Search This Blog

Total Pageviews

Monday, February 14, 2011

مظلوموں کا انتقام

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر نے یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔ لاکھوں افراد مختلف طریقوں سے ہلاک کئے گئے ۔تاریخ نے اس سانحے کو ‘ہالوکاسٹ’ کا نام دیا ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف روس یہود و ہنود و نصاری کا ظلم و بربریت اور قتل عام جو سالہا سال سے جاری ہے وہ بے نام ہے اوراس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف روسی بربریت اخلاقی درندگی اور انسانی قدروں کی پامالی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے جس کا تذکرہ عالمی شہرت یافتہ دانشور اور معروف امریکی تجزیہ نگار ایرک ایس مارگولیس (Eric S. Margolis) نے اپنے حالیہ مضمون بعنوان Revenge of The Two Black Widows میں کیا ہے۔ یہ مضمون ملکی اور غیر ملکی اخباروں میں شائع ہو چکا ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔ مارگولیس لکھتے ہیں:
‘‘گذشتہ ہفتے چیچن مجاہدین نے ماسکو کی ایک شاہراہ پر حملہ کرکے ۹۳ روسیوں کو قتل اور 70 لوگوں کو زخمی کر دیااور داغستان میں چیچن خودکش حملہ آوروں نے بارہ لوگوں کو قتل کیا جن میں اکثریت پولیس ملازمین کی تھیـ۔ ان حملوں کا سبب روسی دانشور کریملن کی غلط پالیسوئوں کو قرار دیتے ہیں جن کے سبب چیچنیا کا مسئلہ نہ صرف الجھا دیا گیا ہے بلکہ چیچن لوگوں کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔روس سے چیچنیا والوں کا انتقام مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ بدنام زمانہ روسی مافیا بھی خوفزدہ ہے۔ ‘‘دو خواتین’’ جو چیچن مجاہدین آزادی کی بیوائیں تھیں‘ انہوں نے گذشتہ ہفتے روسیوں سے انتقام لیا ہے۔
‘‘شمالی کاکیشیا کے خطے میں روسی حکمرانی کے باوجود پر تشدد واقعات کا لاوا ابل رہا ہے۔ چیچنیا کے سابق لیڈر‘ دوکو عمر( Doku Umarov )جن کے تمام پیشروئوں کا روس نے صفایا کر دیا ہے‘انہوں نے کاکیشیا کے پہاڑو ں میں واقع اپنی پناہ گاہ سے دعوی کیا ہے کہ یہ حملہ کر کے روسی فورسز کی جانب سے چیچنیا کی سویلین آبادی کے قتل کا انتقام لیا ہے۔ انہوں نے روسی حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ‘‘جو کچھ ہم اتنے عرصے سے سہہ رہے ہیں اس کا ذائقہ اب تمہیں بھی چکھائیں گے۔’’ چیچن قبائل ‘شمالی کاکیشیا کے وہ سخت گیر لوگ ہیں جن کا تعلق انڈویورپین نسل سے ہے۔ کاکیشیا کے دیگر مسلم قبائل مثلاً داغستانی اور چرکاس یا سرساشین کے ساتھ مل کر چیچنیاکے مجاہدین ‘ روسی ایمپائر کیخلاف ایک سو تیس سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔
‘‘ایک سو تیس سال قبل 1877ء میں زارروس نے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد 40 فیصد چیچنیوں کو قتل کر دیا تھا جن کی تعداد دو لاکھ بیس ہزار بنتی ہے اور چار لاکھ چرکاس قبیلے کے لوگوں کو ملک سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ اسٹالن جوکہ جارجیا سے تعلق رکھتا تھا چیچن لوگوں سے سخت نفرت کرتا تھا‘ اس نے چیچنیا کو تقسیم کر کے انگشتیا کی نئی سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے بعد جولائی 1937ء میں اس کی خفیہ پولیس NKVD نے چودہ ہزار چیچنیوں کو ایک ہی وقت میں قتل کر دیا تھاـ۔ 1944ء میںا سٹالن کے حکم پر تمام چیچنیوں کا گھیرائو کر کے انہیں مویشیوں کی گاڑیوں میں بند کر کے سائبیریا کے اذیتی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا یا پھر برفانی میدانوں میں اکٹھا کر کے مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیاتھا۔ اسی طرح کلموک‘ تاتار‘ کراچئی اور بلقان کے لاکھوں مسلمانوں کواذیتی مراکز میں پہنچا دیاگیا تھاجہاں سردی کی شدت ‘ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے وہ موت سے ہمکنار ہوئے۔ اسی مناسبت سے سٹالن کو ’’قوموں کا قصائی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس نے پچیس لاکھ روسی مسلمانوں کو قتل کیا۔ سٹالن کی موت کے بعد چند مسلمان جو اذیتی مراکز میں زندہ بچ گئے تھے وہ چیچنیا واپس آئے اور 1991ء میں جب سویٹ یونین ٹوٹا تو دوسری سلطنتوں کی طرح چیچنیا والوں نے بھی روس سے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
‘‘اس بغاوت کو کچلنے کیلئے روسی صدر بورس یلٹسن نے واشنگٹن میں کلنٹن انتظامیہ کی رضامندی سے چیچنیا پر چڑھائی کر دی اور ایک لاکھ سے زائد چیچن باشندوں کا قتل عام کیا اور چیچنیا کے صدرذاکر دائود بھی قتل کر دئیے گئے۔ اسکے باوجود غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیچن حریت پسندوں نے روسی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1999ء میں پوٹن ‘جو چیچنیاکے سخت ترین مخالف تھے وہ روس کے صدر بن گئے۔دوسال بعد 9/11 کے حملوں نے امریکہ کو دو جنگوں کی کیفیت سے دوچار کردیا تو روسی افواج نے چڑھائی کر کے چیچنیا کی مزاحمت کو کچل دیا اور تمام ترقی پسندچیچن لیڈروں کو قتل کر دیاـ۔ آخری لیڈر’ ذلمی خان اندرابی ‘کو 2004ء میں قطر میں قتل کیا گیا جس کے بعدچیچنیا میں عسکریت پسندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ چیچنیا میں روس نواز پٹھو حکومت نے عوام پر اندھے اور کالے قوانین نافذ کر دئیے جن سے عوام کوطرح طرح کی اذیتیں دی گئیں‘ بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا ‘انہیں وسیع پیمانے پر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ایک لاکھ چیچن باشندوں کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح اسٹالن کے قتل عام کے بعد 1991ء سے آج تک ایک چوتھائی چیچنیوں کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن اسکے باوجود چیچن عوام جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
‘‘ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’چیچنیوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے مگر انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘ کا کیشیا کے علاقے میں پھیلتی ہوئی بغاوت ماسکو کیلئے خاصی پریشانی کا سبب ہے۔روسی صدر اورپوٹن نے چیچنیا ‘ داغستان اور انگشتیا میں مزاحمت کو مکمل طور پرختم کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ماسکواس دردناک کہانی کو ختم کردے۔ ‘‘
ظلم کی داستان تو بڑی طویل ہے اور پرانی بھی ہے۔ چیچنیا کی آزادی کی جنگ ایک سو تیس سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب روس نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ ان پرڈھائے جانیوالے ظلم و بربریت کی جھلک آپ نے مارگولیس کی زبانی سنی۔ اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرزمین پر ’یہودی مملکت‘کا فتنہ کھڑا کیا گیا اور اس وقت سے لیکر اب تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کے کوہ گراں توڑے جارہے ہیں۔ آج سے تقریبأ ایک سو اسی سال پہلے 1827ء میں ہندو راجہ کو کشمیر کا حکمران بنایا گیا جس کیخلاف مسلمانوں نے وادی منگ کے سرداروں کی قیادت میں جنگ لڑی۔ ہندو راجہ کے آٹھ ہزار سے زائد فوجی قتل ہوئے ‘ وہ بھاگا اور جموں میں جا کر پناہ لی لیکن کچھ دنوں بعد مصالحت کا پیغام دیا جو دھوکہ تھا اور جب کشمیری قیادت جمع ہوئی تو انہیں قید کر لیا گیا۔ سترہ قائدین کی زندہ کھالیں اتاریں اور انکی زندہ لاشوں کو مختلف چوراہوں پر اور وادی منگ کے اس بڑے درخت سے لٹکا دیا گیا جو اب بھی موجود ہے اور ہندو راجہ کی بربریت کی زندہ علامت ہے۔ پھر ہندو راجہ کی فوج نے بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام شروع کیا جو ہفتوں جاری رہا اور سولہ ہزار سے زیادہ مسلمان تہ تیغ کر دیئے گئے۔ غیر مسلم حکمرانوں کیخلاف کشمیری مسلمانوں کی یہ مزاحمتی تحریک ایک سو اسی سال سے جاری ہے۔ خصوصأ 1990ء کے بعد سے اب تک بھارتی فوجی درندگی کے سبب ایک لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں۔زمانہ جدید کا سب سے بہیمانہ مسلمانوں کا قتل عام پچھلے تیس سالوں سے جاری ہے‘ جو مہذب دنیا کے چہرے پر بد نما داغ ہے۔ مسلمان ملکوں کیخلاف غیر ملکی جارحیت کے سبب مسلمان ملکوں کو قتل گاہیں بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً روس کا افغانستان پر قبضہ اور اسکے خلاف امریکہ کی مزاحمت؛ ایران عراق جنگ؛ خلیج کی 1991ء کی جنگ؛ 2001ء میں افغانستان پر امریکہ اور اتحادیوں کا قبضہ اور نو سالوں سے جاری خونریزی؛ عراق پر 2003ء میں امریکہ کا قبضہ جہاں اب تک قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اسرائیل کا حزب اللہ ‘ حماس اور فلسطینیوں کیخلاف بدترین بربریت کا مظاہرہ۔ ان غیر ملکی جارحیتوں کے سبب ساٹھ لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ظالموں نے مظلوم مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے کہا جا رہا ہے کہ ’’ثبوت دو تم دہشت گرد نہیں ہو۔
‘‘ہمارا ایمان ہے کہ جب اللہ کی مخلوق پر ظلم ایک حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو مداخلت ایزدی(Divine Intervention) کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ مداخلت ایزدی دنیائے اسلام کی اس مدافعتی قوت کا نام ہے جو اسی(80) کی دہائی میںروسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی سر زمین سے ابھری اور آہستہ آہستہ چیچنیا سے لے کر فلسطین‘ لبنان‘ عراق‘ افغانستان اور کشمیر تک پھیل چکی ہے۔ اس مدافعتی قوت کے سامنے دنیا کی ہر بڑی طاقت شکست کھا چکی ہے۔ یہ دور حاضر کامعجزہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ظالم طاقتیں… روس‘ یہود و ہنود و نصاری ۔ ظلم و بربریت کی دردناک ریاستی دہشت گردی کو ختم کر دیں کیونکہ‘‘مسلمانوں کو قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن انکی تحریک آزادی کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔’’ لازم ہے کہ مفاہمت اور امن کا راستہ اختیار کریں اورمہذب کہلانے کا شرف حاصل کریں۔

No comments:

Post a Comment