Search This Blog

Total Pageviews

Wednesday, May 9, 2012

اسرائیلی خاتون ایجنٹ مقامی غداروں کی مدد سے ابیٹ آباد میں جاسوسی کر کے فرار ہونے میں کامیاب


اسرائیل سے شائع ہونے والے مشہور اخبار ہیریٹز نے ایک اسرائیلی جاسوس خاتون 47 سالہ الانہ دیان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں دیان بتایا ہے کہ وہ کیسے پاکستان پہنچی، کیسے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ تک گئی سکیورٹی حکام نے کیا کچھ سوالات کئے، کیسے اس نے مقامی فوٹو گرافر مقامی پروڈیوسر وغیرہ کو ہائر کر کے ٹیم تیار کی تاکہ اسامہ بن لادن کے گھر کی فلم بندی کر سکے۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسامہ کے قتل کے بعد پاکستان میں اور خاص طور سے اسلام آباد اور ایبٹ آباد میں خفیہ ادارے پوری طرح چوکس تھے اور کسی بھی غیر ملکی کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس کے پاس اسامہ کے قتل کی پوری تفصیل موجود ہو اور مقامی لوگوں کی انٹرویوز سےلے کر اس گھر کی ویڈیو تک موجود ہو۔ اس کے لئے ایک خاتون صحافی کا انتخاب کیا گیا جو ایجنٹ کے طور پر پاکستان گئی اور مقامی غداروں کو بھرتی کیا اور کامیابی سے اپنا مشن پورا کر کے اسرائیل واپس پہنچ گئی اور اس کامیابی کے چرچے اسرائیلی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ یہودی خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں سے پیسے کے بدلے کچھ بھی کرایا جا سکتا بلکل ایک طوائف کی طرح وہ پیسے لینے کے بعد کوئی سوال نہیں کرتے اور ہر کام کرتے ہیں۔ یہ اسرائیلی یہودی خاتون پاکستان میں ایک جعلی پاسپورٹ پر داخل ہوئی مگر اسے کوئی بھی نہیں پکڑ سکا۔

اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان کا کہنا ہے کہ وہ ارجنٹائن سے بحیثیت ایک ٹورسٹ روانہ ہوئی، اس کی جیب میں ارجنٹائن کا پاسپورٹ تھا، پیشہ وکالت درج تھا، ایئرپورٹ پر پہنچ کر جب وہ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچی تو اس سے کسی قسم کے سوالات نہیں کئے گئے بلکہ اسے دیکھ کر ہر شخص مسکراتا رہا، باہر نکلی تو فائیو اسٹار ہوٹل کا آدمی اسے لینے کے لئے موجود تھا، وہ آرام سے بلارکاوٹ ہوٹل پہنچی، کمرہ میں پہنچا دی گئی لیکن کمرہ میں اس نے سستانے کے انداز میں بستر پر دراز ہو کر موندی آنکھوں سے جائزہ لیا کہ نگرانی کرنے والے آلات کہاں کہاں ممکنہ طورپر پوشیدہ ہو سکتے ہیں، پھر وہ اٹھی، واش روم سے تازہ دم ہو کر نکلی، عمومی لباس پہنا، نیچے اتر کر لابی میں گئی چہل پہل تھی، پسند کا آرڈر دیا، وقت گزارا، لوگوں کو خوش باش پایا اس کی گوری چمڑی اور جدید لباس اور حسن کو دیکھ کر ہر شخص اس کے آگے بچھا جا رہا تھا اور ہر ایک پوچھ رہا تھا کہ کسی خدمت کی ضرورت تو نہیں ہے۔ دوسرے دن اس نے اپنے مقامی ٹیم ممبران کو فون کئے جنہیں وہ یہاں آنے سے قبل ہی بھرتی کر چکی تھی۔ یہ سب مقامی صحافی تھے اور رقم کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے، میں نے اپنی آمد کا بتایا، وہ فوراً ہی ہوٹل پہنچ گئے، اس نے تفصیل سے ٹیم کا جائزہ لیا، آمد کا مقصد انہیں معلوم تھا، انہی لوگوں نے رینٹ اے کار وغیرہ کا بندوبست کیا۔ دوسرے روز ہم اسلام آباد سے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ جا پہنچے، میں عمارت کا جائزہ لینے میں مصروف تھی اور اس کی تفصیلات جمع کررہی تھی کہ پاکستانی فوٹو گرافرز نے کہا کہ یہ لوگ تمہارا پاسپورٹ مانگ رہے ہیں اور ان کا تعلق مقامی خفیہ ادارے سے ہے، میری روح کانپ اٹھی اور میں سمجھی کہ بس اب میں پکڑی گئی اور انہیں میری اصلیت کا پتہ چل چکا ہے، وہ مجھے ایک کمرہ میں لے گئے، پاسپورٹ کا جائزہ لیا، فوٹو کاپی بنوائی، میں نے اپنی لاء فرم کا بزنس کارڈ سامنے رکھ دیا، ٹورسٹ ظاہر کیا۔ یہاں بھی میرے حسن جا دو چل گیا اور سب مجھ سے خوشدلی سے پیش آنے لگے۔ اچھا ماحول دیکھ کر میں نے ان سے عمارت کے اندر جانے کی اجازت مانگی، ان کی شاید نظر میرے کیمرے پر نہیں پڑی، حیرانی اس وقت ہوئی جب سکیورٹی والوں نے مسکرا کر عمارت میں جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت ہو تو میں انہیں بتا سکتی ہوں۔ دیان کا بیان ہے کہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ عمارت میں گئی، کام مکمل کیا، اندر سے میں بے حد تھرلڈ تھی، پاکستانی ٹیم کے ارکان نے مہارت اور پھرتی کے ساتھ ہدایات کے مطابق بہترین کام کیا، ہم سب عمارت سے باہر آ گئے، کار میں بیٹھ کر دور سے لانگ شاٹس شوٹ کئے اور کامیاب دن گزار کر ہوٹل جا پہنچے اور رات کو کامیابی کا جشن منایا، دوسرے دن میری ٹیم نے ایک ایسے پاکستانی صحافی سے ملاقات کروائی جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا نام جمال اسماعیل ہے اور میں فلسطینی ہوں، میری تو جان سی نکل گئی کہ شاید اب میںپکڑی گئی اور ایک فلسطینی تو مجھے پہچان ہی لے گا، میں پوچھنے ہی لگی تھی کہ فلسطین کے کون سے علاقہ سے لیکن فوراً ہی یاد آیا کہ میں تو ارجنٹینا سے آئی ہوں۔ میں نے جمال سے پوچھا کب سے پاکستان میں رہتے ہو؟ جواب ملا تیس سال سے۔ جمال اسماعیل ایک ایسا صحافی ہے جو اسامہ بن لادن سے نہ صرف ملاقات کر چکا ہے بلکہ اس کا تفصیلی انٹرویو بھی کر چکا ہے، یہ جان کر کہ جمال تیس سال سے پاکستانی ہو چکا ہے مجھے بے حد سکون ہوا۔ میری ٹیم سے میری گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی یا انہوں نے مجھے اپنی پروڈیوسر سے اسپینش میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، انہیں ہرگز احساس نہ ہوا کہ میں اسرائیلی ہوں البتہ انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ میں ارجنٹینا سے آئی ہوں، صحافی ہوں مگر پاکستان میں خفیہ طریقے سے کام کررہی ہوں، اسامہ بن لادن پر ڈاکومینٹری بنا رہی ہوں، پاکستانی صحافی متعدد ممالک کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انہیں اپنے معاوضہ سے دلچسپی ہوتی ہے، پیسے لینے کے بعد کسی طوائف کی طرح وہ اپنے گاہک سے سوال جواب نہیں کیا کرتے، اعتماد کا بھرم رکھتے ہیں تاکہ اضافی انٹرنیشنل بزنس ملے۔ اس طرح اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان پاکستان میں مقامی غداروں کی مدد سے جاسوسی مشن کو کامیابی سے مکمل کر واپس اسرائیل پہنچ گئی۔ اس کا کہنا ہےکہ جانے سے قبل ہی اس نے تمام مواد، ویڈیوز اور تصاویر انٹر نیٹ کے ذریعے اسرائیل پہنچا دی تھیں تاکہ کسی قسم کی تلاشی کے دوران اس سے کچھ مواد برآمد نہ ہو مگر کسی نے بھی اس کی تلاشی نہ لی اور وہ اپنے حسن کے جلوئوں سے ساری رکاوٹیں ہٹاتی آسانی سے اسرائیل پہنچ گئی۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے زیراہتمام نومبر2011 کی آخری تاریخ کو ایک ڈانس پارٹی  منعقد کی گئی تھی۔ جس میں امریکی سفیرکیمرون منٹر بھی پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ناچتے رہے تھے۔  "کچھ خاص "کے نام سے ہونے والی اس ڈانس پارٹی میں صرف ان پاکستانیوں کو انے کی اجازت تھی جو  جوڑے کی شکل میں ارہےتھے جب کہ امریکہ سے بھی خصوصی طور پر ڈانس گرلز کو بلایا گیا تھا، اس ڈانس پارٹی کی کچھ مزید تفصیلات اب  اس نمائندے کو حاصل ہوئی ہیں اور کچھ ایسی طالبات نے اس نمائندے سےرابطہ کیا ہے جو اس پارٹی میں شریک ہوئی تھیں اور ان کی شکایت ہے کہ پارٹی میں انہیں یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ  صرف پاکستانی روایتی ڈانس کے مناظر دکھائے جائیں گے اور پھر امریکی یونیورسٹیوں میںداخلے کی معلومات دی جائیں گی۔ پاکستان طلبہ و طالبات کو بتایا گیا تھا کہ اس پارٹی میں شرکت سے ان کے امریکی تعلیمی اسکالر شپ کے حصول کے لئے راستےکھل جائیں گے۔ اسی باعث پاکستانی یونیورسٹیز کے کافی طلبہ نے پارٹی میں شرکت کے لئے فارم جمع کرائے۔،
 اس ڈانس پارٹی میں پاکستان بھر سے  یونیورسٹیز کےطلبہ و طالبات کو منتخب کر کے بلایا گیا تھا ۔ اس پارٹی میںشریک ہونے والے ایک طالب علم کاکہنا تھا طلبہ کو  جوس کے نام پر دھوکے سے شراب پلا دی گئی اور بہت سی پاکستانی طالبات جو صرف اس لئے اس ڈانس پارٹی میں شریک ہو گئی تھیں کہ انہیں امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جائے گا، شراب پینے کے بعد مدہوش ہو کر انتہائی اخلاق سوز حرکات کا نشانہ بنیں۔ انہیں نشے میں مدہوش ہو کر ناچنے پر اکسایا جاتا رہا اور اس کی نا صرف پوری فلم بندی کی گئی بلکہ سیکڑوں تصاویر بھی اتاری گئیں۔ اب خدشہ اس بات کا ہے  کہ ان تصاویر کو کہیں ان طالبات و طلبہ کو بلیک میل کرنے کے لئے نہ استعمال کیا جائے۔ خود امریکی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے زیراہتمام ایک کلچرل پروگرام منعقد ہوا تھا۔ جس میں شکاگو سے آئے ہوئے فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔تقریب میں آئے ہوئے حاضرین کو محظوظ کرنے کے لیے نہ صرف مغربی دھنوں پر پرفارم کیا گیا بلکہ مشرقی دھنوں نے بھی حاضرین کو خوب گرمایا۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر بھی ایک موقع پر دھمال سے متاثر ہوکر جھوم اٹھے تھے۔تقریب کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی اہل کار کا کہنا تھا کہ اس کلچرل پروگرام میں صرف طلبہ و طالبات کو مدعو کیا گیا تھا ، امریکی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانہ پاکستانی عوام کے ساتھ شراکت داری چاہتا ہے اسی لئے ڈانس پارٹی کا انعقاد کیا گیا تھا۔
 واضح رہے کہ اس  ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے جو ڈانسر امریکہ سےبلائے گئے تھے وہ بعد میں اسلام آباد میں جاسوسی کرتے گرفتار ہوئے۔ یکم دسمبر 2011 کوراولپنڈی کے علاقے کچہری چوک کے قریب سے پولیس نے جی ایچ کیو سمیت دیگر حساس عمارتوں کی فوٹیج بناتے ہوئے 10 امریکی  عورتوں اور مردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اور پھر پوچھ گچھ کے بعد تمام وڈیو فوٹیج ضائع کرنے کے بعد رہا کر دیا ،تمام امریکی بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑیوں میں سوار اور انتہائی مختصر کپڑوں میں تھے گرفتاری کے  بعد وہ تھانے میں بھی پولیس اہلکاروں  کو ڈانس کے اسٹیپ سکھانے کی پیشکش کرتے رہے‘ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے امریکی شہریوں پر حساس عمارتوں کی فوٹیج بنانے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امریکی شہری فنکار ہیں جو مقامی یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے اور انہیں پاکستان ایک ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے بلایا گیا تھا اس پارٹی میں پاکستانی طلبا و طالبات کو شریک کیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق فاطمہ جناح یونیورسٹی میں ایک تقریب کے بعد لینڈکروزرگاڑی میں واپس جاتے ہوئے جی ایچ کیو سمیت دیگر حساس عمارتوں کی فوٹیج بنا رہے تھے کہ اس دوران ڈیوٹی پر موجود ٹریفک وارڈنز نے دومقامات پر روکنے کی کوشش کی تاہم نہ رکے جس پر وارڈنز نے تعاقب کرکے گاڑی کو ائرپورٹ کے قریب روک لیا اور اس کی فوری طور پر اطلاع قریبی تھانے میں دی جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور تمام امریکیوں کو گرفتار کر کے تھانے لے جایاگیا جہاں پر امریکی سفارتخانے سے تفصیلات آنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔