Search This Blog

Total Pageviews

Monday, December 5, 2011

ایک گائوں کا جھگڑا۔ سلالہ پوسٹ پر امریکی حملے کا سبب بنا

ایک گائوں کا جھگڑا۔ سلالہ پوسٹ پر امریکی حملے کا سبب بنا

قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں سنیچر کو نیٹو فورسز کے حملے کے بارےمیں مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں جس انکشاف کیا گیا ہے کہ  نشانہ بننے والے علاقے میں پاکستان ،افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان کچھ عرصہ قبل فلیگ میٹنگ بھی  ہوئی تھی اور اسی میٹنگ کے دوران امریکہ نے علاقے کا نقشہ بنایا اور اسی نقشے کی بنیاد پر وہ یہاں آپریشن کرنےآئے، امریکہ کچھ عرصے سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ پاکستان اس علاقے کو خالی کردے کیونکہ یہ افغانستان کا علاقہ ہے جب کہ یہاں رہنے والا قبیلہ اپنے آپ کو پاکستانی قرار دیتاہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل امریکی اسی علاقے میں یا تو شب خون مارنے آئے تھے یا  پھر ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر کے اس کا الزام طالبان پر لگا دیں گے تاکہ فوج اور طالبان کے درمیان حال ہی میں شروع ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کیا جا سکے، مگر  پاکستان آرمی کے گشتی دستوں سے مڈ بھیڑ ہونے کے  باعث امریکی منصوبہ ناکام ہو گیا اور انہوں نے فضائی مدد طلب کرلی۔مہمند ایجنسی کے صدر مقام غلنئی کے شمال مغرب میں تقریباً پچاس کلومیٹر دور، سلالہ کا علاقہ ایک دور دراز پہاڑی پر واقع ہے۔ بیزئی سب ڈویژن کی حدود میں پانچ چھ مربہ کلومیٹر پر پھیلا ہوا۔ یہ علاقہ انکارگئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک پہاڑی وادی ہے جو افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ سے متصل ہے۔اس علاقے میں چند ماہ قبل ہی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد پاکستانی فوج نے دو سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کی تھیں۔ اس علاقے میں خواگا خیل قبیلے کے افراد رہائش پذیر ہیں اور زیادہ تر کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ دشوار گزار پہاڑی سلسلہ ہونے کی وجہ سے اس علاقہ میں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے اور وہ چشموں کے پانی کو پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کےلیے انہیں دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔
خواگا خیل قبیلے کی ایک بااثر سیاسی شخصیت اور سابق صوبائی وزیر افتخار مہمند کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر حملہ ہوا ہے اس کے آس پاس سات آٹھ کلومیٹر کا قریبی علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل تھا لیکن کچھ عرصے سے امریکہ اسے افغانستان کا علاقہ  قرار دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سرحدی مقام پر افغانستان کی طرف علاقہ شورا کہلاتا ہے جبکہ پاکستان کا علاقہ پتھاؤ یعنی ’سورج کی طرف‘ کے نام سے موسوم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے قبیلے کے افراد افغانستان کی حدود کے پار، پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر رہ رہے ہیں لیکن وہ سب خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد خواگا خیل واحد قبیلہ تھا جس نے بغیر کسی شرط کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کے عوام دونوں ممالک کی حکومتوں سے نالاں ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحدی حدبندی ہمیشہ سے ایک بڑا تنازعہ رہا ہے بالخصوص مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں کا علاقہ جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے پر قبضہ کرنے کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔
تقریباً چوبیس سو کلومیٹر پر مشتمل پاک افغان سرحد، جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ہے، ایک سو اٹھارہ سال قبل برِصغیر اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان ایک بینالاقوامی سرحد کے طورپر قائم کی گئی تھی۔کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے بعد ڈیورنڈ لائن کا کسی نہ کسی حد تک تعین کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اکثر اوقات مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر اس سے پہلے پاکستان، افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان باقاعدہ فلیگ میٹنگز ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کے پاس سرحد پر تمام تر سہولیات موجود ہیں، ان کے پاس نقشے ہیں اور ریڈار کا نظام موجود ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بلا اشتعال پاکستانی پوسٹوں پر بمباری کی۔انہوں نے کہا ’یہ بات نہیں کہ امریکیوں نے قصداً پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا ہوگا لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ انہوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔‘ان کے مطابق اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو فورسز نے جس طرح حملہ کیا ہے اس تو یہ لگتا ہے کہ وہ بڑی تیاری کے ساتھ اس حملے کےلیے آئے تھے۔

No comments:

Post a Comment