گلگت بلتستان کا پانچ روزہ دورہ کرنے والے امریکی سفارت کاروں کے تین رکنی وفد کی غیر اعلانیہ اور پراسرار ملاقاتوں میں قوم پرستوں کو چین کے خلاف بھڑکانے اور علاقے کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تحریک کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی دو خواتین اہلکاروں اور سیکیورٹی ایڈوائزز پر مشتمل وفد نے گلگت میں پانچ روز تک غیر ضروری قیام کے بعد امریکی سفیر نے بھی اچانک سات سے دس جون تک سکردو کے دورے کا پروگرام طے کر لیا ہے۔ادھر مسلم لیگ (ن)، شیعہ علماء کونسل، جماعت اسلامی، مجلس وحدت مسلمین اور جے یو آئی( ف) سمیت دینی و سیاسی جماعتوں نے امریکی سفارت کاروں کی گلگت بلتستان میں سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت امریکی سفارت کاروں کی پراسرار سرگرمیوں کا نوٹس لے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد سے امریکی سفارت خانے کے پولیٹیکل اکنامک آفیسر ز اور سیکیورٹی ایڈوائزر پر مشتمل تین رکنی وفد نے دورہ کے دوران غیر اعلانیہ اور پراسرار ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں جب کہ وفد نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اگر وہ پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو امریکہ اس سلسلے میں ان کی غیر مشروط حمایت کرئے گا۔امریکہ نے چین کی مخالفت کرنے پر قوم پرستوں کو مراعات دینے کی پیش کش کی اور پاکستان مخالف موقف کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکی وفد نے اپنے دورہ کے دوران گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ، وزیر خزانہ اور دیگر وزراء، ارکان اسمبلی، طلبہ رہنماؤں، گلگت چیمبرز آف کامرس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکی وفد نے قراقرم یونیورسٹی سمیت کئی اداروں کا دورہ کرنا تھا، یہ ملاقاتیں دو دن میں مکمل ہو جانا تھیں لیکن اس کے باوجود امریکی وفد نے پانچ روز قیام کیا اور مختلف رہنماؤں سے پراسرار ملاقاتیں کیں۔ تین رکنی امریکی وفد میں امریکی سفارتخانے کی پولیٹیکل اکنامک آفیسر مس لیزا نزناس، مس کمبرلی خیلان اور سیکیورٹی ایڈوائزرخالد جاوید شامل تھے۔ جب کہ اس وفد کے بعد امریکی سفیر بھی سات سے دس جون تک گلگت بلتستان کا دورہ کرنے جا رہے ہیں۔امریکی سفیر کے ہمراہ سفارت خانے کے چودہ اہلکار بھی ہوں گے۔ امریکی سفیر کی چار روز مصروفیات کی واضح طور پر کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ گلگت بلتستان میں چینی مفادات اور پاکستان کے اہم ترین ڈیمز کے منصوبے ہیں جبکہ یہ علاقہ مذہبی فسادات کی زد میں بھی رہا ہے جس کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں یہ علاقہ حساس ہے اس میں امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیاں اور قوم پرستوں سے پراسرار ملاقاتیں ملکی سلامتی کے منافی ہیں۔ پاکستان کی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ امریکی سفارتکاروں کی سرگرمیاں ایسی ہیں کہ امریکی سفیر کو اسلام آباد تک ہی محدود کر دینا بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور امریکی سفارت کاروں کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنے دینا چاہیے