Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, September 16, 2012

امریکی سفارتکاروں کی لاشیں بھی کرنل قذافی کی طرح گھسیٹی گئیں

 امریکہ میں توہین رسالت پر  مبنی بنائی فلم کی ریلیز کے بعد اسلامی دنیا میں پھوٹ پڑنےوالے پر تشدد مظاہروں پراب امریکی حکام کو سخت تشویش ہونے  لگی ہے اور امریکی صدر نے بھی  اس فلم کی سخت مذمت کرتے ہوئے تشدد بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف ملنے والی اطلاعات ہولناک ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ القاعدہ کے حامی عناصر نے ان مظاہروں کو نا صرف مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کررکھا ہے بلکہ مقامی حکومتیں بھی ان کےخلاف کچھ کرنےسے قاصر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، یمن، لیبیا، مصر، تیونس میں امریکی سفارتخانوں پر  حملے ہوئے ہین اور سفارتخانے تباہ کر کے ان پر القاعدہ کے سیاہ اور طالبان کے سفید جھنڈے لہرا دئے ہیں گئے جب کہ لیبیا میں مسلح مظاہرین نے ناصرف امریکی سفیر اور تین امریکی فوجی افسران کو قتل کیا بلکہ سفارتخانے پر بھی جلا ڈالا۔ اس حادثے کی آنے والی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ مظاہرین نے امریکی سفیر اور فوجی افسران کو قتل کرنے کےبعد ان کی لاشوں کو گھسیٹا اور بعض لوگ اس موقع پر قذافی کے نعرے بھی لگاتے رہے۔
تصاویر میں واضح ہے کہ امریکی سفیر کی سوختہ لاش کو گھسیٹا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔اس حملے میں لیبیا میں امریکی سفیر کے علاوہ قونصل خانے کے تین اہلکار بھی ہلاک ہوگئے تھے۔حکام کا کہنا ہے کہ منگل کے روز ہونے والا یہ حملہ ایک پیچیدہ اور پیشہ ورانہ انداز میں کیا گیا۔واشنگٹن میں امریکی محمکہِ دفاع کے مطابق امریکی مریئنز (کمنانڈوز) کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک ٹیم کو لیبیا میں بھیجا جا رہا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ امریکی بحریہ کے دو جنگی جہازوں کو بھی لیبیا کے ساحل کے قریب احتیاطی تدبیر کے طور پر بھیجا جا رہا ہے۔اس حملے میں جہادی تنظیموں سے منسلک گروہوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔" لیبیا کی سکیورٹی فورسز نے امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا مگر دہشت گرد مسلح اور کافی تعداد میں تھے۔"امریکی صدر باراک اوباما کے  جاری کردہ بیان کے مطابقمسلح افراد نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف فلم پر احتجاج کے دوران قونصل خانے کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس حملے میں لیبیا کے دس شہریوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ملی۔لیبیا کے ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ کرسٹوفر سٹیونز حملے کے بعد دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ تاہم اس  سے پہلے  امریکہ نے کہا تھا کہ عمارت پر جب حملہ  ہوا تو وہ خالی تھی مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اگر عمارت خالی تھی تو پھر ہلاکتیں کیسے ہوئیں۔بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملہ امریکہ اور لیبیا کی حکومتوں کے درمیان روابط نہیں توڑے گا۔صدر اوباما نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’امریکہ تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے اور ہم دوسروں کے مذاہب کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہیں مگر اس طرح کے بے معنی تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا‘۔انہوں نے کہا کہ یہ بات خاص طور پر افسوس ناک ہے کہ کرسٹوفر سٹیونز کی ہلاکت بن غازی میں ہوئی کیونکہ یہ ان شہروں میں سے ہے جنہیں بچانے میں ان کا کردار تھا۔امریکہ نے دو بحری جنگی جہاز لیبیا کے ساحل کی طرف روانہ کر دیے ہیںلیبیا کی نگراں حکومت کے رہنماء محمد مغارف نے امریکہ سے ان ہلاکتوں پر معافی مانگی ہے اور اس حملہ کو ’بزدلانہ اور مجرمانہ‘ قرار دیا ہے۔لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے  ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں انصار الشریعہ نامی گروہ ملوث تھا تاہم گروہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔فلم کی مخالفت میں لیبیا کے علاوہ مصر میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ دارالحکومت قاہرہ میں مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کی دیوار پھلانگتے ہوئے امریکی جھنڈا اتار کر پھینک دیا تھا اور اس کی جگہ القاعدہ اور طالبان کے جھنڈے لہرا دئے تھے۔مصر میں ہزاروں مظاہرین نے آزادیِ اظہار کے بہانے پیغمبرِ اسلام کی توہین کیے جانے کی سخت مذمت کی جبکہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔امریکہ کے خلاف عرب ممالک میں پھیلنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد امریکہ کے صدر براک اوباما نے وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک میں موجود امریکیوں کے تحفظ کے لیے جو بھی ضروری ہوگا کیا جائے گا۔صدر اوباما نے غیر ملکی حکومتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہاں رہنے والے امریکیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں کیونکہ یہ ان کی ذمے داری ہے۔ مسلم دنیا میں پر تشدد ہنگاموں کے بعدامریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس فلم کی مذمت کرتے ہوئے اسے قابلِ نفرت اور غلط اقدام قرار دیا ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکہ اس فلم کے مواد اور اس سے دیے جانے والے پیغام کو قطعی طور پر رد کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس فلم کی بنیاد پر تشدد نہیں کیا جانا چاہئیے۔امریکہ میں اسلام پر بنی ایک فلم کے کچھ اقتباسات کو انٹرنیٹ پر دیکھے جانے کے بعد مصر سے شروع ہونے والے مظاہرے پوری عرب دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ کئی ممالک میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں۔ فلم کے خلاف یمن، مصر، مراکش، سوڈان، تیونس میں احتجاج ہو رہا ہے۔ تیونس مظاہرین نے امریکی سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔
ایران، بنگلہ دیش میں ڈھاکہ، عراق میں بصرہ میں بھی مظاہرے کیے گئے ہیں، جن میں امریکی پرچم جلایا گیا۔امریکی حکام نے کہا کہ وہ اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے پیچھے کوئی شدت پسند سازش تھی یا صرف فلم کی وجہ سے لوگوں کی ناراضی کا نتیجہ تھا۔
لیبیا میں اس قتل اور حملے کے سلسلے میں کچھ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
یمن میں مظاہرین دارالحکومت صنعا واقع امریکی سفارت خانے میں سکیورٹی اہلکاروں کا گھیرا توڑتے ہوئے داخل ہو گئے اور امریکی پرچم کو جلا دیا اور القاعدہ اور طالبان کے پرچم امریکی سفارتخانے پر لہرا دئے۔پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر قابو پانے کی کوشش میں فائرنگ کی ہے لیکن وہ انہیں احاطے میں داخل ہونے سے نہیں روک پائے۔ بہت سے لوگ اس واقعے میں زخمی ہوئے تاہم بعد میں سیکورٹی فورسز نے انہیں منتشر کر دیا۔صنعا میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کے اندر کئی گاڑیوں کو آگ لگی دی گئی ہے۔منگل کو لیبیا کے شہر بن غازي میں امریکی قونصل خانے پر حملے میں امریکی سفیر سمیت تین امریکی اور دس ليبيائي شہری مارے گئے تھے۔ادھر مصر میں مسلسل تیسرے روز امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین امریکی سفیر کو ملک سے باہر نکالے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جب کہ مظاہرین نے پتھراؤ کیا۔مصر کی وزارتِ صِحت کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران دو سو چوبیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔مصر کے صدر محمد مرسي نے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری عرب دنیا میں غصے کی لہر چل رہی ہے لیکن انہوں نے تمام غیر ملکیوں اور سفارت خانوں کی حفاظت کرنے کا وعدہ گيا ہے۔

No comments:

Post a Comment