امریکہ کے لئے جاسوسی پر 33 سال قید کی سزاء پانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے 1991ء میں ایم بی بی ایس کیا، 2010ء میں ہیلتھ آفیسر تعینات ہونے کے بعد کئی بار بدعنوانی کے الزام میں معطل اور پھر اثر و رسوخ پر بحال ہوتا رہا اسے خیبر پختون میں بر سر اقتدار اے این پی میں خاصا رسوخ حاصل تھااور اسی باعث اب اے این پی کے رہنما اسے ہیرو قرار دینے اور رہا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امریکہ نے بھی اسے قومی اعزاز کے لئے بھی نامزد کیا، خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر شکیل آفریدی ملک دین خیل میں 1962ء میں پیدا ہوا اور 1991ء میں خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، شکیل آفریدی کی اہلیہ امریکی شہری ہے جو درہ آدم خیل میں کالج کی پرنسپل رہی۔ ڈاکٹر شکیل کو ملازمت کے دوران کئی دفعہ بدعنوانیوں کے الزام پر معطل کیا گیا، تاہم اثر و رسوخ ہونے کے باعث وہ بحال ہوتا رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کے لئے زمینی نیٹ ورک قائم کرنے میں سی آئی اے کی مدد کی تھی اور اس کا تیار کردہ نیٹ ورک مسلسل قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کے لئے جاسوسی کررہا تھا۔ اس نیٹ ورک کا خاص ٹاسک یہ ہوتا تھا کہ وہ ٹارگٹ کی نشاندہی کرئے اور اس کے قریب ایک مخصوص چپ پھینک دے جو سگنل دے کر ڈرون طیارے کو ہدف کی نشاندہی کرتی تھی اور پھر اس ہدف پر میزائل برسائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر شکیل نے اپنی دشمنی اور اس کے نیٹ ورک میں شامل افراد نے بھی اپنی د شمنی میں کئی خاندانوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنوایا جن کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
ڈاکٹر شکیل فروری 2010ء میں خیبر ایجنسی کا ہیلتھ آفیسر تعینات ہوا، جس کے بعد اس نے پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں ایک قیمتی بنگلے میں رہائش اختیار کرلی، سی آئی اے کا رابطہ اسامہ کے کورئیر سے ہونے کے بعد ڈاکٹر شکیل نے سی آئی اے کی ایماء پر اسامہ بن لادن کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کیلئے ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نیٹ ورک کی معاونت سے ایبٹ آباد میں 17 مارچ اور 20 اپریل 2011ء کو انسداد پولیو اور ہیپاٹائٹس بی کی جعلی مہم چلائی۔ 2 مئی کو امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو 22 مئی 2011ء کو ڈاکٹر شکیل کو پشاور سے گرفتار کیا گیا۔جعلی پولیو مہم اور ہیپاٹائٹس مہم کے لئے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے جمرود ہسپتال سے پولیو کی 6 کٹس چوری کیں، ایبٹ آباد میں حفاظتی ٹیکوں کی جعلی مہم کے دوران ڈاکٹر شکیل خیبر ایجنسی کے محکمہ صحت میں او ایس ڈی کے طور پر کام کررہا تھا ۔
اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی سی آئی اے کے لیے پولیواور ہیپاٹائٹسٹیکوں کی جعلی مہم چلانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ نے غداری کا الزام ثابت ہونے پر 30 برس قید اور جرمانے کی سزا سنادی ہے۔پاکستان کے خفیہ اداروں نے 22 مئی 2011ء کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ڈیوٹی سے گھر جاتے ہوئے حیات آباد کے قریب کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔خیبر ایجنسی میں پولیٹکل انتظامیہ کے ایک افسر صدیق خان نے میڈیا کو بتایا کہ تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ ناصر خان کی عدالت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں30 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ڈاکٹر شکیل کے خلاف ایف سی آر کی شق نمبر 121 اے کے تحت خیبر ایجنسی میںمقدمہ چلایا گیا کیونکہ وہ وہیں کا رہائشی ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے شکیل آفریدی پرغداری اور ریاست کے خلاف سرگرمیوں کا الزام ثابت ہونے کے بعد سزا دی ہے اور ایف سی آر کے تحت اس پر ساڑھے3 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ مزید3 سال جیل میں گزارے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سینٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنی سزا پوری کرے گااور شاید ہی اپنی زندگی میں جیل سے باہر نکل پائے۔ اہلکار کے مطابق ڈاکٹر شکیل پر یہ الزام ثابت ہوگیا ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کا پتا چلانے میں امریکا کی مدد کی تھی۔خیال رہے کہ صوبائی محکمہ صحت نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کے بارے میں امریکیوں کو معلومات فراہم کرنے کے الزام میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پہلے ہی نوکری سے برطرف کر دیا تھا اس واقعے کے بعد سے اس کے امریکی بیوی بچے بھی روپوش ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل کی امریکی بیوی کا بھائی پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور اس کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ وہ اس کی رہائی کے لئے خاموش مہم چلا رہا ہے۔یاد رہے کہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی گرفتاری کیلیے امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سی آئی کے اہلکار سیٹلائٹ اور دیگر ذرائع سے اس عمارت کی نگرانی کر رہے تھے لیکن وہ ایک دوسرے ملک میں پرخطر حتمی کارروائی سے پہلے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ اسامہ بن لادن واقعی وہاں موجود ہیں۔اس مہم کو چلانے کے لیے مبینہ طور پر سی آئی اے کے ایجنٹوں نے اپنے ایک مقامی ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی ف کو ٹاسک دیا جو خیبر ایجنسی میں صحت کے شعبے کا انچارج تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی مارچ میں یہ کہتے ہوئے ایبٹ آباد گیا تھا کہ انہوں نے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے مفت لگانے کے لیے فنڈ حاصل کیے ہیں۔ سب سے پہلے برطانوی اخبار گارڈین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا نے اسامہ بن لادن کا سراغ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے لگایا ۔امریکا کی طرف سے پاکستان پر شکیل آفریدی کی رہائی کا شدید دبائو رہا ہے ۔ سزا کے حوالے سے جب امریکی سفارتخانے کا مؤقف جاننے کیلئے مارک اسٹرا سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔واضح رہے کہ جنوری میں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے تصدیق کی تھی کہ شکیل آفریدی امریکی انٹیلی جنس کیلئے کام کرچکاہے اور اس نے اسامہ بن لادن کے ڈی این اے کی تصدیق میں مدد دی تھی ، انہوں نے پاکستانی حکام کے شکیل آفریدی سے سلوک پر تشویش ظاہر کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ شکیل آفریدی نے پاکستان کے ساتھ کوئی غداری نہیں کی بلکہ اس نے دہشت گردی کیخلاف مدد فراہم کی ہے، میرے نزدیک اس کیخلاف کسی قسم کی کارروائی بڑی غلطی ہوگی ۔
No comments:
Post a Comment