Search This Blog

Total Pageviews

Monday, February 14, 2011

گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا اور اس کا انجام

حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا اور اس کا انجام
قرآنی نصوص ، احادیث مبارکہ ، عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، فتاویٰ ائمہ اور اجماع امت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا قتل ہے اس کی معافی کو قبول نہ کیا جائے ۔ لہٰذا مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ان کے اس منافقانہ طرز عمل سے متاثر ہونے کے بجائے ایک غیور مسلمان کا موقف اختیار کریں ۔ جس کا نقشہ اس رسالے کے اگلے صفحات قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔

یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ۔ رسوائی مقدر بن جائے گی ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ۔
(( ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
آئیے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور اسی بارے میں ائمہ سلف کے فرامین و فتاویٰ بھی پڑھئے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔
یہودیہ عورت کا قتل :
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ان یھودیة کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ ، فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دمھا (رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک یہودیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا ۔
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ولد کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔ (ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد )) ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ :
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃ رسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم )) ( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی ۔
عصماءبنت مروان کا قتل :
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : ( من لی بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا یا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : ( لا ینتطح فیھا عنزان )) ( الصارم المسلول 129 )خَطمَہ “ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں ۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔
عصماءبنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔ ( الصارم المسلول 130 )
ابوعفک یہودی کا قتل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومایة سنة حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینة ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہ وبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذم من اتبعہ )) الصارم المسلول 138
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔
انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔ ( الصارم المسلول139)
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت :
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من یکفینی عدوی میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ ( الصارم المسلول163)
مشرک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((ان رجلا من المشرکین شتم ر سول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من یکفینی عدوی ؟ ) فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سلبہ )) ( الصارم المسلول : 177 )
مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔
کعب بن اشرف یہودی کا قتل :
کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثیے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذی اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا یا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لی ان اقول شیا ، قال : قل )) رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف الیھود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں ۔ مجھ کو یہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اجازت ہے ۔
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھی آگے دیکھنا اللہ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا ۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کیا چیز چاہتے ہو ۔ کہ میں گروی رکھ دوں ۔ کعب نے کہا ۔
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ کعب نے کہا ۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اللہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کیا ہوا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ ( فتح الباری 272/7 )

مظلوموں کا انتقام

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر نے یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔ لاکھوں افراد مختلف طریقوں سے ہلاک کئے گئے ۔تاریخ نے اس سانحے کو ‘ہالوکاسٹ’ کا نام دیا ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف روس یہود و ہنود و نصاری کا ظلم و بربریت اور قتل عام جو سالہا سال سے جاری ہے وہ بے نام ہے اوراس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف روسی بربریت اخلاقی درندگی اور انسانی قدروں کی پامالی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے جس کا تذکرہ عالمی شہرت یافتہ دانشور اور معروف امریکی تجزیہ نگار ایرک ایس مارگولیس (Eric S. Margolis) نے اپنے حالیہ مضمون بعنوان Revenge of The Two Black Widows میں کیا ہے۔ یہ مضمون ملکی اور غیر ملکی اخباروں میں شائع ہو چکا ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔ مارگولیس لکھتے ہیں:
‘‘گذشتہ ہفتے چیچن مجاہدین نے ماسکو کی ایک شاہراہ پر حملہ کرکے ۹۳ روسیوں کو قتل اور 70 لوگوں کو زخمی کر دیااور داغستان میں چیچن خودکش حملہ آوروں نے بارہ لوگوں کو قتل کیا جن میں اکثریت پولیس ملازمین کی تھیـ۔ ان حملوں کا سبب روسی دانشور کریملن کی غلط پالیسوئوں کو قرار دیتے ہیں جن کے سبب چیچنیا کا مسئلہ نہ صرف الجھا دیا گیا ہے بلکہ چیچن لوگوں کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔روس سے چیچنیا والوں کا انتقام مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ بدنام زمانہ روسی مافیا بھی خوفزدہ ہے۔ ‘‘دو خواتین’’ جو چیچن مجاہدین آزادی کی بیوائیں تھیں‘ انہوں نے گذشتہ ہفتے روسیوں سے انتقام لیا ہے۔
‘‘شمالی کاکیشیا کے خطے میں روسی حکمرانی کے باوجود پر تشدد واقعات کا لاوا ابل رہا ہے۔ چیچنیا کے سابق لیڈر‘ دوکو عمر( Doku Umarov )جن کے تمام پیشروئوں کا روس نے صفایا کر دیا ہے‘انہوں نے کاکیشیا کے پہاڑو ں میں واقع اپنی پناہ گاہ سے دعوی کیا ہے کہ یہ حملہ کر کے روسی فورسز کی جانب سے چیچنیا کی سویلین آبادی کے قتل کا انتقام لیا ہے۔ انہوں نے روسی حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ‘‘جو کچھ ہم اتنے عرصے سے سہہ رہے ہیں اس کا ذائقہ اب تمہیں بھی چکھائیں گے۔’’ چیچن قبائل ‘شمالی کاکیشیا کے وہ سخت گیر لوگ ہیں جن کا تعلق انڈویورپین نسل سے ہے۔ کاکیشیا کے دیگر مسلم قبائل مثلاً داغستانی اور چرکاس یا سرساشین کے ساتھ مل کر چیچنیاکے مجاہدین ‘ روسی ایمپائر کیخلاف ایک سو تیس سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔
‘‘ایک سو تیس سال قبل 1877ء میں زارروس نے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد 40 فیصد چیچنیوں کو قتل کر دیا تھا جن کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار بنتی ہے اور چار لاکھ چرکاس قبیلے کے لوگوں کو ملک سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ اسٹالن جوکہ جارجیا سے تعلق رکھتا تھا چیچن لوگوں سے سخت نفرت کرتا تھا‘ اس نے چیچنیا کو تقسیم کر کے انگشتیا کی نئی سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے بعد جولائی 1937ء میں اس کی خفیہ پولیس NKVD نے چودہ ہزار چیچنیوں کو ایک ہی وقت میں قتل کر دیا تھاـ۔ 1944ء میںا سٹالن کے حکم پر تمام چیچنیوں کا گھیرائو کر کے انہیں مویشیوں کی گاڑیوں میں بند کر کے سائبیریا کے اذیتی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا یا پھر برفانی میدانوں میں اکٹھا کر کے مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیاتھا۔ اسی طرح کلموک‘ تاتار‘ کراچئی اور بلقان کے لاکھوں مسلمانوں کواذیتی مراکز میں پہنچا دیاگیا تھاجہاں سردی کی شدت ‘ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے وہ موت سے ہمکنار ہوئے۔ اسی مناسبت سے سٹالن کو ’’قوموں کا قصائی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس نے پچیس لاکھ روسی مسلمانوں کو قتل کیا۔ سٹالن کی موت کے بعد چند مسلمان جو اذیتی مراکز میں زندہ بچ گئے تھے وہ چیچنیا واپس آئے اور 1991ء میں جب سویٹ یونین ٹوٹا تو دوسری سلطنتوں کی طرح چیچنیا والوں نے بھی روس سے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
‘‘اس بغاوت کو کچلنے کیلئے روسی صدر بورس یلٹسن نے واشنگٹن میں کلنٹن انتظامیہ کی رضامندی سے چیچنیا پر چڑھائی کر دی اور ایک لاکھ سے زائد چیچن باشندوں کا قتل عام کیا اور چیچنیا کے صدرذاکر دائود بھی قتل کر دئیے گئے۔ اسکے باوجود غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیچن حریت پسندوں نے روسی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1999ء میں پوٹن ‘جو چیچنیاکے سخت ترین مخالف تھے وہ روس کے صدر بن گئے۔دوسال بعد 9/11 کے حملوں نے امریکہ کو دو جنگوں کی کیفیت سے دوچار کردیا تو روسی افواج نے چڑھائی کر کے چیچنیا کی مزاحمت کو کچل دیا اور تمام ترقی پسندچیچن لیڈروں کو قتل کر دیاـ۔ آخری لیڈر’ ذلمی خان اندرابی ‘کو 2004ء میں قطر میں قتل کیا گیا جس کے بعدچیچنیا میں عسکریت پسندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ چیچنیا میں روس نواز پٹھو حکومت نے عوام پر اندھے اور کالے قوانین نافذ کر دئیے جن سے عوام کوطرح طرح کی اذیتیں دی گئیں‘ بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا ‘انہیں وسیع پیمانے پر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ایک لاکھ چیچن باشندوں کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح اسٹالن کے قتل عام کے بعد 1991ء سے آج تک ایک چوتھائی چیچنیوں کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن اسکے باوجود چیچن عوام جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
‘‘ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’چیچنیوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے مگر انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘ کا کیشیا کے علاقے میں پھیلتی ہوئی بغاوت ماسکو کیلئے خاصی پریشانی کا سبب ہے۔روسی صدر اورپوٹن نے چیچنیا ‘ داغستان اور انگشتیا میں مزاحمت کو مکمل طور پرختم کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ماسکواس دردناک کہانی کو ختم کردے۔ ‘‘
ظلم کی داستان تو بڑی طویل ہے اور پرانی بھی ہے۔ چیچنیا کی آزادی کی جنگ ایک سو تیس سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب روس نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ ان پرڈھائے جانیوالے ظلم و بربریت کی جھلک آپ نے مارگولیس کی زبانی سنی۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرزمین پر ’یہودی مملکت‘کا فتنہ کھڑا کیا گیا اور اس وقت سے لیکر اب تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کے کوہ گراں توڑے جارہے ہیں۔ آج سے تقریبأ ایک سو اسی سال پہلے 1827ء میں ہندو راجہ کو کشمیر کا حکمران بنایا گیا جس کیخلاف مسلمانوں نے وادی منگ کے سرداروں کی قیادت میں جنگ لڑی۔ ہندو راجہ کے آٹھ ہزار سے زائد فوجی قتل ہوئے ‘ وہ بھاگا اور جموں میں جا کر پناہ لی لیکن کچھ دنوں بعد مصالحت کا پیغام دیا جو دھوکہ تھا اور جب کشمیری قیادت جمع ہوئی تو انہیں قید کر لیا گیا۔ سترہ قائدین کی زندہ کھالیں اتاریں اور انکی زندہ لاشوں کو مختلف چوراہوں پر اور وادی منگ کے اس بڑے درخت سے لٹکا دیا گیا جو اب بھی موجود ہے اور ہندو راجہ کی بربریت کی زندہ علامت ہے۔ پھر ہندو راجہ کی فوج نے بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام شروع کیا جو ہفتوں جاری رہا اور سولہ ہزار سے زیادہ مسلمان تہ تیغ کر دیئے گئے۔ غیر مسلم حکمرانوں کیخلاف کشمیری مسلمانوں کی یہ مزاحمتی تحریک ایک سو اسی سال سے جاری ہے۔ خصوصأ 1990ء کے بعد سے اب تک بھارتی فوجی درندگی کے سبب ایک لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں۔زمانہ جدید کا سب سے بہیمانہ مسلمانوں کا قتل عام پچھلے تیس سالوں سے جاری ہے‘ جو مہذب دنیا کے چہرے پر بد نما داغ ہے۔ مسلمان ملکوں کیخلاف غیر ملکی جارحیت کے سبب مسلمان ملکوں کو قتل گاہیں بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً روس کا افغانستان پر قبضہ اور اسکے خلاف امریکہ کی مزاحمت؛ ایران عراق جنگ؛ خلیج کی 1991ء کی جنگ؛ 2001ء میں افغانستان پر امریکہ اور اتحادیوں کا قبضہ اور نو سالوں سے جاری خونریزی؛ عراق پر 2003ء میں امریکہ کا قبضہ جہاں اب تک قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اسرائیل کا حزب اللہ ‘ حماس اور فلسطینیوں کیخلاف بدترین بربریت کا مظاہرہ۔ ان غیر ملکی جارحیتوں کے سبب ساٹھ لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ظالموں نے مظلوم مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے کہا جا رہا ہے کہ ’’ثبوت دو تم دہشت گرد نہیں ہو۔
‘‘ہمارا ایمان ہے کہ جب اللہ کی مخلوق پر ظلم ایک حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو مداخلت ایزدی(Divine Intervention) کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ مداخلت ایزدی دنیائے اسلام کی اس مدافعتی قوت کا نام ہے جو اسی(80) کی دہائی میںروسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی سر زمین سے ابھری اور آہستہ آہستہ چیچنیا سے لے کر فلسطین‘ لبنان‘ عراق‘ افغانستان اور کشمیر تک پھیل چکی ہے۔ اس مدافعتی قوت کے سامنے دنیا کی ہر بڑی طاقت شکست کھا چکی ہے۔ یہ دور حاضر کامعجزہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ظالم طاقتیں… روس‘ یہود و ہنود و نصاری ۔ ظلم و بربریت کی دردناک ریاستی دہشت گردی کو ختم کر دیں کیونکہ‘‘مسلمانوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن انکی تحریک آزادی کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔’’ لازم ہے کہ مفاہمت اور امن کا راستہ اختیار کریں اورمہذب کہلانے کا شرف حاصل کریں۔

عقیدہ ختم نبوت

عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی ساشبہ بھی قابل برداشت نہیں‘ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہکا قول ہے کہ:
جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔
کیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اجرائے نبوت (نبوت جاری ہے) کے امکان کا عقیدہ رکھا (اور یہی کفر ہے)
اسلام کی بنیاد
اسلام کی بنیاد توحید‘ رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ‘ وہ ہے ”عقیدہ ختم نبوت“ حضرت محمد ا پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا‘ آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں‘ آپ اکے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
ختم نبوت اسلام کی جان ہے
یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے ‘ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت اکی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں‘ تمام صحابہ کرام‘ تابعین عظام‘ تبع تابعین‘ ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین‘ محدثین‘ متکلمین‘ علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین“ ۔ (الاحزاب:۴۰ )
ترجمہ:․․․”حضرت محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں“۔ تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ا آخری نبی ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور علیہ السلام کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔چند احادیث ملاحظہ ہوں:
۱-میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:۲‘ ص:۲۲۸ )
۲- مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة:۵۱۲ )
۳- رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی‘ج:۲‘ص:۵۱ )
۴- میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:۲۹۷ )
۵- میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد‘ج:۳ ص:۲۷۳ )
ان ارشادات ِ نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ آخری نبی اور رسول ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا آپ ا سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے‘ ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ ا نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔بلکہ فرمایا:
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں‘ جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔
۲- قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں‘ ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ان دو ارشادات میں حضرت محمد ا نے ایسے ”مدعیان نبوت“ (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا‘ جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ چھوٹ بولنے والے ہوں گے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے‘ لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار ومکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ ا کی اس پیشن گوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“ (مرزا غلام احمد قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ خدانے اس کو ذلیل کیا۔ اس لئے یہ ”ختم نبوت“ امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔
بشکریہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون

اسلام کے نام سے نیا اسلام متعارف کرانے والے

جناب جاوید احمد غامدی

حال ہی میں خوارج ،معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، قادیانیت اورپرویزیت کی طرح ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو اگرچہ تجدد پسندی کی کوکھ سے بر آمد ہوا ہے مگر اس نے اسلام کے متوازی ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر لی ہے، اس فتنے کا نام ہے ’’غامدیت!‘‘ہے۔


اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو عباسی دور حکومت میں جب یونانی فلسفہ عربی زبان میں منتقل ہوا تو اس کے ردِعمل میں مسلمان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک عظیم اکثریت نے تو اسے قرآن و سنت کی روشنی میں یکسر مسترد کرکے اسکے تار پود بکھیر دیے، جبکہ دوسرے گروہ نے مرعوب ہوکراس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ پہلا گروہ اہل سنت کے نام سے موسوم ہوا، اور دوسرے نے معتزلہ(راہ حق سے منحرف گروہ) کے نام سے شہرت پائی۔معتزلہ نے عقل کو اصل قرار دے کر شریعت کو اس کے تابع کردیا، پھر کیونکہ یونانی فلسفہ کے اعتقاد اسلامی عقائد و افکار سے بہت مختلف تھے اور ان کو فروغ دینے کیلئے ایک بہت بڑی رکاوٹ خود آپ ﷺ کی سنت تھی جو قرآن کی حتمی تعبیر کی شکل میں مسلمانوں میں رائج تھیں، چنانچہ انہوں نے انکار سنت کی راہ بھی اپنائی ۔ نتیجے کے طور پر یونانی فلسفے کی روشنی میں جدید اصولوں کی بنیاد پر معتزلہ کا ایک نیا اسلام وجود میں آیاجس کا کوئی تصور صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ خلافت عباسیہ میں حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس فکر کو کچھ عرصے پھلنے پھولنے کا بھی موقعہ ملا، لیکن آئمہ اہل سنت کی بے مثال قربانیوں، انتھک جدوجہداور سخت مخالفت کی بنا پر یہ فرقہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہ کر سکا اوراعتزالی فکرکا دور اولین اپنے انجام کو پہنچا اورایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے کتابوں کے صفحات تک محدود ہو کر رہ گیا۔

انیسوی صدی ہجری میں جب یورپ میں سائنس نے پاپا ئیت سے ایک طویل تصادم کے بعد علمی تفوق پایا تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر مرتب ہوئے۔سائنس کو انکار مذہب کے مترادف سمجھا جانے لگا اور الحاد و لادینیت کا دور دوراں ہوا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا۔ ایک طرف راسخ اور پختہ فکر علماء تھے جنہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد وحی ہے، اور دنیا کی کوئی بھی مسلمہ حقیقت مذہب کے خلاف نہیں ہوسکتی، اور مغرب میں اصل معرکہ مذہب و سائنس کے بجائے عیسائی پادریوں کے ذاتی نظریات اور سائنسی دریافتوں کے مابین ہے۔

اس کے بالمقابل دوسرے گروہ نے ایک اور راہ اپنائی وہ یہ کہ انہوں نے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کی بنیاد پر مغربی نظریات کو مسلمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لئے تاویلات شروع کردیں ۔ یہ فکر اعتزال کا دور ثانی تھاجس کی سرخیل سرزمین ہند میں سر سید احمد خان نے ڈالی۔مغربی افکار کی رو سے ہر وہ بات جوطبعی قوانین کے خلاف ہو اسے خلاف عقل قرار دے کر رد کردیا جاتا تھا، چنانچہ سرسیدنے قدرت (نیچریت) کی برتری کا نعرہ لگایا۔ لغت عرب کی مدد سے قرآن کی من گھڑت تاویلات پیش کیں۔ احادیث کو مشکوک قرار دیا اور امت کے اجتماعی معاملات طرز عمل کو آئمہ و مجتہدین کے ذاتی خیالات و اجتہادات کہہ کر نظر انداز کردیا۔ نتیجے کہ طور پر نیچرو لغت کی بنیاد پر وضع کردہ اصولوں کے تحت اسلام کی جوتعبیرو تشکیل نو مسلمانوں کے سامنے آئی وہ ان کے صدیوں کے اجتماعی تعامل سے یکسر بیگانہ تھی۔ سرسیدکے اس اعتزالی فکر کی دوسری کڑی جناب غلام احمد پرویزہیں جو اپنے امام سرسید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لغت پرستی اور انکارسنت کے حوالے سے کافی معروف ہوئے۔

ایک بار پھر جب11اکتوبر 2001کو عالمی استعماری اتحاد نے اسلام کے خلاف نئی صلیبی جنگ کا آغاز کیا توعام مسلمانوں کے کسی ردعمل سے بچنے کیلئے یہ کہا گیا کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ اس بڑے پیمانے پر پھیلا یا گیا کہ یہودیوں اورامریکہ سے نفرت کرنے والے عام مسلمان بھی اس پروپیگنڈہ میں Trap ہوگئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ ضرورت پیش آئی کہ زرئع ابلاغ کی طاقت اور جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کی قوت سے راسخ العقید ہ اور پختہ مسلمانوں کو ’’انتہا پسند ‘‘Extremistاور ’’دہشت گرد ‘‘Terroristکا Titleدے کر ان کے خلاف بھر پور زہر اگلا جائے یہاں تک کہ یہ خود مسلمانوں میں تنہا ہوجائیں ۔ باقی بچ جانے والے عام مادہ پرست مسلمانوں کوکھلم کھلا کفر کی دعوت عام دینے کے بجائے انکے سامنے اسلام کا ایک ایسا نیا Version پیش کیا جائے ،جس کا نام تو اسلامی ہومگر درحقیقت وہ جدت اور دنیا داری سے مامورصحیح اسلام سے متوازی علیحدہ دین ہواور اس کے ساتھ ہی زرئع ابلاغ کی بھر پور طاقت سے اس نئے مذہب کی خوبصورت اور جاذب نظر انداز میں تشہیر کی جائے ۔ اہل مغرب کو اس کے لئے کوئی زیادہ محنت نہ کرنی پڑی کیونکہ مسلمانوں میں موجود بہت سے لوگ خود ہی آستین کا سانپ بن کر اسلام کے مقابلہ میں عالم کفر سے جاملے۔ بس ان لوگوں نے اپنے اس نئے اسلام کو معتدل اور روشن خیال اسلام (بیچ کا اسلام یعنی منافقت ) Moderate & Enlightened Islam کا نام دیا اوراس نئے اسلام سے ہر اس چیز کو نکال باہرکیا جس پر کسی بھی پہلو سے اہل مغرب معترض تھے۔

فہم سلف سے منحرف ،متجدد فکر ، روشن خیال اور مرعوب زدہ طبقے میں ’’المورد‘‘ادارہ علم و تحقیق سب سے پیش ہے۔جس کے سربراہ اول ازکر جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں علماء انہیں بھی سرسید اور پرویز کے ساتھ منسوب نہ کر دیں، لغتِ قرآن کے بجائے عربی معلی یعنی عربی محاورے کا نعرہ لگایااور انکار سنت کا کھلم کھلا دعوی کرنے کے بجائے حدیث و سنت میں فرق کے عنوان سے اس مقصد کو پورا کیا۔ وہ اپنی نسبت مولانا امین حسین اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کے واسطے سے مولانا شبلی نعمانی ؒ سے کرتے ہیں،(کیونکہ ان حضرات کے علمی تفردات کے باوجود اہل علم انکے بارے میں قدرے نرم ہیں جس کا سبب مذکورہ بالا اصحاب ثلاثہ کی وہ گرانقدر دینی و ملی خدمات ہیں جو انکی کمزوریوں اور تسامحات کے ازالے کے لئے کافی ہیں) لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ غامدی صاحب جس اسلام کو پیش کررہے ہیں وہ دبستان شبلی کا اسلام ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ وہ پرویز وسرسید کا اعتزالی اسلام ہے۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام، استعماری طاقتیں اوراسلام دشمن یہودی لابی کے عزائم کے سامنے دین اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لہذا وہ ایسے تمام افراد کی بھر پور حمایت اور اعانت کرتے ہیں جومسلمانوں میں جدت کے نام سے غیر اسلامی افکار کا جواز نکالتے ہیں اور انکے اجماعی معاملات کو متنازعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے غامدی صاحب اور انکے معاصرین جیسے نام نہاد دانشور ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی اور مہدی حسن کو اہل مغرب کی خاص معاونت و حمایت حاصل ہے ۔ مغربی ممالک کے ٹکڑوں پر پلتے نام نہاد اسلامی و پاکستانی میڈیاکے دروازے ان حضرات پرکھلے ہیں ،تا کہ یہ دین سے ہی خلافِ دین حرکات کی جھوٹی تاویلات پیش کریں کہ عام مسلمان بے جانے بوجھے گمراہ ہو جائیں۔امریکی اخبار ات و جرائد کی خبروں سے معلوم ہوا کہ عالمی استعماری طاقتوں اور یہودی لابی نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے کرکروڑوں ڈالرپرمشتمل ایک بہت بڑا فنڈ اس مد میں مختص کررکھا ہے۔یہ کمیشن دین اسلام کی غلط اور من گھڑت تصویر پیش کر نے والوں کی حوصلہ افزئی کرتاہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی کمیشن نے متعدل اور انتہا پسند اسلام کے نام دو مختلف طبقہ ہائے اسلام کی تھیوری تیار کی تھی اور یہی پاکستان میں معتدل Moderate اسلام کے نام سے نیا اسلام متعارف کرانے والے جناب جاوید احمد غامدی ،ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی ,مہدی حسن اور شعیب منصورکی حوصلہ افزائی کرتاہے

Mrs Zardari? Zamani US doctor denies marriage to Zardari



NEW DELHI/ISLAMABAD: PPP has condemned as internet rumour reports that Pakistan’s president Asif Ali Zardari tied the knot with US-based Dr Tanveer Zamani in Dubai last week.

Websites describe Zamani, a practising physician, as “a Mediterranean descent American resident” who lives in Gramercy Park, Manhattan, New York. The posts claim she earned a PhD in international politics from Britain and owns estates in London, Dubai, Islamabad and Manhattan. They further claim Zamani is prohibited from attending “public political meetings due to security issues”.

The News correspondent in Washington had spoken to Zamani, who refused comment when she was asked, “Are you Mrs Zardari?” The newspaper reported that Zamani is a Democratic Party member in the US and had campaigned for Barack Obama in 2008.

Analysts say it would be politically suicidal for Zardari to make his marriage public. After all, he became president thanks to a sympathy wave after his wife Benazir Bhutto was assassinated.

Meanwhile, investigators probing the assassination of former Pakistani PM Benazir Bhutto said they have found two BlackBerry mobile phones belonging to the slain leader. agencies

The New York-based woman at the centre of a controversy over her purported wedding with President Asif Ali Zardari has said that has never even met the Pakistani leader.

Tanveer Zamani, the physician and Pakistan People’s Party activist whom some hitherto unknown blogs and websites had named as Zardari’s purported wife, said: “I explicitly and clearly deny being married or being subject to a proposal or notion of being married to the Pakistani President, whom I hold in high esteem”. ( Read: Zardari married to US-based doc? )

In an email sent to the media, Zamani added: “I have never met President Zardari and the only reason I have refrained from commenting on an Internet hoax involving me is because I deemed it against my dignity to respond to such a hoax”. ( Read: Mrs Zardari? Zamani a doctor with PhD in global politics )

“Bloggers and journalists do not have the right to make up stories and disrupt the lives of people,” she said.

The News daily reported on its website that Zamani had said this was her “first ever denial on the matter while rumours and emails about her wedding have been in circulation for the last three weeks”.

The PPP has condemned the Internet rumour about Zardari’s “secret” remarriage as a “vicious and unethical tirade”.

PPP secretary-general Jahangir Badar told the media that Zardari, while chairing a meeting of the party’s top leadership yesterday, had made it clear that he was “married to the mission” of his slain wife, former premier Benazir Bhutto.

A New York-based legal firm acting for the Bhutto-Zardari family has served a notice on the Jang group, the publishers of The News, for carrying reports about the purported wedding.

The notice said a lawsuit seeking over USD 100 million in damages will be filed if the media group did not offer an apology.

The News reported that some US-based Pakistanis regarded Zamani’s initial silence over the rumours of her wedding as “her own ploy to seek the attention” of Zardari.

“Why and how a dignified and educated Pakistani woman can ignore, keep silent over all such emails and rumours about her wedding with the president of Pakistan.

She has been avoiding making any categorical denial to journalists when she was approached for her version or denial,” the report quoted unnamed US-based Pakistanis as saying.

Since her active participation in the PPP’s activities in the US, Zamani has been a highly vocal ‘jiyali’ (follower) of Zardari and the party, the report said.

Zamani “invited hostility” from some PPP co-workers, who started a “campaign of nasty emails against her,” it added.

Courtesy:http://timesofindia.indiatimes.com/world/pakistan/Mrs-Zardari-Zamani-a-doctor-with-PhD-in-global-politics/articleshow/7429741.cms

China overtakes Japan as world's second-biggest economy



World's 10 biggest economies

  • US
  • China
  • Japan
  • Germany
  • France
  • UK
  • Italy
  • Brazil
  • Canada
  • Russia
Source: IMF 2010