Search This Blog

Total Pageviews

Saturday, October 13, 2012

ملالہ حملہ۔ بلی تھیلے سے باہرآگئی۔ شمالی وزیرستان پر بھرپور حملے کا فیصلہ


پاکستان کے شمال مغربی علاقے سوات میں چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملے اور اس کے ردعمل کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور کوریج کا ڈراپ سین سامنے آ گیا ہے اور وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے  اور اس کا تقریبا فیصلہ ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر جمعہ کو آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت وہاں فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی''۔انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے لیے ظالمان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چودہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملہ نہیں کیا بلکہ پوری قوم پر حملہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے ایک نیا دعویٰ یہ کیا کہ ''وہ شمالی وزیرستان سے روزانہ کی بنیاد انٹیلی جنس رپورٹس موصول کر رہے ہیں اور ان رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ علاقے میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور یہی لوگ حملے میں ٕملوث ہیں''۔ ذرائع کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی میں کورکمانڈروں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی وہاں کی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی جائے گی اور آپریشن کے خدو خال طے کئے جائین گے۔واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کو پاکستانی میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی گئی ہے اور یہ واقعہ گذشتہ چار روز سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی خبروں، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں چھایا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز ملالہ پر حملے اور اب اس کی حالت کے بارے میں پل پل کی مسلسل خبریں دے رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونی والی مزید دو لڑکیوں کا  کسی نے نام تک نہیں لیا اور ملالہ حملے کے دوسرے دن ہی امریکی ڈرون حملے میں ایک مدرسہ تباہ کیا گیا  جس میں 18 عورتیں اور بچے مارے گئے مگر کسی نے  اس پر اس قدر شور  نہیں کیا۔ اس کے برعکس  میڈیا پر طالبہ پر قاتلانہ حملے اور اس پر ردعمل کے ڈانڈے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے ملائے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر بھرپور تشہیر کر کے دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بُک (کتاب چہرہ) کے صارف بہت سے لکھاریوں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں اور نثر و نظم کی صورت میں مذمت کی ہے اوراس بہادر لڑکی کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی بعض حضرات نے بالکل بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں مارے گئے کم سن بچوں اور زخمیوں کی اس انداز میں مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور انھیں کیوں بھُلا دیا گیا ہے؟ بعض لکھاریوں نے پاکستانی میڈیا کی بھیڑ چال پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور انھوں نے ماضی میں اسی طرح کے پیش آئے چار پانچ واقعات کو میڈیا پر اچھالے جانے اور خاص طور پر سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقعہ کی ویڈیو کا ذکر کیا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد جعلی ثابت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں بے پایاں ترقی کی ہے لیکن جس تیزی سے اس نے ترقی کی اور ماضی کی نسبت آزادی حاصل کی ،اس کے مقابلے میں وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بہ طریق احسن انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔صحافت کی پیشہ ورانہ نزاکتوں سے نابلد میڈیا مالکان کا صحافیوں سے عموماً یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چینل پر سب سے پہلے خبر دیں۔چنانچہ ایک چینل سے وابستہ صحافی حضرات اچانک پیش آئے کسی واقعہ کی عجلت میں غیر مصدقہ خبر تو ''سب سے پہلے'' کے چکر میں دے دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ دوسرے چینلوں یا متعلقہ اداروں اور حکام سے اس کی تصدیق کے لیے فون کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو دو مختلف ٹی وی چینلز پر نشرکردہ ایک ہی خبر کی تفصیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ناظرین الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment