Search This Blog

Total Pageviews

Monday, December 5, 2011

امریکی ڈرون اڈے میں پاک فوج داخل ہوگئی

 اس بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں کہ پاک ائیر فورس اور پاک آرمی کی ایک ٹیم نے امریکی زیر انتظام شمسی ائیر بیس پر چھاپہ مارا ہے ا ور وہاں موجود امریکی ڈرون طیاروں اور دیگر آلات کا معائنہ کیا ہے۔ اس بارے میں  ایک ایسی تصویر بھی موصول ہوئی ہے جس میں پاکستان ائیر فورس اور پاکستان آرمی کے کچھ افسران مبینہ طور پر شمسی ائیر بیس پر امریکی ڈرون طیاروں کے قریب کھڑے ان کا معائنہ کررہے ہیں جب کہ امریکی فوجی بھی ان کے عقب میں کھڑے دیکھے جا سکتے  ہیں۔ مگر اس  مبینہ چھاپے کے بارے میں  عسکری ذمہ داران کی جانب سےتصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔ التبہ اس بارے میں یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے شمسی ائیر بیس کو کسی بھی صورت قائم  رکھنے کی اجازت دینے سے  سختی سے انکار کردیا ہے اور اب امریکی وہاں سے اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک غیرملکی خبرایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے مطالبے کے بعد امریکا نے شمسی ایئر بیس خالی کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔خبرایجنسی کے مطابق امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ شمسی ایئر بیس خالی کرنے سے شدت پسندوں کیخلاف آپریشن پر اثر نہیں پڑے گا، خبرایجنسی کے مطابق شمی ایئر بیس سے ڈرون حملوں کے لیے متبادل ایئر بیس کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں۔ خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکا اس نازک صورت حال میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ایک طرف غیر ملکی خبر رساں ادارے یہ خبر دے رہے ہیں تو دوسری طرف ملکی سلامتی سے  متعلق اہم ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ امریکی ائیر بیس خالی کرنےپر تیار نہ تھے اور انہوں نے یو اے ای کے ذریعے سے دبائو بھی ڈلوایا مگر پاکستانی عسکری قیادت نے نا صرف سختی سے اسے مسترد کردیا بلکہ وارننگ بھی دی کہ اگر ائیر بیس خالی نہ کیا گیا تو پاک فوج کے دستے خود کارروائی کریںگے، اسی دوران شمسی ائیر بیس کی طرف جانے والے تمام راستے بھی بند کردئے گئے اور ہر قسم کی سپلائی پرپابندی لگا دی گئی۔ کچھ ذرائع کا یہ بھی دعوی ہے کہ  پاک ائیر فورس اور پاک آرمی کی ایک ٹیم نے اس بیس میں داخل ہو کر  ڈرون طیاروں اور دیگر آلات کامعائنہ بھی کیا، ان کے جارحانہ روئے کے باعث ہی امریکیوںنے بیس خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دراصل امریکی حملے کے پیچھے پاکستان کو شمالی وزیرستان  اور دیگر طالبان گروپس کےخلاف کارروائی سے انکار بھی تھا۔ذرائع کے  مطابقدونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتا رہا لیکن شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک، حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر کے طالبان گروپوں کے خلاف امریکہ کی فرمائش پر پاکستانی فوج کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ ان طالبان گروپوں کو پاکستان کا حامی سمجھا جاتا ہے اور پاکستان نے ان طالبان گروپوں سے امن معاہدہ کررکھا ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں  ان طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے ہی اچانک افغانستان کے صوبے کنڑ سے مہمند، باجوڑ اور ملاکنڈ میں پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملے شروع  ہو گئے۔
افغانستان کے کنڑ صوبے سے نیٹو اور امریکی اتحادی فوجوں نے اپنی کچھ چوکیاں ختم کر لیں اور انہوں نے زیادہ توجہ خوست اور پکتیکا پر مرکوز کرلی۔ کیونکہ وہی علاقے مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک، حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر کے  طالبان کا افغانستان میں گھس کر امریکیوں کو نشانہ بنانے کا  راستہ ہے۔لیکن کنڑ سے پاکستان میں حملوں کے بعد پاک فوج نے مہمند ایجنسی پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کی اور نفری میں بھی اضافہ کر دیا۔ مہمند ایجنسی میں رواں سال کی ابتدا میں فوجی کارروائی تیز ہوئی۔ پاک فوج نے رواں سال یکم جون کو اسلام آباد سے صحافیوں کو مہمند ایجنسی کا دورہ کرایا تھا اور اس وقت وہاںمہمند ایجنسی میں تعینات برگیڈیئر عرفان کیانی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ مہمند ایجنسی کی اڑسٹھ کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ چھ لاکھ آبادی والی مہمند ایجنسی کی کل سات تحصلیں ہیں۔ ان کے بقول جھنڈا نامی گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں طالبان کمانڈر عبدالولی کا قبضہ تھا جو فوج نے ختم کرایا اور وہ افغانستان کے کنڑ صوبے چلے گئے۔بعد میں مہمند ایجنسی کے فوجی صدر دفتر غلنئی میں پشاور کے کور کمانڈر کی موجودگی میں برگیڈیئر آفتاب احمد خان نے بریفنگ میں بتایا کہ افغانستان کے صوبے کنٹر سے ملنے والی مہمند ایجنسی کی ایک تحصیل صافی میں گڑ بڑ ہے اور اس تحصیل کا بیس فیصد علاقہ پاکستان مخالف طالبان کے قبضے میں ہے۔بریفنگ میں پاکستانی فوجی کمانڈرز نے یہ بات واضح طور پر بتائی کہ وہ ایساف والوں کو بتاتے رہے ہیں کہ سوات، ملاکنڈ اور مہمند سے بھاگے ہوئے پاکستان  مخالف طالبان کنڑ میں ہیں اور وہ پاکستان پر حملہ کرتے ہیں لیکن امریکی اتحادی افواج ان شدت پسندوں کے خلاف وہ کارروائی نہیں کرتے۔ اس وقت میجر جنرل نادر زیب خان نے سلالہ کی چیک پوسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ چیک پوسٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں سے کنڑ کی طرف سے آنے والے  پاکستان  مخالف طالبان پر اچھی طرح نظر رکھی جاسکتی ہے۔ ان کے بقول یہ چیک پوسٹ انہوں نے بڑی مشکل سے قائم کی ہے اور وہاں لاجسٹک سپورٹ بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ اکثر طور پر اس کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ امریکی چاہتا ہے کہ پاکستان  صرف ایسے طالبان کے خلاف کارروائی کرئے جو امریکہ کے مخالف ہوں اور افغانستان میں جا کر امریکی فوجیوں پر حملے کرتے ہوں، اور پاک فوج کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا کرتے  ہیں تو پھر یہ طالبان پاکستان کے مخالف ہو کر پاکستان پر حملے شروع کردیتے ہیں، اس لئےامریکہ ان طالبان کو خود ہی افغانستان  میں مقا بلہ کر کے ختم کردے۔ امریکی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ تھی اور وہ یہ کام پاکستان سے کرانا چاہتی تھی مگر ا ب پاکستان یہ کام مزید کرنے پر تیار نہ تھا اور اسی لئے کشیدگی بڑھ رہی تھی اور اس کا نتیجہ سلالہ پوسٹ پر حملے کی صورت میں نکلا اور جواب میں پاکستان نے شسمی ائیر بیس اور امریکی سپلائی لائن کو بنایا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اور جوابی کارروائی ضرور کریں گے، لہذا پاک فوج انتہائی چوکنا ہے۔

No comments:

Post a Comment