لاہور کے نواحی دیہات میں کبیرخان نامی ایک پٹھان کپڑے کا کاروبار کرتا ہے جس کا اپنا ایک طریقہ کار ہے ۔ وہ کپڑا نقد قیمت پر فروخت نہیں کرتا بلکہ3 سے 6 ماہ کے ادھار پر بیچتا ہے۔ اس نے اپنے اس کاروبار میں دیگر ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔کبیر خان کے کپڑے کے نرخ لاہور کی لوکل مارکیٹ سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ادھار کی وجہ سے اس کا کپڑا لوگ ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔ کبیر خان اپنے گاہکوں سے کہتاہے کہ آپ کپڑا خرید لو اور پیسوں کی فکر نہ کرو۔ وہ ہم بعد میں لے لیں گے۔ اس کے گاہکوں میں زیادہ تر گاﺅں کے متوسط اور غریب طبقے کے افراد ہوتے ہیں جو 3سے 6 ماہ کے وعدے پر کپڑا توخرید لیتے ہیں مگر غربت کے باعث مقررہ مدت گزرنے کے بعد بھی اکثر لوگ پیسوں کا انتظام نہیں کر سکتے ۔ کبیر خان پہلے تو سائیکل پر یہ کاروبار کرتا تھا مگر اب اس نے ایک پک اپ رکھی ہوئی ہے جس پر یہ کاروبار کرتا ہے۔ کبیر خان جب کپڑا فروخت کرنے کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کپڑا ماپنےکے لیے گز ہوتا ہے مگر جب وہ پیسوں کی وصولی کے لیے دیہات میں جاتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی ہے۔ جب دیہات کے لوگوں کو پتا چلتا کہ کبیر خان پیسوں کی وصولی کے لیے آ رہا ہے تو دیہات کے مقروض اس سے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ مقروض اس کے قابو آ جاتے ہیں۔ پیسے وصول کرنے کے لیے کبیر خان کچھ ایسا انداز اختیار کرتا ہے کہ مقروض کو اپنی عزت بچانے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔ اگر پیسوں کا انتظام نہ ہو سکے تو وہ گھر میں جو چیز موجود ہوتی مثلاً بکری، بھینس کا بچہ، اجناس وغیرہ اٹھا کر لے جاتا ہے۔
ایسے کبیر خان نہ صرف لاہور میں بلکہ ملک بھرکے تمام شہروں اور دیہات میں موجود ہیں جو صرف نقدی کی صورت میں قرض دینے اورکپڑے کا کاروبار ہی نہیں کرتے بلکہ اب یہ گھر کی ضرورت کی ہر چیز بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اب ایسے افراد کے کاروبار میں وسعت آگئی ہے اور ان کے کاروبار کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ جنہیں نہ تو کوئی بینک قرضہ دیتا ہے اور نہ ہی اہل ثروت، وہ اپنے بچوں کی شادیوں، ان کی تعلیم یا بیماری پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کیلئے مجبوراً ایسے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ان کی شرح سود 35 سے 50 فیصد ہوتی ہے۔ زیادہ شرح سود کی وجہ سے معمولی رقم بھی تھوڑے عرصے بعد ہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور مقروض وہ رقم ادا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ کچھ قرض خواہ اپنی رقم کی واپسی کیلئے ان کے بچے اغوا کر لیتے ہیں حتیٰ کہ انہیں قتل کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔ کچھ لوگ بے عزتی کے ڈر سے خودکشیاں بھی کر لیتے ہیں۔
اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ایسے سودخوروںنے نت نئے طریقے بھی دریافت کر لیے ہیں بلکہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے اب اخبارات میں بھی اشتہار شائع کرواتے ہیں۔ پیپلز لائرز فورم کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سودی کاروبار کی پاکستان میں اجازت بھی ہے اور پابندی بھی ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کی منظوری سے مالیاتی ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جیسے بینک وغیرہ لیکن پرائیویٹ طور پر اور انفرادی طور پر ایسا کاروبار کرنے پر پابندی ہے لیکن اب اس کا حل بھی سود خوروں نے نکال لیا ہے ۔ یہ لوگ انفرادی طور پر یا دو یا دو سے زائد افراد مل کر ”فرم رجسٹریشن آفس “سے کسی نام پر ایک فرم رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں اور دکان ، دفتر کھول کر قرضہ دینے، قسطوں پر دیگر اشیا دینے، سونے کے عوض قرضہ دینے اور بینک کے چیک کے عوض قرضہ دینے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان افراد نے اپنے دفاتر پر ”رجسٹرڈ، حکومت سے منظور شدہ“ایسے الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ ان پر یقین بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اخبارات میں بھی قرضہ دینے کے اشتہارات شائع کراتے ہیں اور ایسے اشتہارات روزانہ خصوصاً اتوار کے اخبارات میں کثرت سے آتے ہیں۔
لاہور میں نقد رقم بطور قرض دینے میں اب بعض سونے کا کاروبار کرنے والے زرگر بھی شامل ہیںجو جب قرضہ دیتے ہیں تو قرض دار کو سونے کا بھاو بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت وہ اس کو جتنا قرض دے رہے ہیں اس کا اتنا سونا خریدا جاسکتا ہے اور قرض دار کو اس شرط پر قرض دیتے ہیں کہ وہ قرض کی واپسی پر اتنی ہی رقم دے گا جس کا اتنا ہی سونا ملے گا جتنا قرض دیتے وقت مل سکتا تھا جبکہ سونے کا بھاﺅ مسلسل بڑھ رہا ہے لہٰذا قرض کی رقم بھی مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔
ایسے سودخوروں کا شکار صرف عام شہری ہی نہیں بنتا بلکہ کاروبار کرنے والے بیشتر افراد بھی ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کاروبار میں اونچ نیچ آنے کی وجہ سے شہر کی مارکیٹوں میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو آپ کو کاروبار کی اونچ نیچ سے نکالنے کیلئے نہ صرف نقدقرضہ دیتے ہیں بلکہ مال بھی خرید کر دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ بعد ازاں یہ مقروض ان قرض خواہوں کے پاس پھنس جاتے ہیں اور گھر بار تک فروخت کر دیتے ہیں مگر قرضہ نہیں اتر پاتا جبکہ بیشتر افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں لاہور میں ملتان روڈ کے رہائشی ایک رکشہ ڈرائیور نے قرض ادا نہ کر سکنے پر اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ باغبانپورہ لاہور میں دو بچیوں کے باپ نے بھی سود خوروں سے تنگ آ کر گلے میں پھندہ لے کر خودکشی کر لی تھی۔ سود خوروں نے رقم نہ ملنے پر کھاریاں کے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔ راولپنڈی میں ویسٹرج کے علاقے میں ایک شخص کو سود خور نے چ#±ھریاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ یہ لوگ قرض دینے سے پہلے چیک لیتے ہیں یا دکانوں اور گھروں کے کاغذات لیتے ہیں یا پھر اقرار نامہ کی صورت میں کوئی تحریر لکھوا لیتے ہیں اور پھر رقم واپس نہ کرنے کی صورت میں ان کاغذات کی بنیاد پر یہ جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں جبکہ اس تحریر کی بنیاد پر پولیس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔
قیام پاکستان سے قبل جب بینکنگ کا نظام اتنا موثر نہیں تھا تو ایسے قرض دینے والوں کو بنیا کہا جاتا تھا جن سے نہ صرف کاروباری لوگ بلکہ زراعت پیشہ افراد اور کاشتکار قرضہ لیتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ کاروبار جاری رہا۔1972ءتک اس کاروبار پر کوئی قانونی قدغن نہیں تھی لیکن جب اس کے نتیجے میں استحصالی طبقے کی تعداد بڑھنے لگی اور لوگوں کی طرف سے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بڑھنے لگا تو1973ءکے شروع میںذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے زرعی قرضے حاصل کرنے کیلئے ایک ریلیف متعارف کروایا ۔اس ایکٹ کے تحت سود خوروں سے لیے گئے قرضے معاف کر دیے گئے اور سود خوروں کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں پر سود کی رقم کی حد بندی کر دی گئی۔ مزید براں یکم نومبر 1973ءکو قرضوں پر واجب الادا سود کی رقم ختم کر دی گئی اور صرف اصل رقم باقی رکھی گئی۔ اسی تاریخ کو اس ایکٹ کے تحت اراضی کیلئے واجب الادا رقوم بھی ختم کر دی گئیں۔
لاہور پولیس کے ایک افسر سے جب اس حوالے سے بات کی تو انھوں نے الٹا ایک سوال کر دیا اور پوچھا کہ بتاﺅ’پولیس کس بنیاد پر سودخور کےخلاف کارروائی کرے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں رقم یا کسی بھی چیز کے لین دین پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے ماسوائے غیر قانونی اشیا کے ۔ جب کوئی ایک شخص رقم یا کوئی چیز کسی دوسرے شخص سے ادھار، قرضے کی صورت میں لیتا ہے یا خرید کرتا ہے تو وہ اس کے عوض اسے تحریر ی اقرار نامہ لکھ کر دیتا ہے اور ساتھ ہی جائیداد کے کاغذ دے دیتا ہے تو ایسے میں پولیس کیا کرے۔ انھوں نے کہا اگرچہ لوگوں کے خلاف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں جب اس کا ثبوت موجود ہو۔ انھوں نے کہا اصل میں سودخوری اب نوسر بازی اور دھوکہ دہی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ لوگ مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کو پھانس لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی تحریر دیکر اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھتے ہیں جبکہ کوئی شخص ان کے خلاف گواہی دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔
No comments:
Post a Comment