.....ملالہ پر ہمیں کوئی ملال نہیں.....
تحریر: ام ہانی
تحریر: ام ہانی
ہر طرف غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، پوری دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ کافر ہوں یا مسلمان، ہر کوئی غم کے آنسو بہارہا ہے، ہر طرف سے مذمتی بیانات جاری کئے جارہے ہیں۔ مساجد سے لے کر اسکول کالجوں تک، مندروں سے لے کر گرجا گھروں تک، ہر جگہ دعائیہ اجتماعات منعقد ہورہے ہیں۔ ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دینے کی نویدیں سنائی جارہی ہیں۔ وزیر داخلہ پاکستان سے لے کر وزیرخارجہ امریکہ تک، صدرِ پاکستان سے لے کر صدر افغانستان تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک، حتی کہ صدرِ امریکہ سے لے کر امریکی گلوکارہ میڈونا تک، ہر کوئی غمِ فراق میں گھلا جارہا ہے۔ کیونکہ سوات کی رہنے والی ایک چودہ پندرہ سالہ:
.....معصوم سی لڑکی.....
ملالہ یوسف زئی کو معاشرے میں انتہاپسند کہلانے والے چند لوگوں نے سر پر گولی مار کر قتل کرنے کی کوشش کی!
سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ کو کس جرم کی پاداش میں گولی ماری گئی؟ اس کا ایسا کیا قصور تھا کہ اس کو یہ سزا دی گئی؟ اس نے ایسا کونسا فعل انجام دیا تھا جس بناء پر صنف نازک ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا کیا گیا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کو قتل کرکے فاسفورس بموں سے جلانے والے، مظلوم ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے والے، معصوم آمنہ کو اس کے خواہش کے برعکس اس کی کافر والدہ کے حوالے کرنے والے، مہاجرین ِسوات کے کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو اغواء کرکے قحبہ خانوں کی زینت بنانے والے، عراق میں دوائیاں روک کر دس لاکھ عراقی بچوں کو موت کی نیند سلانے والے، آخر آج ملالہ کے غم میں کیوں گھلے جارہے ہیں؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ کو کس جرم کی پاداش میں گولی ماری گئی؟ اس کا ایسا کیا قصور تھا کہ اس کو یہ سزا دی گئی؟ اس نے ایسا کونسا فعل انجام دیا تھا جس بناء پر صنف نازک ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا کیا گیا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کو قتل کرکے فاسفورس بموں سے جلانے والے، مظلوم ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے والے، معصوم آمنہ کو اس کے خواہش کے برعکس اس کی کافر والدہ کے حوالے کرنے والے، مہاجرین ِسوات کے کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو اغواء کرکے قحبہ خانوں کی زینت بنانے والے، عراق میں دوائیاں روک کر دس لاکھ عراقی بچوں کو موت کی نیند سلانے والے، آخر آج ملالہ کے غم میں کیوں گھلے جارہے ہیں؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
روزنامہ امت کراچی میں ملالہ یوسف زئی پر13/10/2012 شائع ہونے والی رپورٹ میں کچھ یوں لکھا تھا:
”مینگورہ کے ایک سینئر صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ ایک حساس لڑکی ہے اور ذہین بھی، مگر اس کی ڈائریوں میں بھی اور بعد میں اس کے تمام معاملات میں اس کے والد کا ضرورت سے زیادہ اعتماد اورغیر محتاط رویہ تھا، جس نے ملالہ کو خطرے کی زد میں لاکھڑا کیا۔ ذرائع کے مطابق مینگورہ کی میڈیا برادری کو اس بات کا علم ہے کہ ملالہ کی بیشتر ڈائریاں اس کے والد کی لکھی ہوئی ہیں۔ ڈائری کی زبان اور رائٹنگ ایک چوتھی جماعت کی بچی کے دماغ کی عکاس نہیں ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک ڈائری میں ملالہ کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’برقع‘‘ پتھر کے دور کی یادگار ہے اور داڑھی دیکھ کر ’’فرعون‘‘ یا د آجاتا ہے“۔
”مینگورہ کے ایک سینئر صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ ایک حساس لڑکی ہے اور ذہین بھی، مگر اس کی ڈائریوں میں بھی اور بعد میں اس کے تمام معاملات میں اس کے والد کا ضرورت سے زیادہ اعتماد اورغیر محتاط رویہ تھا، جس نے ملالہ کو خطرے کی زد میں لاکھڑا کیا۔ ذرائع کے مطابق مینگورہ کی میڈیا برادری کو اس بات کا علم ہے کہ ملالہ کی بیشتر ڈائریاں اس کے والد کی لکھی ہوئی ہیں۔ ڈائری کی زبان اور رائٹنگ ایک چوتھی جماعت کی بچی کے دماغ کی عکاس نہیں ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک ڈائری میں ملالہ کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’برقع‘‘ پتھر کے دور کی یادگار ہے اور داڑھی دیکھ کر ’’فرعون‘‘ یا د آجاتا ہے“۔
اسی طرح 11اکتوبر 2012 روز نامہ امت کراچی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کچھ یوں لکھا تھا:
”سوات کے ایک اور ذمہ دار صحافی نے
’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ کے حوالے سے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری غیر
ملکی اور ملکی الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر ملکی این جی او کی بھی ہے،
جو اس بچی کے نام سے اپنے مطلب کی چیزیں چلاتے رہے۔ اس معاملے میں ملالہ
کے قریبی عزیز بھی شریک ہیں، ورنہ 2009ء میں 9 برس کی ملالہ کی ’’ڈائریاں‘‘
پڑھیں (جوکہ اس وقت بی بی سی پر شائع ہوتی تھیں) تو وہ جس پختہ سوچ کی
عکاس ہیں، وہ ایک بچی کی نہیں۔ ان (صحافی ) کے بقول اوباما کو ہیرو قرار
دینے والا انٹرویواس بچی کا نہیں بلکہ وہ گواہ ہیں کہ بعض مواقع پر اسے لکھ
کر دیا جاتا تھا اور بعض اوقات تو ریکارڈنگ روک کر بتایا جاتا تھا کہ وہ
یہ بات کہے۔ ایسے میں ان کے نزدیک ملالہ پر حملوں کی ذمہ داری مسلح افرادکے
ساتھ ان پر بھی عائد ہوتی ہے، جنہوں نے ایک ’’عالمی کھیل‘‘ میں اس معصوم
بچی کو استعمال کیا.ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی (طالبان کے خلاف
بننے والے) سوات قومی جرگہ کے مرکزی ترجمان اور ایک این جی او’’گلوبل پیس
کونسل
‘‘(Globle Peace Concil) کے صدر ہیں“۔
چنانچہ ان خدمات پرملالہ یوسف زئی کو ملکی اور غیر ملکی طور پر مختلف
ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 19دسمبر 2011ء کو اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نے
ملالہ کو پہلے (Pakistan’s National Peace Prize) کے ایوارڈ سے نوازا اور
2011ء میں اس کو عالمی طورپر (International Children's Peace Prize) بھی
عطا کیا گیا اور 3جنوری 2012ء کو حکومت پاکستان نے ملالہ کی خدمات کا
اعتراف کرتے ہوئے سوات کے ایک گورنمنٹ اسکول کو اس کے نام سے منسوب کردیا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]
”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْ حَرْبٌ, وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔ (تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔
چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)
’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔
دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)
’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ ملالہ یوسف کے باپ کا تو قصور سمجھ آتا ہے مگر خود ملالہ تو ایک معصوم بچی تھی، اور اسلام تو کافروں کی عورتوں اور بچوں کی جان لینے سے بھی منع کرتا ہے تو کس طرح ایک مسلمان بچی کا خون بہانا حلال ہوگیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفار کا ساتھ دینے والے کا حکم انہی کفار کے حکم جیسا ہے، بالکل اسی طرح کفار کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا حکم بھی انہی کفار کی عورتوں اور بچوں جیسا ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ بلاضرورت ان کفار کا، اور ان کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کفار کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ بطور ان کی جان کی حرمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن سکتے ہیں جبکہ مرتدین کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ ان کا مسلمان ہونا ہے۔
چنانچہ شریعت میں کفار ومرتدین کے معصوم الدّم لوگوں یعنی ان کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کا قتل کرنا حرام ہے، مگر اُنہیں اس حالت میں قتل کرنا جائز ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اُٹھالیں یا ایسے کام سرانجام دیں کہ جو لڑائی کے کاموں کے معاون بنیں۔ خواہ یہ جاسوسی کرنے یا امداد دینے یا رائے دینے یا اسی طرح کے دوسرے کام ہوں۔ اس کا ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جس کو رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
((قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَيْءٍ فَبَعَثَ رَجُلًا، فَقَالَ: «انْظُرْ عَلَامَ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَى امْرَأَةٍ قَتِيلٍ. فَقَالَ: «مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ» قَالَ: وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَبَعَثَ رَجُلًا. فَقَالَ: «قُلْ لِخَالِدٍ لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيفًا)) (سنن أبی داود،ج۷،ص۴۷۲،رقم الحدیث:۵۹۲۲)
’’اُنہوں نے کہا کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں (شریک) تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھے ہوتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا دیکھو یہ لوگ کس چیز پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ تو وہ آدمی (واپس) آیا اور کہا، کہ ایک مقتول عورت پر، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، یہ تو لڑنے کی اہل نہ تھی۔ (راوی) کہتے ہیں کہ اس لشکر کے ہر اول دستے پر خالد بن ولید مامور تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا کہ: ’’خالد سے کہو کہ کسی عورت کو قتل کرے اور نہ کسی مزدورکو‘‘۔
چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهَا لَوْ قَاتَلَتْ لَقُتِلَتْ‘‘ (فتح الباری ج۹ص۴۲۲)
’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لڑائی کرے تو قتل کی جائے گی‘‘۔
امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)
’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله " قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك "‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)
’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔
ذراامام النووی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کیجئے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دیکر اور دشمن کی اطاعت کرکے اور دشمن کو لڑائی پر اُبھار کر یا اسی قسم کے دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:
’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)
’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔
ذرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس فرمان پرغورکریں کہ ’’ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یا فعل سے لڑے‘‘۔ یہ بات اور امام نووی کی سابقہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں کا قتل قصداً حرام ہے، اگر وہ مسلمانوں کے مخالف جنگجوؤں کی اپنے اقوال یا افعال کے ساتھ مدد کریں گے تو اُنہیں نشانہ بناکر قتل کرنا جائز ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
((انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ)) (سنن ابی داود،ج۷،ص۵۹۱،رقم الحدیث۷۴۲۲)
’’اللہ کا نام لے کر نکلو، اور اس اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوتے ہوئے، اور بہت زیادہ بوڑھے شیخ کو قتل کرو اور نہ بچے کو اور نہ چھوٹے کو اور نہ عورت کو، اور غنیمتوں میں خیانت نہ کرو، اور اپنی غنیمت کو اکٹھا کرو، اور اصلاح کرو۔، بلاشبہ نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔
عون المعبود کی شرح کرتے ہوئے مؤلف فرماتے ہیں کہ:
’’أَيْ إِلَّا إِذَا كَانَ مُقَاتِلًا أَوْ ذَا رَأْيٍ،وَقَدْ صَحَّ أَمْرُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِقَتْلِ زَيْدِ بْنِ الصِّمَّةِ وَكَانَ عُمْرُهُ مِائَةً وَعِشْرِينَ عَامًا أَوْ أَكْثَرَ وَقَدْ جِيءَ به في جيش هوازن للرأي،الظَّاهِرُ أَنَّهُ بَدَلٌ أَوْ بَيَانٌ أَيْ صَبِيًّا دُونَ الْبُلُوغِ وَاسْتُثْنِيَ مِنْهُ مَا إِذَا كَانَ مَلِكًا أَوْ مُبَاشِرًا لِلْقِتَالِ،أَيْ إِذَا لَمْ تَكُنْ مُقَاتِلَةً أَوْ مَلِكَةً ‘‘ (عون المعبود،ج۶،ص۷۳،رقم:۷۴۲۲)
’’یعنی، مگر یہ کہ وہ لڑنے والا ہو یا دشمن کو رائے دینے والا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’نہ بچے کو نہ چھوٹے کو‘‘ سے اُس کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو بادشاہ ہو یا لڑائی میں براہ راست حصہ لینے والا ہو اور ’’نہ کسی عورت کو‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر وہ لڑنے والی نہ ہو یا ملکہ نہ ہو‘‘۔
امام ابن عبد البر نے میں فرمایا:
’’ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَاتَلَ مِنَ النِّسَاءِ وَالشُّيُوخِ أَنَّهُ مُبَاحٌ قَتْلُهُ وَمَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِتَالِ مِنَ الصِّبْيَانِ وَقَاتَلَ قُتِلَ ‘‘ (الاستذکار ۴۷/۴۱)
’’علماء کا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتوں اور بوڑھوں میں سے لڑے تو اسکا قتل کرنا جائز ہے۔ اور بچوں میں جو لڑنے کی قدرت رکھے اور لڑے تو اُسے بھی قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام ابن قدامہ نے بھی اسی بات پرعلماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں، بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں جائز ہے کہ جب وہ لڑائی میں اپنی قوم کی کسی بھی قسم کی اعانت کریں۔
امام ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ويحرم قتل المرأة والصبي إن لم يقاتلا عند الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة فإن قاتلا قتلا. ۔‘‘ (مشارع الاشواق،ج۲،ص۳۲۰۱۔ہداۃ المجتھد،ج۱،ص۰۰۴)
’’کفار کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اگر وہ نہ لڑیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، اما م احمد رحمہ اللہ، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق مگر جب وہ لڑیں تب ان کو مارا جائے گا‘‘۔
امام ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جیسے کہ کوئی بھی ان میں سے لڑے (یعنی عورتوں اور بچوں میں سے) تو ان کو قتل کرنا چاہئے تاکہ ان کے نقصان سے بچا جاسکے۔ یہ اس لئے کہ (جنگ) میں یہ جائز ہے اور اسی طرح پاگل شخص کو نہیں مارا جائیگا جب تک وہ نہ لڑے اور اگر بچہ اور پاگل لڑے تو ان کو قتل کیا جائیگا‘‘۔(شرح فتح القدیر،ج۵،ص۳۰۲)
امام ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور اس طرح اس کی اجازت ہے کے گونگے، بہرے کو قتل کیا جائے اور جس کا ایک ہاتھ یا ٹانگ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ وہ لڑسکتے ہوں (گھوڑے پر) اور اس طرح عورت کو قتل کیا جائیگا اگر وہ لڑے‘‘۔(حاشیہ ابن عابدین،ج۳،ص۵۲۲)
ابن قاسم نے الحاشیہ میں یہ اجماع نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ونقل عن ابن تيمية أيضا أن أعوان الطائفة الممتنعة وأنصارها منها فيما لهم وعليهم‘‘
’’ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی سے نقل کیا ہے کہ (اسلام کے خلاف) طاقت وشوکت (سے لڑنے) والی جماعت کے مددگار اُسی حکم کے تحت شمار کئے جائیں گے جوکہ حکم اس جماعت کے لئے ہے۔ جو کچھ اس (لڑنے والی جماعت) پر ہے وہی ان کے مددگاروں پر اور اُن پر وہی لاگو ہوگا جوکہ اس جماعت کا ہوگا‘‘۔
کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کونسی بندوق اور توپ لے کر میدان میں آئی تھی بلکہ اس نے تو صرف چند آرٹیکل لکھے تھے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جوکہ صرف اپنی رائے اور قول سے کفار کی مدد نصرت کررہا تھا اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ جو حکم لڑنے والے کفار کا تھا وہی حکم اس کا تھا:
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلَاءِ الرِّجَالِ الْمَذْكُورِينَ ذَا رَأْيٍ يُعِينُ بِهِ فِي الْحَرْبِ، جَازَ قَتْلُهُ ؛ لِأَنَّ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ قُتِلَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَهُوَ شَيْخٌ لَا قِتَالَ فِيهِ، وَكَانُوا خَرَجُوا بِهِ مَعَهُمْ، يَتَيَمَّنُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونَ بِرَأْيِهِ، فَلَمْ يُنْكِرْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَتْلَهُ. وَلِأَنَّ الرَّأْيَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَعُونَةِ فِي الْحَرْبِ ۔‘‘ (المغنی لابن قدامۃ،کتاب الجھاد:۸/۸۷۴)
’’اسی طرح جو شخص مذکورہ افراد (معذور اور خواتین وغیرہ) میں سے ہوں مگر وہ صاحب الرائے ہو۔ یعنی ایک اچھی رائے اور کارگر مشورہ کے ساتھ وہ جنگ میں کافروں کی مدد کرتا ہوتو اس کو قتل کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوازن قبیلہ کے ایک بوڑھے سردار اور انتہائی زیرک ومعاملہ فہم شخص دُرید بن صِمّہ کو جنگ حنین میں قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بہت بوڑھا آدمی تھا۔ اس میں لڑنے کی ذرا بھی سکت نہ تھی ۔ لیکن جب بنو ہوازن رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل نکلے تو وہ اپنے اس بوڑھے شخص کو باعث برکت سمجھتے اور اس کی جنگی واقفیت سے اس کا تعاون حاصل کرتے تھے۔ جب اس کو قتل کیا گیا تونبی اکرم ﷺ نے اس کے قتل پر کوئی تنقید اور انکار ظاہر نہیں فرمایا تھا۔ کیونکہ حالت جنگ میں رائے اور مشورہ دینا تعاون اور مدد کی سب سے بڑی صورت ہے۔‘‘
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ ْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)
’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘
یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔
غرضیکہ ملالہ یوسف زئی امریکہ کی برپا کردہ جنگ میں ہر اول سپاہی کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس نے سوات آپریشن سے قبل اور اس کے دوران بی بی سی پر ’’ڈائری‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ کر نہ صرف نفاذِ شریعت کرنے والوں کے خلاف زہر اگلا تھا بلکہ شریعت کے واضح احکامات کے استہزاء اور تمسخر کی مرتکب ہوئی تھی اور وہ آج بھی وہ یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے پر اسی طرح عمل پیرا تھی۔
لہذا اس پر حملہ طالبان نے کیا ہو یا پھر کوئی یہ سمجھے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہوئی ہو، اس کے باوجود ہر وہ مسلمان جوکہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاری کی مددو نصرت کرنے والے کے حکم سے بھی واقف ہو، اس کا یہ دیرینہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملالہ پر حملہ ہونے پر پُرملال ہونے کے بجائے اس بات کا برملا اعلان کرے کہ:
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]
”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْ حَرْبٌ, وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔ (تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔
چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)
’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔
دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)
’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ ملالہ یوسف کے باپ کا تو قصور سمجھ آتا ہے مگر خود ملالہ تو ایک معصوم بچی تھی، اور اسلام تو کافروں کی عورتوں اور بچوں کی جان لینے سے بھی منع کرتا ہے تو کس طرح ایک مسلمان بچی کا خون بہانا حلال ہوگیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفار کا ساتھ دینے والے کا حکم انہی کفار کے حکم جیسا ہے، بالکل اسی طرح کفار کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا حکم بھی انہی کفار کی عورتوں اور بچوں جیسا ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ بلاضرورت ان کفار کا، اور ان کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کفار کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ بطور ان کی جان کی حرمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن سکتے ہیں جبکہ مرتدین کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ ان کا مسلمان ہونا ہے۔
چنانچہ شریعت میں کفار ومرتدین کے معصوم الدّم لوگوں یعنی ان کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کا قتل کرنا حرام ہے، مگر اُنہیں اس حالت میں قتل کرنا جائز ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اُٹھالیں یا ایسے کام سرانجام دیں کہ جو لڑائی کے کاموں کے معاون بنیں۔ خواہ یہ جاسوسی کرنے یا امداد دینے یا رائے دینے یا اسی طرح کے دوسرے کام ہوں۔ اس کا ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جس کو رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
((قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَيْءٍ فَبَعَثَ رَجُلًا، فَقَالَ: «انْظُرْ عَلَامَ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَى امْرَأَةٍ قَتِيلٍ. فَقَالَ: «مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ» قَالَ: وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَبَعَثَ رَجُلًا. فَقَالَ: «قُلْ لِخَالِدٍ لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيفًا)) (سنن أبی داود،ج۷،ص۴۷۲،رقم الحدیث:۵۹۲۲)
’’اُنہوں نے کہا کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں (شریک) تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھے ہوتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا دیکھو یہ لوگ کس چیز پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ تو وہ آدمی (واپس) آیا اور کہا، کہ ایک مقتول عورت پر، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، یہ تو لڑنے کی اہل نہ تھی۔ (راوی) کہتے ہیں کہ اس لشکر کے ہر اول دستے پر خالد بن ولید مامور تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا کہ: ’’خالد سے کہو کہ کسی عورت کو قتل کرے اور نہ کسی مزدورکو‘‘۔
چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهَا لَوْ قَاتَلَتْ لَقُتِلَتْ‘‘ (فتح الباری ج۹ص۴۲۲)
’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لڑائی کرے تو قتل کی جائے گی‘‘۔
امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)
’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله " قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك "‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)
’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔
ذراامام النووی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کیجئے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دیکر اور دشمن کی اطاعت کرکے اور دشمن کو لڑائی پر اُبھار کر یا اسی قسم کے دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:
’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)
’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔
ذرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس فرمان پرغورکریں کہ ’’ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یا فعل سے لڑے‘‘۔ یہ بات اور امام نووی کی سابقہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں کا قتل قصداً حرام ہے، اگر وہ مسلمانوں کے مخالف جنگجوؤں کی اپنے اقوال یا افعال کے ساتھ مدد کریں گے تو اُنہیں نشانہ بناکر قتل کرنا جائز ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
((انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ)) (سنن ابی داود،ج۷،ص۵۹۱،رقم الحدیث۷۴۲۲)
’’اللہ کا نام لے کر نکلو، اور اس اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوتے ہوئے، اور بہت زیادہ بوڑھے شیخ کو قتل کرو اور نہ بچے کو اور نہ چھوٹے کو اور نہ عورت کو، اور غنیمتوں میں خیانت نہ کرو، اور اپنی غنیمت کو اکٹھا کرو، اور اصلاح کرو۔، بلاشبہ نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔
عون المعبود کی شرح کرتے ہوئے مؤلف فرماتے ہیں کہ:
’’أَيْ إِلَّا إِذَا كَانَ مُقَاتِلًا أَوْ ذَا رَأْيٍ،وَقَدْ صَحَّ أَمْرُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِقَتْلِ زَيْدِ بْنِ الصِّمَّةِ وَكَانَ عُمْرُهُ مِائَةً وَعِشْرِينَ عَامًا أَوْ أَكْثَرَ وَقَدْ جِيءَ به في جيش هوازن للرأي،الظَّاهِرُ أَنَّهُ بَدَلٌ أَوْ بَيَانٌ أَيْ صَبِيًّا دُونَ الْبُلُوغِ وَاسْتُثْنِيَ مِنْهُ مَا إِذَا كَانَ مَلِكًا أَوْ مُبَاشِرًا لِلْقِتَالِ،أَيْ إِذَا لَمْ تَكُنْ مُقَاتِلَةً أَوْ مَلِكَةً ‘‘ (عون المعبود،ج۶،ص۷۳،رقم:۷۴۲۲)
’’یعنی، مگر یہ کہ وہ لڑنے والا ہو یا دشمن کو رائے دینے والا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’نہ بچے کو نہ چھوٹے کو‘‘ سے اُس کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو بادشاہ ہو یا لڑائی میں براہ راست حصہ لینے والا ہو اور ’’نہ کسی عورت کو‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر وہ لڑنے والی نہ ہو یا ملکہ نہ ہو‘‘۔
امام ابن عبد البر نے میں فرمایا:
’’ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَاتَلَ مِنَ النِّسَاءِ وَالشُّيُوخِ أَنَّهُ مُبَاحٌ قَتْلُهُ وَمَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِتَالِ مِنَ الصِّبْيَانِ وَقَاتَلَ قُتِلَ ‘‘ (الاستذکار ۴۷/۴۱)
’’علماء کا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتوں اور بوڑھوں میں سے لڑے تو اسکا قتل کرنا جائز ہے۔ اور بچوں میں جو لڑنے کی قدرت رکھے اور لڑے تو اُسے بھی قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام ابن قدامہ نے بھی اسی بات پرعلماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں، بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں جائز ہے کہ جب وہ لڑائی میں اپنی قوم کی کسی بھی قسم کی اعانت کریں۔
امام ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ويحرم قتل المرأة والصبي إن لم يقاتلا عند الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة فإن قاتلا قتلا. ۔‘‘ (مشارع الاشواق،ج۲،ص۳۲۰۱۔ہداۃ المجتھد،ج۱،ص۰۰۴)
’’کفار کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اگر وہ نہ لڑیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، اما م احمد رحمہ اللہ، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق مگر جب وہ لڑیں تب ان کو مارا جائے گا‘‘۔
امام ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جیسے کہ کوئی بھی ان میں سے لڑے (یعنی عورتوں اور بچوں میں سے) تو ان کو قتل کرنا چاہئے تاکہ ان کے نقصان سے بچا جاسکے۔ یہ اس لئے کہ (جنگ) میں یہ جائز ہے اور اسی طرح پاگل شخص کو نہیں مارا جائیگا جب تک وہ نہ لڑے اور اگر بچہ اور پاگل لڑے تو ان کو قتل کیا جائیگا‘‘۔(شرح فتح القدیر،ج۵،ص۳۰۲)
امام ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور اس طرح اس کی اجازت ہے کے گونگے، بہرے کو قتل کیا جائے اور جس کا ایک ہاتھ یا ٹانگ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ وہ لڑسکتے ہوں (گھوڑے پر) اور اس طرح عورت کو قتل کیا جائیگا اگر وہ لڑے‘‘۔(حاشیہ ابن عابدین،ج۳،ص۵۲۲)
ابن قاسم نے الحاشیہ میں یہ اجماع نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ونقل عن ابن تيمية أيضا أن أعوان الطائفة الممتنعة وأنصارها منها فيما لهم وعليهم‘‘
’’ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی سے نقل کیا ہے کہ (اسلام کے خلاف) طاقت وشوکت (سے لڑنے) والی جماعت کے مددگار اُسی حکم کے تحت شمار کئے جائیں گے جوکہ حکم اس جماعت کے لئے ہے۔ جو کچھ اس (لڑنے والی جماعت) پر ہے وہی ان کے مددگاروں پر اور اُن پر وہی لاگو ہوگا جوکہ اس جماعت کا ہوگا‘‘۔
کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کونسی بندوق اور توپ لے کر میدان میں آئی تھی بلکہ اس نے تو صرف چند آرٹیکل لکھے تھے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جوکہ صرف اپنی رائے اور قول سے کفار کی مدد نصرت کررہا تھا اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ جو حکم لڑنے والے کفار کا تھا وہی حکم اس کا تھا:
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلَاءِ الرِّجَالِ الْمَذْكُورِينَ ذَا رَأْيٍ يُعِينُ بِهِ فِي الْحَرْبِ، جَازَ قَتْلُهُ ؛ لِأَنَّ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ قُتِلَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَهُوَ شَيْخٌ لَا قِتَالَ فِيهِ، وَكَانُوا خَرَجُوا بِهِ مَعَهُمْ، يَتَيَمَّنُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونَ بِرَأْيِهِ، فَلَمْ يُنْكِرْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَتْلَهُ. وَلِأَنَّ الرَّأْيَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَعُونَةِ فِي الْحَرْبِ ۔‘‘ (المغنی لابن قدامۃ،کتاب الجھاد:۸/۸۷۴)
’’اسی طرح جو شخص مذکورہ افراد (معذور اور خواتین وغیرہ) میں سے ہوں مگر وہ صاحب الرائے ہو۔ یعنی ایک اچھی رائے اور کارگر مشورہ کے ساتھ وہ جنگ میں کافروں کی مدد کرتا ہوتو اس کو قتل کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوازن قبیلہ کے ایک بوڑھے سردار اور انتہائی زیرک ومعاملہ فہم شخص دُرید بن صِمّہ کو جنگ حنین میں قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بہت بوڑھا آدمی تھا۔ اس میں لڑنے کی ذرا بھی سکت نہ تھی ۔ لیکن جب بنو ہوازن رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل نکلے تو وہ اپنے اس بوڑھے شخص کو باعث برکت سمجھتے اور اس کی جنگی واقفیت سے اس کا تعاون حاصل کرتے تھے۔ جب اس کو قتل کیا گیا تونبی اکرم ﷺ نے اس کے قتل پر کوئی تنقید اور انکار ظاہر نہیں فرمایا تھا۔ کیونکہ حالت جنگ میں رائے اور مشورہ دینا تعاون اور مدد کی سب سے بڑی صورت ہے۔‘‘
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ ْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)
’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘
یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔
غرضیکہ ملالہ یوسف زئی امریکہ کی برپا کردہ جنگ میں ہر اول سپاہی کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس نے سوات آپریشن سے قبل اور اس کے دوران بی بی سی پر ’’ڈائری‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ کر نہ صرف نفاذِ شریعت کرنے والوں کے خلاف زہر اگلا تھا بلکہ شریعت کے واضح احکامات کے استہزاء اور تمسخر کی مرتکب ہوئی تھی اور وہ آج بھی وہ یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے پر اسی طرح عمل پیرا تھی۔
لہذا اس پر حملہ طالبان نے کیا ہو یا پھر کوئی یہ سمجھے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہوئی ہو، اس کے باوجود ہر وہ مسلمان جوکہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاری کی مددو نصرت کرنے والے کے حکم سے بھی واقف ہو، اس کا یہ دیرینہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملالہ پر حملہ ہونے پر پُرملال ہونے کے بجائے اس بات کا برملا اعلان کرے کہ:
.....ملالہ پرہمیں کوئی ملال نہیں.....