Search This Blog

Total Pageviews

Saturday, October 13, 2012

ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش

ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش
 تحریر: محمد عمران
 
ملالہ یوسفزئی کو اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے گل مکئی کے قلمی نام سے برطانوی ریڈیو بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر جنگ بیتی کو 
اپنے
 انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسفزئی کو اسی ویب پوسٹس پرنہ صرف شہرت ملی بلکہ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ملالہ نے ڈائری کے ان صفحات پر اس خوف و کرب کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سوات وادی میں رات کے سناٹے میں گونجتی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اسے مضطرب کرتی تھی
اب سوال یہ ہے کہ ٢ سال پہلے
ملالہ
کی عمر ١١ سال تھی . اور ١١ سال کی بچی کچھ اس طرح  سے ڈائری لکھ سکتی ہے ؟ . افغانستان کے طالبان پہلے ہی پاکستانی طالبان سے
 لا تعلقی
 کا اظہار کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہی کے وہ اسکول جلانے اور خودکش حملوں کے خلاف ہیں . تو پھر یہ کون ہیں ؟ یاد رکھیں پاکستان میں حالات خراب رہیں اس کا فایدہ امریکا کو ہوگا پاکستان کو نہیں .
ملالہ  کے لیے جس طرح حکومتی سطح پر اقدامات کیے گے ہین بہت اچھی بات ہے . مگر کاش یہ سب قوم کی ہرملالہ کے لیے بھی کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا

 یہ حملہ عمران خان کے لانگ مارچ کے بعد ہوا  لانگ مارچ کے بعد پورے دنیا من ڈرون اٹیک کے بارے میں باتیں شروع ہو گیی تھیں مگر اس حملے کے بعد سب لوگ خاموش ہو گیے ہیں . تو فایدہ کس کو ہوا ؟ الله جانتا ہے کے حقیقت کیا ہی مگر کوئی سازش ضرور ھے
.
تو جناب کل امریکہ نواز میڈیا کی طرف سے پاکستانی عوام پہ یہ وحی منکشف کی گئی ہے کہ ایک تیرہ سالہ بچی اسکو طالبان نے اسکے علمی کاوشوں اور اسکے علم کی انتہا پہ ہونے کے سبب مار ڈالا ہے۔۔ اور ہمارے بے عقل عوام اور حد ہے کئی اسلامی جماعتیں بھی اس
پروپیگنڈے میں اگئیں ہیں ۔۔ مجھے کوئی یہ بتائیے کہ اس بچی یا لڑکی اس کے پاس ایسا کونسا خاص علم تھا جو کہ لال مسجد کی ۳۰۰۰ عالمہ لڑکیوں کے پاس بھی نہین تھا۔۔

اور کیا ان عالمہ کو بھی طالبان نے مارا تھا۔۔۔ہمارے ہاں کے بڑی سے بڑی یونیورسٹی کی کسی طلبہ میں وہ علم نہیں تھا۔۔ ایک سوال یہ ہے کہ ایک ایسی بچی جس نے کبھی پہلے کوئی تحریر نہ لکھی نہ چھپی ، -- کیسے اچانک BBC نے اسکی تحریریں جن کو ڈائیری کا نام دیا دیا گیا پیش کرنی شروع کر دیں؟ کیا BBC کی صحافت کا یہی معیار ہے ؟0 --- نا بالغوں کی ڈائری پیش کرنا ؟؟ ذرا سوچیں ! ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں جب
کی شخص کو اپنے مقاصد کے لئے چن لیتی ہیں تو میڈیا کے زریعے اس کو رفتہ رفتہ دیو مالائی حیثیت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔۔
میں اس بچی پر حملہ کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہوں۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔

بندر اپنے بچے سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔ اسکو ہر وقت اپنی گود میں لٹکائے رہتا ہے۔۔ یہاں تک کہ اگر وہ مر بھی جائے توبھی اسے نہیں چھوڑتا۔۔ مگر جب وہ زمین پہ بیٹھتا ہے اور زمین اسے گرم لگتی ہے تو اسے بچے کو اپنے نیچے دے کے اس پہ بیٹھ جاتا ہے ۔۔ ایجینسیز نے پہلے خود اسکو عوام میں خاص کر مغرب میں معروف کروایا ۔۔ اسکے بعد اسے ایوارڈ دلوایا۔۔ اسکے بعد جب وہ معروف ہو گئی تو اسکا کام تمام کردیا ۔ اور اسکا مقصد اسلام اور طالبان کو بدنام کرنا، شدت پسند ٹھہرانا اور عورتوں کو ان سے متنفر کرنے کے ساتھ ساتھ سوات میں اپریشن اور آرمی بجھیجنے کے لئے ایک بہانہ ہے ۔۔ اج بھی کافر اسی فلسفہ پہ عمل پیرا ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاو، تو یہ کہتے ہیں کہ (نہیں صاحب) ہم ہی تو صلاح و اصلاح کروانے والے ہین ۔..........


میر التجا ہے اپ لوگوں سے کہ اپنے اپ رحم کریں اور امریکہ ایجنٹ میڈیا اور مغرب کی اندھی تقلید کی عینک اتار کہ اپنے عقل کا استعمال کریں اور ان خبیثوں کے چالوں کو سمجھیں اور انکا منہ توڑ جواب دیں ۔۔۔............

شئیر کریں اس منافق میڈیا کا توڑ کے لئے جزاک اللہ —
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا! اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
 

ملالہ حملہ۔ بلی تھیلے سے باہرآگئی۔ شمالی وزیرستان پر بھرپور حملے کا فیصلہ


پاکستان کے شمال مغربی علاقے سوات میں چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملے اور اس کے ردعمل کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور کوریج کا ڈراپ سین سامنے آ گیا ہے اور وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے  اور اس کا تقریبا فیصلہ ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر جمعہ کو آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت وہاں فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی''۔انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے لیے ظالمان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چودہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملہ نہیں کیا بلکہ پوری قوم پر حملہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے ایک نیا دعویٰ یہ کیا کہ ''وہ شمالی وزیرستان سے روزانہ کی بنیاد انٹیلی جنس رپورٹس موصول کر رہے ہیں اور ان رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ علاقے میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور یہی لوگ حملے میں ٕملوث ہیں''۔ ذرائع کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی میں کورکمانڈروں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی وہاں کی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی جائے گی اور آپریشن کے خدو خال طے کئے جائین گے۔واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کو پاکستانی میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی گئی ہے اور یہ واقعہ گذشتہ چار روز سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی خبروں، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں چھایا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز ملالہ پر حملے اور اب اس کی حالت کے بارے میں پل پل کی مسلسل خبریں دے رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونی والی مزید دو لڑکیوں کا  کسی نے نام تک نہیں لیا اور ملالہ حملے کے دوسرے دن ہی امریکی ڈرون حملے میں ایک مدرسہ تباہ کیا گیا  جس میں 18 عورتیں اور بچے مارے گئے مگر کسی نے  اس پر اس قدر شور  نہیں کیا۔ اس کے برعکس  میڈیا پر طالبہ پر قاتلانہ حملے اور اس پر ردعمل کے ڈانڈے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے ملائے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر بھرپور تشہیر کر کے دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بُک (کتاب چہرہ) کے صارف بہت سے لکھاریوں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں اور نثر و نظم کی صورت میں مذمت کی ہے اوراس بہادر لڑکی کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی بعض حضرات نے بالکل بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں مارے گئے کم سن بچوں اور زخمیوں کی اس انداز میں مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور انھیں کیوں بھُلا دیا گیا ہے؟ بعض لکھاریوں نے پاکستانی میڈیا کی بھیڑ چال پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور انھوں نے ماضی میں اسی طرح کے پیش آئے چار پانچ واقعات کو میڈیا پر اچھالے جانے اور خاص طور پر سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقعہ کی ویڈیو کا ذکر کیا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد جعلی ثابت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں بے پایاں ترقی کی ہے لیکن جس تیزی سے اس نے ترقی کی اور ماضی کی نسبت آزادی حاصل کی ،اس کے مقابلے میں وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بہ طریق احسن انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔صحافت کی پیشہ ورانہ نزاکتوں سے نابلد میڈیا مالکان کا صحافیوں سے عموماً یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چینل پر سب سے پہلے خبر دیں۔چنانچہ ایک چینل سے وابستہ صحافی حضرات اچانک پیش آئے کسی واقعہ کی عجلت میں غیر مصدقہ خبر تو ''سب سے پہلے'' کے چکر میں دے دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ دوسرے چینلوں یا متعلقہ اداروں اور حکام سے اس کی تصدیق کے لیے فون کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو دو مختلف ٹی وی چینلز پر نشرکردہ ایک ہی خبر کی تفصیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ناظرین الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔