اسی طرح ایران میں مقیم عرب خواتین نے اپنی مادری زبان میں تعلیم کی اجازت نہ دینے پر ایرانی حکومت کی مذمت کی اور ایرانی حکومت کے فیصلے کوآئین کے آرٹیکل19/15 کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس روئے کو غیر فارسی اقوام کی حق تلفی اور فارسی کو زبردستی رواج دینے کی کوشش کانام دیا ہے ۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب جنیوا میں اقوام متحدہ کے تحت لسانی ،قومی اور ثقافتی امتیاز کاسامنے کرنے والی کمینٹیز کے حقوق کی پاسداری کے نام سے ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں مختلف ممالک اور خطوں سے مدعوکئے جانے والے افراد نے شرکت کی ۔ پروگرام میں سب نے اپنے ساتھ پیش آنےوالے امتیازی سلوک کےحوالے سے اظہارخیال کیا ۔ ایران میں مقیم عرب ، بلوچ ،کرد اورآزر بائجانی خواتین نےبھی اس پروگرام میں شرکت کی اورانہیں در پیش چیلنجز پر روشنی ڈالی ۔ اپنےمختصر خطابات کے دوران ان خواتین نے کہا کہ ایرانی حکومت نے غیر فارسی قوموں پر انکی مادری زبانوں میں تعلیم کی حصول پر پابندیاں عائد کررکھی ہے اورایرانی حکومت فارسی کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کی تعلیم کو منع کرتی ہے، جو ایران میں آباد آزربائجان، ترک ،کرد اورخاص طور سے عرب اقوام کی حق تلفی اور انکی آزادی کی کھلی مخالفت ہے ۔
واضح رہے کہ ایران میں تعلیم صرف فارسی زبان میں دینے کی اجازت ہے حالانکہ اعداد وشمار کے مطابق ایران میں پچاس لاکھ کی تعداد میں عرب آبادی ہے جس میں عرب کے مشہور قبیلہ بنو تمیم کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو عرب کے فصیح ترین اور اپنی زبان سےسب سے زیادہ محبت کرنے والا قبیلہ شمار کیاجاتا ہےاور اپنی زبان کے لئے اس سے وابستہ افراد کی بیش بہا خدمات ہیں ۔ عربی شاعری میں بنو تمیم کو خاص مقام حاصل ہے ،اور اس قبیلے لوگ جہاں بھی رہیں اپنی زبان کوپوری روانی اور فصاحت کیساتھ اپنے بچوں کوسکھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ یورپ ،امریکہ اور کینیڈاسمیت بیرون ممالک میں کاروبار کے سلسے میں مقیم عرب برادریاں اپنے بچوں کو انگلش کے ساتھ اپنی مادری زبانوں کی صحیح تعلیم دلاتی ہیں ۔ یہاں انہیں کسی پابندی کا سامنانہیں کرناپڑتاہے۔عرب دیگر اقوام کے مقابلے میں اپنی زبان میں زیادہ دلچسپی لینے والی قوم سمجھی جاتی ہے تاہم ایران میں بڑی تعداد میں مقیم عرب قبائل اس سہولت سے محروم ہیں اورانہیں اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کواپنی مادری زبان میں تعلیم دلوایئں ، کیونکہ ایرانی حکومت فارسی زبان کی ترویج کررہی ہے ،اسے عام کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے اور اس منصوبے کو تقویت پہنچانے اور فارسی کوکلیدی اہمیت دینے کے واسطے وہاں موجود غیرفارسی کمینٹیوں کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جاتی کہ ان کی اولادیں اپنی مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرے ۔
زبانی مباحثے کے دوران اقوام متحدہ کے فورم میں ایران کی عرب خواتین کی نمائندگی کرنے والی کارکن جمیلہ فیصل نے کہا کہ وہ ایران میں رہائش پذیر ہے اوراسکی خواہش ہے کہ ایرانی حکومت ا س بات کی اجازت دے کہ غیرفارسی قوموںپر عائد یہ پابندی ختم ہو ۔جمیلہ کا کہناتھا کہ ایرانی حکومت نے آرٹیکل 19 اور 15 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی آئین کے مطابق دیگر قوموں کو ان آزادیوں سے محروم رکھا ہوا ہے جو سراسر ملکی آئین کے ساتھ انسانی واقلیتی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ جمیلہ فیصل کا مزید کہنا تھاکہ ایران میں سرکاری عہدوں میں عرب برادری کے افراد کی تعداد بمشکل 10فیصد ہے اسکے مقابلے میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے اس کے مقابلے میں غیر عرب برادریوں کے افراد کی تعداد سرکاری عہدوں میں 75 فیصد ہے حالانکہ عرب کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے ۔جمیلہ کے مطابق ایران میں عرب قومیت رکھنے والے افراد کو کافی مشکلات کاسامناہے اور انہیں امتیازی سلوک کے علاوہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔ ایران میں عرب قومیت رکھنے والے افرادکو سخت نفرت کاسامناہے ۔ اقوام متحدہ کےذیلی ادارے کے مطابق ایران حکومت تیل کی مد میں آنے والی سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی جنوبی امریکہ اور افریقا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے سفارت خانوں کےتحت قائم فارسی سکھانے والے لینگویج سینٹرز اور سکولز پر خرچ کررہی ہے۔ جس کامقصد فارسی زبان کی تعلیم ، انشاء وترقی اور فارسی تہذیب کا احیاء ہے ۔
ایران میں رہائش پذیر بلوچ خؤاتین کی نمائندگی کرتے ہوئے منیرہ سلیمانی نے فورم کے دوسرے سیشن سے اپنے 3منٹ پر مشتمل زبانی خطاب کے دوران کہا کہ ایران میں بلوچ قوم دیگر آزادیوں سے محرومیوں کا عام طور اوراقتصادی محرومیوں کا خاص طور پر شکار ہے ۔ ایران میں مقیم ترک خواتین کی نمائندہ ترکی خاتون جالہ تبریزی کاکہناتھا کہ ایران میں سرکاری اداروں میں ترکی زبان پر سابق ایرانی حکمراں رضاشا ہ کے دور سے پابندی عائد ہے اور طہران غیر فارسی قوموں کے ساتھ نسلی و زبانی تعصب کے روئے کو فروغ دے رہاہے۔
واضح رہے کہ اس فورم کاانعقاد جنیوا میں اقوام متحدہ کی عمارت میں کیا گیاتھا جس میں 350تنظیموں کے افراد نے شرکت کی پروگرام کے جاری اعلامئے کے مطابق اس کے انعقاد کا اہتمام ہرسال کیا جائیگا جس میں اقلیتی پوزیشن رکھنے والی قومیں ،زبانیں اور مذاہب کے حوالے سے مفصل جائزہ لیا جائیگا اور اقوام متحدہ کے تحت ان واقعات وتاثرات کی جانچ پڑتال کے بعد متعلقہ ممالک سے رجوع کیا جائیگا ۔ اسکے بعد مختلف ممالک اور خطوں میں نسلی ،مذہبی اورقومی تعصب کاسامنا کرنے والی ان کمینٹیوں کے تعاون کے لئے آواز اٹھائی جائیگی
No comments:
Post a Comment