Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, October 7, 2012

چیف جسٹس افتخار چوہدری اگلے ہفتے استعفی دے دیں گے۔ اہم شخصیت کا دعوی

CJOP Iftikhar Muhammad Chaudhary
اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بار پھر نئے چہروں کے ساتھ بعض عناصر ایک انتہائی بااثر شخصیت کے ساتھ مل کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک ”مہلک“ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاکہ مذکورہ بااثر شخصیت یہ ثابت کرسکے کہ عدالت اس کے ساتھ انصاف نہیں کررہی۔ اس منصوبے کی تیاریوں میں شامل ایک شخص نے  اس نمائندے کو اشارہ دیا کہ یہ ”دھماکا“ اگلے ہفتے میں کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ حکومت بظاہر ایک غیر جانبدار تماشائی کی طرح رویہ رکھنے کے باوجود عدلیہ پر حملے کی حمایت کرے گی ۔ تاہم کچھ روز قبل جب   اس نمائندے نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سے رابطہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ہے۔ کوئی اشارہ نہیں دیا جارہا کہ آیا اس ”دھماکا خیز مواد“ کی نوعیت کیسی ہے لیکن دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ”حقائق“ سے پردہ اُٹھانے والی پریس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ہی چیف جسٹس مستعفی ہوجائیں گے۔ اس نئے ”دھماکے“ کے موجدوں میں سے ایک موجد موجودہ نظام میں بااثر اور طاقتور لوگوں کے غلط کام ، ان کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی تباہی دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ باوجود اس کے ذریعہ نے اصرار کیا کہ یہ عدلیہ اور میڈیا ہیں جو پاکستان کے مفاد کو سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی اس معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کرے گی تاہم تاثر یہی دیا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لاپتہ افراد اور بلوچستان بحران کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے خوش نہیں، تاہم ایک ذریعے نے حال ہی میں اس نمائندے کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ٹریپ گیٹ اسکینڈل میں آئی ایس آئی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی کو ان معاملات سے دور رہنے کی سخت ہدایت کی ہیں۔ ملک ریاض نے حال ہی میں اس نے ملنے والے صحافیوں کو یہ معلومات فراہم کی تھیں جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں نے مبینہ طور پر رقم وصول کرتے ہوئے ڈاکٹر ارسلان کی ویڈیو بنائی تھی ۔ تاہم ڈاکٹر ارسلان نے ان الزامات سے انکار جبکہ آئی ایس آئی حکام نے بھی ایسی رپورٹس کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات بھی کی گئی تھی لیکن اس کے نتائج تاحال معلوم نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ٹریپ گیٹ کے منظر عام پر آنے کے وقت میڈیا میں یہ کہا جارہا تھا کہ اسکینڈل برطانوی میڈیا میں زوروشور سے سامنے آئے گا ۔ اس اسکینڈل کے منتظر اور اس سے خوش ہونے والے افراد کو ایسا نہ ہونے پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسکینڈل پاکستانی میڈیا میں پہلے منظر عام پر آگیا

ایران اور حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو شام پہنچ گئے، باغیوں کا قتلِ عام


شامی اپوزیشن کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ لبنان کی طاقتور ملیشیا کے جنگجوؤں کو لیکر 25 بسیں شامی علاقے میں داخل ہوئیں ہیں تاہم اس دعوے کی کسی دوسرے آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ ادھر برطانوی اخبار "ٹائمز" نے شام میں حزب اللہ کے 1500 جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ اخبار نے اتنی ہی تعداد میں ایرانیوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جس کا تعلق پاسداران انقلاب سے بتایا جاتا ہے۔اخبار نے اس امر کا انکشاف شامی ایئرفورس سے منحرف ہونے والے ایک سابق عہدیدار کے حوالے سے کیا ہے۔ یہ عہدیدار امسال اگست میں سرکاری فوج سے منحرف ہونے کے بعد ان دنوں لبنان میں مقیم ہے۔ٹائمز' کے مطابق حزب اللہ کے ارکان شام کی سرکاری فوج کو لاجسٹک امداد کے علاوہ افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیز وہ فوج میں شامل شوٹرز کو پیشہ وارانہ تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ارکان سرکاری فوج میں شامل کرائے کے قاتلوں کو گینگ وار کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔
حزب اللہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید کے باوجود تنظیم کے مقرب ذرائع، شامی جیش الحر اور خفیہ معلومات تک رسائی رکھنے والے باخبر سفارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لیکر جنگی ساز و سامان تک پہنچا رہی ہے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری اور تنظیم کے دیگر عہدیداروں پر شامی بحران میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں ہیں۔
یہ رپورٹ حزب اللہ کے متعدد اہلکاروں بشمول سرکردہ رہنما علی حسین ناصیف المعروف ابو العباس کی شام میں ہلاکت کے چند دن بعد سامنے آئی ہے۔حزب اللہ نے لبنان میں ناصیف کی تدفین کے موقع پر حزب اللہ کے اہم رہنما موجود تھے، جنہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ناصیف، شام میں اپنا جہادی فرض ادا کرتے ہوئے کام آئے جبکہ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ابو العباس حمص کے قصبے القصیر میں مارے گئے