Search This Blog

Total Pageviews

Thursday, October 11, 2012

ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے مشہور امریکی رقاصہ میڈونا سر عام برہنہ ہوگئی

Medonna

ملالہ یوسف زئی اس وقت قوم کی آنکھ تارا بنی ہوئی ہے۔ اور اوباما سے لیکر اقوام متحدہ کےجنرل سیکرٹری بان کی بون  سب نے ہی ملالہ یوسف زئی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری کوفون کرکے ملالہ يوسف زئی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ امريکي وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا ہے کہ لڑکيوں کي تعليم کے ليے آواز بلند کرنے والی ملالہ يوسف زئی بہادری کی علامت ہيں۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری سے فون پر ملالہ يوسف زئی کے حملے پرافسوس کا اظہار کيا۔ حامد کرزئی نے کہا کہ ملالہ يوسف زئی اور ديگر طالبات پرحملے کی شديد مذمت کرتے ہيں۔دوسری جانب گرل اسکاؤٹس سے خطاب ميں امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ يوسف زئی پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہيں۔ انہوں نے ملالہ يوسف زئي کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہارکيا۔ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ پر حملہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کچلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔واضح رہے کہ مشہور امریکی رقاصہ اور گلوکارہ میڈونا نے  ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے برہنہ ہو کر رقص کیا۔  آج جب وہ اپنے شو کے لئے آئی تو اس نے بتایا کہ وہ ملالہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتی ہے کیونکہ طالبان کے خلاف  ملالہ ایک استعارہ تھی اس دوران  جب وہ برہنہ ہوئی تو اس نے اپنی برہنہ  کمر  سب کو دکھائی جس پر ملالہ کانام لکھا تھا پھر وہ اسی برہنہ حالت میں ہی  کنسرٹ میں گانا گایا اور اس سے  یکجہتی کا اظہار کیا۔

نیٹو پر افغان فوجی حملوں کو روکا نہیں جا سکتا۔جنرل ڈیمپسی کا اعتراف

General Dempsy


امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارٹن ای ڈیمپسی نے کہا 
ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے اہلکاروں پر کیے جانے والے داخلی حملوں میں کمی ضرور ممکن ہے البتہ انہیں مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے یہ بات امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جنرل ڈیمپسی نے کہا ہے کہ مغربی اتحاد نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس ایسے داخلی حملوں کو روکنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ڈیمپسی نے بتایا کہ جن نئے اہلکاروں کو فوج میں بھرتی کیا جا رہا ہے ان کی تربیت مزید بہتر انداز میں کی جاری ہے۔ جنری ڈیمپسی نے مزید بتایا کہ افغانستان میں نیٹو افواج پر کیے جانے والے داخلی حملوں کی روک تھام کے لیے کاوٴنٹر انٹیلی جنس ایجنٹس کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔جنرل ڈیمپسی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نیٹو افواج چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں افغان سکیورٹی اہلکاروں یا ان کے لباس میں ملبوس افراد کی جانب سے اس قسم کے داخلی حملوں کو مکمل طور پر روکنا ناممکن سی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم داخلی حملوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی تو ضرور لا سکتے ہیں لیکن انہیں روک نہیں سکتے‘۔ جنرل ڈیمپسی کا کہنا ہے، ’طالبان جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ افغان سکیورٹی اہلکاروں اور نیٹو افواج کا تعاون ہی وہ اہم چیز ہے جو بالآخر ان کی شکست کا ذریعہ بنے گا

ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا انکشاف


وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی انٹیلی جنس انفارمیشن نہیں ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ملالہ یوسف زئی کی زندگی کیلئے آئندہ 36 گھنٹے بہت اہم ہیں۔ اسلام آباد میں سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفت گو میں رحمان ملک کاکہناتھاکہ حکیم الله محسود کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کے کئی گروپ بن چکے ہیں،اس لیے وہ طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ واقعی یہ حملہ طالبان نے ہی کیا ہے بلکہ یہ کسی دشمنی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے  یا پھر کسی اور گروپ کی طرف سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ملالہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم اس کے والدین نے سیکورٹی لینے سے انکار کر دیا تھا۔رحمان ملک نے کہا کہ انہوں نے آئی جی خیبرپختون خوا کو ہدایت ہے کہ ملالہ اور اس کے والدین کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے۔
 واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے یہ بیان آنے سے پہلے بھی سرکاری سطح پر اب تک طالبان کا نام لے کر کسی نے بھی مذمت نہیں کی ہے حتی کہ آرمی چیف نے بھی صرف لفظ دہشت گرد کہا۔  صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلی سرکاری عہدےد ار اس حملے  کا ذٕمہ دار طالبان کو ٹھہرانے کے بجائے دہشت گردوں کو ٹھہرا رہےہیں  جب کہ میڈیا بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طالبان کا نام لے کر مذمت کی جائے۔ اس مہم میں بی  بی سی اور امریکی نشریاتی ادارے پیش پیش ہیں۔ سب سے پہلے بی بی سی نے ہی دعوی کیا کہ حملہ طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پھر اس کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کرنے والے کون تھے یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مہربانی سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر سیاست دان مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنے مذمتی بیانات میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس بابت پارلیمان کی متفقہ قرار داد اور فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی واقعے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پشاور آمد اور ہسپتال میں ملالہ یوسفزئی کی خیریت معلوم کرنا انتہائی احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن فوجی سربراہ نے دورے کے بعد ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا  لیکن اس میں انہوں نے طالبان کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’دہشت گرد‘ کہا ہے۔ اور یہی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بارے میں دیکھنے کو ملا ہے۔وزیر اعظم کا کل کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان ہو یا صدر آصف علی زرداری کا مذمتی بیان کسی نے طالبان لفظ استعمال نہیں کیا۔کچھ لوگوں کے خیال میں شاید ان کے نزدیک طالبان کے لیے اب بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے جس کے باعث وہ انہیں نام سے یاد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ریاست طالبان کے سامنے بےبس ہے۔
 دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والوں کی شناخت ہوگئی، دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، افغان صدر سے شکایت کی ہے کہ دہشت گردوں کوسرحد پار آنے سے روکیں، حملہ کرنے والے دہشت گردکہیں بھاگ نہیں سکتے انہیں گرفتار کرکے ہرحال میں قرارواقعی سزا دی جائے گی۔ وہ سی ایم ایچ پشاور میں زخمی طالبہ کی عیادت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے سے متعلق فیصلہ فی الحال موٴخرکردیا گیا امریکا اور لندن میں نیوروسرجن تیار ہیں اگرضرورت پڑی تو انہیں پاکستان بلایاجائے گا، پوری قوم ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لیے دعا کرے، دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے اورہمیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ کتنے دن پہلے سوات میں آئے تھے اورانہوں نے کن کن لوگوں کو استعمال کیا اورکیا طریقہ واردات اختیارکیا، آئی جی خیبرپختونخوا نے ملالہ کے والدکو تین مرتبہ سیکورٹی دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کے لیے صدر آصف زرداری نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ ایک سوال کے جواب رحمن ملک نے کہا کہ مناسب وقت پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوگا اور ابھی مناسب وقت نہیں ہے۔
 دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو دوبارہ قتل کی دھمکیوں کے پیش نظر سیکورٹی اور علاج معالجہ کے امور پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر قتل کی تازہ دھمکیوں کے پیش نظر ملالہ یوسفزئی کے لیے نیا سیکورٹی حصار قائم کر دیا گیا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے گھرکے اندر لیڈی پولیس کمانڈوز اور باہر انسداد دہشت گردی تعینات ہوں گے پیشگی اجازت کے بغیر میل جول پر پابندی ہوگی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا کہ ملالہ یوسفزئی کی حفاظت کے لیے خیبر پختونخوا آئی جی نے دو مرتبہ سیکورٹی دستے بھیجے مگر انکے والد ضیاء الدین نے انکارکر دیا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے نیا سیکورٹی کوڈ نافذکیا جائے گا گھرکے اندر لیڈی پولیس اور باہر مرد پولیس کمانڈوز تعینات ہوں گے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی کے واقعہ میں ڈرائیور بھی قصور وار تھا۔ اسکول سے گھر واپسی کے وقت دو لڑکوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسکول وین کو روکا اور انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ ہماری ایک بچی گم ہوگئی ہے اسے تلاش کر رہے ہیں اسکے بعد ایک لڑکے نے ڈرائیورکو باتوں میں مصروف کرلیا ۔