Search This Blog

Total Pageviews

Friday, May 11, 2012

گجرات فسادات کیس: اٹھارہ افراد کوعمر قید

بھارتی ریاست گجرات کی ایک خصوصی عدالت نے سنہ 2002 کے فسادات کے دوران ضلع آنند کے اوڈ گاؤں میں نو خواتین اور نو بچوں سمیت 23 افراد کو جلا کر ہلاک کرنے کے جرم میں اٹھارہ افراد کو عمر قید اور پانچ کو سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔
اس سے پہلے عدالت نے اس معاملے میں دیگر تئیس ملزمان کو ناکافی ثبوتوں کے سبب الزامات سے بری کر دیا تھا۔
عدالت نے قتل عام کے اس کیس میں سازش کے پہلو کو بھی تسلیم کیا تھا اس لیے متاثرین کے وکلاء نےعدالت سے درخواست کی تھی کہ جرم کی سنگینی کے پیش نظرمجرموں کو سزائے موت دی جائے۔
لیکن جج پونم سنگھ نے تئیس میں سے اٹھارہ افراد کو عمر قید اور باقی پانچ کو سات سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔
فیصلے کے بعد قصور واروں کے اہل خانہ کی ایک بھیڑ نے عدالت کے باہر نعرے بازی اور مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جسے پولیس نے منتشر کر دیا۔ دفاعی وکیل نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو گجرات کی ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
اوڈ گاؤں کے پیراولی بھگول قتل عام کے نام سے مشہور یہ واقعہ یکم مارچ 2002 کو رونما ہوا تھا۔ گودھرا ٹرین کے واقعے کے بعد کشیدگی کے دوران تیس سے زیادہ مسلمانوں نے ایک دو منزلہ مکان میں پناہ لے رکھی تھی۔ ہندوؤں کے ایک بڑے ہجوم نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا تھا اور باہر سے دروازے پر تالا لگا کر پٹرول اور کیروسین سے پورے مکان میں آگ لگا دی تھی۔
"اوڈ گاؤں کے پیراولی بھگول قتل عام کے نام سے مشہور یہ واقعہ یکم مارچ 2002 کو رونما ہوا تھا۔ گودھرا ٹرین کے واقعے کے بعد کشیدگی کے دوران تیس سے زیادہ مسلمانوں نے ایک دو منزلہ مکان میں پناہ لے رکھی تھی۔ ہندوؤں کے ایک بڑے ہجوم نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا تھا اور باہر سے دروازے پر تالا لگا کر پٹرول اور کیروسین سے پورے مکان میں آگ لگا دی تھی۔
"
اس واقعے میں نو خواتین نو بچے اور پانچ مرد مارے گئے تھے۔ تاہم کئی افراد نے مکان سے کود کر جان بچائی تھی جو بعد میں اس واقعے کے چشم دید گواہ بنے۔
یہ واقعہ گجرات فسادات کے ان نو اہم واقعات میں شامل ہے جن کی سریم کورٹ نے ایک خصوصی ٹیم کے ذریعے دو بارہ تفتیش کرائی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت ایک خصوصی عدالت نے کی اور سپریم کورٹ اس کی نگرانی کر رہی تھی۔
بھارت کی تاریخ میں اس طرح کی بہت کم مثالیں ہیں جب فسادات میں ہجوم کے اجتماعی تشدد کے معاملات میں اتنی بڑی تعداد میں قصورواروں کو سزائیں دی گئی ہوں۔
کئی غیر سرکاری تنظیمیں جو متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے برسوں سے کوشش کر رہی تھیں انہوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔