مصرکے صدر محمد مرسی نے اعلیٰ آئینی عدالت کے پارلیمان کی بحالی کے لیے صدارتی فرمان کو کالعدم قرار دینے سے متعلق فیصلے کا احترام کرنے کا اعلان کیا ہے۔صدر مرسی کے دفترکی جانب سے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ''اگر آئینی عدالت کا کل کا حکم پارلیمان کو اس کی ذمے داریاں ادا کرنے سے روکتا ہے تو ہم اس کا احترام کریں گے کیونکہ ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں''۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ''موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں،اداروں اور عدلیہ کی سپریم کونسل سے مشاورت کی جائے گی''۔ انھوں نے کہا کہ ''انھوں نے مصری ججوں کے احکامات کی پاسداری کا عزم کررکھا ہے۔وہ ریاستی اختیارات کو منظم انداز میں بروئے کار لانے کے خواہاں ہیں اور کسی بھی محاذ آرائی سے بچنا چاہتے ہیں''۔سپریم دستوری عدالت نے منگل کو صدر محمد مرسی کے برخاست شدہ پارلیمان (پیپلز اسمبلی) کو بحال کرنے اور اس کا اجلاس بلانے سے متعلق جاری کردہ حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور پیپلز اسمبلی کی بحالی کے لیے جاری کردہ صدارتی فرمان کو منجمد کرنے کا حکم دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ اس کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے اور پارلیمان کے ایوان زیریں کو برخاست کرنے کے سابقہ فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد مرسی نے گذشتہ اتوار کو منصب صدارت سنبھالنے کے صرف آٹھ روز بعد ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے ذریعے سپریم آئینی عدالت کے منتخب پیپلز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور ایوان کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی لیکن مصر کی اعلیٰ آئینی عدالت نے ایک روز بعد ہی صدر مرسی کے حکم نامے کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد وہ فوج اور عدلیہ کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے تھے اور فوج کا یہ کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سپریم آئینی عدالت نے صدر محمد مرسی کے حکم نامے کے ردعمل میں کہا تھا کہ اس کے تمام فیصلوں کی پابندی لازمی ہے۔عدالت کے ججوں نے سوموار کو صدارتی حکم پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس منعقد کیا تھا جس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ''عدالت کے تمام احکامات اور فیصلے حتمی ہیں اور ان کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جاسکتی ہے۔تمام ریاستی اداروں کے لیے ان کی پابندی لازمی ہے''۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد صدر مرسی اور مصر کی اعلیٰ عدالت اور مسلح افواج کی سپریم کونسل کے درمیان نئی محاذآرائی اور اختیارات کی جنگ نے جنم لیا ہے اور اب واضح طور پر اسلامی جماعتوں کی بالادستی والی تحلیل شدہ پارلیمان اور عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی ایک طرف اور طاقتور عسکری کونسل اور اس کی حامی اعلیٰ عدلیہ دوسری جانب کھڑے ہیں اور ان کے درمیان اختیارات کی علانیہ جنگ جاری ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر کی عسکری اور سیاسی قیادت کو محاذ آرائی سے گریز کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے موجودہ بحران کا حل تلاش کریں۔انھوں نے کہا کہ ''مصری عوام کو وہ کچھ ملنا چاہیے جس کے لیے وہ احتجاجی مظاہرے کرتے رہے تھے اور انھوں نے ووٹ دیے تھےاور یہ ایک مکمل منتخب حکومت ہے جو ملک کو آگے لے جانے کے لیے فیصلے کرے''۔ہلیری کلنٹن ہفتے کے روز مصر کے دورے پر قاہرہ آئیں گی۔