Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, December 9, 2012

میڈیا پر قبضہ: دو سو اہم پاکستانی صحافیوں کو امریکہ برطانیہ تربیت دے رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  امریکی فتح کے لئے ’’عوامی سفارت کاری‘‘ نامی منصوبے کے تحت پاکستانی صحافتی اداروںمیں اہم  ذمہ داریاںادا کرنے  والے تمام صحافیوں  کو امریکہ وبرطانیہ لے جا کر خصوصی تربیت دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں دو سو سے زائد پاکستانی صحافی امریکہ و برطانیہ میں اس وقت تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس نمائندے کو ملنے والی دستاویزات کے مطالعے سے حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں، ایسے پاکستانی صحافی، جنہیں قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے  تحت قومی اداروں کی پوشیدہ کارروائیوں اور تشدد کا سامنا رہا، وہ اس پروگرام کے تحت امریکہ یا برطانیہ میں تربیت حاصل کرچکے  تھے۔دستاویزات کے مطالعے سے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں غیر ملکی اداروں کی جانب سے دی جانے والی اسکالر شپس پاکستانی طلباء کے لئے ہوتی تھیں مگراب امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے دی گئی ان اسکالر شپس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ صحافت کے طلباء کے لئے نہیں بلکہ صرف ان پاکستانی صحافیوں کے  لئے ہیں جو کسی بھی پاکستانی صحافتی ادارے میں اہم ذمہ داری پر فائزہوں، تربیت کے بعد انہیں  ہر حال میں  پاکستان واپس آ کر اپنی اس ملازمت کو جاری رکھنا ہو گا۔ واشنگٹن میں پاکستانی صحافتی حلقوں نے بھی اس حیرت انگیز امریکی پروگرام کے بارے میں تفصیلات  اس نمائندے کوبتاتے ہوئے، اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ اگر یہ پروگرام منصوبے کے مطابق جاری رہتا  ہے تو پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک بن جائے گا، جس کے تمام  صحافتی اداروں کے اکثر اہم افراد امریکہ اور برطانیہ سے، دہشت  گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے خصوصی تربیت  حاصل کر چکے ہوں گے۔ پاکستانی صحافیوں کے لئے جاری کردہ داخلہ فارمز میں امریکی اور برطانوی اداروںنے واضح طور پر لکھا ہے کہ اس تربیت اور امریکہ و برطانیہ کے دورے کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے رائے عامہ کے رہنمائوں اور پالیسی سازوں کو تیار کرنا ہے۔ واشنگٹن کے پاکستانی صحافتی حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس پروگرام کے خالق دراصل ایک پاکستانی  وفاقی وزیر ہی ہیں، انہوں نے ہی یہ حیرت انگیز تجویز  واشنگٹن میں ہونے والے تین روزہ اسٹریٹجک مذاکرات میں پیش کی تھی، جسے امریکیوںنے نا صرف فورا قبول کیا بلکہ رواں برس سے عمل درآمد بھی شروع کردیا۔ مذکورہ وزیر نے21 اکتوبر2010  کو واشنگٹن میں پاکستانی صحافیوں سے گفتگو میں فخریہ اس بات کا تذکرہ کیا تھا اور اگلے روز کے کئی اخبارات نے یہ خبر بھی شائع کی تھی۔امریکی انڈر سیکریٹری جوڈتھ مائیکل، اب اس پروگرام کے بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں،اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے دوران بھی وہی پاکستانی وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ کے ساتھ ان معاملات پر مذاکرات میں اپنے عملے کی سربراہی کررہے تھے۔ برطانیہ کے ایک اور امریکہ کے تین مختلف اداروں کے تعاون سے جاری اس انوکھے پروگرام کے بارے میں، اس نمائندے نے چاروں متعلقہ اداروں سے تصدیق چاہی تو ہر ایک ادارے نے پورے اعتماد کے ساتھ  اپنے اس پروگرام کی تصدیق کی۔ تمام اہم پاکستانی صحافیوں کو تربیت دینے کے لئے سب سے زیادہ سرگرم اس وقت امریکی محکمہ خارجہ ہے، یہ محکمہ ہر سال125  پاکستانی صحافیوں کو ایک سال کے لئے امریکہ لے جا رہا ہے۔ پاکستان میں یو ایس ایجوکیشن فائونڈیشن اس معاملے کو ڈیل کرتی ہے۔ معلومات کے حصول کے لئے کی گئی ای میل کے جواب میں یو ایس ایجوکیشن فائونڈیشن نے اپنی ویب سائٹ کے وزٹ کا مشورہ دیا، وہاں موجود تفصیلات  اس پروگرام کی جزئیات کی تصدیق کرتی ہیں۔ ویب سائٹ پر شرائط کے ضمن میں واضح لکھا ہے کہ صرف وہ پاکستانی صحافی اس پروگرام کے لئے اہل ہیں جو کم از کم پانچ برس سے میڈیا سے منسلک  ہوں اور اس وقت کسی بھی اخبار یا صحافتی ادارے میں کسی اہم ذمہ داری پر فائز ہوں۔اس پروگرام کے تحت دو سال کی تربیت دی جارہی ہے۔