Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, August 19, 2012

Eid Prayers Commencing Eid ul Fitar 2012 Celebrations in Pakistan


Eid ul fitr is celebrated on the first day of Shawwal. Shawwal is the tenth month in holy Islamic Calendar. Families begin this Eid morning with a special Prayer also known as Eid Prayer. This prayer offers a special thanks to god for the strength and discipline received during the holy month of Ramadan. People distribute sweets and children wear new clothes on this great Muslim festival known as Eid.
In Pakistan Eid-ul-Fitr has always been observed enthusiasm throughout the country. the Eid day is celebrated all-over Pakistan, including Azad Kashmir and Gilgit-Baltistan with great religious zeal, fervor and festivity, marking the culmination of the holy month of Ramazan.

As the Eid ul fitr 2012 draws near people prepare themselves to get indulged in the Eid festivities. The holy day of celebrations is marked with celebrations all day long. Big Eid congregations are held all-over Pakistan on the Eid day. On the occasion, special prayers were offered for the progress and prosperity of the country, unity of the ‘Ummah’, solution of their problems and liberation of Muslim territories, including occupied Kashmir.

Special arrangements are made for Eid ul fitr, so that all the men can offer Eid prayer across the country in various Masajids. In the twin cities of Rawalpindi and Islamabad, the Eid congregations too place at more than 300 places. Eid prayer in Islamabad is held at an enormous scale at Faisal Masjid. In Lahore a Big gathering can be seen performing Eid prayers at Badshahi Masjid; at Memon Masjid in Karachi and Binori Town; though the largest congregation takes places at Islamabad in aisal Mosque, where the high-ups of the government also offered Eid prayers. In Rawalpindi, the biggest Eid congregation usually takes place at the historic Liaquat Bagh. Strict security measures are adopted outside the ‘Eidgahs’, and police and Rangers keep patrolling for the safety of the namazis.

After the Eid prayers have been performed, Pakistanis spend their time feasting with family and friends. Most of the Muslims spent their time feeding those who are less fortunate.  Eid is a time for sharing Eid Gifts and Eidi For Kids. Kheer, Sheer Khorma, Cakes and Sweets are also a specialty of the day and are prepared for serving the guests.


 The Radio and Television channels chalk out a series of special programmes on the occasion of Eid while newspapers publish special supplements, highlighting the significance of the day. Check out Eid celebration in Pakistan and get to know more about the day.

Pakidiary.com  also celebrates the day with the nation with religious vehemence and zeal and wishes the Muslim Ummah a very Happy Eid ul fitr 2012. You can check out special Eid packages introduced at Groupin.pk and celebrate this Eid with increased fervor.

ملک بھر میں عیدالفطرمذہبی جوش وخروش سے منائی جارہی ہے


ملک بھر میں عید الفطر آج پورے مذہبی جوش و خروش سے منائی جارہی ہے۔صوبہ خیبرپختونخوا اورفاٹا میں گزشتہ روزعید منائی گئی۔ ملک کے تمام شہروں کی چھوٹی بڑی مساجد میں عید الفطر کی نماز کے اجتماعات منعقد کیے جارہے ہیں جس میں ملک کی سلامتی، ترقی اورخوشحالی کی خصوصی دعائیں مانگیجائیں گی۔مساجد کے علاوہ،عید گاہوں اورکھلے میدانوں میں بھی عید کی نماز کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ اس موقع پرسیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت اقدامات کیے گئے۔ملک کے 4بڑے شہروں کراچی، لاہور، کوئٹہ اور ملتان میں دہشت گردی کے خطرے کے باعث صبح 10 بجے تک موبائل فون سروسز معطل کردی گئیں ہیں

Pakistan: Government Suspends Mobile Services in Major Cities on Eid



On Eid-ul-Fitr, the occasion that marks the end of the month of fasting for Muslims and is celebrated as a holiday, the government of Pakistan slapped a blanket cell phone service suspension on four major cities in the country - Karachi, Lahore, Multan and Quetta. Services are to remain blocked from 8pm on Sunday 19 August, 2012 till 11am Monday 20 August. According to the government, the measure has been take to prevent terrorist attacks.

طالبان کے خوف سے حکومت نے موبائل فون سروسس بند کر دیں

Mobile Services ban in Pak
لاہور کے بیشتر علاقوں میں موبائل فون سروس بدستور معطل ہے جس سے لوگوں کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامناکرنا پڑ رہا ہے ۔ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح لاہور اور کراچی کے کئی علاقوں میں بھی شام کے وقت بعض نجی موبائل کمپنیوں کی سروس اچانک معطل ہو گئی،چاند رات کو فیملیز اور شہریوں کی اکثریت عید شاپنگ کے لیے بازاروں میں آچکی تھی۔اس دوران سروس معطل ہو نے اور باہم رابطے نہ ہونے پر شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود سروس بحال نہ ہونے پر شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو صورتحال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سروس کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے چاہییں۔
با خبر ذرائع کے مطابق حکومت نے طالبان کے حملے کے خوف سے موبائل فون سروسس بند رکھیں کیونکہ اس سے بیشتر وزیرستان میں عید کے روز امریکی ڈرونز نے کئی بار مسلسل حملے کیئے تھے جن کے نتیجہ میں طالبان کے کئی لوگ مارے گئے تھے اور ان میں غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔

بدھ مت دہشتگردوں نے برما میں نماز پر پابندی لگا دی


مسلمانوں اور آزمایشوں کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کسی ایک جگہ سے اچھی خبر آتی ہے تو دوسری جگہ سے روح تک چھلنی کرنے والے حالات سامنے آ جاتے ہیں۔ تازہ ترین آزمایش برما کے ان مسلمانوں پر آئی ہے جو مغربی ریاست راکین کے باشندے ہیں۔ برما حکومت نے بھی اب مجبوراً تسلیم کیا ہے کہ مئی کے آخر سے پُرتشدد حملوں کے باعث کم سے کم ۷۸ مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مصر کی عرب ویب سائٹ المحیط کے مطابق برما کے ۴۰ لاکھ سے زائد مسلمان اس رمضان المبارک کا استقبال کرنے سے ہی محروم رہے۔ انھیں صرف اپنی جان و مال کا نہیں آبرو لٹنے کا بھی خوف لاحق ہے۔’’بدھ مت‘‘ کے حوالے سے ہم سب بڑا سافٹ سا تاثر رکھتے ہیں۔ سر مونڈے، گیردے کپڑے پہنے اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ جو لڑائی جھگڑے پر یقین نہیں رکھتے۔ برما میں ’’ماگ‘‘ کے اراکین نے سارا تاثر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’’ماگ‘‘ بدھ بھکشوئوں کی وہ تنطیم ہے جو بنیادی طور پر بدھ دہشت گردوں پر مشتمل ہے۔ سرکاری فوج ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور اس سال برما کے مسلمان رمضان اس حالت میں منا رہے ہیں کہ ان کی ۳۰۰ سے زائد مساجد بند کر دی گئی ہیں۔ نمازِعشاء کے لیے گھر سے نکلنے اور کسی جگہ جمع ہونے پر قانوناً پابندی لگا دی گئی ہے اگر کسی جگہ شک پڑ جائے تو ماگ اور فوج کے لوگ مل کر جاتے ہیں اور ان نمازیوں کو اٹھا لاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔بازاروں میں مسلمانوں کے لیے جانا اور سودا خریدنا ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔ بازاروں میں مسلمانوں کی جلی ہوئی دکانیں بے بسی کی کہانی سُناتی ہیں۔ المحیط کے مطابق ۳ جون سے اب تک ماگ کے حملوں سے ۲۰ ہزار سے زائد مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ۵ ہزار نوجوان اغوا کر لیے گئے ہیں جن کی واپسی کی امید نہیں ہے۔ ۶ ہزار سے زائد عورتوں اور بچیوں کو ان بدھوں کے مکروہ ترین روپ سے واسطہ پڑا جب ان کی عزتیں لوٹ لی گئیں۔۹۰ ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق برما کے صدر تھین سین نے مسلمانوں کو کھلے عام لفظوں میں کہا ہے کہ برما چھوڑ دو یا مہاجر بستیوں میں چلے جائو۔ تم برما کے شہری نہیں ہو۔ رپورٹ کے مطابق برمی حکومت نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک سے ہر حالت میں مسلمانوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ ۱۹۴۱ء سے شروع ہوا جب ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں کو ۱۹۴۲ء تک تہ تیغ کردیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں پھر ۳ لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا جہاں آج تک وہ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں پھر ایسے ایک آپریشن میں ۳۰ ہزار مسلمانوں کو برما سے نکال دیا گیا۔ راکھتی (اراکان) کے علاقے میں بسنے والے مسلمان بے حد غیرمنصفانہ حکومتی قوانین کا جبر سہ رہے ہیں۔ ان کے مرد ۳۰ سال سے پہلے شادی نہیں کر سکتے، اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، ملک میں کہیں آ جا نہیں سکتے، زمین خرید نہیں سکتے، نوکری نہیں کر سکتے۔، فوج ان کو اکثر جبری مشقت کے لیے اٹھا کر لے جاتی ہے۔ترکی نے مذمت کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کو کہا اور ’’ماگ‘‘ کی دہشت گردی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جامعہ الازہر نے پوری دنیا میں برما کے سفارت خانوں کے گھیرائو کا کہا ہے تاکہ برما حکومت دبائو محسوس کرے ۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حسینہ معین کی بنگلہ حکومت نے اس مشکل وقت میں نہ صرف سرحدیں بند کر دیں بلکہ ملک میں ان مظلوم بری مسلم مہاجرین کے داخلے پر سخت پابندی لگا دی ہے حالانکہ وہ اقوامِ متحدہ کے ادارے متاثرین کی خوراک، علاج اور رہائش کا انتظام کر رہے تھے۔ ان حالات میں کافی متاثرین تھائی لینڈ جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ رونیگیا نسل کے مسلمان تکنیکی لحاظ سے غیرقانونی تارکین وطن ہیں اور ان کا اصل وطن بنگلہ دیش ہے۔ اس لیے ہم ان کو شہریت نہیں دیتے۔ بدھ بھکشوئوں کا یہ خوفناک روپ دنیا نے پہلی بار دیکھا ہے کہ وہ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے پھرتے ہیں۔ عورتوں کی بے حرمتی کو اپنے لیے روا جانتے ہیں۔ ان کے تشدد نے مسلمانوں کو ایک قابل رحم اقلیت بنا ڈالا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برما کی سیکورٹی فورسز کو اس قتل عام کا حصہ دار بتایا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دنوں دفاع کونسل کے پلیٹ فارم سے اس قتل عام کے خلاف مظاہرے کیے گئے مگر ابھی تک مغربی دنیا خاموش ہے۔ مغربی میڈیا بھی اس انسانی ایشو کو چھیڑنے سے کترا رہا ہے کہ بدقسمتی سے متاثرین کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔