Search This Blog

Total Pageviews

Thursday, May 10, 2012

مسلمانوں کو جرمنی کا امن وامان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔وزیر داخلہ

جرمن سیاسی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو قانون کی حکمرانی کا احساس دلایا جائے۔ تاہم جرمن قانون کے تحت شدت پسندوں کو ملک بدر کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مشترکہ موقف ہے کہ  مسلمانوں کو قانونی حدود کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی حلقوں نے ملک میں مسلمانوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مابین لڑائی جھگڑے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش نے کہا کہ  شدت پسندوں کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’یقیناً کچھ مخصوص حالات میں مجرم، سزا یافتہ افراد اور شدت پسند جرمنی سے نکالے سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ ہو تو آپ اس سے جرمن شہریت نہیں چھین سکتے۔ یہ بنیادی قانون ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے انفردی سطح پر کیسز کا جائزہ لیا جائے گا اور قانون کی حکمرانی کو نظر میں رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ہنش پیٹر فریڈرش کے مطابق حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ تشدد پر آمادہ  مسلمان ملک کا امن و امان خراب کریں۔ ۔ ان کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی نگرانی کی جائے اور حالات قابو میں رکھے جائیں۔

ماحول دوست گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی کلاؤڈیا روتھ نے حکمران جماعت سی ڈی یو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ریاستی انتخابات سے قبل صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسند  اور امن پسند مسلمانوں کے مابین فرق رکھنا بہت ضروری ہے۔ جرمنی میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران شدت پسند  مسلمانوں اور دائیں بازو کی جماعت پرو این آر ڈبلیو کے مابین لڑائی جھگڑے کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس دوران متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اس کے بعد سے جرمنی میں  مسلمانوں پر تنقید برھتی جا رہی ہے۔’’پرو این آر ڈبلیو‘‘ نامی جماعت ریاستی انتخابات سے قبل کئی ہفتوں سے مساجد کے باہر مظاہرے کر رہی ہے۔ یکم مئی کو زولنگن میں کیا جانے والا اسی طرح کا ایک احتجاج اس وقت پرتشدد رنگ اختیار کر گیا، جب مظاہرین نے مسجد کے باہر پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے دکھائے۔ اِس پر وہاں موجود مسلمان ارکان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے پولیس کی جانب سے بنائی گئی حفاظتی دیوار توڑنے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق اس دوران مسلمانوں کی جانب سے پولیس پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور پتھراؤ بھی کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے بون میں ہونے والے ایک ایسے ہی واقعے میں 29 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔