انتہائی حساس موضوع پر بنائی گئی فلم کے پروڈیوسر اور منتظم کو زمین نگل
گئی یا آسمان نے اٹھالیا۔ وقت کے ساتھ واشنگٹن کی بدنیتی اور شرمناک کردار کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آنے لگے۔ فلم میں کردار ادا کرنے والی اداکارہ نے بھی تیار کنندگان کیخلاف ہتک عزت دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔عقل اس بات پر دنگ ہے کہ کیا امریکہ جیسے ملک میں ایسے حساس موضوع پر کوئی بھی بدکردار شخص اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرکے ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رہ سکتا ہے۔
اس اسلام مخالف فلم کے بارے میں نئی معلومات سامنے آئی ہیں جس کے باعث مصر اور لیبیا میں امریکہ کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔یہ فلم امریکہ میں بنائی گئی تھی اور اسے جون کے آخر میں ایک چھوٹے سے سینما گھر میں دکھایا گیا تھا۔ بعد میں اس کے کچھ ٹکڑے یوٹیوب پر پوسٹ کیے گئے اور ان کا عربی میں بھی ترجمہ کیا گیا جن کی وجہ سے یہ مظاہرے پھوٹ پڑے۔
اس فلم کا نام مسلمانوں کی معصومیت ہے اور اسے سب سے پہلے یکم جولائی کو آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا۔فلم نہایت بھونڈے طریقے سے بنائی گئی ہے، اداکاری بہت خراب ہے اور کہانی نہ ہونے کے برابر ہے۔اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات اداکاروں نے نہیں کہے بلکہ انہیں واضح طور پر بعد میں ڈب کر کے فلم میں شامل کیا گیا ہے۔
فلم میں کام کرنے والی ایک اداکارہ نے فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس فلم کو اسلام دشمن پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سنڈی لی گارسیا نے ایک ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا فلم میں ایک چھوٹا سا کردار تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ فلم کا نام صحرائی جنگجو ہو گا اور یہ دو ہزار سال قبل کے مصر کے بارے میں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ وہ ڈائریکٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔
دراصل تیس جون کو ہالی وڈ کے ایک چھوٹے سے سینما میں ایک فلم دکھائی گئی تھی۔ اس وقت اس کا نام اسامہ بن لادن کی معصومیت تھا۔فلم دیکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فلم کوئی ایک گھنٹہ لمبی تھی اور بہت برے طریقے سے بنائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس شام فلم کے دو شو ہوئے اور چند ہی لوگوں نے اسے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ ایک مصری شخص نے اس فلم کی نمائش کا بندوبست کیا تھا اور اس شام اس کے ساتھ دو مصری محافظ بھی تھے۔ایک شخص نے منگل کے روز میڈیا کے کئی اداروں کو فون کر کے کہا کہ وہ فلم کے مصنف اور ہدایت کار سیم بیسائل ہیں۔
انہوں نے اپنی عمر باون یا چھپن سال بتائی اور کہا کہ وہ ایک اسرائیلی نژاد یہودی ہیں جنہوں نے فلم بنانے کے لیے یہودیوں سے کئی ملین ڈالر بطور عطیہ اکٹھے کیے ہیں۔تاہم گذشتہ ہفتے سے قبل بیسائل کا آن لائن وجود نہیں تھا اور نہ ہی اس نام کا کوئی فلمساز پایا جاتا ہے۔اس بات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کیا سیم بیسائل حقیقی نام ہے۔دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سٹیو کلائن نامی ایک امریکی جنہوں نے فلم کی تشہیر کی تھی، کہا کہ وہ فلم کے ہدایت کار کو نہیں جانتے۔
قرآن کو نذرِ آتش کرنے والے امریکی پادری ٹیری جونز نے بتایا کہ فلم کی تشہیر کے سلسلے میں ان کا سیم بیسائل سے رابطہ تھا لیکن وہ ان سے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی انھیں شناخت کر سکتے ہیں۔فلم سے متعلق ایک اور نام بھی منظر ِ عام پر آیا ہے۔ یہ ہیں مورس صادق جو اسلام مخالف نیشنل امریکن کاپٹک اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں اور مصری نژاد امریکی ہیں۔ان کی طرف سے فلم کی تشہیر کی کوششوں نے قبطی عیسائی فرقے کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قبطی مصر میں بڑی اقلیت ہیں اور ان میں سے کچھ نے اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے صدر کی قیادت میں نئے مصر میں اپنی مذہبی آزادی کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے خود کو سیم بیسائل کہنے والے ایک شخص کا فون پر انٹرویو کیا اور پھر اس کا سراغ کیلی فورنیا کے ایک پچپن سالہ مرد نیکولا بیسلی نیکولا سے جا ملایا جنھوں نے اے پی کو بتایا تھا کہ وہ قبطی عیسائی ہیں۔ انھوں نے اقرار کیا کہ وہ فلم کے لیے ساز و سامان کی فراہمی اور پروڈکشن میں شامل رہے ہیں۔البتہ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ سیم بیسائل ہیں۔ لیکن اے پی نے کہا ہے کہ نامہ نگاروں نے فون کا کھوج ایک ایسے علاقے سے لگایا جہاں نیکولا پائے گئے تھے۔
فلم کا عربی میں ترجمہ اور اس کا عربی ٹی وی اسٹیشنوں پر نشر ہونا تشدد پھوٹنے کا اصل محرک بنا۔ تاہم واشنگٹن میں اس پہلو پر تفیتش کی جا رہی ہے کہ آیا بدترین تشدد بے ساختہ تھا یا نہیں۔
ایک مصری ٹی وی چینل الناس نے ویڈیو سے عربی میں ترجمہ شدہ ٹکڑے نشر کیے۔ جب کہ آن لائن فلم کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا ہے۔