Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, May 6, 2012

ہمیں اسلامی دنیا میں فرقہ ورانہ فساد کرانے کا حکم ملا تھا۔ سابق برطانوی انٹیلی جنس افسر کے اعترافات


ڈاکٹر صفدر محمود

یہ کتاب ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آج کا برطانیہ وہ نہیں جو تین صدیاں قبل تھا۔ یہ جاسوس بتا رہا ہے کہ برطانیہ نے کس طرح مسلمانوں کو تقسیم کیا اور ان میں مذہبی اختلافات بوئے اور انہیں آپس میں ہی لڑا دیا تاکہ وہ بریلوی اور دیوبندی بن کرلڑتے رہیں۔
ہاں تو میں انگلستان کے جاسوس ہمفرے کی ڈائری کا ذکر کر رہا تھا جسے انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا اور جو اپنے ملک کی خدمت اور برطانوی استعمار کو ترقی دینے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر ونفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ میرے ذمے دو اہم کام تھے۔ اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ ہمفرے تھکا دینے والے سفر کے بعد استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا اور مسجد کے خادم کو کچھ رقم دے کر راضی رکھتا تھا یہ تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے اپنے آپ کو شادی کے ناقابل ظاہر کر کے خود کو شادی اور شیخ کی ناراضگی سے محفوظ کر لیا۔ استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے واپس بلا لیا تاکہ وہ کچھ دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارے، وزارت کو زبانی بریفنگ دے اور مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں ہمفرے نے اپنی وزارت کو تفصیلی رپورٹ دی، وزیر اس کی ترکی، عربی، تجوید قرآن اور اسلامی شریعت پر دسترس سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ اس نے کہا ”آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں (2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ چھ ماہ لندن میں گزارنے کے بعد ہمفرے کی منزل بصرہ تھی۔“ صرف اتنا ذہن میں رکھیں جو کام سترہویں اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگلستان کر رہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے دوسری بڑی قوت کر رہی ہے۔ مقاصد اور حکمت عملی وہی ہے البتہ انداز اور طریقہ واردات جدید سوچ، ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ڈھل گئے ہیں۔
ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ وہ جب استنبول کے ممتاز سکالر شیخ احمد آفندی سے وزارتِ قرآن کی تجوید اور تفسیر سیکھنے میں مصروف تھا تو روزی کمانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نصف دن خالد بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ جہاں سے اسے حقیر سی رقم مل جاتی تھی۔ خالد بڑھئی اچھے کردار کا حامل نہ تھا۔ خالد نے اسے ایک بداخلاقی پر مجبور کیا۔ ہمفرے ہر ماہ رپورٹ برطانوی حکومت کو بھجواتا تھا۔ ایک رپورٹ میں اس نے خالد کی بدکرداری کا ذکر کیا تو اسے نوآبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
دو سال کے دوران قرآن، تفسیر، حدیث اور تجوید پر عبور حاصل کرنے کے بعد جب وہ لندن پہنچا اور وزارت نوآبادیاتی علاقے کو رپورٹ دی تو اسے پتہ چلا کہ اس کے باقی جن نو ساتھیوں کو لندن بلایا گیا تھا ان میں صرف پانچ واپس لوٹے تھے۔ غائب شدگان میں ایک نے مصر میں شادی کرکے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی لیکن وزارت کا سیکرٹری خوش تھا کہ اس نے راز فاش نہیں کئے۔ دوسرا جاسوس روسی نژاد تھا۔ وہ روس پہنچا تو وہیں بودوباش اختیار کرلی۔ تیسرا بغداد کے ہیضے میں مر گیا۔ چوتھا صنعا میں کہیں گم ہو گیا۔ وزارت برائے نوآبادیاتی علاقے نے جاسوسی کا وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ اس جاسوسی کے جال کے تحت نہ صرف اپنے جاسوسوں کی نگرانی کی جاتی تھی اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی بلکہ ان کی بھیجی گئی رپورٹوں کی خفیہ تصدیق بھی کی جاتی تھی۔ اس ساری واردات کو جاسوس سے پوری طرح اوجھل رکھا جاتا تھا۔
لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو ہمفرے کے الفاظ میں ”سیکرٹری نے میری آخری رپورٹ کے اہم حصوں کے مطالعے کے بعد مجھے کانفرنس میں شرکت کی ہدایت دی جس میں لندن میں بلائے گئے پانچوں جاسوسوں کی رپورٹیں سنی جانا تھیں۔ یہ کانفرنس وزیرخارجہ کی صدارت میں ہوئی اور اس میں میرے ساتھیوں کی رپورٹوں کے اہم حصوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میری رپورٹ کو بہت سراہا گیا تاہم ان پانچ میں کارکردگی کے حوالے سے مجھے نمبر تین پوزیشن پر رکھا گیا اور جی بلگوڈ کو نمبر ون اور ہنری فانس کو نمبر دو قرار دیا گیا۔ میں نے ترکی عربی تجوید قرآن اور اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ دسترس حاصل کی تھی لیکن عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنااول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ اس کام میں پوری قوت صرف کرنے کے بعد تمہیں اطمینان ہوجاناچاہئے کہ تمہارا شمار صف اول کے انگریز جاسوسوں میں ہونے لگا ہے اور تم اعزازی نشان کے حقدار ہوگئے ہو۔“ چھ ماہ لندن میں گزارنے اور شادی کے بعد جب ہمفرے کو نئے مہمان یعنی بچی بچے کا انتظار تھاتو اسے فوری طور پر عراق پہنچنے کاحکم ملا جو اس وقت خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کئی ماہ سمندروں میں دھکے کھانے اور گزارنے کے بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“
”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا ”ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (۱) نسلی اختلافات (۲) قبائلی اختلافا ت (۳) ارضی اختلافات (۴) قومی اختلافات (۵) مذہبی ختلافات۔ اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو توگویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“
”بصرہ پہنچ کر میں ایک مسجد میں داخل ہوا جس کے پیش امام مشہور عالم شیخ عمر طائی تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ترکی کا رہنے والا ہوں اور مجھے قسطنطینہ کے شیخ احمد آفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ میں نے وہاں خالد بڑھئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ مسجد میں چند دن گزارنے کے بعد میں نے دو تین مسافر خانے بدلے اوربالٓاخر ایک ترکھان کی دکان پراس شرط میں نوکری کرلی کہ وہ مجھے رہنے سہنے کی سہولت بھی دے گا۔ ترکھان عبدالرضا شریف انسان تھا اور مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کرتاتھا۔ وہ خراسانی شیعہ تھا چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے فارسی سیکھنا شروع کی۔ ترکھان کی دکان پر میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اورترکی، فارسی اور عربی میں گفتگو کرتا تھا۔ وہ دینی طالب علمو ں کا لباس پہنتا تھا اور جاہ طلب انسان تھا۔ اسے عثمانی حکومت سے نفرت تھی لیکن حکومت ایران سے اس کاکوئی سروکار نہیں تھا۔ سنی ہونے کے باوجود اس کی شیعہ ترکھان سے دوستی تھی۔ بہرحال وہ آزاد خیال انسان تھا اور کہا کرتا تھاکہ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مکاتب فکر میں سے کسی کسی بھی اہمیت نہیں کیونکہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا ہے بس وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس کا قرآن و حدیث کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ وہ بات بات پر کہتا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کتاب اور سنت کو ناقابل تغیر اصول بنا کر ہمارے لئے پیش کیا ۔پس ہم پر واجب کہ ہم صرف کتاب و سنت کی پیروی کریں۔ اس کی اکثر مذہبی حوالے سے دوسروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں اور مجھے اس کی گفتگو میں بڑا مزا آتا تھا۔ میں نے اس سے دوستی قائم کرلی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص برطانوی حکومت کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کی اونچا اڑنے کی خواہش ، جاہ طلبی، علما و مشائخ سے دشمنی اور خودسری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے گہرے تعلقات قائم کرلئے اور بار باراس کے کانوں میں یہ رس گھولتا رہتا کہ اللہ نے تمہیں بڑی فضیلت اور بزرگی بخشی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسلام میں جس انقلاب کو رونما ہونا ہے وہ تمہارے ہی مبارک ہاتھوں سے انجام پذیر ہو۔ تم ہی وہ شخصیت ہو جو اسلام کو زوال سے بچا سکتے ہو۔“
ہمفرے نے اس شخص کو مذہبی تاویلوں کے ذریعے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، اسے خفیہ جنسی لذت اور شراب کا عادی بنایا اور مسلمانوں میں تفرقے کے لئے استعمال کیا۔ یہ ایک چشم کشا اور ہوشربا داستان ہے۔ میں اپنے بیان میں حد درجہ محتاط ہوں، قابل اعتراض حصے حذف کر رہا ہوں اور آپ کو ہمفرے کے شکار کا نام ہرگز نہیں بتاؤں گا کیونکہ مجھے وقت سے پہلے مرنے کاشوق نہیں ۔)
ہمفرے کے دلچسپ اعترافات کا ذکر کرنے سے پہلے میںآ پ کی توجہ ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والی خبر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو لندن سے ریاض ملک صاحب نے ارسال کی ہے۔ آج سے دس سال قبل سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تاکہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ”را“ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ ملنے آئے۔ ان کا تعلق کتاب اور تحقیق سے ہے۔ باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں سنڈے ٹائمز کی خبر پڑ ھ رہا تھا تو مجھے ”ہمفرے کے اعترافات“ کا ایک صفحہ یاد آگیا۔ آپ بھی پڑھئے ”میں چھٹی پر لندن گیا ہوا تھا۔ نو آبادیاتی امور کے خصوصی کمیشن کی مرضی کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے۔ جن سے صرف چندایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی (1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت (2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل (3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ (4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
میں نے اوپر اپنی تحریر میں ہمفرے کے شکار کا ذکر کیا تھا جسے برطانوی وزارت نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ہمفرے نے اس سے گہری دوستی قائم کرلی اور باتوں باتوں میں اسے ٹٹولنے اور اپنے جال میں پھنسانے لگا۔ ایک دن ہمفرے نے اس سے پوچھا ”عورتوں کے ساتھ متعہ جائز ہے؟“ جواب تھا ہرگز نہیں۔ پھرہمفرے نے بہت سی دلیلیں دے کر اسے خاموش کر دیا اور وقفے کے بعد پوچھا کیا تم متعہ کے ذریعے زندگی پرمسرت بنانا چاہتے ہو؟ اس نے رضا کی علامت سے سر جھکا دیا۔ ہمفرے نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا اور میں تمہارے لئے انتظام کروں گا۔ پھر ہمفرے اسے ایک بدقماش عورت کے پاس لے گیا جو برطانوی وزارت نوآبادیاتی کی طرف سے بصرہ میں عصمت فروشی کا اڈا چلاتی تھی اور مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارتی تھی۔اس کا جعلی نام صفیہ تھا۔ ہمفرے اپنے شکار کو اس کے پاس لے گیا اور ایک اشرفی مہر پر ایک ہفتے کے لئے صفیہ سے اس کا عقد کردیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ اپنے شکار کو صفیہ کے جال میں پھنسانے کے بعد ہمفرے نے اسے شراب پر آمادہ کرنے کے لئے تاویلیں دیں کہ صرف وہ شراب منع ہے جو نشہ آور ہو، یادِ خدا او ر نماز سے باز رکھے۔ چنانچہ شراب میں پانی ملا کر پینا جائز ہے۔ ہمفرے نے اپنی سازش سے صفیہ کو بھی آگاہ کر دیا جو اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بندوبست کرنے لگی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے وزیر نوآبادیاتی علاقے کی بات یاد آئی جو اس نے الوداع کے وقت کہی تھی ”ہم نے اسپین کو مسلمانوں سے شراب اور جوئے کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا۔ اب انہی دو طاقتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کو پامردی کے ساتھ واپس لینا ہے“
مختصر یہ کہ ہمفرے دن رات اپنے شکار کے ساتھ رہنے لگا اور مسلسل رپورٹ اپنی وزارت کو بھجواتا رہا جس کی تصدیق وزارت براہ راست صفیہ سے بھی کرتی تھی اوردوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بھی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ پھرایک دن اس نے ایک جھوٹا خواب گھڑا۔ اپنے شکار کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور اسے مذہبی فرقہ بندی پر مائل کرلیا۔ واضح رہے کہ میں نہ ہمفرے کے شکار کا انکشاف کر رہا ہوں نہ اس خواب کی تفصیلات کا اور نہ ہی اوپر بیان کئے گئے دینی امور کا میرے اعتقاد سے کوئی تعلق ہے۔ میں تو فقط دامن بچا بچا کر آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہمفرے نے اپنے نشانے پر کس طرح تیر چلائے۔
اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ نجف میں وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا بالآخر تین ہفتوں بعد افاقہ ہوا تو بغداد چلا گیا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔
عراق سے متعلق رپورٹ نے وزارت کے دل جیت لئے ”چنانچہ مجھے لندن بلایا گیا کہ میں وزارت کے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وزارت نے کچھ افراد کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا ان کی رپورٹوں نے میرے طرز ِ عمل اور معلومات کی تصدیق کی تھی۔ وزیر میرے شکار کے قابو آنے پر بہت خوش تھے۔
انہوں نے میرے شکار کے ساتھ عبدالکریم نامی شخص کو لگا دیا تھا جو اسے اصفہان میں ملا، گہری دوستی گانٹھ لی وغیرہ وغیرہ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ جب وہ چھٹی پر لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا (1) شیعہ سنی اختلافات (2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات (3) قبائلی اختلافات (4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں (5) جہالت اور نادانی کی فراوانی (6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا (7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب ( حکمرانوں کے مظالم (9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان (10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان (11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی (12) عورتوں کی تحقیر (13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔ مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز ِ زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔ میرے دوست الفت صاحب کا خیال ہے کہ یہ کتاب مصدقہ نہیں جبکہ لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔حقیقت کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور یہ کہ مسلمانو ں کا اصلی دشمن مذہبی فرقہ واریت، انتہاپسندی، جہالت، جمود اور قرآن و شریعت سے دوری ہے اسلئے اگر کوئی شخص شیعہ سنی اختلافات کی آگ بھڑکانے یا مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!! ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔
انگریزی میں اصل کتاب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ اسے مندرجہ ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:
http://www.hakikatkitabevi.com/download/english/14-ConfessionsOf%20ABritishSpy.pdf

فلوریڈا میں قرآن پاک کی بے حرمتی،پاکستان کی شدید مذمت

ملعون امریکی پادری ٹیری جونز


پاکستان نے فلوریڈا میں قران پاک کی بے حرمتی اور کابل میں خود کش حملے کی شدید مذمت کی ہےاسلام آباد میں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں، امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے فلوریڈا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات دنیا بھر میں نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کو ایسے واقعات کا سدباب کرنا ہوگا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ دنیا کے استحکام کے لیے امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔دفتر خارجہ سے جاری ایک اور بیان میں کابل میں ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے، دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے، پاکستان، افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام اور خطے میں استحکام، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے

ایک نیم برہنہ اسرائیلی صحافی: اکثر پاکستانی سیاستدان اس کے فین ہیں

یہ ڈیفنی باراک ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک کے خاندان کی لڑکی۔ ایہود باراک کو  مسلمان قصائی کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈیفنی کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے۔ اس بارے میں وکی لیکس نے بھی بہت سے انکشافات کئے اور خود ڈیفنی نے اپنی کتاب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ پاکستان کے اکثر سیاستدان اس کے گرویدہ ہیں اور یہی ہم نے اس تصویری رپورٹ میں پیش کیا ہے۔






 

پورے کراچی کی پولیس مل کر بھی 8 روز میں لیاری فتح کرنے میں ناکام ہوگئی




لیاری آپریشن میں آٹھ روز گزر جانے کے باوجود حکومت کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ روز تو واضح طور پر امن کمیٹی کے مسلح افراد کا پلڑا بھاری نظر آیا جبکہ پولیس اہلکار دفاعی پوزیشن پر نظر آئے، کئی روز کی شدید جنگ کے بعد اب پولیس ا ہلکار ہمت ہارتے نظر آرہے ہیں اور طاقت کے استعمال سے بھی نتائج نہیں مل سکے ہیں البتہ لیاری مکمل طور پر پیپلز پارٹی کا مخالف ہو چکا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں حکومت اور ملکی اداروں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے تاہم ان اختلافات کی تصدیق یا تردید کرنے پر کوئی فریق تیار نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک برس کے دوران سندھ کے رخصت پر بھیجے گئے دوسرے وزیر داخلہ منظور وسان نے زبردستی کی رخصت پر روانگی سے قبل صحافیوں سے الوداعی ملاقات میں اس سوال کا جواب دینے سے گریزکیا کہ رینجرز لیاری آپریشن میں موثر کردار ادا کیوں نہیں کر رہی۔ انہوں نے کاندھے اچکا کر چڑچڑے انداز میں کہا کہ یہ سوال تو وزیراعلیٰ سے پوچھا جائے جن کے پاس اب وزارت داخلہ کا قلم دان ہے، (میں تو چھٹی پر ہوں) ان کی بے بسی قابل دید تھی۔ لیاری آپریشن پر اداروں کے تحفظات غیر جانبدار سیاسی قوتوں سے ملتے جلتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آپریشن کراچی کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا تخصیص ہونا چاہئے۔ لیاری کے آٹھ افراد اگر گرفتار بھی ہوگئے تو کیا کراچی میں امن قائم ہو جائے گا؟، ٹارگٹ کلنگ بند ہو جائے گی؟ اسٹریٹ کرائمز کے ستائے ہوئے شہری سکون کی زندگی گزار سکیں گے؟ ہر طرف امن اور چین ہوگا؟ اگر ان سب کی ضمانت ہے تو پھر کراچی کے لوگوں کو لیاری آپریشن پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مگر انہیں معلوم ہے کہ کراچی میں لوگوں کی جانیں لینے والے کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور یہ کراچی کے شہری برسوں سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
دو برس قبل سابقہ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جو صدر زرداری کے دست راست اور انتہائی قریبی رفیق تھے نے کراچی کے مسئلے کا نرالاحل دریافت کیا تھا جس کی تصدیق گزشتہ روز جیو کے پروگرام ”لیکن“ میں امن کمیٹی کے ظفر بلوچ نے کی کہ انہیں ہتھیار پیپلز پارٹی نے دیئے تھے اور اس لئے دیئے تھے کہ وہ ایم کیو ایم کے لوگوں کا مقابلہ کریں۔ یہی اسلحہ کے انبار اب قانون کے خلاف استعمال ہو رہے ۔پہلے سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی جبکہ تاجر اور عام شہری روزانہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر احتجاج کرتے یا دہائی دیتے دیکھے جاسکتے تھے یہ سب کچھ اقتدار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا مگر مر تو غریب رہے تھے اس لئے فکر کسی کو نہ تھی۔ اقتدار کی سنگھاسن ڈولنے لگی، انتخابات کے دن قریب آنے لگے اور ووٹ فیصلہ کن قوت بننے جا رہا تھا تو فیصلہ سازوں کو اپنی غلطیوں کا ایک بار پھر احساس ہوا اورانہوں نے پوری ریاستی مشینری آٹھ ملزموں کی گرفتاری کے لئے 15 لاکھ کی آبادی میں جھونک دی۔ وہ آٹھ ملزم بھی اپنے ہی تراشیدہ ہیں۔ لیاری 8 روز سے آگ اگل رہا ہے، چاروں طرف سے پولیس کے پندرہ ہزار سے زائد جوانوں نے اسے گھیر رکھا ہے، اب تک 30 سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ لیاری میں آٹھ نہیں آٹھ ہزار جرائم پیشہ عناصر ایک دوسرے سے کمربستہ ہیں اور ان جرائم پیشہ عناصر کی گزشتہ چار سالوں کے دوران کی جانے والی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے وہ اس قدر منہ زور ہوگئے ہیں کہ اب سرکار کی طاقت کو بھی للکارنے لگے ہیں۔ چوہدری اسلم جیسے پولیس افسر کو آئی جی سے بھی زیادہ اختیارات دے کر کراچی پولیس ان کی کمان میں دے دی گئی ہے شہر کے تمام تھانوں میں سناٹا ہے پولیس کوئی اور کام نہیں کر رہی اور تمام ایس ایچ او اور ان کی سپاہ چوہدری اسلم کو جواب دہ ہیں اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ آٹھ روز میں نتائج دکھائیں گے۔ آٹھ روز گزر گئے، آٹھ مزید گزرنے کو ہیں مگر لیاری کو ابھی تک فتح نہیں کیا جا سکا ہے۔ بچے دودھ کو بلک رہے ہیں،بجلی بند، پانی بند، بازار بند، دوائیاں ناپید، خوراک غائب، خوف کا راج ہے۔کیا یہ پیپلز پارٹی سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے، اس کا فیصلہ تو بالٓاخر لیاری کے عوام کو خود کرنا ہوگا۔ اب ایک بار پھر پولیس اور سرکار کی گاڑیوں میں ایک دوسرے جرائم پیشہ لالو پپو گروپ کو بٹھا کر لیاری پر ان کا قبضہ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ یہاں پہلے سے موجود گروپ پی پی کا مخالف ہو گیا ہے لہذا نیا گروپ جو پی پی کا حامی ہے اب اسے قبضہ دلایا جا رہا ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر کے لوگوں نے ایک ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام میں یہ بھی دیکھا اور سنا کہ کل تک سرکار کی آنکھوں کا تارا سمجھا جانے والا رحمٰن ڈکیت کا گدی نشین عذیر بلوچ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا صدر زرداری پہلے ٹین پرسنٹ تھے اب 100 فیصد ہوگئے ہیں اور اس نے دعویٰ کیا کہ آج کے بعد لیاری سے پیپلز پارٹی کا نام و نشان ختم ہوگیا اور اب کوئی رکن اسمبلی پی پی کے ٹکٹ پر لیاری سے کامیاب نہیں ہوگا۔ گزرے آٹھ دنوں میں کراچی کے شہریوں نے مسلسل یہ مناظر بھی دیکھے کہ پیپلز پارٹی کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی، جھنڈے اور پوسٹر جلا دیئے گئے اور تصاویر پاؤں تلے روندی گئیں، یہ سب کچھ بھٹوز کے لیاری میں ہو رہا ہے اس طرح تاریخ کا دھارا نئی منزل کی تلاش میں بہہ رہا ہے ایک بار پھر نئے فیصلے لکھنے کی طرف گامزن ہے۔
دوسری جانب لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف پولیس آپریشن چوتھے روز نسبتاً سست نظر آیا مگر تخریب کاروں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ پیر کو دہشتگردوں نے راکٹ ، دستی بم کے حملے کیے جبکہ تخریب کاروں نے لیاری سے نکل کر شیر شاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، تخریب کاروں نے شیر شاہ میں 2/ مسافر گاڑیوں کو بھی جلادیا جبکہ ایک کار ملیر کے علاقے میں جلائی گئی، لیاری کے مکینوں نے احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ ادھر لیاری آپریشن کی قیادت کرنیوالے ایس ایس پی، سی آئی ڈی ایکسٹریم ازم سیل چوہدری محمد اسلم خان نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ آئندہ 48/ گھنٹے میں آپریشن مکمل کرلینگے تاہم چار روز سے جاری آپریشن کے سبب پیر کو بھی لیاری میں بازار اور دکانیں مکمل طور پر بند رہیں، سڑکوں سے ٹریفک غائب رہا اور پورے ٹاؤن میں خوف و دہشت کے سائے منڈلاتے رہے۔ لیاری میں آپریشن کے دوران مختلف مقامات پر پی ایم ٹی تباہ ہونے کے باعث بجلی نہیں جس کی وجہ سے لیاری کے مکینوں کو پانی بھی میسر نہیں آرہا اور شہریوں کو دقت کا سامنا ہے۔ پیر کو لیاری کے مکینوں نے ماڑی پور روڈ پر احتجاجی ریلی بھی نکالی مگر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے ریلی کے شرکاء کو منتشر کردیا، لیاری میں آپریشن کیخلاف ملیر، ماڈل کالونی سے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے شرکاء نے تھانہ سعود آباد کی حدود میں ملیر ہالٹ کے پاس ایک کار کو آگ لگادی۔ قبل ازیں دہشتگردوں نے لیاری میں جمعہ بلوچ روڈ پر ایک راکٹ فائرکیا گیا جس کے ٹکڑے لگنے سے ایک 60/ سالہ نامعلوم شخص ہلاک جبکہ 40/ سالہ جہانگیر، 55/ سالہ ہارون، 8/ سالہ انیس، 40/ سالہ سلیم، 32/ سالہ یوسف، 28/ سالہ ظفر، 21/ سالہ عائشہ، 20/ سالہ سہیل اور ایک 30/ سالہ نامعلوم شخص زخمی ہوگیا۔ نیا آباد میں فائرنگ سے 25/ سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا جس کی فوری طور پر شناخت نہیں ہوسکی۔تھانہ کلری کی حدود ہنگورہ آباد میں 23/ سالہ نامعلوم نوجوان کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی جسے تشدد کے بعد سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ لی مارکیٹ، بھیم پورہ، کمہار سنیما کے قریب مارے جانے والے راکٹ کے ٹکڑے لگنے سے 30/ سالہ ریاض، 40/ سالہ جمعہ، 25/ سالہ کشور اور 25/ سالہ شبیر زخمی ہوگیا جبکہ چیل چوک پر فائرنگ سے ہیڈ کانسٹیبل 30/ سالہ عباس ولد ساجد زخمی ہوگیا۔ دریں اثناء دہشت گردوں کے ایک گروپ نے موٹر سائیکلوں پرنکل کر شیرشاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ پر کھڑے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 25/ سالہ رضوان ولد محمد ریاض، 28/ سالہ عبدالمجید اور جنید انصاری ہلاک جبکہ 45/ سالہ احمد اور 24/ سالہ عظیم ولد سراج زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں تخریب کاروں نے 2/ منی بسوں نمبر PE-4233 اور PE-4076 کو بھی آگ لگادی۔ قبل ازیں ہلاک شدگان کی لاشیں اور زخمیوں کو چھیپا اور کے کے ایف ایمبولینسز کے ذریعے سول اسپتال پہنچایا گیا آخری اطلاعات آنے تک لیاری میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری تھا۔رات گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ایک سپاہی جاں بحق ہوگیا، جبکہ پولیس دہشت گردوں کے اہم ٹھکانوں نوالین، گل محمد لین اور سیفی لین میں داخل ہوگئی جس کے دوران سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا، جومسلسل جاری تھا، تخریب کاروں نے چیل چوک پر2راکٹ مارے جبکہ کلری تھانے کے قریب پولیس کی بکتر بند گاڑیوں پر 3 دستی بم پھینکے گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ریپڈ رسپانس ایسٹ کا سپاہی شہباز جاں بحق ہوا، جس کی لاش سول اسپتال پہنچائی گئی ، نیز لیاری ایکسپریس وے پر تخریب کاروں نے 25سالہ پرویز ولد امام بخش کوہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد گولیاں مارکر پھینک دیا، جسے شدید زخمی حالت میں سول اسپتال پہنچایا گیا