڑا توخرید لیتے ہیں مگر غربت کے باعث مقررہ مدت گزرنے کے بعد بھی اکثر لوگ پیسوں کا انتظام نہیں کر سکتے ۔ کبیر خان پہلے تو سائیکل پر یہ کاروبار کرتا تھا مگر اب اس نے ایک پک اپ رکھی ہوئی ہے جس پر یہ کاروبار کرتا ہے۔ کبیر خان جب کپڑا فروخت کرنے کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کپڑا ماپنےکے لیے گز ہوتا ہے مگر جب وہ پیسوں کی وصولی کے لیے دیہات میں جاتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی ہے۔ جب دیہات کے لوگوں کو پتا چلتا کہ کبیر خان پیسوں کی وصولی کے لیے آ رہا ہے تو دیہات کے مقروض اس سے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ مقروض اس کے قابو آ جاتے ہیں۔ پیسے وصول کرنے کے لیے کبیر خان کچھ ایسا انداز اختیار کرتا ہے کہ مقروض کو اپنی عزت بچانے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔ اگر پیسوں کا انتظام نہ ہو سکے تو وہ گھر میں جو چیز موجود ہوتی مثلاً بکری، بھینس کا بچہ، اجناس وغیرہ اٹھا کر لے جاتا ہے۔
ایسے کبیر خان نہ صرف لاہور میں بلکہ ملک بھرکے تمام شہروں اور دیہات میں موجود ہیں جو صرف نقدی کی صورت میں قرض دینے اورکپڑے کا کاروبار ہی نہیں کرتے بلکہ اب یہ گھر کی ضرورت کی ہر چیز بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اب ایسے افراد کے کاروبار میں وسعت آگئی ہے اور ان کے کاروبار کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ جنہیں نہ تو کوئی بینک قرضہ دیتا ہے اور نہ ہی اہل ثروت، وہ اپنے بچوں کی شادیوں، ان کی تعلیم یا بیماری پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کیلئے مجبوراً ایسے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ان کی شرح سود 35 سے 50 فیصد ہوتی ہے۔ زیادہ شرح سود کی وجہ سے معمولی رقم بھی تھوڑے عرصے بعد ہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور مقروض وہ رقم ادا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ کچھ قرض خواہ اپنی رقم کی واپسی کیلئے ان کے بچے اغوا کر لیتے ہیں حتیٰ کہ انہیں قتل کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔ کچھ لوگ بے عزتی کے ڈر سے خودکشیاں بھی کر لیتے ہیں۔
اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ایسے سودخوروںنے نت نئے طریقے بھی دریافت کر لیے ہیں بلکہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے اب اخبارات میں بھی اشتہار شائع کرواتے ہیں۔ پیپلز لائرز فورم کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سودی کاروبار کی پاکستان میں اجازت بھی ہے اور پابندی بھی ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کی منظوری سے مالیاتی ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جیسے بینک وغیرہ لیکن پرائیویٹ طور پر اور انفرادی طور پر ایسا کاروبار کرنے پر پابندی ہے لیکن اب اس کا حل بھی سود خوروں نے نکال لیا ہے ۔ یہ لوگ انفرادی طور پر یا دو یا دو سے زائد افراد مل کر ”فرم رجسٹریشن آفس “سے کسی نام پر ایک فرم رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں اور دکان ، دفتر کھول کر قرضہ دینے، قسطوں پر دیگر اشیا دینے، سونے کے عوض قرضہ دینے اور بینک کے چیک کے عوض قرضہ دینے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان افراد نے اپنے دفاتر پر ”رجسٹرڈ، حکومت سے منظور شدہ“ایسے الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ ان پر یقین بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اخبارات میں بھی قرضہ دینے کے اشتہارات شائع کراتے ہیں اور ایسے اشتہارات روزانہ خصوصاً اتوار کے اخبارات میں کثرت سے آتے ہیں۔
لاہور میں نقد رقم بطور قرض دینے میں اب بعض سونے کا کاروبار کرنے والے زرگر بھی شامل ہیںجو جب قرضہ دیتے ہیں تو قرض دار کو سونے کا بھاو بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت وہ اس کو جتنا قرض دے رہے ہیں اس کا اتنا سونا خریدا جاسکتا ہے اور قرض دار کو اس شرط پر قرض دیتے ہیں کہ وہ قرض کی واپسی پر اتنی ہی رقم دے گا جس کا اتنا ہی سونا ملے گا جتنا قرض دیتے وقت مل سکتا تھا جبکہ سونے کا بھاﺅ مسلسل بڑھ رہا ہے لہٰذا قرض کی رقم بھی مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔
ایسے سودخوروں کا شکار صرف عام شہری ہی نہیں بنتا بلکہ کاروبار کرنے والے بیشتر افراد بھی ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کاروبار میں اونچ نیچ آنے کی وجہ سے شہر کی مارکیٹوں میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو آپ کو کاروبار کی اونچ نیچ سے نکالنے کیلئے نہ صرف نقدقرضہ دیتے ہیں بلکہ مال بھی خرید کر دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ بعد ازاں یہ مقروض ان قرض خواہوں کے پاس پھنس جاتے ہیں اور گھر بار تک فروخت کر دیتے ہیں مگر قرضہ نہیں اتر پاتا جبکہ بیشتر افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں لاہور میں ملتان روڈ کے رہائشی ایک رکشہ ڈرائیور نے قرض ادا نہ کر سکنے پر اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ باغبانپورہ لاہور میں دو بچیوں کے باپ نے بھی سود خوروں سے تنگ آ کر گلے میں پھندہ لے کر خودکشی کر لی تھی۔ سود خوروں نے رقم نہ ملنے پر کھاریاں کے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔ راولپنڈی میں ویسٹرج کے علاقے میں ایک شخص کو سود خور نے چ#±ھریاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ یہ لوگ قرض دینے سے پہلے چیک لیتے ہیں یا دکانوں اور گھروں کے کاغذات لیتے ہیں یا پھر اقرار نامہ کی صورت میں کوئی تحریر لکھوا لیتے ہیں اور پھر رقم واپس نہ کرنے کی صورت میں ان کاغذات کی بنیاد پر یہ جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں جبکہ اس تحریر کی بنیاد پر پولیس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔
قیام پاکستان سے قبل جب بینکنگ کا نظام اتنا موثر نہیں تھا تو ایسے قرض دینے والوں کو بنیا کہا جاتا تھا جن سے نہ صرف کاروباری لوگ بلکہ زراعت پیشہ افراد اور کاشتکار قرضہ لیتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ کاروبار جاری رہا۔1972ءتک اس کاروبار پر کوئی قانونی قدغن نہیں تھی لیکن جب اس کے نتیجے میں استحصالی طبقے کی تعداد بڑھنے لگی اور لوگوں کی طرف سے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بڑھنے لگا تو1973ءکے شروع میںذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے زرعی قرضے حاصل کرنے کیلئے ایک ریلیف متعارف کروایا ۔اس ایکٹ کے تحت سود خوروں سے لیے گئے قرضے معاف کر دیے گئے اور سود خوروں کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں پر سود کی رقم کی حد بندی کر دی گئی۔ مزید براں یکم نومبر 1973ءکو قرضوں پر واجب الادا سود کی رقم ختم کر دی گئی اور صرف اصل رقم باقی رکھی گئی۔ اسی تاریخ کو اس ایکٹ کے تحت اراضی کیلئے واجب الادا رقوم بھی ختم کر دی گئیں۔
لاہور پولیس کے ایک افسر سے جب اس حوالے سے بات کی تو انھوں نے الٹا ایک سوال کر دیا اور پوچھا کہ بتاﺅ’پولیس کس بنیاد پر سودخور کےخلاف کارروائی کرے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں رقم یا کسی بھی چیز کے لین دین پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے ماسوائے غیر قانونی اشیا کے ۔ جب کوئی ایک شخص رقم یا کوئی چیز کسی دوسرے شخص سے ادھار، قرضے کی صورت میں لیتا ہے یا خرید کرتا ہے تو وہ اس کے عوض اسے تحریر ی اقرار نامہ لکھ کر دیتا ہے اور ساتھ ہی جائیداد کے کاغذ دے دیتا ہے تو ایسے میں پولیس کیا کرے۔ انھوں نے کہا اگرچہ لوگوں کے خلاف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں جب اس کا ثبوت موجود ہو۔ انھوں نے کہا اصل میں سودخوری اب نوسر بازی اور دھوکہ دہی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ لوگ مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کو پھانس لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی تحریر دیکر اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھتے ہیں جبکہ کوئی شخص ان کے خلاف گواہی دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔

Sunday, May 27, 2012

کالکی ا و تا ر


پلاسٹک کی پلیٹ

پلاسٹک کی پلیٹ میرے کام کی ہے
یہ اس آدمی کا قصہ ہے جس کے پاس مال و دولت اور اولاد کی کوئی کمی نہیں تھی۔
 وہ ہر طرح سے خوش حال تھا ۔
اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔
بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں اور بیٹے شادی کے بعد بیویو ں کو ساتھ لیکر الگ الگ مکانوں میں رہنے لگے۔
اب گھر میں صرف بوڑھے ماں باپ رہ گئے ان کی  خدمت کے لئے ایک ڈرائیور اور ایک نوکرانی گھر میں موجود تھی۔

بچوں کا معمول تھا کہ چھٹی کے دن زیادہ تر وقت اپنے والدین کے پاس ہی گزارتے۔

 اس طرح بوڑھے والدین کو کوئی خاص تنہائی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

 انہیں نواسا ، نواسیوں پوتاپوتیوں کو گاہے بگاہے دیکھنے اور ان کے ساتھ خوش کلامی کا موقع مل جاتا تھا لیکن چندبرس بعد ماں کا انتقال ہوگیا اور گھر میں باپ اکیلا رہ گیا

چنانچہ اس نے بڑے بیٹےکے سامنےتجویز رکھی کہ میں تنہا اس گھر میں نہیں رہنا چاہتا۔

 اس لئے اب میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔
بیٹے نے باپ کی خواہش بخوشی قبول کی اور بوڑھے والد کو لیکر گھر روانہ ہوگیا۔

 گھر میں اس نے ایک کمرے کی اچھی طرح صفائی کرائی اور اسے اپنے والد کے لئے وقف کردیا۔

 باپ کی خدمت میں اس نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جب بھی ڈیوٹی سے آتا باپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور حیریت دریافت کرتا ۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دن تک نہ چل سکا۔

اس کی بیوی سسر کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی تھی ۔

 اس کا شوہر شام کو آفس سے تھکا ہارا گھر آتا تو وہ اس کے بوڑھے باپ کے خلاف شکایات کا ڈھیر لے کر بیٹھ جاتی۔ ایک دن اس نے شوہر

کے سامنے بلا جھجک کہہ دہا:

"اب اس گھر میں میں رہوں گی یا تمہارا باپ!"
یہ سنتے ہی شوہر کے کان کھڑے ہوگئے ۔ اسے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔

 اس نے بیوی کو کافی سمجھایا بجھایا۔
 بہت بحث کے بعد آخر کار دونوں میاں بیوی میں اس بات ہراتفاق ہوگیا کہ بوڑھے باپ کو گراؤنڈ فلور سے نکال کر چھت سے ملحق کمرے میں منتقل کردیا جائے تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ مل سکے ،

 چنانچہ بیٹے نے باپ سے کہا:
میں نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو چھت سے ملحق کمرے میں منتقل کردیا جائے۔

چھت پر صاف ستھری ہوا بھی آئے گی ،

سورج کی روشنی سے بھی بلاواسطہ فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے اور چھت کی فضا سے آپ لطف اندوز بھی ہوتے رہیں گے۔

"ہاں ہاں بیٹا !

بھلا تمہاری ان باتوں سے اختلاف کیوں کر ہو سکتا ہے ،

 تم نے میرے بارے میں جو فیصلہ کیا ہےوہ میرے حق میں صحیح ہے۔

 اس طرح میری صحت بھی اچھی رہے گی۔"
باپ نے بیٹے کے جواب میں کہا۔
وہ گھر کے نچلے حصے میں رہتا تھا تو گاہے بگاہے اس کے ننھے منے پوتے اور پوتیاں من بہلا دیا کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ کھل مل کر کچھ باتیں کر لیا کرتا تھا مگر چھت پر آنے کے بعد اسے وہی تنہائی ڈسنے لگی جو بیوی کے انتقال کے بعد اسے اپنے گھر میں ڈستی تھی۔
بےچارہ باپ اس تنہائی اور بہو بیٹے کی جانب سے بے پروائی کو صبر و تحمل سے جھیلتا رہا۔ غم کی شدت اسے کھائے جا رہی تھی مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹا اور بہو اچھا برتاؤ نہیں کر رہے۔ اسے یہ دیکھ کر اندر ہی اندر بڑا دکھ ہوتا تھا کہ گھر میں اچھی اچھی اور قیمتی پلیٹیں موجود ہیں ۔ اس کے باوجود اس کا کھانا ہمیشہ ایک پلاسٹک کی پلیٹ میں آتا ہے اور وہ بھی صاف ستھری نہیں ہوتی تھی۔ بہو نوکرانی سے کہا کرتی تھی:
کھانا
بوڑھا پاب اب عمر کے آخری حصے میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس کی زندگی اور قبر کے مابین بس تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا۔ ادھر گھر میں کوئی بھی اس کا دھیان رکھنے والا نہیں تھا۔اس کے کپڑے گندے ، اس کا کمرہ بھی گندا ، اس پر مستزاد تنہائی کا زہر۔ اب وہ جی نہیں رہا تھا ، جینے کی نقل کر رہا تھا۔
اسی پلاسٹک کی پلیٹ میں دیا کرو ، شیشے کی پلیٹ میں کھانا دوگی تو وہ توڑ دیں گے یا اسے گندا کر دیں گے۔

آخر کار وہ وقت آ ہی گیا جس سے کسی کو مفر نہیں۔ بوڑھا باپ فوت ہوگیا۔

بوڑھے باپ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے کوئی 4 ، 5 ہفتے گزرے تھے کہ نافرمان بیٹا اپنے بچوں اور نوکروں کے ساتھ باپ کے کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا۔

 وہ کمرہ گھر کے ڈرائیور کے لئے تیار کیا جارہا تھا۔ کمرے کی صفائی کے دوران اس نافرمان بیٹے کے ایک بچے کی نظر پلاسٹک کے پلیٹ پر پڑ گئی جو اس کے بوڑے دادا کے لئے خاص کردی گئی تھی۔


اس پرانی اور گندی پلیٹ کا کیا کروگے؟ اسے پھینک دو ، یہ رکھنے کے قابل نہیں۔
بچے نے لپک کر پلیٹ اپنے ہاتھ میں اٹھالی ۔ باپ نے فوراً کہا:

لیکن چھوٹے بچے نے باپ کی بات پر کوئی دھیان نہ دیا اور کہنے لگا :
 نہیں نہیں

 اپنے بچے کی باتیں سن کر پوچھاباپ
،مجھے اس کی ضرورت ہے، میں اس کی حفاظت کروں گا ، میں اسے پھینک نہیں سکتا۔ نے:
بھلا
اس گندی پلیٹ کا کیا کروگے؟
بچے نے جواباً کہا:
میں پلاسٹک کی اس پلیٹ کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں تاکہ کل جب آپ بوڑھے ہوجائیں تو میں آپ کو اسی پلیٹ میں کھانا دے سکوں۔ ننھے منے بچے کی یہ بات سن کر نافرمان بیٹے کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب اسے احساس ہوچکا تھا کہ بوڑھے باپ کے ساتھ اس کا سلوک اچھا نہیں تھا اور وہ اپنے محسن باپ کا نافرمان بیٹا تھا۔ بچے کی بات سے وہ بہت شرمندہ ہوا ،
پھر اس کی آنکھیں جھلک اٹھیں۔ کمرے کی صفائی کا کام کاج چھوڑ کر وہ اپنے باپ کے بستر پر لیٹ گیا اور آنسو بہاتے بہاتے با پ کے کمرے کا فرش چومنے لگا لیکن ۔۔۔۔۔
"اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔"

Monday, May 21, 2012

شکاگو کانفرنس کے شرکاء کیلئے ملاعمر کا پیغام

شکاگو کانفرنس کے شرکاء کیلئے طالبان کے رہنما ملا عمر نے پیغام دیا ہے ۔اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائیگی ۔اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کے بہانے امریکا سمیت دیگر ممالک کا افغانستان پر قابض رہنے کا جواز نہیں ۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ہمار ا ایجنڈا کسی کو نقصان پہنچانے کا نہیں ہے۔

Tuesday, May 15, 2012

مولانا شیخو پوری نے شہادت کی چادر اوڑھ کر عالم اسلام کو سوگوار کردیا

کراچی میں ٹارگٹ کے ذریعہ علماءکی شہادتیں روزانہ کا معمول بن چکی ہیں۔ دونوں ٹانگوں سے مکمل معذور مبلغ اسلام مولا ٰنا محمد اسلم شیخوپوری جو درس قرآن ڈاٹ کام کے ذریعے ساری دنیا کو قرآن کے نور سے منور کر رہے تھے۔ اُن کے قرآنی دروس سن کر لاکھوں بھٹکے ہووں کو ہدایت کی روشنی مل رہی تھی۔ شہید خود و ہیل چئیر پر ہونے کے باوجود اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بس قرآن کے لئے ۔ جس چیز سے اُنہوں نے پیار کیا آخری سانسوں تک اس کو خود سے جدا نہیں ہونے دیا۔ مولانا محمد اسلم شیخوپوری اور اُن کے ساتھیوں پر حملے کی خبر ساری دنیا کی طرح برطانیہ میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ شہید کے عقیدت مندوں ، مریدوں ، شاگردوں نے ایک دوسرے کو فون ، فیکس اور ای میل کے ذریعے اطلاع دی۔ سواداعظم اہل سنت والجماعت ختم نبوت فورم یورپ، جمعیت علماءبرطانیہ،علماءرابطہ کونسل کے اکابرین مفکر اسلام علامہ خالد محمود ، مفتی فیض الرحمن، قاری عبدالرشید، مفتی محمد تقی، مولانا محمد یونس، مولانا محمد شفیق ، مولانا محمد سہیل باوا، مفتی عبدالوہاب، مولانا عبدالرحمن باوا، مفتی ادریس، حافظ محمد ارشاد، مولانا محمد حامد خان، مولانا اسد میاں، مولانا جمال بادشاہ، مولانا محمد احسن اور دیگر درجنوں علماءکرام نے مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی شہادت کا براہ راست حکومت سندھ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ علماءحق کو نشانہ بنواکر حق و صداقت کی آواز کو دبایا نہیں جاسکے گا۔ حکومت پاکستان عقل کے ناخن لے اور علماءحق کے اوپر حملے کروانے والے ہاتھوں کو روکنے کے لئے اپنی ذمہ داری کرے جو حکومت عوام و خواص کو تحفظ فراہم نہ کرسکے اس کو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

Friday, May 11, 2012

گجرات فسادات کیس: اٹھارہ افراد کوعمر قید

بھارتی ریاست گجرات کی ایک خصوصی عدالت نے سنہ 2002 کے فسادات کے دوران ضلع آنند کے اوڈ گاؤں میں نو خواتین اور نو بچوں سمیت 23 افراد کو جلا کر ہلاک کرنے کے جرم میں اٹھارہ افراد کو عمر قید اور پانچ کو سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔
اس سے پہلے عدالت نے اس معاملے میں دیگر تئیس ملزمان کو ناکافی ثبوتوں کے سبب الزامات سے بری کر دیا تھا۔
عدالت نے قتل عام کے اس کیس میں سازش کے پہلو کو بھی تسلیم کیا تھا اس لیے متاثرین کے وکلاء نےعدالت سے درخواست کی تھی کہ جرم کی سنگینی کے پیش نظرمجرموں کو سزائے موت دی جائے۔
لیکن جج پونم سنگھ نے تئیس میں سے اٹھارہ افراد کو عمر قید اور باقی پانچ کو سات سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔
فیصلے کے بعد قصور واروں کے اہل خانہ کی ایک بھیڑ نے عدالت کے باہر نعرے بازی اور مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جسے پولیس نے منتشر کر دیا۔ دفاعی وکیل نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو گجرات کی ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
اوڈ گاؤں کے پیراولی بھگول قتل عام کے نام سے مشہور یہ واقعہ یکم مارچ 2002 کو رونما ہوا تھا۔ گودھرا ٹرین کے واقعے کے بعد کشیدگی کے دوران تیس سے زیادہ مسلمانوں نے ایک دو منزلہ مکان میں پناہ لے رکھی تھی۔ ہندوؤں کے ایک بڑے ہجوم نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا تھا اور باہر سے دروازے پر تالا لگا کر پٹرول اور کیروسین سے پورے مکان میں آگ لگا دی تھی۔
"اوڈ گاؤں کے پیراولی بھگول قتل عام کے نام سے مشہور یہ واقعہ یکم مارچ 2002 کو رونما ہوا تھا۔ گودھرا ٹرین کے واقعے کے بعد کشیدگی کے دوران تیس سے زیادہ مسلمانوں نے ایک دو منزلہ مکان میں پناہ لے رکھی تھی۔ ہندوؤں کے ایک بڑے ہجوم نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا تھا اور باہر سے دروازے پر تالا لگا کر پٹرول اور کیروسین سے پورے مکان میں آگ لگا دی تھی۔
"
اس واقعے میں نو خواتین نو بچے اور پانچ مرد مارے گئے تھے۔ تاہم کئی افراد نے مکان سے کود کر جان بچائی تھی جو بعد میں اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔
یہ واقعہ گجرات فسادات کے ان نو اہم واقعات میں شامل ہے جن کی سریم کورٹ نے ایک خصوصی ٹیم کے ذریعے دو بارہ تفتیش کرائی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت ایک خصوصی عدالت نے کی اور سپریم کورٹ اس کی نگرانی کر رہی تھی۔
بھارت کی تاریخ میں اس طرح کی بہت کم مثالیں ہیں جب فسادات میں ہجوم کے اجتماعی تشدد کے معاملات میں اتنی بڑی تعداد میں قصورواروں کو سزائیں دی گئی ہوں۔
کئی غیر سرکاری تنظیمیں جو متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے برسوں سے کوشش کر رہی تھیں انہوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

Thursday, May 10, 2012

مسلمانوں کو جرمنی کا امن وامان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔وزیر داخلہ

جرمن سیاسی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو قانون کی حکمرانی کا احساس دلایا جائے۔ تاہم جرمن قانون کے تحت شدت پسندوں کو ملک بدر کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مشترکہ موقف ہے کہ  مسلمانوں کو قانونی حدود کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی حلقوں نے ملک میں مسلمانوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مابین لڑائی جھگڑے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش نے کہا کہ  شدت پسندوں کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’یقیناً کچھ مخصوص حالات میں مجرم، سزا یافتہ افراد اور شدت پسند جرمنی سے نکالے سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ ہو تو آپ اس سے جرمن شہریت نہیں چھین سکتے۔ یہ بنیادی قانون ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے انفردی سطح پر کیسز کا جائزہ لیا جائے گا اور قانون کی حکمرانی کو نظر میں رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ہنش پیٹر فریڈرش کے مطابق حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ تشدد پر آمادہ  مسلمان ملک کا امن و امان خراب کریں۔ ۔ ان کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی نگرانی کی جائے اور حالات قابو میں رکھے جائیں۔

ماحول دوست گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی کلاؤڈیا روتھ نے حکمران جماعت سی ڈی یو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ریاستی انتخابات سے قبل صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسند  اور امن پسند مسلمانوں کے مابین فرق رکھنا بہت ضروری ہے۔ جرمنی میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران شدت پسند  مسلمانوں اور دائیں بازو کی جماعت پرو این آر ڈبلیو کے مابین لڑائی جھگڑے کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس دوران متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اس کے بعد سے جرمنی میں  مسلمانوں پر تنقید برھتی جا رہی ہے۔’’پرو این آر ڈبلیو‘‘ نامی جماعت ریاستی انتخابات سے قبل کئی ہفتوں سے مساجد کے باہر مظاہرے کر رہی ہے۔ یکم مئی کو زولنگن میں کیا جانے والا اسی طرح کا ایک احتجاج اس وقت پرتشدد رنگ اختیار کر گیا، جب مظاہرین نے مسجد کے باہر پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے دکھائے۔ اِس پر وہاں موجود مسلمان ارکان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے پولیس کی جانب سے بنائی گئی حفاظتی دیوار توڑنے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق اس دوران مسلمانوں کی جانب سے پولیس پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور پتھراؤ بھی کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے بون میں ہونے والے ایک ایسے ہی واقعے میں 29 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ 

Wednesday, May 9, 2012

اسرائیلی خاتون ایجنٹ مقامی غداروں کی مدد سے ابیٹ آباد میں جاسوسی کر کے فرار ہونے میں کامیاب


اسرائیل سے شائع ہونے والے مشہور اخبار ہیریٹز نے ایک اسرائیلی جاسوس خاتون 47 سالہ الانہ دیان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں دیان بتایا ہے کہ وہ کیسے پاکستان پہنچی، کیسے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ تک گئی سکیورٹی حکام نے کیا کچھ سوالات کئے، کیسے اس نے مقامی فوٹو گرافر مقامی پروڈیوسر وغیرہ کو ہائر کر کے ٹیم تیار کی تاکہ اسامہ بن لادن کے گھر کی فلم بندی کر سکے۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسامہ کے قتل کے بعد پاکستان میں اور خاص طور سے اسلام آباد اور ایبٹ آباد میں خفیہ ادارے پوری طرح چوکس تھے اور کسی بھی غیر ملکی کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس کے پاس اسامہ کے قتل کی پوری تفصیل موجود ہو اور مقامی لوگوں کی انٹرویوز سےلے کر اس گھر کی ویڈیو تک موجود ہو۔ اس کے لئے ایک خاتون صحافی کا انتخاب کیا گیا جو ایجنٹ کے طور پر پاکستان گئی اور مقامی غداروں کو بھرتی کیا اور کامیابی سے اپنا مشن پورا کر کے اسرائیل واپس پہنچ گئی اور اس کامیابی کے چرچے اسرائیلی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ یہودی خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں سے پیسے کے بدلے کچھ بھی کرایا جا سکتا بلکل ایک طوائف کی طرح وہ پیسے لینے کے بعد کوئی سوال نہیں کرتے اور ہر کام کرتے ہیں۔ یہ اسرائیلی یہودی خاتون پاکستان میں ایک جعلی پاسپورٹ پر داخل ہوئی مگر اسے کوئی بھی نہیں پکڑ سکا۔

اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان کا کہنا ہے کہ وہ ارجنٹائن سے بحیثیت ایک ٹورسٹ روانہ ہوئی، اس کی جیب میں ارجنٹائن کا پاسپورٹ تھا، پیشہ وکالت درج تھا، ایئرپورٹ پر پہنچ کر جب وہ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچی تو اس سے کسی قسم کے سوالات نہیں کئے گئے بلکہ اسے دیکھ کر ہر شخص مسکراتا رہا، باہر نکلی تو فائیو اسٹار ہوٹل کا آدمی اسے لینے کے لئے موجود تھا، وہ آرام سے بلارکاوٹ ہوٹل پہنچی، کمرہ میں پہنچا دی گئی لیکن کمرہ میں اس نے سستانے کے انداز میں بستر پر دراز ہو کر موندی آنکھوں سے جائزہ لیا کہ نگرانی کرنے والے آلات کہاں کہاں ممکنہ طورپر پوشیدہ ہو سکتے ہیں، پھر وہ اٹھی، واش روم سے تازہ دم ہو کر نکلی، عمومی لباس پہنا، نیچے اتر کر لابی میں گئی چہل پہل تھی، پسند کا آرڈر دیا، وقت گزارا، لوگوں کو خوش باش پایا اس کی گوری چمڑی اور جدید لباس اور حسن کو دیکھ کر ہر شخص اس کے آگے بچھا جا رہا تھا اور ہر ایک پوچھ رہا تھا کہ کسی خدمت کی ضرورت تو نہیں ہے۔ دوسرے دن اس نے اپنے مقامی ٹیم ممبران کو فون کئے جنہیں وہ یہاں آنے سے قبل ہی بھرتی کر چکی تھی۔ یہ سب مقامی صحافی تھے اور رقم کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے، میں نے اپنی آمد کا بتایا، وہ فوراً ہی ہوٹل پہنچ گئے، اس نے تفصیل سے ٹیم کا جائزہ لیا، آمد کا مقصد انہیں معلوم تھا، انہی لوگوں نے رینٹ اے کار وغیرہ کا بندوبست کیا۔ دوسرے روز ہم اسلام آباد سے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ جا پہنچے، میں عمارت کا جائزہ لینے میں مصروف تھی اور اس کی تفصیلات جمع کررہی تھی کہ پاکستانی فوٹو گرافرز نے کہا کہ یہ لوگ تمہارا پاسپورٹ مانگ رہے ہیں اور ان کا تعلق مقامی خفیہ ادارے سے ہے، میری روح کانپ اٹھی اور میں سمجھی کہ بس اب میں پکڑی گئی اور انہیں میری اصلیت کا پتہ چل چکا ہے، وہ مجھے ایک کمرہ میں لے گئے، پاسپورٹ کا جائزہ لیا، فوٹو کاپی بنوائی، میں نے اپنی لاء فرم کا بزنس کارڈ سامنے رکھ دیا، ٹورسٹ ظاہر کیا۔ یہاں بھی میرے حسن جا دو چل گیا اور سب مجھ سے خوشدلی سے پیش آنے لگے۔ اچھا ماحول دیکھ کر میں نے ان سے عمارت کے اندر جانے کی اجازت مانگی، ان کی شاید نظر میرے کیمرے پر نہیں پڑی، حیرانی اس وقت ہوئی جب سکیورٹی والوں نے مسکرا کر عمارت میں جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت ہو تو میں انہیں بتا سکتی ہوں۔ دیان کا بیان ہے کہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ عمارت میں گئی، کام مکمل کیا، اندر سے میں بے حد تھرلڈ تھی، پاکستانی ٹیم کے ارکان نے مہارت اور پھرتی کے ساتھ ہدایات کے مطابق بہترین کام کیا، ہم سب عمارت سے باہر آ گئے، کار میں بیٹھ کر دور سے لانگ شاٹس شوٹ کئے اور کامیاب دن گزار کر ہوٹل جا پہنچے اور رات کو کامیابی کا جشن منایا، دوسرے دن میری ٹیم نے ایک ایسے پاکستانی صحافی سے ملاقات کروائی جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا نام جمال اسماعیل ہے اور میں فلسطینی ہوں، میری تو جان سی نکل گئی کہ شاید اب میںپکڑی گئی اور ایک فلسطینی تو مجھے پہچان ہی لے گا، میں پوچھنے ہی لگی تھی کہ فلسطین کے کون سے علاقہ سے لیکن فوراً ہی یاد آیا کہ میں تو ارجنٹینا سے آئی ہوں۔ میں نے جمال سے پوچھا کب سے پاکستان میں رہتے ہو؟ جواب ملا تیس سال سے۔ جمال اسماعیل ایک ایسا صحافی ہے جو اسامہ بن لادن سے نہ صرف ملاقات کر چکا ہے بلکہ اس کا تفصیلی انٹرویو بھی کر چکا ہے، یہ جان کر کہ جمال تیس سال سے پاکستانی ہو چکا ہے مجھے بے حد سکون ہوا۔ میری ٹیم سے میری گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی یا انہوں نے مجھے اپنی پروڈیوسر سے اسپینش میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، انہیں ہرگز احساس نہ ہوا کہ میں اسرائیلی ہوں البتہ انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ میں ارجنٹینا سے آئی ہوں، صحافی ہوں مگر پاکستان میں خفیہ طریقے سے کام کررہی ہوں، اسامہ بن لادن پر ڈاکومینٹری بنا رہی ہوں، پاکستانی صحافی متعدد ممالک کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انہیں اپنے معاوضہ سے دلچسپی ہوتی ہے، پیسے لینے کے بعد کسی طوائف کی طرح وہ اپنے گاہک سے سوال جواب نہیں کیا کرتے، اعتماد کا بھرم رکھتے ہیں تاکہ اضافی انٹرنیشنل بزنس ملے۔ اس طرح اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان پاکستان میں مقامی غداروں کی مدد سے جاسوسی مشن کو کامیابی سے مکمل کر واپس اسرائیل پہنچ گئی۔ اس کا کہنا ہےکہ جانے سے قبل ہی اس نے تمام مواد، ویڈیوز اور تصاویر انٹر نیٹ کے ذریعے اسرائیل پہنچا دی تھیں تاکہ کسی قسم کی تلاشی کے دوران اس سے کچھ مواد برآمد نہ ہو مگر کسی نے بھی اس کی تلاشی نہ لی اور وہ اپنے حسن کے جلوئوں سے ساری رکاوٹیں ہٹاتی آسانی سے اسرائیل پہنچ گئی۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے زیراہتمام نومبر2011 کی آخری تاریخ کو ایک ڈانس پارٹی  منعقد کی گئی تھی۔ جس میں امریکی سفیرکیمرون منٹر بھی پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ناچتے رہے تھے۔  "کچھ خاص "کے نام سے ہونے والی اس ڈانس پارٹی میں صرف ان پاکستانیوں کو انے کی اجازت تھی جو  جوڑے کی شکل میں ارہےتھے جب کہ امریکہ سے بھی خصوصی طور پر ڈانس گرلز کو بلایا گیا تھا، اس ڈانس پارٹی کی کچھ مزید تفصیلات اب  اس نمائندے کو حاصل ہوئی ہیں اور کچھ ایسی طالبات نے اس نمائندے سےرابطہ کیا ہے جو اس پارٹی میں شریک ہوئی تھیں اور ان کی شکایت ہے کہ پارٹی میں انہیں یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ  صرف پاکستانی روایتی ڈانس کے مناظر دکھائے جائیں گے اور پھر امریکی یونیورسٹیوں میںداخلے کی معلومات دی جائیں گی۔ پاکستان طلبہ و طالبات کو بتایا گیا تھا کہ اس پارٹی میں شرکت سے ان کے امریکی تعلیمی اسکالر شپ کے حصول کے لئے راستےکھل جائیں گے۔ اسی باعث پاکستانی یونیورسٹیز کے کافی طلبہ نے پارٹی میں شرکت کے لئے فارم جمع کرائے۔،
 اس ڈانس پارٹی میں پاکستان بھر سے  یونیورسٹیز کےطلبہ و طالبات کو منتخب کر کے بلایا گیا تھا ۔ اس پارٹی میںشریک ہونے والے ایک طالب علم کاکہنا تھا طلبہ کو  جوس کے نام پر دھوکے سے شراب پلا دی گئی اور بہت سی پاکستانی طالبات جو صرف اس لئے اس ڈانس پارٹی میں شریک ہو گئی تھیں کہ انہیں امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جائے گا، شراب پینے کے بعد مدہوش ہو کر انتہائی اخلاق سوز حرکات کا نشانہ بنیں۔ انہیں نشے میں مدہوش ہو کر ناچنے پر اکسایا جاتا رہا اور اس کی نا صرف پوری فلم بندی کی گئی بلکہ سیکڑوں تصاویر بھی اتاری گئیں۔ اب خدشہ اس بات کا ہے  کہ ان تصاویر کو کہیں ان طالبات و طلبہ کو بلیک میل کرنے کے لئے نہ استعمال کیا جائے۔ خود امریکی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے زیراہتمام ایک کلچرل پروگرام منعقد ہوا تھا۔ جس میں شکاگو سے آئے ہوئے فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔تقریب میں آئے ہوئے حاضرین کو محظوظ کرنے کے لیے نہ صرف مغربی دھنوں پر پرفارم کیا گیا بلکہ مشرقی دھنوں نے بھی حاضرین کو خوب گرمایا۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر بھی ایک موقع پر دھمال سے متاثر ہوکر جھوم اٹھے تھے۔تقریب کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی اہل کار کا کہنا تھا کہ اس کلچرل پروگرام میں صرف طلبہ و طالبات کو مدعو کیا گیا تھا ، امریکی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانہ پاکستانی عوام کے ساتھ شراکت داری چاہتا ہے اسی لئے ڈانس پارٹی کا انعقاد کیا گیا تھا۔
 واضح رہے کہ اس  ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے جو ڈانسر امریکہ سےبلائے گئے تھے وہ بعد میں اسلام آباد میں جاسوسی کرتے گرفتار ہوئے۔ یکم دسمبر 2011 کوراولپنڈی کے علاقے کچہری چوک کے قریب سے پولیس نے جی ایچ کیو سمیت دیگر حساس عمارتوں کی فوٹیج بناتے ہوئے 10 امریکی  عورتوں اور مردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اور پھر پوچھ گچھ کے بعد تمام وڈیو فوٹیج ضائع کرنے کے بعد رہا کر دیا ،تمام امریکی بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑیوں میں سوار اور انتہائی مختصر کپڑوں میں تھے گرفتاری کے  بعد وہ تھانے میں بھی پولیس اہلکاروں  کو ڈانس کے اسٹیپ سکھانے کی پیشکش کرتے رہے‘ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے امریکی شہریوں پر حساس عمارتوں کی فوٹیج بنانے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امریکی شہری فنکار ہیں جو مقامی یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے اور انہیں پاکستان ایک ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے بلایا گیا تھا اس پارٹی میں پاکستانی طلبا و طالبات کو شریک کیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق فاطمہ جناح یونیورسٹی میں ایک تقریب کے بعد لینڈکروزرگاڑی میں واپس جاتے ہوئے جی ایچ کیو سمیت دیگر حساس عمارتوں کی فوٹیج بنا رہے تھے کہ اس دوران ڈیوٹی پر موجود ٹریفک وارڈنز نے دومقامات پر روکنے کی کوشش کی تاہم نہ رکے جس پر وارڈنز نے تعاقب کرکے گاڑی کو ائرپورٹ کے قریب روک لیا اور اس کی فوری طور پر اطلاع قریبی تھانے میں دی جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور تمام امریکیوں کو گرفتار کر کے تھانے لے جایاگیا جہاں پر امریکی سفارتخانے سے تفصیلات آنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

Sunday, May 6, 2012

ہمیں اسلامی دنیا میں فرقہ ورانہ فساد کرانے کا حکم ملا تھا۔ سابق برطانوی انٹیلی جنس افسر کے اعترافات


ڈاکٹر صفدر محمود

یہ کتاب ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آج کا برطانیہ وہ نہیں جو تین صدیاں قبل تھا۔ یہ جاسوس بتا رہا ہے کہ برطانیہ نے کس طرح مسلمانوں کو تقسیم کیا اور ان میں مذہبی اختلافات بوئے اور انہیں آپس میں ہی لڑا دیا تاکہ وہ بریلوی اور دیوبندی بن کرلڑتے رہیں۔
ہاں تو میں انگلستان کے جاسوس ہمفرے کی ڈائری کا ذکر کر رہا تھا جسے انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا اور جو اپنے ملک کی خدمت اور برطانوی استعمار کو ترقی دینے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر ونفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ میرے ذمے دو اہم کام تھے۔ اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ ہمفرے تھکا دینے والے سفر کے بعد استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا اور مسجد کے خادم کو کچھ رقم دے کر راضی رکھتا تھا یہ تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے اپنے آپ کو شادی کے ناقابل ظاہر کر کے خود کو شادی اور شیخ کی ناراضگی سے محفوظ کر لیا۔ استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے واپس بلا لیا تاکہ وہ کچھ دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارے، وزارت کو زبانی بریفنگ دے اور مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں ہمفرے نے اپنی وزارت کو تفصیلی رپورٹ دی، وزیر اس کی ترکی، عربی، تجوید قرآن اور اسلامی شریعت پر دسترس سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ اس نے کہا ”آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں (2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ چھ ماہ لندن میں گزارنے کے بعد ہمفرے کی منزل بصرہ تھی۔“ صرف اتنا ذہن میں رکھیں جو کام سترہویں اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگلستان کر رہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے دوسری بڑی قوت کر رہی ہے۔ مقاصد اور حکمت عملی وہی ہے البتہ انداز اور طریقہ واردات جدید سوچ، ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ڈھل گئے ہیں۔
ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ وہ جب استنبول کے ممتاز سکالر شیخ احمد آفندی سے وزارتِ قرآن کی تجوید اور تفسیر سیکھنے میں مصروف تھا تو روزی کمانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نصف دن خالد بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ جہاں سے اسے حقیر سی رقم مل جاتی تھی۔ خالد بڑھئی اچھے کردار کا حامل نہ تھا۔ خالد نے اسے ایک بداخلاقی پر مجبور کیا۔ ہمفرے ہر ماہ رپورٹ برطانوی حکومت کو بھجواتا تھا۔ ایک رپورٹ میں اس نے خالد کی بدکرداری کا ذکر کیا تو اسے نوآبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
دو سال کے دوران قرآن، تفسیر، حدیث اور تجوید پر عبور حاصل کرنے کے بعد جب وہ لندن پہنچا اور وزارت نوآبادیاتی علاقے کو رپورٹ دی تو اسے پتہ چلا کہ اس کے باقی جن نو ساتھیوں کو لندن بلایا گیا تھا ان میں صرف پانچ واپس لوٹے تھے۔ غائب شدگان میں ایک نے مصر میں شادی کرکے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی لیکن وزارت کا سیکرٹری خوش تھا کہ اس نے راز فاش نہیں کئے۔ دوسرا جاسوس روسی نژاد تھا۔ وہ روس پہنچا تو وہیں بودوباش اختیار کرلی۔ تیسرا بغداد کے ہیضے میں مر گیا۔ چوتھا صنعا میں کہیں گم ہو گیا۔ وزارت برائے نوآبادیاتی علاقے نے جاسوسی کا وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ اس جاسوسی کے جال کے تحت نہ صرف اپنے جاسوسوں کی نگرانی کی جاتی تھی اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی بلکہ ان کی بھیجی گئی رپورٹوں کی خفیہ تصدیق بھی کی جاتی تھی۔ اس ساری واردات کو جاسوس سے پوری طرح اوجھل رکھا جاتا تھا۔
لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو ہمفرے کے الفاظ میں ”سیکرٹری نے میری آخری رپورٹ کے اہم حصوں کے مطالعے کے بعد مجھے کانفرنس میں شرکت کی ہدایت دی جس میں لندن میں بلائے گئے پانچوں جاسوسوں کی رپورٹیں سنی جانا تھیں۔ یہ کانفرنس وزیرخارجہ کی صدارت میں ہوئی اور اس میں میرے ساتھیوں کی رپورٹوں کے اہم حصوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میری رپورٹ کو بہت سراہا گیا تاہم ان پانچ میں کارکردگی کے حوالے سے مجھے نمبر تین پوزیشن پر رکھا گیا اور جی بلگوڈ کو نمبر ون اور ہنری فانس کو نمبر دو قرار دیا گیا۔ میں نے ترکی عربی تجوید قرآن اور اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ دسترس حاصل کی تھی لیکن عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنااول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ اس کام میں پوری قوت صرف کرنے کے بعد تمہیں اطمینان ہوجاناچاہئے کہ تمہارا شمار صف اول کے انگریز جاسوسوں میں ہونے لگا ہے اور تم اعزازی نشان کے حقدار ہوگئے ہو۔“ چھ ماہ لندن میں گزارنے اور شادی کے بعد جب ہمفرے کو نئے مہمان یعنی بچی بچے کا انتظار تھاتو اسے فوری طور پر عراق پہنچنے کاحکم ملا جو اس وقت خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کئی ماہ سمندروں میں دھکے کھانے اور گزارنے کے بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“
”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا ”ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (۱) نسلی اختلافات (۲) قبائلی اختلافا ت (۳) ارضی اختلافات (۴) قومی اختلافات (۵) مذہبی ختلافات۔ اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو توگویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“
”بصرہ پہنچ کر میں ایک مسجد میں داخل ہوا جس کے پیش امام مشہور عالم شیخ عمر طائی تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ترکی کا رہنے والا ہوں اور مجھے قسطنطینہ کے شیخ احمد آفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ میں نے وہاں خالد بڑھئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ مسجد میں چند دن گزارنے کے بعد میں نے دو تین مسافر خانے بدلے اوربالٓاخر ایک ترکھان کی دکان پراس شرط میں نوکری کرلی کہ وہ مجھے رہنے سہنے کی سہولت بھی دے گا۔ ترکھان عبدالرضا شریف انسان تھا اور مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کرتاتھا۔ وہ خراسانی شیعہ تھا چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے فارسی سیکھنا شروع کی۔ ترکھان کی دکان پر میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اورترکی، فارسی اور عربی میں گفتگو کرتا تھا۔ وہ دینی طالب علمو ں کا لباس پہنتا تھا اور جاہ طلب انسان تھا۔ اسے عثمانی حکومت سے نفرت تھی لیکن حکومت ایران سے اس کاکوئی سروکار نہیں تھا۔ سنی ہونے کے باوجود اس کی شیعہ ترکھان سے دوستی تھی۔ بہرحال وہ آزاد خیال انسان تھا اور کہا کرتا تھاکہ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مکاتب فکر میں سے کسی کسی بھی اہمیت نہیں کیونکہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا ہے بس وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس کا قرآن و حدیث کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ وہ بات بات پر کہتا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کتاب اور سنت کو ناقابل تغیر اصول بنا کر ہمارے لئے پیش کیا ۔پس ہم پر واجب کہ ہم صرف کتاب و سنت کی پیروی کریں۔ اس کی اکثر مذہبی حوالے سے دوسروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں اور مجھے اس کی گفتگو میں بڑا مزا آتا تھا۔ میں نے اس سے دوستی قائم کرلی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص برطانوی حکومت کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کی اونچا اڑنے کی خواہش ، جاہ طلبی، علما و مشائخ سے دشمنی اور خودسری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے گہرے تعلقات قائم کرلئے اور بار باراس کے کانوں میں یہ رس گھولتا رہتا کہ اللہ نے تمہیں بڑی فضیلت اور بزرگی بخشی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسلام میں جس انقلاب کو رونما ہونا ہے وہ تمہارے ہی مبارک ہاتھوں سے انجام پذیر ہو۔ تم ہی وہ شخصیت ہو جو اسلام کو زوال سے بچا سکتے ہو۔“
ہمفرے نے اس شخص کو مذہبی تاویلوں کے ذریعے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، اسے خفیہ جنسی لذت اور شراب کا عادی بنایا اور مسلمانوں میں تفرقے کے لئے استعمال کیا۔ یہ ایک چشم کشا اور ہوشربا داستان ہے۔ میں اپنے بیان میں حد درجہ محتاط ہوں، قابل اعتراض حصے حذف کر رہا ہوں اور آپ کو ہمفرے کے شکار کا نام ہرگز نہیں بتاؤں گا کیونکہ مجھے وقت سے پہلے مرنے کاشوق نہیں ۔)
ہمفرے کے دلچسپ اعترافات کا ذکر کرنے سے پہلے میںآ پ کی توجہ ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والی خبر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو لندن سے ریاض ملک صاحب نے ارسال کی ہے۔ آج سے دس سال قبل سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تاکہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ”را“ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ ملنے آئے۔ ان کا تعلق کتاب اور تحقیق سے ہے۔ باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں سنڈے ٹائمز کی خبر پڑ ھ رہا تھا تو مجھے ”ہمفرے کے اعترافات“ کا ایک صفحہ یاد آگیا۔ آپ بھی پڑھئے ”میں چھٹی پر لندن گیا ہوا تھا۔ نو آبادیاتی امور کے خصوصی کمیشن کی مرضی کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے۔ جن سے صرف چندایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی (1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت (2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل (3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ (4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
میں نے اوپر اپنی تحریر میں ہمفرے کے شکار کا ذکر کیا تھا جسے برطانوی وزارت نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ہمفرے نے اس سے گہری دوستی قائم کرلی اور باتوں باتوں میں اسے ٹٹولنے اور اپنے جال میں پھنسانے لگا۔ ایک دن ہمفرے نے اس سے پوچھا ”عورتوں کے ساتھ متعہ جائز ہے؟“ جواب تھا ہرگز نہیں۔ پھرہمفرے نے بہت سی دلیلیں دے کر اسے خاموش کر دیا اور وقفے کے بعد پوچھا کیا تم متعہ کے ذریعے زندگی پرمسرت بنانا چاہتے ہو؟ اس نے رضا کی علامت سے سر جھکا دیا۔ ہمفرے نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا اور میں تمہارے لئے انتظام کروں گا۔ پھر ہمفرے اسے ایک بدقماش عورت کے پاس لے گیا جو برطانوی وزارت نوآبادیاتی کی طرف سے بصرہ میں عصمت فروشی کا اڈا چلاتی تھی اور مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارتی تھی۔اس کا جعلی نام صفیہ تھا۔ ہمفرے اپنے شکار کو اس کے پاس لے گیا اور ایک اشرفی مہر پر ایک ہفتے کے لئے صفیہ سے اس کا عقد کردیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ اپنے شکار کو صفیہ کے جال میں پھنسانے کے بعد ہمفرے نے اسے شراب پر آمادہ کرنے کے لئے تاویلیں دیں کہ صرف وہ شراب منع ہے جو نشہ آور ہو، یادِ خدا او ر نماز سے باز رکھے۔ چنانچہ شراب میں پانی ملا کر پینا جائز ہے۔ ہمفرے نے اپنی سازش سے صفیہ کو بھی آگاہ کر دیا جو اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بندوبست کرنے لگی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے وزیر نوآبادیاتی علاقے کی بات یاد آئی جو اس نے الوداع کے وقت کہی تھی ”ہم نے اسپین کو مسلمانوں سے شراب اور جوئے کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا۔ اب انہی دو طاقتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کو پامردی کے ساتھ واپس لینا ہے“
مختصر یہ کہ ہمفرے دن رات اپنے شکار کے ساتھ رہنے لگا اور مسلسل رپورٹ اپنی وزارت کو بھجواتا رہا جس کی تصدیق وزارت براہ راست صفیہ سے بھی کرتی تھی اوردوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بھی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ پھرایک دن اس نے ایک جھوٹا خواب گھڑا۔ اپنے شکار کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور اسے مذہبی فرقہ بندی پر مائل کرلیا۔ واضح رہے کہ میں نہ ہمفرے کے شکار کا انکشاف کر رہا ہوں نہ اس خواب کی تفصیلات کا اور نہ ہی اوپر بیان کئے گئے دینی امور کا میرے اعتقاد سے کوئی تعلق ہے۔ میں تو فقط دامن بچا بچا کر آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہمفرے نے اپنے نشانے پر کس طرح تیر چلائے۔
اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ نجف میں وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا بالآخر تین ہفتوں بعد افاقہ ہوا تو بغداد چلا گیا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔
عراق سے متعلق رپورٹ نے وزارت کے دل جیت لئے ”چنانچہ مجھے لندن بلایا گیا کہ میں وزارت کے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وزارت نے کچھ افراد کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا ان کی رپورٹوں نے میرے طرز ِ عمل اور معلومات کی تصدیق کی تھی۔ وزیر میرے شکار کے قابو آنے پر بہت خوش تھے۔
انہوں نے میرے شکار کے ساتھ عبدالکریم نامی شخص کو لگا دیا تھا جو اسے اصفہان میں ملا، گہری دوستی گانٹھ لی وغیرہ وغیرہ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ جب وہ چھٹی پر لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا (1) شیعہ سنی اختلافات (2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات (3) قبائلی اختلافات (4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں (5) جہالت اور نادانی کی فراوانی (6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا (7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب ( حکمرانوں کے مظالم (9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان (10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان (11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی (12) عورتوں کی تحقیر (13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔ مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز ِ زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔ میرے دوست الفت صاحب کا خیال ہے کہ یہ کتاب مصدقہ نہیں جبکہ لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔حقیقت کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور یہ کہ مسلمانو ں کا اصلی دشمن مذہبی فرقہ واریت، انتہاپسندی، جہالت، جمود اور قرآن و شریعت سے دوری ہے اسلئے اگر کوئی شخص شیعہ سنی اختلافات کی آگ بھڑکانے یا مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!! ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔
انگریزی میں اصل کتاب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ اسے مندرجہ ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.hakikatkitabevi.com/download/english/14-ConfessionsOf%20ABritishSpy.pdf

فلوریڈا میں قرآن پاک کی بے حرمتی،پاکستان کی شدید مذمت

ملعون امریکی پادری ٹیری جونز


پاکستان نے فلوریڈا میں قران پاک کی بے حرمتی اور کابل میں خود کش حملے کی شدید مذمت کی ہےاسلام آباد میں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں، امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے فلوریڈا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات دنیا بھر میں نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کو ایسے واقعات کا سدباب کرنا ہوگا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ دنیا کے استحکام کے لیے امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔دفتر خارجہ سے جاری ایک اور بیان میں کابل میں ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے، دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے، پاکستان، افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام اور خطے میں استحکام، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے

ایک نیم برہنہ اسرائیلی صحافی: اکثر پاکستانی سیاستدان اس کے فین ہیں

یہ ڈیفنی باراک ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک کے خاندان کی لڑکی۔ ایہود باراک کو  مسلمان قصائی کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈیفنی کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے۔ اس بارے میں وکی لیکس نے بھی بہت سے انکشافات کئے اور خود ڈیفنی نے اپنی کتاب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ پاکستان کے اکثر سیاستدان اس کے گرویدہ ہیں اور یہی ہم نے اس تصویری رپورٹ میں پیش کیا ہے۔






 

پورے کراچی کی پولیس مل کر بھی 8 روز میں لیاری فتح کرنے میں ناکام ہوگئی




لیاری آپریشن میں آٹھ روز گزر جانے کے باوجود حکومت کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ روز تو واضح طور پر امن کمیٹی کے مسلح افراد کا پلڑا بھاری نظر آیا جبکہ پولیس اہلکار دفاعی پوزیشن پر نظر آئے، کئی روز کی شدید جنگ کے بعد اب پولیس ا ہلکار ہمت ہارتے نظر آرہے ہیں اور طاقت کے استعمال سے بھی نتائج نہیں مل سکے ہیں البتہ لیاری مکمل طور پر پیپلز پارٹی کا مخالف ہو چکا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں حکومت اور ملکی اداروں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے تاہم ان اختلافات کی تصدیق یا تردید کرنے پر کوئی فریق تیار نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک برس کے دوران سندھ کے رخصت پر بھیجے گئے دوسرے وزیر داخلہ منظور وسان نے زبردستی کی رخصت پر روانگی سے قبل صحافیوں سے الوداعی ملاقات میں اس سوال کا جواب دینے سے گریزکیا کہ رینجرز لیاری آپریشن میں موثر کردار ادا کیوں نہیں کر رہی۔ انہوں نے کاندھے اچکا کر چڑچڑے انداز میں کہا کہ یہ سوال تو وزیراعلیٰ سے پوچھا جائے جن کے پاس اب وزارت داخلہ کا قلم دان ہے، (میں تو چھٹی پر ہوں) ان کی بے بسی قابل دید تھی۔ لیاری آپریشن پر اداروں کے تحفظات غیر جانبدار سیاسی قوتوں سے ملتے جلتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آپریشن کراچی کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا تخصیص ہونا چاہئے۔ لیاری کے آٹھ افراد اگر گرفتار بھی ہوگئے تو کیا کراچی میں امن قائم ہو جائے گا؟، ٹارگٹ کلنگ بند ہو جائے گی؟ اسٹریٹ کرائمز کے ستائے ہوئے شہری سکون کی زندگی گزار سکیں گے؟ ہر طرف امن اور چین ہوگا؟ اگر ان سب کی ضمانت ہے تو پھر کراچی کے لوگوں کو لیاری آپریشن پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مگر انہیں معلوم ہے کہ کراچی میں لوگوں کی جانیں لینے والے کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور یہ کراچی کے شہری برسوں سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
دو برس قبل سابقہ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جو صدر زرداری کے دست راست اور انتہائی قریبی رفیق تھے نے کراچی کے مسئلے کا نرالاحل دریافت کیا تھا جس کی تصدیق گزشتہ روز جیو کے پروگرام ”لیکن“ میں امن کمیٹی کے ظفر بلوچ نے کی کہ انہیں ہتھیار پیپلز پارٹی نے دیئے تھے اور اس لئے دیئے تھے کہ وہ ایم کیو ایم کے لوگوں کا مقابلہ کریں۔ یہی اسلحہ کے انبار اب قانون کے خلاف استعمال ہو رہے ۔پہلے سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی جبکہ تاجر اور عام شہری روزانہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر احتجاج کرتے یا دہائی دیتے دیکھے جاسکتے تھے یہ سب کچھ اقتدار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا مگر مر تو غریب رہے تھے اس لئے فکر کسی کو نہ تھی۔ اقتدار کی سنگھاسن ڈولنے لگی، انتخابات کے دن قریب آنے لگے اور ووٹ فیصلہ کن قوت بننے جا رہا تھا تو فیصلہ سازوں کو اپنی غلطیوں کا ایک بار پھر احساس ہوا اورانہوں نے پوری ریاستی مشینری آٹھ ملزموں کی گرفتاری کے لئے 15 لاکھ کی آبادی میں جھونک دی۔ وہ آٹھ ملزم بھی اپنے ہی تراشیدہ ہیں۔ لیاری 8 روز سے آگ اگل رہا ہے، چاروں طرف سے پولیس کے پندرہ ہزار سے زائد جوانوں نے اسے گھیر رکھا ہے، اب تک 30 سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ لیاری میں آٹھ نہیں آٹھ ہزار جرائم پیشہ عناصر ایک دوسرے سے کمربستہ ہیں اور ان جرائم پیشہ عناصر کی گزشتہ چار سالوں کے دوران کی جانے والی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے وہ اس قدر منہ زور ہوگئے ہیں کہ اب سرکار کی طاقت کو بھی للکارنے لگے ہیں۔ چوہدری اسلم جیسے پولیس افسر کو آئی جی سے بھی زیادہ اختیارات دے کر کراچی پولیس ان کی کمان میں دے دی گئی ہے شہر کے تمام تھانوں میں سناٹا ہے پولیس کوئی اور کام نہیں کر رہی اور تمام ایس ایچ او اور ان کی سپاہ چوہدری اسلم کو جواب دہ ہیں اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ آٹھ روز میں نتائج دکھائیں گے۔ آٹھ روز گزر گئے، آٹھ مزید گزرنے کو ہیں مگر لیاری کو ابھی تک فتح نہیں کیا جا سکا ہے۔ بچے دودھ کو بلک رہے ہیں،بجلی بند، پانی بند، بازار بند، دوائیاں ناپید، خوراک غائب، خوف کا راج ہے۔کیا یہ پیپلز پارٹی سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے، اس کا فیصلہ تو بالٓاخر لیاری کے عوام کو خود کرنا ہوگا۔ اب ایک بار پھر پولیس اور سرکار کی گاڑیوں میں ایک دوسرے جرائم پیشہ لالو پپو گروپ کو بٹھا کر لیاری پر ان کا قبضہ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ یہاں پہلے سے موجود گروپ پی پی کا مخالف ہو گیا ہے لہذا نیا گروپ جو پی پی کا حامی ہے اب اسے قبضہ دلایا جا رہا ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر کے لوگوں نے ایک ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام میں یہ بھی دیکھا اور سنا کہ کل تک سرکار کی آنکھوں کا تارا سمجھا جانے والا رحمٰن ڈکیت کا گدی نشین عذیر بلوچ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا صدر زرداری پہلے ٹین پرسنٹ تھے اب 100 فیصد ہوگئے ہیں اور اس نے دعویٰ کیا کہ آج کے بعد لیاری سے پیپلز پارٹی کا نام و نشان ختم ہوگیا اور اب کوئی رکن اسمبلی پی پی کے ٹکٹ پر لیاری سے کامیاب نہیں ہوگا۔ گزرے آٹھ دنوں میں کراچی کے شہریوں نے مسلسل یہ مناظر بھی دیکھے کہ پیپلز پارٹی کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی، جھنڈے اور پوسٹر جلا دیئے گئے اور تصاویر پاؤں تلے روندی گئیں، یہ سب کچھ بھٹوز کے لیاری میں ہو رہا ہے اس طرح تاریخ کا دھارا نئی منزل کی تلاش میں بہہ رہا ہے ایک بار پھر نئے فیصلے لکھنے کی طرف گامزن ہے۔
دوسری جانب لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف پولیس آپریشن چوتھے روز نسبتاً سست نظر آیا مگر تخریب کاروں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ پیر کو دہشتگردوں نے راکٹ ، دستی بم کے حملے کیے جبکہ تخریب کاروں نے لیاری سے نکل کر شیر شاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، تخریب کاروں نے شیر شاہ میں 2/ مسافر گاڑیوں کو بھی جلادیا جبکہ ایک کار ملیر کے علاقے میں جلائی گئی، لیاری کے مکینوں نے احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ ادھر لیاری آپریشن کی قیادت کرنیوالے ایس ایس پی، سی آئی ڈی ایکسٹریم ازم سیل چوہدری محمد اسلم خان نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ آئندہ 48/ گھنٹے میں آپریشن مکمل کرلینگے تاہم چار روز سے جاری آپریشن کے سبب پیر کو بھی لیاری میں بازار اور دکانیں مکمل طور پر بند رہیں، سڑکوں سے ٹریفک غائب رہا اور پورے ٹاؤن میں خوف و دہشت کے سائے منڈلاتے رہے۔ لیاری میں آپریشن کے دوران مختلف مقامات پر پی ایم ٹی تباہ ہونے کے باعث بجلی نہیں جس کی وجہ سے لیاری کے مکینوں کو پانی بھی میسر نہیں آرہا اور شہریوں کو دقت کا سامنا ہے۔ پیر کو لیاری کے مکینوں نے ماڑی پور روڈ پر احتجاجی ریلی بھی نکالی مگر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے ریلی کے شرکاء کو منتشر کردیا، لیاری میں آپریشن کیخلاف ملیر، ماڈل کالونی سے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے شرکاء نے تھانہ سعود آباد کی حدود میں ملیر ہالٹ کے پاس ایک کار کو آگ لگادی۔ قبل ازیں دہشتگردوں نے لیاری میں جمعہ بلوچ روڈ پر ایک راکٹ فائرکیا گیا جس کے ٹکڑے لگنے سے ایک 60/ سالہ نامعلوم شخص ہلاک جبکہ 40/ سالہ جہانگیر، 55/ سالہ ہارون، 8/ سالہ انیس، 40/ سالہ سلیم، 32/ سالہ یوسف، 28/ سالہ ظفر، 21/ سالہ عائشہ، 20/ سالہ سہیل اور ایک 30/ سالہ نامعلوم شخص زخمی ہوگیا۔ نیا آباد میں فائرنگ سے 25/ سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا جس کی فوری طور پر شناخت نہیں ہوسکی۔تھانہ کلری کی حدود ہنگورہ آباد میں 23/ سالہ نامعلوم نوجوان کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی جسے تشدد کے بعد سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ لی مارکیٹ، بھیم پورہ، کمہار سنیما کے قریب مارے جانے والے راکٹ کے ٹکڑے لگنے سے 30/ سالہ ریاض، 40/ سالہ جمعہ، 25/ سالہ کشور اور 25/ سالہ شبیر زخمی ہوگیا جبکہ چیل چوک پر فائرنگ سے ہیڈ کانسٹیبل 30/ سالہ عباس ولد ساجد زخمی ہوگیا۔ دریں اثناء دہشت گردوں کے ایک گروپ نے موٹر سائیکلوں پرنکل کر شیرشاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ پر کھڑے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 25/ سالہ رضوان ولد محمد ریاض، 28/ سالہ عبدالمجید اور جنید انصاری ہلاک جبکہ 45/ سالہ احمد اور 24/ سالہ عظیم ولد سراج زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں تخریب کاروں نے 2/ منی بسوں نمبر PE-4233 اور PE-4076 کو بھی آگ لگادی۔ قبل ازیں ہلاک شدگان کی لاشیں اور زخمیوں کو چھیپا اور کے کے ایف ایمبولینسز کے ذریعے سول اسپتال پہنچایا گیا آخری اطلاعات آنے تک لیاری میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری تھا۔رات گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ایک سپاہی جاں بحق ہوگیا، جبکہ پولیس دہشت گردوں کے اہم ٹھکانوں نوالین، گل محمد لین اور سیفی لین میں داخل ہوگئی جس کے دوران سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا، جومسلسل جاری تھا، تخریب کاروں نے چیل چوک پر2راکٹ مارے جبکہ کلری تھانے کے قریب پولیس کی بکتر بند گاڑیوں پر 3 دستی بم پھینکے گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ریپڈ رسپانس ایسٹ کا سپاہی شہباز جاں بحق ہوا، جس کی لاش سول اسپتال پہنچائی گئی ، نیز لیاری ایکسپریس وے پر تخریب کاروں نے 25سالہ پرویز ولد امام بخش کوہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد گولیاں مارکر پھینک دیا، جسے شدید زخمی حالت میں سول اسپتال پہنچایا گیا