کیاالقاعدہ فتح یاب ہورہی ہے؟
مروان بشار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ،الجزیرہ ٹی ویواشنگٹن کی جانب سے شروع کردہ ”وار آن ٹیرر “کے بارے میں کیا کہا جائے کہ پیپر کٹر تھامے ڈیڑھ درجن نوجوانوں نے لاکھ ہا مغربی دستوں کو عظیم مشرق وسطیٰ کے جنگی میدانوں میں گھسیٹ لیا ہے ۔لاکھ سے زائد بیرونی افواج افغانستان کی دلدل میں پھنسی حیرت میں مبتلا ہیں کہ القاعدہ کے کتنے درجن اراکین باقی بچ گئے ۔دنیا کی سب سے لبرل جمہوریت نے اپنے ”پیٹریاٹ ایکٹ“کے تحت متنازع غیر انسانی قوانین اور جذبہ حب الوطنی سے عاری افعال کا ڈھیر لگا دیا۔جوتے میں بم رکھے ایک شخص نے لاکھوں لوگوں کو ہر دفعہ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے جوتے اتارنے پر مجبور کردیا اور زیر جامہ دھماکہ خیز مواد چھپائے ایک شخص کی وجہ سے ہر مسافر انتہائی ذلت آمیز طریقہ پر اپنی تلاشی دے رہا ہے ۔
امریکہ اپنا احساس تحفظ اور وقار ‘بمع اربوں ڈالر کے فوجی اور دیگر اخراجات کے ‘کھوچکاہے ۔جبکہ القاعدہ کی قیادت متحرک اور فعال ہے ۔پوری دنیا میں اس کے سیل (cell)تیزی سے بڑ رہے ہیں ،رضاکار جوق درجوق اس کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں اور نوجوان ویب سائٹوں پر اس کے نظریے کا پرچار کررہے ہیں ۔اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اب بھی امریکہ اور امریکیوں کو دہشت زدہ کررہے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کا حریف تعداد اور صلاحیت میں کمی کے باوجود کوئی سُپر پاور ہے ۔کیا القاعدہ فتح یاب ہورہی ہے ؟کیا امریکہ جنگ ہارچکا ہے؟
تقریباً بارہ سال قبل ایک غیر منظم گروہ القاعدہ نے ،جس کے لیے جائے پناہ افغانستان کی پہاڑیاں تھیں،امریکہ کو ہدف بنانا شروع کیا ،اس کی ناک کو خاک آلود کیا ۔القاعدہ خوش قسمت تھی کہ اُس نے ان جنگجوؤں کے ذریعے جنہوں نے کبھی باقاعدہ فوج میں ملازمت بھی نہ کی تھی ،وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو مغلوب کردیا ۔بش انتظامیہ نے جنگ کو دشمن کے علاقے میں لڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنا گھر محفوظ رہے یہی تو وہ ردعمل ہے جس کی خواہش القاعدہ کررہی تھی ۔یہ سب کچھ ایسے آرام سے ہوتا چلاگیا جیسا کہ کوئی فلم ہو ۔امریکی عظمت کے میناروں ،پینٹاگون اور وال اسٹریٹ کے زمین بوس ہوتے ہی زخم خوردہ ”سُپر پاور“نے اشتعال انگیز لہجے میں میدان کا رخ کیا ،یہ سوچے بغیر کہ اس جنگی کاروائی کے اثرات کیاہونگے۔
امریکی انتہاپسندوں نے امریکہ کے قومی سلامتی کے خطرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے فوجی ایجنڈے کو امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بنادیا اور اس بدلتی صورتحال کو ”اپنے طرز زندگی “کے لیے خطرہ قرار دیا ۔تاکہ وہ امریکی معاشرے کو بھی انتہاپسندی کی طرف موڑ دیں۔واشنگٹن نے صلیبی جنگ کانقارہ بجاڈالابعدازاں اسے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “قرار دیاگیا اور اس بھیس میں وہ افغانستان وعراق پر قبضہ کرنے اور لبنان اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو سہارا دینے کے لئے چل پڑا،اس نے صومالیہ ،یمن اور پاکستان میں بھی مداخلت کی اور اپنے اتحادیوں پر زور ڈالا کہ وہ اپنے یہاں موجودہ اسلامی تحریکوں کے خلاف صف آراءہوں ۔پلک جھپکتے میں امریکہ اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں اور بھاری بھرکم فوجی آپریشنوں کے بوجھ تلے دب گیا اور جیسا کہ اُمید کی جارہی تھی ،انسانی جانوں کے بے پایاں ضیاع نے امریکہ مخالف جذبات کو مزید بھڑکادیا۔
خلاف توقع ”دوست ممالک“جیسا کہ اردن ،سعودی عرب ،ترکی وغیرہ کے عوام میں امریکہ سے نفرت میں اضافہ باقی ممالک کی نسبت زیادہ ہوا۔امریکہ کی بدقسمتی اور ایک منتشر ،متحرک اور کثیر مرکزی قوت جو کہ سینکڑوں مجموعوں پر مشتمل ہے ‘کے خلاف فوجی قوت کے غیر متناسب استعمال نے امریکہ کو مزید غیر محفوظ اور شکست خوردہ کردیا ۔اس وقت جبکہ اوبامہ انتظامیہ 660ملین ڈالر کے منظور شدہ دفاعی بجٹ میں 2010ءکے لیے مزید 33بلین ڈالر کے اضافے کا مطالبہ کررہی ہے سابق امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف رچرڈمائیر نے چند ہفتے قبل مجھے بتایا کہ ایک دہائی گزرنے کے باوجود بھی امریکہ سے نبردآزما اس عالمی یلغار سے مقابلے کے لیے امریکہ کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہیں ۔
امریکی فوج گردی کے خلاف اُٹھنے والی عوامی عالمی مذمت کے سامنے واشنگٹن نے اپنے کان بند رکھے ۔فوجوں میں توسیع سے ہاتھ کھینچنے کی بجائے اوبامہ انتظامیہ نے افغان پاکستان علاقوں میں اسے مزید تیز کردیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ یمن میں بھی یہی کرنے جارہاہے ۔امریکی صدراوبامہ کی جانب سے خیر سگالی کے پیغامات ،عرب اور مسلمان دنیاکے ساتھ باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر روابط کے قیام کے نعرے ڈرون حملوں،تیز رفتار F-15جیٹ طیاروں اور دندناتے ٹینکوں کی گرج کے نیچے دب کر رہ گئے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کی فوجی کاروائیاں اس کے جاسوسی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔فوجی مہمات جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے غیر متوقع طور پر اتحاد قائم ہوتے ہیں جیسا کہ امیرطبقے سے تعلق رکھنے والا نائیجریا کا نوجوان جس کی تعلیم لندن سے ہے ،ترکی کا تعلیم یافتہ اردنی ڈاکٹر اور عربی نژاد ہمام البلاوی ‘یہ تمام کے تمام امریکہ کو زخم خوردہ کرنے کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھے ۔
اسی دہشت گردی ،مخالف حربوں اور جاسوسی نظام نے عوامی سفارت کاری کے لئے بھی دلوں اور ذہنوں کو جیتنا مشکل بنادیا ہے ۔خطہ کے لوگوں کی مشکلات کو سُننے کی بجائے ‘ان کی جاسوسی کی جاتی ہے اور ان کے حقوق کی آواز کو دُور دراز کے قیدخانوں میں بندکردیاجاتا ہے ۔ان کے تحفظات اور خدشات کی شنوائی کرنے کی بجائے واشنگٹن نے اپنی اغراض کو سب سے زیادہ بلند کررکھا ہے ۔غربت کے مارے ،شمالی اور جنوبی علاقوں میں جنگ کی تکلیفیں سہتے اور تین دہائیوں سے آمرانہ اقتدار کے شکنجے میں کسے یمنیوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنی تکلیفوں کو بُھلاکر امریکی خدشات کو دور کرنے کا سامان کرو اور امریکی مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دو ۔یہ سب کچھ ہمیں ہمارے ابتدائی سوال کی طرف لے جاتا ہے کہ جتنا امریکہ اس خود شکستہ جنگ میں آگے بڑھتا جارہا ہے اُتنا ہی القاعدہ کامیابی سے قریب ہوتی جارہی ہے۔
No comments:
Post a Comment