جناب جاوید احمد غامدی
حال ہی میں خوارج ،معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، قادیانیت اورپرویزیت کی طرح ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو اگرچہ تجدد پسندی کی کوکھ سے بر آمد ہوا ہے مگر اس نے اسلام کے متوازی ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر لی ہے، اس فتنے کا نام ہے ’’غامدیت!‘‘ہے۔
اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو عباسی دور حکومت میں جب یونانی فلسفہ عربی زبان میں منتقل ہوا تو اس کے ردِعمل میں مسلمان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک عظیم اکثریت نے تو اسے قرآن و سنت کی روشنی میں یکسر مسترد کرکے اسکے تار پود بکھیر دیے، جبکہ دوسرے گروہ نے مرعوب ہوکراس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ پہلا گروہ اہل سنت کے نام سے موسوم ہوا، اور دوسرے نے معتزلہ(راہ حق سے منحرف گروہ) کے نام سے شہرت پائی۔معتزلہ نے عقل کو اصل قرار دے کر شریعت کو اس کے تابع کردیا، پھر کیونکہ یونانی فلسفہ کے اعتقاد اسلامی عقائد و افکار سے بہت مختلف تھے اور ان کو فروغ دینے کیلئے ایک بہت بڑی رکاوٹ خود آپ ﷺ کی سنت تھی جو قرآن کی حتمی تعبیر کی شکل میں مسلمانوں میں رائج تھیں، چنانچہ انہوں نے انکار سنت کی راہ بھی اپنائی ۔ نتیجے کے طور پر یونانی فلسفے کی روشنی میں جدید اصولوں کی بنیاد پر معتزلہ کا ایک نیا اسلام وجود میں آیاجس کا کوئی تصور صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ خلافت عباسیہ میں حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس فکر کو کچھ عرصے پھلنے پھولنے کا بھی موقعہ ملا، لیکن آئمہ اہل سنت کی بے مثال قربانیوں، انتھک جدوجہداور سخت مخالفت کی بنا پر یہ فرقہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہ کر سکا اوراعتزالی فکرکا دور اولین اپنے انجام کو پہنچا اورایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے کتابوں کے صفحات تک محدود ہو کر رہ گیا۔
انیسوی صدی ہجری میں جب یورپ میں سائنس نے پاپا ئیت سے ایک طویل تصادم کے بعد علمی تفوق پایا تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر مرتب ہوئے۔سائنس کو انکار مذہب کے مترادف سمجھا جانے لگا اور الحاد و لادینیت کا دور دوراں ہوا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا۔ ایک طرف راسخ اور پختہ فکر علماء تھے جنہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد وحی ہے، اور دنیا کی کوئی بھی مسلمہ حقیقت مذہب کے خلاف نہیں ہوسکتی، اور مغرب میں اصل معرکہ مذہب و سائنس کے بجائے عیسائی پادریوں کے ذاتی نظریات اور سائنسی دریافتوں کے مابین ہے۔
اس کے بالمقابل دوسرے گروہ نے ایک اور راہ اپنائی وہ یہ کہ انہوں نے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کی بنیاد پر مغربی نظریات کو مسلمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لئے تاویلات شروع کردیں ۔ یہ فکر اعتزال کا دور ثانی تھاجس کی سرخیل سرزمین ہند میں سر سید احمد خان نے ڈالی۔مغربی افکار کی رو سے ہر وہ بات جوطبعی قوانین کے خلاف ہو اسے خلاف عقل قرار دے کر رد کردیا جاتا تھا، چنانچہ سرسیدنے قدرت (نیچریت) کی برتری کا نعرہ لگایا۔ لغت عرب کی مدد سے قرآن کی من گھڑت تاویلات پیش کیں۔ احادیث کو مشکوک قرار دیا اور امت کے اجتماعی معاملات طرز عمل کو آئمہ و مجتہدین کے ذاتی خیالات و اجتہادات کہہ کر نظر انداز کردیا۔ نتیجے کہ طور پر نیچرو لغت کی بنیاد پر وضع کردہ اصولوں کے تحت اسلام کی جوتعبیرو تشکیل نو مسلمانوں کے سامنے آئی وہ ان کے صدیوں کے اجتماعی تعامل سے یکسر بیگانہ تھی۔ سرسیدکے اس اعتزالی فکر کی دوسری کڑی جناب غلام احمد پرویزہیں جو اپنے امام سرسید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لغت پرستی اور انکارسنت کے حوالے سے کافی معروف ہوئے۔
ایک بار پھر جب11اکتوبر 2001کو عالمی استعماری اتحاد نے اسلام کے خلاف نئی صلیبی جنگ کا آغاز کیا توعام مسلمانوں کے کسی ردعمل سے بچنے کیلئے یہ کہا گیا کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ اس بڑے پیمانے پر پھیلا یا گیا کہ یہودیوں اورامریکہ سے نفرت کرنے والے عام مسلمان بھی اس پروپیگنڈہ میں Trap ہوگئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ ضرورت پیش آئی کہ زرئع ابلاغ کی طاقت اور جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کی قوت سے راسخ العقید ہ اور پختہ مسلمانوں کو ’’انتہا پسند ‘‘Extremistاور ’’دہشت گرد ‘‘Terroristکا Titleدے کر ان کے خلاف بھر پور زہر اگلا جائے یہاں تک کہ یہ خود مسلمانوں میں تنہا ہوجائیں ۔ باقی بچ جانے والے عام مادہ پرست مسلمانوں کوکھلم کھلا کفر کی دعوت عام دینے کے بجائے انکے سامنے اسلام کا ایک ایسا نیا Version پیش کیا جائے ،جس کا نام تو اسلامی ہومگر درحقیقت وہ جدت اور دنیا داری سے مامورصحیح اسلام سے متوازی علیحدہ دین ہواور اس کے ساتھ ہی زرئع ابلاغ کی بھر پور طاقت سے اس نئے مذہب کی خوبصورت اور جاذب نظر انداز میں تشہیر کی جائے ۔ اہل مغرب کو اس کے لئے کوئی زیادہ محنت نہ کرنی پڑی کیونکہ مسلمانوں میں موجود بہت سے لوگ خود ہی آستین کا سانپ بن کر اسلام کے مقابلہ میں عالم کفر سے جاملے۔ بس ان لوگوں نے اپنے اس نئے اسلام کو معتدل اور روشن خیال اسلام (بیچ کا اسلام یعنی منافقت ) Moderate & Enlightened Islam کا نام دیا اوراس نئے اسلام سے ہر اس چیز کو نکال باہرکیا جس پر کسی بھی پہلو سے اہل مغرب معترض تھے۔
فہم سلف سے منحرف ،متجدد فکر ، روشن خیال اور مرعوب زدہ طبقے میں ’’المورد‘‘ادارہ علم و تحقیق سب سے پیش ہے۔جس کے سربراہ اول ازکر جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں علماء انہیں بھی سرسید اور پرویز کے ساتھ منسوب نہ کر دیں، لغتِ قرآن کے بجائے عربی معلی یعنی عربی محاورے کا نعرہ لگایااور انکار سنت کا کھلم کھلا دعوی کرنے کے بجائے حدیث و سنت میں فرق کے عنوان سے اس مقصد کو پورا کیا۔ وہ اپنی نسبت مولانا امین حسین اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کے واسطے سے مولانا شبلی نعمانی ؒ سے کرتے ہیں،(کیونکہ ان حضرات کے علمی تفردات کے باوجود اہل علم انکے بارے میں قدرے نرم ہیں جس کا سبب مذکورہ بالا اصحاب ثلاثہ کی وہ گرانقدر دینی و ملی خدمات ہیں جو انکی کمزوریوں اور تسامحات کے ازالے کے لئے کافی ہیں) لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ غامدی صاحب جس اسلام کو پیش کررہے ہیں وہ دبستان شبلی کا اسلام ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ وہ پرویز وسرسید کا اعتزالی اسلام ہے۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام، استعماری طاقتیں اوراسلام دشمن یہودی لابی کے عزائم کے سامنے دین اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لہذا وہ ایسے تمام افراد کی بھر پور حمایت اور اعانت کرتے ہیں جومسلمانوں میں جدت کے نام سے غیر اسلامی افکار کا جواز نکالتے ہیں اور انکے اجماعی معاملات کو متنازعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے غامدی صاحب اور انکے معاصرین جیسے نام نہاد دانشور ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی اور مہدی حسن کو اہل مغرب کی خاص معاونت و حمایت حاصل ہے ۔ مغربی ممالک کے ٹکڑوں پر پلتے نام نہاد اسلامی و پاکستانی میڈیاکے دروازے ان حضرات پرکھلے ہیں ،تا کہ یہ دین سے ہی خلافِ دین حرکات کی جھوٹی تاویلات پیش کریں کہ عام مسلمان بے جانے بوجھے گمراہ ہو جائیں۔امریکی اخبار ات و جرائد کی خبروں سے معلوم ہوا کہ عالمی استعماری طاقتوں اور یہودی لابی نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے کرکروڑوں ڈالرپرمشتمل ایک بہت بڑا فنڈ اس مد میں مختص کررکھا ہے۔یہ کمیشن دین اسلام کی غلط اور من گھڑت تصویر پیش کر نے والوں کی حوصلہ افزئی کرتاہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی کمیشن نے متعدل اور انتہا پسند اسلام کے نام دو مختلف طبقہ ہائے اسلام کی تھیوری تیار کی تھی اور یہی پاکستان میں معتدل Moderate اسلام کے نام سے نیا اسلام متعارف کرانے والے جناب جاوید احمد غامدی ،ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی ,مہدی حسن اور شعیب منصورکی حوصلہ افزائی کرتاہے
No comments:
Post a Comment