Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, May 6, 2012

پورے کراچی کی پولیس مل کر بھی 8 روز میں لیاری فتح کرنے میں ناکام ہوگئی




لیاری آپریشن میں آٹھ روز گزر جانے کے باوجود حکومت کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ روز تو واضح طور پر امن کمیٹی کے مسلح افراد کا پلڑا بھاری نظر آیا جبکہ پولیس اہلکار دفاعی پوزیشن پر نظر آئے، کئی روز کی شدید جنگ کے بعد اب پولیس ا ہلکار ہمت ہارتے نظر آرہے ہیں اور طاقت کے استعمال سے بھی نتائج نہیں مل سکے ہیں البتہ لیاری مکمل طور پر پیپلز پارٹی کا مخالف ہو چکا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں حکومت اور ملکی اداروں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے تاہم ان اختلافات کی تصدیق یا تردید کرنے پر کوئی فریق تیار نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک برس کے دوران سندھ کے رخصت پر بھیجے گئے دوسرے وزیر داخلہ منظور وسان نے زبردستی کی رخصت پر روانگی سے قبل صحافیوں سے الوداعی ملاقات میں اس سوال کا جواب دینے سے گریزکیا کہ رینجرز لیاری آپریشن میں موثر کردار ادا کیوں نہیں کر رہی۔ انہوں نے کاندھے اچکا کر چڑچڑے انداز میں کہا کہ یہ سوال تو وزیراعلیٰ سے پوچھا جائے جن کے پاس اب وزارت داخلہ کا قلم دان ہے، (میں تو چھٹی پر ہوں) ان کی بے بسی قابل دید تھی۔ لیاری آپریشن پر اداروں کے تحفظات غیر جانبدار سیاسی قوتوں سے ملتے جلتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آپریشن کراچی کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا تخصیص ہونا چاہئے۔ لیاری کے آٹھ افراد اگر گرفتار بھی ہوگئے تو کیا کراچی میں امن قائم ہو جائے گا؟، ٹارگٹ کلنگ بند ہو جائے گی؟ اسٹریٹ کرائمز کے ستائے ہوئے شہری سکون کی زندگی گزار سکیں گے؟ ہر طرف امن اور چین ہوگا؟ اگر ان سب کی ضمانت ہے تو پھر کراچی کے لوگوں کو لیاری آپریشن پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مگر انہیں معلوم ہے کہ کراچی میں لوگوں کی جانیں لینے والے کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور یہ کراچی کے شہری برسوں سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
دو برس قبل سابقہ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جو صدر زرداری کے دست راست اور انتہائی قریبی رفیق تھے نے کراچی کے مسئلے کا نرالاحل دریافت کیا تھا جس کی تصدیق گزشتہ روز جیو کے پروگرام ”لیکن“ میں امن کمیٹی کے ظفر بلوچ نے کی کہ انہیں ہتھیار پیپلز پارٹی نے دیئے تھے اور اس لئے دیئے تھے کہ وہ ایم کیو ایم کے لوگوں کا مقابلہ کریں۔ یہی اسلحہ کے انبار اب قانون کے خلاف استعمال ہو رہے ۔پہلے سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی جبکہ تاجر اور عام شہری روزانہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر احتجاج کرتے یا دہائی دیتے دیکھے جاسکتے تھے یہ سب کچھ اقتدار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا مگر مر تو غریب رہے تھے اس لئے فکر کسی کو نہ تھی۔ اقتدار کی سنگھاسن ڈولنے لگی، انتخابات کے دن قریب آنے لگے اور ووٹ فیصلہ کن قوت بننے جا رہا تھا تو فیصلہ سازوں کو اپنی غلطیوں کا ایک بار پھر احساس ہوا اورانہوں نے پوری ریاستی مشینری آٹھ ملزموں کی گرفتاری کے لئے 15 لاکھ کی آبادی میں جھونک دی۔ وہ آٹھ ملزم بھی اپنے ہی تراشیدہ ہیں۔ لیاری 8 روز سے آگ اگل رہا ہے، چاروں طرف سے پولیس کے پندرہ ہزار سے زائد جوانوں نے اسے گھیر رکھا ہے، اب تک 30 سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ لیاری میں آٹھ نہیں آٹھ ہزار جرائم پیشہ عناصر ایک دوسرے سے کمربستہ ہیں اور ان جرائم پیشہ عناصر کی گزشتہ چار سالوں کے دوران کی جانے والی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے وہ اس قدر منہ زور ہوگئے ہیں کہ اب سرکار کی طاقت کو بھی للکارنے لگے ہیں۔ چوہدری اسلم جیسے پولیس افسر کو آئی جی سے بھی زیادہ اختیارات دے کر کراچی پولیس ان کی کمان میں دے دی گئی ہے شہر کے تمام تھانوں میں سناٹا ہے پولیس کوئی اور کام نہیں کر رہی اور تمام ایس ایچ او اور ان کی سپاہ چوہدری اسلم کو جواب دہ ہیں اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ آٹھ روز میں نتائج دکھائیں گے۔ آٹھ روز گزر گئے، آٹھ مزید گزرنے کو ہیں مگر لیاری کو ابھی تک فتح نہیں کیا جا سکا ہے۔ بچے دودھ کو بلک رہے ہیں،بجلی بند، پانی بند، بازار بند، دوائیاں ناپید، خوراک غائب، خوف کا راج ہے۔کیا یہ پیپلز پارٹی سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے، اس کا فیصلہ تو بالٓاخر لیاری کے عوام کو خود کرنا ہوگا۔ اب ایک بار پھر پولیس اور سرکار کی گاڑیوں میں ایک دوسرے جرائم پیشہ لالو پپو گروپ کو بٹھا کر لیاری پر ان کا قبضہ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ یہاں پہلے سے موجود گروپ پی پی کا مخالف ہو گیا ہے لہذا نیا گروپ جو پی پی کا حامی ہے اب اسے قبضہ دلایا جا رہا ہے۔
کراچی سمیت ملک بھر کے لوگوں نے ایک ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام میں یہ بھی دیکھا اور سنا کہ کل تک سرکار کی آنکھوں کا تارا سمجھا جانے والا رحمٰن ڈکیت کا گدی نشین عذیر بلوچ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا صدر زرداری پہلے ٹین پرسنٹ تھے اب 100 فیصد ہوگئے ہیں اور اس نے دعویٰ کیا کہ آج کے بعد لیاری سے پیپلز پارٹی کا نام و نشان ختم ہوگیا اور اب کوئی رکن اسمبلی پی پی کے ٹکٹ پر لیاری سے کامیاب نہیں ہوگا۔ گزرے آٹھ دنوں میں کراچی کے شہریوں نے مسلسل یہ مناظر بھی دیکھے کہ پیپلز پارٹی کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی، جھنڈے اور پوسٹر جلا دیئے گئے اور تصاویر پاؤں تلے روندی گئیں، یہ سب کچھ بھٹوز کے لیاری میں ہو رہا ہے اس طرح تاریخ کا دھارا نئی منزل کی تلاش میں بہہ رہا ہے ایک بار پھر نئے فیصلے لکھنے کی طرف گامزن ہے۔
دوسری جانب لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف پولیس آپریشن چوتھے روز نسبتاً سست نظر آیا مگر تخریب کاروں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ پیر کو دہشتگردوں نے راکٹ ، دستی بم کے حملے کیے جبکہ تخریب کاروں نے لیاری سے نکل کر شیر شاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، تخریب کاروں نے شیر شاہ میں 2/ مسافر گاڑیوں کو بھی جلادیا جبکہ ایک کار ملیر کے علاقے میں جلائی گئی، لیاری کے مکینوں نے احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ ادھر لیاری آپریشن کی قیادت کرنیوالے ایس ایس پی، سی آئی ڈی ایکسٹریم ازم سیل چوہدری محمد اسلم خان نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ آئندہ 48/ گھنٹے میں آپریشن مکمل کرلینگے تاہم چار روز سے جاری آپریشن کے سبب پیر کو بھی لیاری میں بازار اور دکانیں مکمل طور پر بند رہیں، سڑکوں سے ٹریفک غائب رہا اور پورے ٹاؤن میں خوف و دہشت کے سائے منڈلاتے رہے۔ لیاری میں آپریشن کے دوران مختلف مقامات پر پی ایم ٹی تباہ ہونے کے باعث بجلی نہیں جس کی وجہ سے لیاری کے مکینوں کو پانی بھی میسر نہیں آرہا اور شہریوں کو دقت کا سامنا ہے۔ پیر کو لیاری کے مکینوں نے ماڑی پور روڈ پر احتجاجی ریلی بھی نکالی مگر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے ریلی کے شرکاء کو منتشر کردیا، لیاری میں آپریشن کیخلاف ملیر، ماڈل کالونی سے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے شرکاء نے تھانہ سعود آباد کی حدود میں ملیر ہالٹ کے پاس ایک کار کو آگ لگادی۔ قبل ازیں دہشتگردوں نے لیاری میں جمعہ بلوچ روڈ پر ایک راکٹ فائرکیا گیا جس کے ٹکڑے لگنے سے ایک 60/ سالہ نامعلوم شخص ہلاک جبکہ 40/ سالہ جہانگیر، 55/ سالہ ہارون، 8/ سالہ انیس، 40/ سالہ سلیم، 32/ سالہ یوسف، 28/ سالہ ظفر، 21/ سالہ عائشہ، 20/ سالہ سہیل اور ایک 30/ سالہ نامعلوم شخص زخمی ہوگیا۔ نیا آباد میں فائرنگ سے 25/ سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا جس کی فوری طور پر شناخت نہیں ہوسکی۔تھانہ کلری کی حدود ہنگورہ آباد میں 23/ سالہ نامعلوم نوجوان کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی جسے تشدد کے بعد سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ لی مارکیٹ، بھیم پورہ، کمہار سنیما کے قریب مارے جانے والے راکٹ کے ٹکڑے لگنے سے 30/ سالہ ریاض، 40/ سالہ جمعہ، 25/ سالہ کشور اور 25/ سالہ شبیر زخمی ہوگیا جبکہ چیل چوک پر فائرنگ سے ہیڈ کانسٹیبل 30/ سالہ عباس ولد ساجد زخمی ہوگیا۔ دریں اثناء دہشت گردوں کے ایک گروپ نے موٹر سائیکلوں پرنکل کر شیرشاہ پراچہ چوک کے بس اسٹاپ پر کھڑے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 25/ سالہ رضوان ولد محمد ریاض، 28/ سالہ عبدالمجید اور جنید انصاری ہلاک جبکہ 45/ سالہ احمد اور 24/ سالہ عظیم ولد سراج زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں تخریب کاروں نے 2/ منی بسوں نمبر PE-4233 اور PE-4076 کو بھی آگ لگادی۔ قبل ازیں ہلاک شدگان کی لاشیں اور زخمیوں کو چھیپا اور کے کے ایف ایمبولینسز کے ذریعے سول اسپتال پہنچایا گیا آخری اطلاعات آنے تک لیاری میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری تھا۔رات گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ایک سپاہی جاں بحق ہوگیا، جبکہ پولیس دہشت گردوں کے اہم ٹھکانوں نوالین، گل محمد لین اور سیفی لین میں داخل ہوگئی جس کے دوران سیکورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا، جومسلسل جاری تھا، تخریب کاروں نے چیل چوک پر2راکٹ مارے جبکہ کلری تھانے کے قریب پولیس کی بکتر بند گاڑیوں پر 3 دستی بم پھینکے گئے چیل چوک پر راکٹ حملے میں ریپڈ رسپانس ایسٹ کا سپاہی شہباز جاں بحق ہوا، جس کی لاش سول اسپتال پہنچائی گئی ، نیز لیاری ایکسپریس وے پر تخریب کاروں نے 25سالہ پرویز ولد امام بخش کوہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد گولیاں مارکر پھینک دیا، جسے شدید زخمی حالت میں سول اسپتال پہنچایا گیا

No comments:

Post a Comment