اسرائیل سے شائع ہونے والے مشہور اخبار ہیریٹز نے ایک اسرائیلی جاسوس خاتون 47 سالہ الانہ دیان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں دیان بتایا ہے کہ وہ کیسے پاکستان پہنچی، کیسے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ تک گئی سکیورٹی حکام نے کیا کچھ سوالات کئے، کیسے اس نے مقامی فوٹو گرافر مقامی پروڈیوسر وغیرہ کو ہائر کر کے ٹیم تیار کی تاکہ اسامہ بن لادن کے گھر کی فلم بندی کر سکے۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسامہ کے قتل کے بعد پاکستان میں اور خاص طور سے اسلام آباد اور ایبٹ آباد میں خفیہ ادارے پوری طرح چوکس تھے اور کسی بھی غیر ملکی کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس کے پاس اسامہ کے قتل کی پوری تفصیل موجود ہو اور مقامی لوگوں کی انٹرویوز سےلے کر اس گھر کی ویڈیو تک موجود ہو۔ اس کے لئے ایک خاتون صحافی کا انتخاب کیا گیا جو ایجنٹ کے طور پر پاکستان گئی اور مقامی غداروں کو بھرتی کیا اور کامیابی سے اپنا مشن پورا کر کے اسرائیل واپس پہنچ گئی اور اس کامیابی کے چرچے اسرائیلی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ یہودی خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں سے پیسے کے بدلے کچھ بھی کرایا جا سکتا بلکل ایک طوائف کی طرح وہ پیسے لینے کے بعد کوئی سوال نہیں کرتے اور ہر کام کرتے ہیں۔ یہ اسرائیلی یہودی خاتون پاکستان میں ایک جعلی پاسپورٹ پر داخل ہوئی مگر اسے کوئی بھی نہیں پکڑ سکا۔
اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان کا کہنا ہے کہ وہ ارجنٹائن سے بحیثیت ایک ٹورسٹ روانہ ہوئی، اس کی جیب میں ارجنٹائن کا پاسپورٹ تھا، پیشہ وکالت درج تھا، ایئرپورٹ پر پہنچ کر جب وہ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچی تو اس سے کسی قسم کے سوالات نہیں کئے گئے بلکہ اسے دیکھ کر ہر شخص مسکراتا رہا، باہر نکلی تو فائیو اسٹار ہوٹل کا آدمی اسے لینے کے لئے موجود تھا، وہ آرام سے بلارکاوٹ ہوٹل پہنچی، کمرہ میں پہنچا دی گئی لیکن کمرہ میں اس نے سستانے کے انداز میں بستر پر دراز ہو کر موندی آنکھوں سے جائزہ لیا کہ نگرانی کرنے والے آلات کہاں کہاں ممکنہ طورپر پوشیدہ ہو سکتے ہیں، پھر وہ اٹھی، واش روم سے تازہ دم ہو کر نکلی، عمومی لباس پہنا، نیچے اتر کر لابی میں گئی چہل پہل تھی، پسند کا آرڈر دیا، وقت گزارا، لوگوں کو خوش باش پایا اس کی گوری چمڑی اور جدید لباس اور حسن کو دیکھ کر ہر شخص اس کے آگے بچھا جا رہا تھا اور ہر ایک پوچھ رہا تھا کہ کسی خدمت کی ضرورت تو نہیں ہے۔ دوسرے دن اس نے اپنے مقامی ٹیم ممبران کو فون کئے جنہیں وہ یہاں آنے سے قبل ہی بھرتی کر چکی تھی۔ یہ سب مقامی صحافی تھے اور رقم کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے، میں نے اپنی آمد کا بتایا، وہ فوراً ہی ہوٹل پہنچ گئے، اس نے تفصیل سے ٹیم کا جائزہ لیا، آمد کا مقصد انہیں معلوم تھا، انہی لوگوں نے رینٹ اے کار وغیرہ کا بندوبست کیا۔ دوسرے روز ہم اسلام آباد سے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ جا پہنچے، میں عمارت کا جائزہ لینے میں مصروف تھی اور اس کی تفصیلات جمع کررہی تھی کہ پاکستانی فوٹو گرافرز نے کہا کہ یہ لوگ تمہارا پاسپورٹ مانگ رہے ہیں اور ان کا تعلق مقامی خفیہ ادارے سے ہے، میری روح کانپ اٹھی اور میں سمجھی کہ بس اب میں پکڑی گئی اور انہیں میری اصلیت کا پتہ چل چکا ہے، وہ مجھے ایک کمرہ میں لے گئے، پاسپورٹ کا جائزہ لیا، فوٹو کاپی بنوائی، میں نے اپنی لاء فرم کا بزنس کارڈ سامنے رکھ دیا، ٹورسٹ ظاہر کیا۔ یہاں بھی میرے حسن جا دو چل گیا اور سب مجھ سے خوشدلی سے پیش آنے لگے۔ اچھا ماحول دیکھ کر میں نے ان سے عمارت کے اندر جانے کی اجازت مانگی، ان کی شاید نظر میرے کیمرے پر نہیں پڑی، حیرانی اس وقت ہوئی جب سکیورٹی والوں نے مسکرا کر عمارت میں جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت ہو تو میں انہیں بتا سکتی ہوں۔ دیان کا بیان ہے کہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ عمارت میں گئی، کام مکمل کیا، اندر سے میں بے حد تھرلڈ تھی، پاکستانی ٹیم کے ارکان نے مہارت اور پھرتی کے ساتھ ہدایات کے مطابق بہترین کام کیا، ہم سب عمارت سے باہر آ گئے، کار میں بیٹھ کر دور سے لانگ شاٹس شوٹ کئے اور کامیاب دن گزار کر ہوٹل جا پہنچے اور رات کو کامیابی کا جشن منایا، دوسرے دن میری ٹیم نے ایک ایسے پاکستانی صحافی سے ملاقات کروائی جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا نام جمال اسماعیل ہے اور میں فلسطینی ہوں، میری تو جان سی نکل گئی کہ شاید اب میںپکڑی گئی اور ایک فلسطینی تو مجھے پہچان ہی لے گا، میں پوچھنے ہی لگی تھی کہ فلسطین کے کون سے علاقہ سے لیکن فوراً ہی یاد آیا کہ میں تو ارجنٹینا سے آئی ہوں۔ میں نے جمال سے پوچھا کب سے پاکستان میں رہتے ہو؟ جواب ملا تیس سال سے۔ جمال اسماعیل ایک ایسا صحافی ہے جو اسامہ بن لادن سے نہ صرف ملاقات کر چکا ہے بلکہ اس کا تفصیلی انٹرویو بھی کر چکا ہے، یہ جان کر کہ جمال تیس سال سے پاکستانی ہو چکا ہے مجھے بے حد سکون ہوا۔ میری ٹیم سے میری گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی یا انہوں نے مجھے اپنی پروڈیوسر سے اسپینش میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، انہیں ہرگز احساس نہ ہوا کہ میں اسرائیلی ہوں البتہ انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ میں ارجنٹینا سے آئی ہوں، صحافی ہوں مگر پاکستان میں خفیہ طریقے سے کام کررہی ہوں، اسامہ بن لادن پر ڈاکومینٹری بنا رہی ہوں، پاکستانی صحافی متعدد ممالک کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انہیں اپنے معاوضہ سے دلچسپی ہوتی ہے، پیسے لینے کے بعد کسی طوائف کی طرح وہ اپنے گاہک سے سوال جواب نہیں کیا کرتے، اعتماد کا بھرم رکھتے ہیں تاکہ اضافی انٹرنیشنل بزنس ملے۔ اس طرح اسرائیلی خاتون ایجنٹ الانہ دیان پاکستان میں مقامی غداروں کی مدد سے جاسوسی مشن کو کامیابی سے مکمل کر واپس اسرائیل پہنچ گئی۔ اس کا کہنا ہےکہ جانے سے قبل ہی اس نے تمام مواد، ویڈیوز اور تصاویر انٹر نیٹ کے ذریعے اسرائیل پہنچا دی تھیں تاکہ کسی قسم کی تلاشی کے دوران اس سے کچھ مواد برآمد نہ ہو مگر کسی نے بھی اس کی تلاشی نہ لی اور وہ اپنے حسن کے جلوئوں سے ساری رکاوٹیں ہٹاتی آسانی سے اسرائیل پہنچ گئی۔
No comments:
Post a Comment