Search This Blog

Total Pageviews

Tuesday, September 24, 2013

اسلامی جمہوریت

 

اسلامی جمہوریت 

ہمارے ایک دوست تھے ،ذھن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیراسلامی ، ہم ذھن پر ہی شکر ادا کرتے ،موصوف کچھ عرصہ کے لیے ولایت تشریف لے گئے جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھیں! موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ،اس لیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ،رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لیے دوردراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتیں سروں پر ڈوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتی اور ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہوجائے ، دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتا چادر اور سوٹ گوری کو دیا ، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا ،مسلمان کیا ہے ؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ، اور اباجی مطمئن ہوگئے

!
مشترکہ خاندانی نظام تھا ، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کام شروع ہوا ، میاں کے آفس جانے سے پہلے میم دروازے کے اوپر خاوند کی باہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتیں! گھر میں کچھ چہ مہ گویئاں ہوئیں ، بیٹا جی نے استفسار پر بتایا کہ سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" گرمیاں شروع ہوئیں گوری نے پینٹ اتار کر نیکر پہننی شروع کردی ، ابا جی تو کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے ، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں کہ کہیں سے چھوٹی تو نہیں رہ گئیں ! بیٹے سے شکوہ ہوا اس نے پھر بتایا "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے ،دریافت کرنے پر پھر بتایا گیا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن ہر سال کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی بیٹا جی ہر دفعہ پوچھنے پر جواب دیتے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ وقت گزرتا چلا گیا ،برداشت پیدا ہوتی چلی گئی، بچہ ہوا تو گوری نے ختنے کروانے سے انکار کردیا کہنے لگی کہ یہ ظلم ہے ، بیٹا جی کھسیانی سی ھنسی کے ساتھ بولے سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ڈانس ، میوزک ، فلمیں ، کاک ٹیل پارٹیز ، کرسمس ، سرعام بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بنے ، بھائی آہستہ آہستہ بھابی سے فری ہوتے چلے گئے ، ہاتھوں پر ہاتھ مار کر باتیں کرتے اور وہ ان کی گوری سہیلیاں ڈھونڈنے کی کوشش۔ بہنیں بھابی کے کمرے میں جاتیں اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کا شیشے کے آگے چیک کرتیں کلمہ تو انہوں نے بھی پڑھا ہوا تھا ،بھابی سے دل کی ہر بات کھول کر بیان کرتیں ، گوری کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھ لیتی تھی اس لیے ابا جی بھی کہنے لگے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ ایک صرف اماں تھیں جو کہ گھر کے دروبام کو اب خوفزدہ سی نظروں سے دیکھتیں اور پوچھنے پر سر جھکا کر جواب دیتی کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ دوست احباب جب بھی ملنے جاتے تو گوری خاوند کے پہلو سے چپک بیٹھتی ، ایک دو بار تو جگہ تنگ ہونے کی صورت میں گود میں بھی بیٹھنے سے گریز نہ کیا پوچھنے پر صرف اتنا جواب ملتا "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ایک کام گوری کا اچھا تھا جب بھی کہیں باہر بازار وغیرہ نکلتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر پر ایک ڈوپٹۃ سا ڈال لیتی ۔ دیکھنے والے دیکھ کر ہی اندازہ کرلیتے کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے


اسلامی جمہوریت بھی مغرب کی ایک ایسی ہی گوری ہے جس کو ہمارے کچھ دینی مزاج والے بھائی بیاہ لائے۔ انہوں نے اس کو ادھر کے معاشروں کے قابل قبول ہونے کے لیے اسے کلمہ پڑھایا، قوم کے لیے اس کے رعب میں آنے کے لیے اس کا بدیسی ہونا ہی کافی تھا ،اتنی گوری اتنی چٹی "کلمہ پڑھی ہوئی جمہوریت"!! انہوں نے ہاتھ لگانے کی بھی جرآت نہ کی دور دور سے ہی دیکھ کر خوش ہوگئے کہ لو ایک کلمہ پڑھی گوری اپنے ہاں بھی آئی ہے ۔ اس نے رواج توڑے ، دستور توڑے ، آزادی کے نام پر ہر ایک چیز کو اندر لے آئی ، لیکن قوم خوش ہی رہی کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے !! معاشرت کے نام پر یہ ہر اس میدان میں اسی طرح ناچنے لگی جو کہ غیر قوموں کا دستور تھا لوگ پھر بھی مطمئن رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ، اس نے ہر شرک و کفر کو ایک جواز دیا ، ہر ظالم کو اقتدار تک پہنچنے کا راستہ دیا ، دین کے ہر ابا جی کو سمجھوتہ کرنا سکھایا ، کلمے کا سہارا لے کر ہر چیز کو عام کیا ، اور ہم محلے داروں کی طرح اسی بات پر خوش رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے !! اگر کسی نے بہت زیادہ شرمندگی محسوس کی بھی تو اماں جی کی طرح سر جھکا کر یہی کہا کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے ۔
آج بھی وقت ہے کچھ یہ برباد کرچکی کلمے کے بھیس میں کچھ برباد کردے گی ۔ بچ جائیں اور اس اسلامی جمہوریت کو تین طلاقیں دے دیں ۔ طلاق اس کا حق ہے کیونکہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے

کیاالقاعدہ فتح یاب ہورہی ہے؟

کیاالقاعدہ فتح یاب ہورہی ہے؟
مروان بشار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ،الجزیرہ ٹی وی

واشنگٹن کی جانب سے شروع کردہ ”وار آن ٹیرر “کے بارے میں کیا کہا جائے کہ پیپر کٹر تھامے ڈیڑھ درجن نوجوانوں نے لاکھ ہا مغربی دستوں کو عظیم مشرق وسطیٰ کے جنگی میدانوں میں گھسیٹ لیا ہے ۔لاکھ سے زائد بیرونی افواج افغانستان کی دلدل میں پھنسی حیرت میں مبتلا ہیں کہ القاعدہ کے کتنے درجن اراکین باقی بچ گئے ۔دنیا کی سب سے لبرل جمہوریت نے اپنے ”پیٹریاٹ ایکٹ“کے تحت متنازع غیر انسانی قوانین اور جذبہ حب الوطنی سے عاری افعال کا ڈھیر لگا دیا۔جوتے میں بم رکھے ایک شخص نے لاکھوں لوگوں کو ہر دفعہ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے جوتے اتارنے پر مجبور کردیا اور زیر جامہ دھماکہ خیز مواد چھپائے ایک شخص کی وجہ سے ہر مسافر انتہائی ذلت آمیز طریقہ پر اپنی تلاشی دے رہا ہے ۔
امریکہ اپنا احساس تحفظ اور وقار ‘بمع اربوں ڈالر کے فوجی اور دیگر اخراجات کے ‘کھوچکاہے ۔جبکہ القاعدہ کی قیادت متحرک اور فعال ہے ۔پوری دنیا میں اس کے سیل (cell)تیزی سے بڑ رہے ہیں ،رضاکار جوق درجوق اس کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں اور نوجوان ویب سائٹوں پر اس کے نظریے کا پرچار کررہے ہیں ۔اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اب بھی امریکہ اور امریکیوں کو دہشت زدہ کررہے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کا حریف تعداد اور صلاحیت میں کمی کے باوجود کوئی سُپر پاور ہے ۔کیا القاعدہ فتح یاب ہورہی ہے ؟کیا امریکہ جنگ ہارچکا ہے؟
تقریباً بارہ سال قبل ایک غیر منظم گروہ القاعدہ نے ،جس کے لیے جائے پناہ افغانستان کی پہاڑیاں تھیں،امریکہ کو ہدف بنانا شروع کیا ،اس کی ناک کو خاک آلود کیا ۔القاعدہ خوش قسمت تھی کہ اُس نے ان جنگجوؤں کے ذریعے جنہوں نے کبھی باقاعدہ فوج میں ملازمت بھی نہ کی تھی ،وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو مغلوب کردیا ۔بش انتظامیہ نے جنگ کو دشمن کے علاقے میں لڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنا گھر محفوظ رہے یہی تو وہ ردعمل ہے جس کی خواہش القاعدہ کررہی تھی ۔یہ سب کچھ ایسے آرام سے ہوتا چلاگیا جیسا کہ کوئی فلم ہو ۔امریکی عظمت کے میناروں ،پینٹاگون اور وال اسٹریٹ کے زمین بوس ہوتے ہی زخم خوردہ ”سُپر پاور“نے اشتعال انگیز لہجے میں میدان کا رخ کیا ،یہ سوچے بغیر کہ اس جنگی کاروائی کے اثرات کیاہونگے۔
امریکی انتہاپسندوں نے امریکہ کے قومی سلامتی کے خطرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے فوجی ایجنڈے کو امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بنادیا اور اس بدلتی صورتحال کو ”اپنے طرز زندگی “کے لیے خطرہ قرار دیا ۔تاکہ وہ امریکی معاشرے کو بھی انتہاپسندی کی طرف موڑ دیں۔واشنگٹن نے صلیبی جنگ کانقارہ بجاڈالابعدازاں اسے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “قرار دیاگیا اور اس بھیس میں وہ افغانستان وعراق پر قبضہ کرنے اور لبنان اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو سہارا دینے کے لئے چل پڑا،اس نے صومالیہ ،یمن اور پاکستان میں بھی مداخلت کی اور اپنے اتحادیوں پر زور ڈالا کہ وہ اپنے یہاں موجودہ اسلامی تحریکوں کے خلاف صف آراءہوں ۔پلک جھپکتے میں امریکہ اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں اور بھاری بھرکم فوجی آپریشنوں کے بوجھ تلے دب گیا اور جیسا کہ اُمید کی جارہی تھی ،انسانی جانوں کے بے پایاں ضیاع نے امریکہ مخالف جذبات کو مزید بھڑکادیا۔
خلاف توقع ”دوست ممالک“جیسا کہ اردن ،سعودی عرب ،ترکی وغیرہ کے عوام میں امریکہ سے نفرت میں اضافہ باقی ممالک کی نسبت زیادہ ہوا۔امریکہ کی بدقسمتی اور ایک منتشر ،متحرک اور کثیر مرکزی قوت جو کہ سینکڑوں مجموعوں پر مشتمل ہے ‘کے خلاف فوجی قوت کے غیر متناسب استعمال نے امریکہ کو مزید غیر محفوظ اور شکست خوردہ کردیا ۔اس وقت جبکہ اوبامہ انتظامیہ 660ملین ڈالر کے منظور شدہ دفاعی بجٹ میں 2010ءکے لیے مزید 33بلین ڈالر کے اضافے کا مطالبہ کررہی ہے سابق امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف رچرڈمائیر نے چند ہفتے قبل مجھے بتایا کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود بھی امریکہ سے نبردآزما اس عالمی یلغار سے مقابلے کے لیے امریکہ کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہیں ۔
امریکی فوج گردی کے خلاف اُٹھنے والی عوامی عالمی مذمت کے سامنے واشنگٹن نے اپنے کان بند رکھے ۔فوجوں میں توسیع سے ہاتھ کھینچنے کی بجائے اوبامہ انتظامیہ نے افغان پاکستان علاقوں میں اسے مزید تیز کردیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ یمن میں بھی یہی کرنے جارہاہے ۔امریکی صدراوبامہ کی جانب سے خیر سگالی کے پیغامات ،عرب اور مسلمان دنیاکے ساتھ باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر روابط کے قیام کے نعرے ڈرون حملوں،تیز رفتار F-15جیٹ طیاروں اور دندناتے ٹینکوں کی گرج کے نیچے دب کر رہ گئے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کی فوجی کاروائیاں اس کے جاسوسی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔فوجی مہمات جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے غیر متوقع طور پر اتحاد قائم ہوتے ہیں جیسا کہ امیرطبقے سے تعلق رکھنے والا نائیجریا کا نوجوان جس کی تعلیم لندن سے ہے ،ترکی کا تعلیم یافتہ اردنی ڈاکٹر اور عربی نژاد ہمام البلاوی ‘یہ تمام کے تمام امریکہ کو زخم خوردہ کرنے کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھے ۔
اسی دہشت گردی ،مخالف حربوں اور جاسوسی نظام نے عوامی سفارت کاری کے لئے بھی دلوں اور ذہنوں کو جیتنا مشکل بنادیا ہے ۔خطہ کے لوگوں کی مشکلات کو سُننے کی بجائے ‘ان کی جاسوسی کی جاتی ہے اور ان کے حقوق کی آواز کو دُور دراز کے قیدخانوں میں بندکردیاجاتا ہے ۔ان کے تحفظات اور خدشات کی شنوائی کرنے کی بجائے واشنگٹن نے اپنی اغراض کو سب سے زیادہ بلند کررکھا ہے ۔غربت کے مارے ،شمالی اور جنوبی علاقوں میں جنگ کی تکلیفیں سہتے اور تین دہائیوں سے آمرانہ اقتدار کے شکنجے میں کسے یمنیوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنی تکلیفوں کو بُھلاکر امریکی خدشات کو دور کرنے کا سامان کرو اور امریکی مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دو ۔یہ سب کچھ ہمیں ہمارے ابتدائی سوال کی طرف لے جاتا ہے کہ جتنا امریکہ اس خود شکستہ جنگ میں آگے بڑھتا جارہا ہے اُتنا ہی القاعدہ کامیابی سے قریب ہوتی جارہی ہے۔

القاعدہ کا فتح کابیس سالہ منصوبہ!

القاعدہ کا فتح کابیس سالہ منصوبہ! ۔







سن 2005 کے اختتام پر ایک اردنی صحافی فواد حسین کی ایک عربی کتاب منظر عام پر آئی جس کو عربی روزنامہ القدس عربی نے چھاپا - کتاب کا نام تھا
الزرقاوی ۔ القاعدہ کی دوسری نسل
Al-Zarqawi . Al-Qaeda Second Generation
اپنی طباعت کے موقع پر یہ کتاب کوئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکی گوکہ فواد حسین معصب الزرقاوی کے ساتھ اردنی جیل میں کچھ وقت گزار چکے تھے ۔ اور اپنے دعوی کے مطابق القاعدہ کی لیڈر شپ سے رابطہ رکھتے تھے ۔ لیکن عرب بہاریہ کے بعد ایک دم یہ کتاب مغربی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ خاص طور پر جس بات نے ان کی توجہ مرکوز کی وہ "القاعدہ کا فتح کا بیس سالہ منصوبہ" تھا جس کا دعوی جہادی ذرائع سے اس کتاب میں کیا گیا ۔ اس کتاب کے یہ مندرجات حیران کن طور پر کچھ ہی سالوں میں سچے ثابت ہوئے ۔ جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتے
ہیں ۔ مصنف نے القاعدہ کے منصوبے کو سات حصوں یا مراحل میں تقسیم کیا ہے
2003پہلا مرحلہ ۔ بیداری ،مدت 2000 تا

اس عرصہ کے دوران امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اسلامی دنیا پر جنگ کا اعلان کردے ،9/11 اس سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ جس کا مقصد امریکہ کو مسلم دنیا کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنا اور مسلم عوام کو بیدار کرنا تھا ۔ یہ مرحلہ انتہائی کامیابی سے حاصل کرلیا گیا اور امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم دنیا کے ساتھ ایک جنگ میں ملوث ہوگئے اور آسان شکار ثابت ہوئے ۔ سن 2003 میں بغداد پر حملے نے مسلم دنیا میں اور اضطراب پیدا کردیا اور مسلم دنیا مغربی سازش کے خلاف بیدار ہونا شروع ہوئی ۔
دوسرا مرحلہ- فریب توڑنا ،مدت 2003 تا 2006
فاضل مصنف نے جس وقت یہ کتاب لکھی اس وقت یہ مرحلہ چل رہا تھا ، مصنف کے مطابق اس
مرحلے کے دوران اسلامی دنیا کو مغربی سازشوں سے خبردار کرنا تھا ۔ اور القاعدہ کو ایک جماعت سے ایک فکر کا روپ دینا تھا ۔ مصنف کے مطابق اس عرصہ کے دوران عراق اس جنگ کا محور بننا تھا ، جہاں پر ایک ایسی فوج کی تشکیل کا کام سرانجام دینا تھا جو کہ دوسرے عرب ممالک تک اثر رسوخ رکھتی ہو
القاعدہ نے یہ مرحلہ بھی بڑی کامیابی سے حاصل کرلیا ،عراق میں القاعدہ کی نئی شاخ وجود میں آئی اور 2006 کے اختتام تک یمن میں بھی القاعدہ وجود میں آچکی تھی ، اسی اثنا میں کئی اور گروپس نے القاعدہ کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا اور یہ تنظیم پورے عرب میں پھیل گئی ۔اس کو عربی جزیرہ نما میں القاعدہ کا خطاب اس وقت ملا جب یمنی برانچ نے سعودی برانچ کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ۔ سن 2007 ہی کی شروعات میں الجیریا کی تنظیم کی شمولیت کے ساتھ ہی اس کو القاعدہ ان اسلامک مغرب کا نام دے دیا گیا
تیسرا مرحلہ - بغاوت،مدت 2007تا 2010
یہ مرحلہ بہت اہم ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس کی ٹائمنگ کتاب کے منظر عام پر آنے سے بعد کی ہے ۔ یہ کتاب سن 2005 میں لکھی گئی ۔اس کے مطابق اس مرحلے میں
شام رسول اللہ کی پیشین گویئوں کی روشنی میں مرکزی مقام تھا جہاں پر ایک جہادی تحریک کو کھڑا کرنا تھا، اس کے علاوہ اسرائیل ، ترکی و اردن پر حملے بھی منصوبے میں شامل تھے ۔ ان حملوں کا مقصد مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا درجہ حاصل کرنا تھا ۔
لیکن یہ مقاصد اس دور میں حاصل نہ کیے جاسکے ، عراق جنگ کے دوران شام میں القاعدہ کو اڈے بنانے کی اجازت تھی ۔ لیکن عراق رافضیوں کے ہاتھوں لگتا دیکھ کر شامی حکومت نے وہ اڈے فورا ہی بند کروا دیئے اور جہادی عناصر کو مجبورا عراق میں ہجرت کرنا پڑی ۔ اسرائیل پر کچھ راکٹ تو فائر کیے گئے لیکن وہ کوئی قابل زکر نقصان نہ پہنچا سکے ۔ بلکہ حماس کو القاعدہ کے خلاف صف آرا ہونے پر مجبور کردیا ، یہی حال اردن میں ہوا جہاں کی انٹلیجنس کی کاروائی سے القاعدہ کا سیل گرفتار ہوا اور عقوبت خانوں میں پہنچا دیا گیا
لیکن یہ مرحلہ مکمل ناکامی کا مرحلہ نہیں تھا ۔انہی خطوں میں القاعدہ اپنی خاموش موجودگی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور ان حکومتوں کا بغص بھی کھل کر سامنے آگیا
چوتھا مرحلہ ۔عرب بہاریہ ،مدت -2010 تا 2013
القاعدہ کے اندازے کے مطابق اس عرصے کے دوران عرب کے غدار حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں ہوجائیں گئیں اور ان کے اقتدار چھین لیے جائیں گئیں ۔ اسی دوران امریکہ پر سائبر حملے بھی کیے جائیں گئیں
جہاں تک اندازے کی بات ہے تو القاعدہ کا یہ اندازہ حیرت انگیز حد تک درست نکلا اور اسی دوران ،تیونس ، مصر ،لیبیا و شام کی بغاوتیں رونما ہوئیں ۔ گوکہ ان بغاوتوں میں القاعدہ کی فکر کا کردار اتنا زیادہ نہ تھا لیکن یہ اس کی مقصد کی برآواری کے لیے بہت مفید ثابت ہوئیں ، ان عرب بغاوتوں کا سب سے زیادہ فائدہ القاعدہ ہی نے اٹھایا شمالی افریقہ میں اس کی اتحادی جماعت انصار الشریعہ دعوت و تبلیغ کے زریعے اپنا پیغام پھیلانے میں کامیاب رہی اور ایک معاشرتی تنظیم کا روپ دھارنے میں کامیاب بھی ۔
عراق سے حاصل کیے گئے تجربے کو اس نے شام میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور طاقت کے اندھا دھند استعمال کی بجائے حکمت و تدبر اختیار کرکے مسلم معاشرے میں اپنی جگہ بنائی ۔ شامی بغاوت سے اس کو کافی عرصہ بعد ایک نئے ملک میں اپنے اڈے بنانے کا موقع ملا جو کہ اسرائیل و ترکی کی عین سرحد کے اوپر ہیں ۔ مجموعی طور پر اس مدت کے ہدف باآسانی حاصل کرلیے گئے ۔
پانچواں مرحلہ ۔ خلافت ،مدت 2013 تا 2016
القاعدہ کے مطابق یہ عرصہ اسلامی خلافت کے قیام کا عرصہ ہوگا ۔ جس میں دشمن قوتوں کو اس حد تک شکست دی جاچکی ہوگی کہ وہ اسلامی خلافت کے قیام کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں گئیں ۔ مغربی اثر و رسوخ مسلم خطوں پر سے کم ہوچکا ہوگا اور اسرائیل کمزور ہوچکا ہوگا یا صرف اپنے آپ کو بچانے کی تیاریوں میں !
یہ مرحلہ مستقبل سے متعلقہ ہے ۔ لیکن ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی خلافت کے قیام کی آواز جتنی اب زور دار ہے پچھلی صد سالہ تاریخ میں کبھی بھی اتنی زور دار نہیں رہی ۔ شام ،افغانستان ، یمن ، عراق میں جاری جہاد نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے اور بذات خود امت کی مختلف جماعتوں کے اندر ایک جھنڈے و لیڈر کے تلے کھڑے ہونے کی خواہش کو بڑھاوا دے دیا ہے ۔ امریکی اثر و رسوخ کی گرفت عرب خطوں پر ویسی نہیں رہی جیسی کے چند سال پہلے تک تھی ۔ وہ اس محاذ پر پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے ۔ اسرائیل کمزور ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ایک دفاعی پوزیشن اختیار کرتا جارہا ہے
چھٹا مرحلہ ۔ کھلا مقابلہ ۔مدت - 2016 تا 2020
کتاب کے مصنف کے مطابق القاعدہ اس عرصے کو لادینوں و کفریہ طاقتوں کے ساتھ کھلے مقابلے کا دور کہتی ہے ۔ جس میں یہ سب مل کر اسلامی خلافت کے مقابلے میں صف آرا ہوجائیں گئیں ،اور ایک ہولناک جنگ کا آغاز ہوجائے گا جو کہ مسلمانوں کی فتح پر منتج ہوگی
اگر القاعدہ کا خلافت قائم کرنے کا منصوبہ پورا ہوجاتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ یہ مرحلہ آکر رہے گا ۔ اور پورا عالم کفر بمعہ رافضی اس خلافت کے ساتھ کھلی جنگ چھیڑ دیں گئیں ۔ یہ کب ہوگا اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایسا ہونا یقینی ہے
ساتواں مرحلہ ۔ مکمل فتح ،مدت 2018 تا 2020
مصنف کے دعوی کے مطابق القاعدہ کو یقین ہے کہ 2020 تک کفریہ طاقتوں کو مکمل شکست دی جاچکی ہوگی اور اسلامی خلافت اپنی شان و شوکت سے قائم ہوگی
اللہ کرے کہ یہ مرحلہ ہماری زندگیوں میں ہی آجائے اور ایک بار پھر ہم اسلام کے نظام کو پوری شان و شوکت سے حکمرانی کرتا دیکھ سکیں ۔ اور مستقبل کا درست حال تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے
ہم حتمی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعی ہی القاعدہ کا منصوبہ ہے کہ نہیں لیکن اس کتاب کے مندرجات ناقابل یقین حد تک ان مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے