Search This Blog

Total Pageviews

Sunday, August 19, 2012

بدھ مت دہشتگردوں نے برما میں نماز پر پابندی لگا دی


مسلمانوں اور آزمایشوں کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کسی ایک جگہ سے اچھی خبر آتی ہے تو دوسری جگہ سے روح تک چھلنی کرنے والے حالات سامنے آ جاتے ہیں۔ تازہ ترین آزمایش برما کے ان مسلمانوں پر آئی ہے جو مغربی ریاست راکین کے باشندے ہیں۔ برما حکومت نے بھی اب مجبوراً تسلیم کیا ہے کہ مئی کے آخر سے پُرتشدد حملوں کے باعث کم سے کم ۷۸ مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مصر کی عرب ویب سائٹ المحیط کے مطابق برما کے ۴۰ لاکھ سے زائد مسلمان اس رمضان المبارک کا استقبال کرنے سے ہی محروم رہے۔ انھیں صرف اپنی جان و مال کا نہیں آبرو لٹنے کا بھی خوف لاحق ہے۔’’بدھ مت‘‘ کے حوالے سے ہم سب بڑا سافٹ سا تاثر رکھتے ہیں۔ سر مونڈے، گیردے کپڑے پہنے اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ جو لڑائی جھگڑے پر یقین نہیں رکھتے۔ برما میں ’’ماگ‘‘ کے اراکین نے سارا تاثر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’’ماگ‘‘ بدھ بھکشوئوں کی وہ تنطیم ہے جو بنیادی طور پر بدھ دہشت گردوں پر مشتمل ہے۔ سرکاری فوج ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور اس سال برما کے مسلمان رمضان اس حالت میں منا رہے ہیں کہ ان کی ۳۰۰ سے زائد مساجد بند کر دی گئی ہیں۔ نمازِعشاء کے لیے گھر سے نکلنے اور کسی جگہ جمع ہونے پر قانوناً پابندی لگا دی گئی ہے اگر کسی جگہ شک پڑ جائے تو ماگ اور فوج کے لوگ مل کر جاتے ہیں اور ان نمازیوں کو اٹھا لاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔بازاروں میں مسلمانوں کے لیے جانا اور سودا خریدنا ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔ بازاروں میں مسلمانوں کی جلی ہوئی دکانیں بے بسی کی کہانی سُناتی ہیں۔ المحیط کے مطابق ۳ جون سے اب تک ماگ کے حملوں سے ۲۰ ہزار سے زائد مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ۵ ہزار نوجوان اغوا کر لیے گئے ہیں جن کی واپسی کی امید نہیں ہے۔ ۶ ہزار سے زائد عورتوں اور بچیوں کو ان بدھوں کے مکروہ ترین روپ سے واسطہ پڑا جب ان کی عزتیں لوٹ لی گئیں۔۹۰ ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق برما کے صدر تھین سین نے مسلمانوں کو کھلے عام لفظوں میں کہا ہے کہ برما چھوڑ دو یا مہاجر بستیوں میں چلے جائو۔ تم برما کے شہری نہیں ہو۔ رپورٹ کے مطابق برمی حکومت نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک سے ہر حالت میں مسلمانوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ ۱۹۴۱ء سے شروع ہوا جب ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں کو ۱۹۴۲ء تک تہ تیغ کردیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں پھر ۳ لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا جہاں آج تک وہ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں پھر ایسے ایک آپریشن میں ۳۰ ہزار مسلمانوں کو برما سے نکال دیا گیا۔ راکھتی (اراکان) کے علاقے میں بسنے والے مسلمان بے حد غیرمنصفانہ حکومتی قوانین کا جبر سہ رہے ہیں۔ ان کے مرد ۳۰ سال سے پہلے شادی نہیں کر سکتے، اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، ملک میں کہیں آ جا نہیں سکتے، زمین خرید نہیں سکتے، نوکری نہیں کر سکتے۔، فوج ان کو اکثر جبری مشقت کے لیے اٹھا کر لے جاتی ہے۔ترکی نے مذمت کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کو کہا اور ’’ماگ‘‘ کی دہشت گردی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جامعہ الازہر نے پوری دنیا میں برما کے سفارت خانوں کے گھیرائو کا کہا ہے تاکہ برما حکومت دبائو محسوس کرے ۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حسینہ معین کی بنگلہ حکومت نے اس مشکل وقت میں نہ صرف سرحدیں بند کر دیں بلکہ ملک میں ان مظلوم بری مسلم مہاجرین کے داخلے پر سخت پابندی لگا دی ہے حالانکہ وہ اقوامِ متحدہ کے ادارے متاثرین کی خوراک، علاج اور رہائش کا انتظام کر رہے تھے۔ ان حالات میں کافی متاثرین تھائی لینڈ جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ رونیگیا نسل کے مسلمان تکنیکی لحاظ سے غیرقانونی تارکین وطن ہیں اور ان کا اصل وطن بنگلہ دیش ہے۔ اس لیے ہم ان کو شہریت نہیں دیتے۔ بدھ بھکشوئوں کا یہ خوفناک روپ دنیا نے پہلی بار دیکھا ہے کہ وہ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے پھرتے ہیں۔ عورتوں کی بے حرمتی کو اپنے لیے روا جانتے ہیں۔ ان کے تشدد نے مسلمانوں کو ایک قابل رحم اقلیت بنا ڈالا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برما کی سیکورٹی فورسز کو اس قتل عام کا حصہ دار بتایا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دنوں دفاع کونسل کے پلیٹ فارم سے اس قتل عام کے خلاف مظاہرے کیے گئے مگر ابھی تک مغربی دنیا خاموش ہے۔ مغربی میڈیا بھی اس انسانی ایشو کو چھیڑنے سے کترا رہا ہے کہ بدقسمتی سے متاثرین کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔

No comments:

Post a Comment