Search This Blog

Total Pageviews

Saturday, December 17, 2011

Firqa-e-batila Part3




Friday, December 16, 2011

Firqa-e-batila Part 2

Firqa-e-batila Part 1

Monday, December 5, 2011

امریکہ اور اتحادیوںکو شرمناک شکست دے دی۔ ملا عمر کا عید پر پیغام

امریکہ اور اتحادیوںکو شرمناک شکست دے دی۔ ملا عمر کا عید پر پیغام


طالبان رہنماء ملا عمر نے عید الاضحیٰ کے موقع پر پیغام میں کہا ہے کہ افغانستان میں دشمن کو بدترین شکست کا سامنا ہے، افغان عوام سویلین ہلاکتوں سے بچنے کے لیے مجاہدین کی مدد اور امریکی شہریوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔طالبان رہنما نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کابل سمیت افغانستان میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، افغانستان میں دشمن شرمناک شکست کو چھپانے اور وہاں مستقل قیام کے لیے دنیا کے سامنے اپنے فوجی آپریشنز کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ملا عمر نے کہا ہے کہ دشمن نے افغان جرگے خرید رکھے ہیں اور افغانستان میں مستقل اڈے بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملا عمر نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ تمام مجاہدقائدین آپس میں اتفاق رکھیں کیوں کہ دشمن ہمیں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان مسئلے کا صرف ایک حل ہے کہ تمام غیر ملکی فورسز واپس چلی جائیں۔ انہوں نے دسمبر میں ہونے والی بون کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ اگر غیر ملکی افواج اس کانفرنس سے پرامید ہیں تو وہ مزید تباہی کے راستے پر ہی

نیٹو سپلائی اس ہفتے کھولنےکا فیصلہ

نیٹو سپلائی اس ہفتے کھولنےکا فیصلہ


مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کی سپلائی بحال کرنے کیلئے پاکستان نے بعض کڑی شرائط عائد کر دی ہیں جن پر امریکی حکام سے رابطوں کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکا کی طرف سے شرائط تسلیم کئے جانے کے بعد 9 روز تک بند رہنے والی سپلائی رواں ہفتے کے دوران کسی بھی روز بحال ہو سکتی ہے۔ 26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پر نیٹو ہیلی کاپٹرز کے فضائی حملے جس کے نتیجے میں پاکستان کے 24 فوجی شہید ہو گئے تھے شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے جو تین اہم فیصلے کئے تھے ان میں افغانستان کے موضوع پر ہونے والی بون کانفرنس میں عدم شرکت، بلوچستان میں واقع شمسی ائربیس سے امریکی فوجیوں کا انخلاء اور پاکستان کی سرحد سے نیٹو سپلائی بند کرنا شامل تھا۔ گزشتہ اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فون پر رابطہ کر کے ایک بار پھر بون کانفرنس کا بائیکاٹ ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کیلئے کہا تھا لیکن وزیراعظم نے اس حوالے سے ان پر تمام صورتحال واضح کرتے ہوئے باور کرا دیا تھا کہ بون کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ وفاقی کابینہ کی دفاعی اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمپنیوں نے اتفاق رائے سے کیا ہے جسے وہ تبدیل نہیں کر سکتے اس طرح پاکستان کو بون کانفرنس میں شرکت کیلئے آمادہ کرنے کی امریکہ کی طرف سے یہ آخری کوشش تھی جو ناکام ہوگئی۔ پاکستان کی طرف سے دی گئی وارننگ کے بعد شمسی ائربیس سے امریکی فوجیوں کا انخلاء شروع ہو چکا ہے اور وہاں سے سامان کی منتقلی کہاں جاری ہے اور متنبہ تاریخ 11 دسمبر تک اس ائربیس کا انتظام و انصرام پاکستان کے متعلقہ شعبوں کے حوالے کر دیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی پہلے ہی یہ واضح کر چکی ہیں کہ بالخصوص 26 نومبر کو پیش آنے والے واقعہ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کیلئے معاملات پر نظرثانی کرنی ناگزیر ہو چکی ہے اس لئے امریکا کو اپ پاکستان سے تعاون حاصل کرنے کیلئے اس بات کی یقین دہانی تحریری طور پر کرانا ہوگی کہ پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود میں نیٹو کسی قسم کی کارروائی کرنے کے بجائے اپنے خدشات پر پاکستان کو انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے پیشگی اطلاعات فراہم کریگا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے بعد مرتکب افراد کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کو فراہم کی جانے والی امداد غیرمشروط طور پر جاری رہے گی اور یہ کہ ملکی خودمختاری اور احترام کے منافی کوئی اقدام نہیں کیا جائیگا اگر پاکستان کو یہ تمام یقین دہانیاں تحریری ضمانت کے ساتھ فراہم کر دی جاتی ہیں تو نیٹو سپلائی کی بحالی ممکن ہے۔ آئی این پی کے مطابق امریکی سفارتخانے کے نائب ترجمان رابرٹ رینز نے بتایاکہ نیٹوکی سپلائی کی بحالی کیلئے پاکستان اورامریکہ کے حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہیں ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ پاکستان کیساتھ معمول کے تعلقات اورتعاون چاہتاہے جودونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ دریں اثناء افغانستان میں نیٹو فورسز کیلئے تیل، خوراک اوردیگراشیا کی فراہمی کاسلسلہ اتوارکو نویں روز بھی بند رہا جس کی وجہ سے افغانستان میں نیٹو فورسز کو پیٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت کاسامنا ہے،چمن بارڈر ٹرمینل میں سیکڑوں کنٹینرز اور آئل ٹینکرز جمع ہو گئے۔   

مسلمان ہیکرز کی دھمکی کے بعد فیس بک انتظامیہ نے ملعون سلمان رشدی سے نام بدلنے کا مطالبہ کردیا


معروف سوشل نیٹ ورک فیس بک نے شاتم رسول سلمان رشدی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر فیس بک استعمال کرنا چاہتا ہے تو اپنا نام تبدیل کردے کیونکہ مسلمان ہیکرزدھمکی دے رہے ہیں کہ اگر سلمان رشدی کا صفحہ ختم نہ کیا گیا تو وہ فیس بک پر حملے کریں گے۔نیٹ ورک نے یہ فیصلہ عوامی سطح پر سلمان رشدی کی کتاب" آیات شیطانی " کی تصنیف کے بعد اس کے  خلاف آنے والےعوامی  ردعمل کے بعد کیا ۔ واضح رہے کہ  سلمان رشدی کااصل نام احمد سلمان رشدی ہے لیکن عوامی حلقوں میں ملعون کو سلمان رشدی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں ایا ہے جب فیس بک پہلے ہی ہیکرز کے حملے کی زد میں ہے اور تین دن سےنا معلوم ہیکرز نے فیس بک کو پریشان کررکھا ہے اور اس کے متعدد صفحات پر غیر ضروری تصاویر اپ لوڈ کی جارہی ہیں۔

سماجی روابط کی مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سپیم حملے کے نتیجے میں ویب سائٹ پر لگائی جانے والی بیشتر فحش، عریاں اور تشدد سے بھرپور تصاویر کو ہٹا دیا گیا ہےیہ تصاویر گزشتہ چند دن سے فیس بک صارفین کی ’نیوز فیڈ‘ میں دکھائی دی جا رہی تھیں اور ویب سائٹ کے اسّی کروڑ صارفین میں سے ہزاروں نے ایسی تصاویر کی موجودگی کی شکایات کی تھیں۔فیس بک کا کہنا ہے کہ اس حملے کی وجہ ایک براؤزر کے کمزور حفاظتی اقدامات ہیں اور کمپنی اپنے سسٹم میں بہتری کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں سے بچا جا سکے۔بی بی سی کے مطابق اسے ذرائع نے بتایا ہے کہ فیس بک حکام نے پتہ لگا لیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے کون تھا اور فی الحال کمپنی اپنے قانونی مشیروں سے اس مشتبہ ہیکر کے خلاف مشورہ کر رہی ہے۔تاہم سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کے لیے اس حملے کے ذمہ دار کو تلاش کرنا مشکل ہوگا کیونکہ اس حملے میں فیس بک کی بجائے نامعلوم براؤزر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔فیس بک نے کہا ہے کہ اس کے انجینئرز نے ایسے خراب صفحات یا اکاؤنٹس کو بند کرنے کا بندوبست کر لیا ہے جو سکیورٹی میں کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔کمپنی نے مستقبل میں ایسے سائبر حملوں سے بچنے کے لیے صارفین سے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی نامعلوم کوڈ کو کاپی کر اپنی ایڈریس بار پر چسپاں نہ کریں، ہمیشہ اپڈیٹڈ براؤزر استعمال کریں اور اپنے دوستوں کے اکاؤنٹس پر مشتبہ سرگرمیاں یا مواد دیکھ کر فیس بک کے رپورٹ لنک پر جا کر مطلع کریں۔فیس بک نے یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ اس سائبر حملے کے دوران کسی بھی صارف کی معلومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔

ایران نے عربی پر پابندی لگا دی



alt



 ایرانی نے فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں بشمول عربی میں تعلیم پر پابندی عائد کر  دی ہے ۔ تعلیم صرف فارسی زبان میںحاصل کرنے کی اجازت ہے ۔ پورے ملک میں کسی دوسری زبان کی تعلیم دینے والے اداروں یا افراد کو شک کی نگاہوں سے دیکھے جانے کامعمول ہے اور ایسے افراد ملک کے لئے ریڈسگنل قراردیے جارہے ہیں ، اس طرح سب سے زیادہ وہ لوگ متاثر ہورہے ہیں جو سنی ہیں اور دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں زبان تعلیم عربی ہے، مگر ایران نے  اس اب پابندی عائد کردی ہے۔
 اسی طرح ایران میں مقیم  عرب خواتین نے اپنی مادری زبان میں تعلیم کی اجازت نہ دینے پر ایرانی حکومت کی مذمت کی اور ایرانی حکومت کے فیصلے کوآئین کے آرٹیکل19/15  کی کھلی خلاف ورزی  قرار دیتے ہوئے اس روئے کو غیر فارسی اقوام کی حق تلفی اور فارسی کو زبردستی رواج دینے کی کوشش کانام دیا ہے ۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب جنیوا میں   اقوام متحدہ کے تحت لسانی ،قومی اور ثقافتی امتیاز کاسامنے کرنے والی کمینٹیز کے حقوق کی پاسداری کے نام سے ایک پروگرام منعقد  ہوا جس میں  مختلف ممالک اور خطوں  سے مدعوکئے جانے والے افراد نے شرکت کی ۔  پروگرام میں سب نے اپنے ساتھ پیش آنےوالے امتیازی سلوک کےحوالے سے اظہارخیال کیا ۔ ایران میں مقیم عرب ، بلوچ ،کرد اورآزر بائجانی خواتین نےبھی اس پروگرام میں شرکت کی اورانہیں در پیش چیلنجز پر روشنی ڈالی ۔ اپنےمختصر خطابات کے دوران  ان خواتین نے کہا  کہ ایرانی حکومت نے غیر فارسی قوموں پر انکی مادری زبانوں میں تعلیم کی حصول  پر پابندیاں عائد کررکھی ہے اورایرانی حکومت فارسی کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کی تعلیم  کو منع کرتی ہے، جو ایران میں آباد آزربائجان، ترک ،کرد اورخاص طور سے عرب اقوام کی حق تلفی اور انکی آزادی کی کھلی مخالفت ہے ۔
واضح رہے کہ ایران میں تعلیم  صرف فارسی زبان میں  دینے کی اجازت ہے حالانکہ اعداد وشمار کے مطابق ایران میں پچاس لاکھ کی تعداد میں عرب  آبادی ہے جس میں عرب کے مشہور قبیلہ  بنو تمیم کی تعداد سب سے زیادہ ہے،  جو عرب کے فصیح ترین اور اپنی زبان سےسب سے زیادہ  محبت کرنے والا قبیلہ شمار کیاجاتا ہےاور اپنی زبان کے لئے اس سے وابستہ افراد کی بیش بہا خدمات ہیں ۔ عربی شاعری میں بنو تمیم کو خاص مقام حاصل ہے ،اور  اس قبیلے لوگ جہاں بھی رہیں اپنی زبان کوپوری روانی اور فصاحت کیساتھ اپنے بچوں کوسکھانے کے لئے  کوشاں  رہتے ہیں ۔ یورپ ،امریکہ اور کینیڈاسمیت  بیرون ممالک میں کاروبار کے سلسے میں مقیم عرب برادریاں اپنے بچوں کو انگلش کے ساتھ اپنی  مادری زبانوں کی صحیح تعلیم دلاتی ہیں ۔ یہاں انہیں کسی پابندی کا سامنانہیں کرناپڑتاہے۔عرب  دیگر اقوام کے مقابلے میں اپنی زبان میں زیادہ دلچسپی لینے والی قوم سمجھی جاتی ہے تاہم ایران میں بڑی تعداد میں مقیم عرب  قبائل اس سہولت سے محروم ہیں اورانہیں اجازت نہیں ہے  کہ وہ اپنے بچوں کواپنی مادری زبان میں تعلیم دلوایئں  ، کیونکہ ایرانی حکومت فارسی زبان کی ترویج کررہی ہے ،اسے عام کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے اور اس منصوبے کو تقویت پہنچانے اور فارسی  کوکلیدی اہمیت دینے کے واسطے وہاں موجود غیرفارسی کمینٹیوں کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جاتی کہ ان کی اولادیں اپنی مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرے ۔
 زبانی مباحثے کے دوران اقوام متحدہ کے فورم میں ایران کی عرب خواتین کی نمائندگی کرنے والی کارکن جمیلہ فیصل نے کہا کہ وہ ایران میں رہائش پذیر ہے اوراسکی خواہش  ہے کہ ایرانی حکومت ا س بات کی اجازت دے کہ غیرفارسی قوموںپر عائد یہ پابندی ختم  ہو ۔جمیلہ کا کہناتھا کہ ایرانی حکومت نے آرٹیکل 19 اور 15 کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے اپنے ہی آئین کے مطابق دیگر قوموں کو ان  آزادیوں  سے محروم رکھا ہوا ہے جو سراسر ملکی آئین کے ساتھ  انسانی واقلیتی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ جمیلہ فیصل کا مزید کہنا تھاکہ ایران میں سرکاری عہدوں میں  عرب  برادری کے افراد کی تعداد بمشکل 10فیصد ہے اسکے مقابلے میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے اس کے مقابلے میں غیر عرب برادریوں کے افراد  کی تعداد سرکاری عہدوں میں 75 فیصد ہے حالانکہ عرب کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے   ۔جمیلہ کے مطابق ایران میں عرب قومیت رکھنے والے افراد کو کافی مشکلات کاسامناہے اور انہیں امتیازی سلوک کے علاوہ  شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔ ایران میں عرب قومیت رکھنے والے افرادکو سخت نفرت کاسامناہے ۔ اقوام متحدہ کےذیلی ادارے کے مطابق ایران حکومت تیل کی مد میں آنے والی سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی جنوبی امریکہ اور افریقا سمیت دنیا کے  بیشتر ممالک میں اپنے سفارت خانوں کےتحت قائم فارسی سکھانے والے  لینگویج سینٹرز اور سکولز  پر خرچ کررہی ہے۔  جس کامقصد فارسی زبان کی تعلیم ، انشاء  وترقی اور فارسی تہذیب کا احیاء ہے ۔
 ایران میں رہائش پذیر بلوچ خؤاتین کی نمائندگی کرتے ہوئے منیرہ سلیمانی نے فورم کے دوسرے سیشن سے اپنے 3منٹ پر مشتمل زبانی خطاب کے دوران کہا کہ ایران میں  بلوچ قوم  دیگر آزادیوں  سے محرومیوں کا  عام طور اوراقتصادی محرومیوں  کا خاص طور پر شکار ہے ۔ ایران میں مقیم ترک خواتین کی  نمائندہ ترکی خاتون جالہ تبریزی کاکہناتھا کہ ایران میں سرکاری اداروں میں  ترکی زبان پر سابق ایرانی حکمراں رضاشا ہ کے دور سے پابندی عائد ہے اور طہران غیر فارسی قوموں کے ساتھ نسلی و زبانی تعصب کے روئے کو فروغ دے رہاہے۔
واضح رہے کہ  اس فورم کاانعقاد جنیوا میں اقوام متحدہ کی عمارت میں کیا گیاتھا جس میں 350تنظیموں کے افراد نے شرکت کی پروگرام  کے جاری اعلامئے کے مطابق اس کے انعقاد کا اہتمام ہرسال کیا جائیگا جس میں اقلیتی پوزیشن رکھنے والی قومیں ،زبانیں اور مذاہب کے حوالے سے مفصل جائزہ لیا جائیگا اور اقوام متحدہ کے تحت ان واقعات وتاثرات کی جانچ پڑتال کے بعد متعلقہ ممالک سے رجوع کیا جائیگا ۔ اسکے بعد مختلف ممالک اور خطوں میں  نسلی ،مذہبی اورقومی تعصب کاسامنا کرنے والی ان  کمینٹیوں کے تعاون کے لئے آواز اٹھائی جائیگی

ایک گائوں کا جھگڑا۔ سلالہ پوسٹ پر امریکی حملے کا سبب بنا

ایک گائوں کا جھگڑا۔ سلالہ پوسٹ پر امریکی حملے کا سبب بنا

قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں سنیچر کو نیٹو فورسز کے حملے کے بارےمیں مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں جس انکشاف کیا گیا ہے کہ  نشانہ بننے والے علاقے میں پاکستان ،افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان کچھ عرصہ قبل فلیگ میٹنگ بھی  ہوئی تھی اور اسی میٹنگ کے دوران امریکہ نے علاقے کا نقشہ بنایا اور اسی نقشے کی بنیاد پر وہ یہاں آپریشن کرنےآئے، امریکہ کچھ عرصے سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ پاکستان اس علاقے کو خالی کردے کیونکہ یہ افغانستان کا علاقہ ہے جب کہ یہاں رہنے والا قبیلہ اپنے آپ کو پاکستانی قرار دیتاہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل امریکی اسی علاقے میں یا تو شب خون مارنے آئے تھے یا  پھر ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر کے اس کا الزام طالبان پر لگا دیں گے تاکہ فوج اور طالبان کے درمیان حال ہی میں شروع ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کیا جا سکے، مگر  پاکستان آرمی کے گشتی دستوں سے مڈ بھیڑ ہونے کے  باعث امریکی منصوبہ ناکام ہو گیا اور انہوں نے فضائی مدد طلب کرلی۔مہمند ایجنسی کے صدر مقام غلنئی کے شمال مغرب میں تقریباً پچاس کلومیٹر دور، سلالہ کا علاقہ ایک دور دراز پہاڑی پر واقع ہے۔ بیزئی سب ڈویژن کی حدود میں پانچ چھ مربہ کلومیٹر پر پھیلا ہوا۔ یہ علاقہ انکارگئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک پہاڑی وادی ہے جو افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ سے متصل ہے۔اس علاقے میں چند ماہ قبل ہی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد پاکستانی فوج نے دو سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کی تھیں۔ اس علاقے میں خواگا خیل قبیلے کے افراد رہائش پذیر ہیں اور زیادہ تر کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ دشوار گزار پہاڑی سلسلہ ہونے کی وجہ سے اس علاقہ میں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے اور وہ چشموں کے پانی کو پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کےلیے انہیں دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔
خواگا خیل قبیلے کی ایک بااثر سیاسی شخصیت اور سابق صوبائی وزیر افتخار مہمند کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر حملہ ہوا ہے اس کے آس پاس سات آٹھ کلومیٹر کا قریبی علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل تھا لیکن کچھ عرصے سے امریکہ اسے افغانستان کا علاقہ  قرار دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سرحدی مقام پر افغانستان کی طرف علاقہ شورا کہلاتا ہے جبکہ پاکستان کا علاقہ پتھاؤ یعنی ’سورج کی طرف‘ کے نام سے موسوم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے قبیلے کے افراد افغانستان کی حدود کے پار، پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر رہ رہے ہیں لیکن وہ سب خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد خواگا خیل واحد قبیلہ تھا جس نے بغیر کسی شرط کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کے عوام دونوں ممالک کی حکومتوں سے نالاں ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحدی حدبندی ہمیشہ سے ایک بڑا تنازعہ رہا ہے بالخصوص مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں کا علاقہ جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے پر قبضہ کرنے کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔
تقریباً چوبیس سو کلومیٹر پر مشتمل پاک افغان سرحد، جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ہے، ایک سو اٹھارہ سال قبل برِصغیر اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان ایک بینالاقوامی سرحد کے طورپر قائم کی گئی تھی۔کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے بعد ڈیورنڈ لائن کا کسی نہ کسی حد تک تعین کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اکثر اوقات مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر اس سے پہلے پاکستان، افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان باقاعدہ فلیگ میٹنگز ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کے پاس سرحد پر تمام تر سہولیات موجود ہیں، ان کے پاس نقشے ہیں اور ریڈار کا نظام موجود ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بلا اشتعال پاکستانی پوسٹوں پر بمباری کی۔انہوں نے کہا ’یہ بات نہیں کہ امریکیوں نے قصداً پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا ہوگا لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ انہوں نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔‘ان کے مطابق اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو فورسز نے جس طرح حملہ کیا ہے اس تو یہ لگتا ہے کہ وہ بڑی تیاری کے ساتھ اس حملے کےلیے آئے تھے۔

امریکی ڈرون اڈے میں پاک فوج داخل ہوگئی

 اس بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں کہ پاک ائیر فورس اور پاک آرمی کی ایک ٹیم نے امریکی زیر انتظام شمسی ائیر بیس پر چھاپہ مارا ہے ا ور وہاں موجود امریکی ڈرون طیاروں اور دیگر آلات کا معائنہ کیا ہے۔ اس بارے میں  ایک ایسی تصویر بھی موصول ہوئی ہے جس میں پاکستان ائیر فورس اور پاکستان آرمی کے کچھ افسران مبینہ طور پر شمسی ائیر بیس پر امریکی ڈرون طیاروں کے قریب کھڑے ان کا معائنہ کررہے ہیں جب کہ امریکی فوجی بھی ان کے عقب میں کھڑے دیکھے جا سکتے  ہیں۔ مگر اس  مبینہ چھاپے کے بارے میں  عسکری ذمہ داران کی جانب سےتصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔ التبہ اس بارے میں یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے شمسی ائیر بیس کو کسی بھی صورت قائم  رکھنے کی اجازت دینے سے  سختی سے انکار کردیا ہے اور اب امریکی وہاں سے اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک غیرملکی خبرایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے مطالبے کے بعد امریکا نے شمسی ایئر بیس خالی کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔خبرایجنسی کے مطابق امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ شمسی ایئر بیس خالی کرنے سے شدت پسندوں کیخلاف آپریشن پر اثر نہیں پڑے گا، خبرایجنسی کے مطابق شمی ایئر بیس سے ڈرون حملوں کے لیے متبادل ایئر بیس کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں۔ خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکا اس نازک صورت حال میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ایک طرف غیر ملکی خبر رساں ادارے یہ خبر دے رہے ہیں تو دوسری طرف ملکی سلامتی سے  متعلق اہم ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ امریکی ائیر بیس خالی کرنےپر تیار نہ تھے اور انہوں نے یو اے ای کے ذریعے سے دبائو بھی ڈلوایا مگر پاکستانی عسکری قیادت نے نا صرف سختی سے اسے مسترد کردیا بلکہ وارننگ بھی دی کہ اگر ائیر بیس خالی نہ کیا گیا تو پاک فوج کے دستے خود کارروائی کریںگے، اسی دوران شمسی ائیر بیس کی طرف جانے والے تمام راستے بھی بند کردئے گئے اور ہر قسم کی سپلائی پرپابندی لگا دی گئی۔ کچھ ذرائع کا یہ بھی دعوی ہے کہ  پاک ائیر فورس اور پاک آرمی کی ایک ٹیم نے اس بیس میں داخل ہو کر  ڈرون طیاروں اور دیگر آلات کامعائنہ بھی کیا، ان کے جارحانہ روئے کے باعث ہی امریکیوںنے بیس خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دراصل امریکی حملے کے پیچھے پاکستان کو شمالی وزیرستان  اور دیگر طالبان گروپس کےخلاف کارروائی سے انکار بھی تھا۔ذرائع کے  مطابقدونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتا رہا لیکن شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک، حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر کے طالبان گروپوں کے خلاف امریکہ کی فرمائش پر پاکستانی فوج کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ ان طالبان گروپوں کو پاکستان کا حامی سمجھا جاتا ہے اور پاکستان نے ان طالبان گروپوں سے امن معاہدہ کررکھا ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں  ان طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے ہی اچانک افغانستان کے صوبے کنڑ سے مہمند، باجوڑ اور ملاکنڈ میں پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملے شروع  ہو گئے۔
افغانستان کے کنڑ صوبے سے نیٹو اور امریکی اتحادی فوجوں نے اپنی کچھ چوکیاں ختم کر لیں اور انہوں نے زیادہ توجہ خوست اور پکتیکا پر مرکوز کرلی۔ کیونکہ وہی علاقے مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک، حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر کے  طالبان کا افغانستان میں گھس کر امریکیوں کو نشانہ بنانے کا  راستہ ہے۔لیکن کنڑ سے پاکستان میں حملوں کے بعد پاک فوج نے مہمند ایجنسی پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کی اور نفری میں بھی اضافہ کر دیا۔ مہمند ایجنسی میں رواں سال کی ابتدا میں فوجی کارروائی تیز ہوئی۔ پاک فوج نے رواں سال یکم جون کو اسلام آباد سے صحافیوں کو مہمند ایجنسی کا دورہ کرایا تھا اور اس وقت وہاںمہمند ایجنسی میں تعینات برگیڈیئر عرفان کیانی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ مہمند ایجنسی کی اڑسٹھ کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ چھ لاکھ آبادی والی مہمند ایجنسی کی کل سات تحصلیں ہیں۔ ان کے بقول جھنڈا نامی گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں طالبان کمانڈر عبدالولی کا قبضہ تھا جو فوج نے ختم کرایا اور وہ افغانستان کے کنڑ صوبے چلے گئے۔بعد میں مہمند ایجنسی کے فوجی صدر دفتر غلنئی میں پشاور کے کور کمانڈر کی موجودگی میں برگیڈیئر آفتاب احمد خان نے بریفنگ میں بتایا کہ افغانستان کے صوبے کنٹر سے ملنے والی مہمند ایجنسی کی ایک تحصیل صافی میں گڑ بڑ ہے اور اس تحصیل کا بیس فیصد علاقہ پاکستان مخالف طالبان کے قبضے میں ہے۔بریفنگ میں پاکستانی فوجی کمانڈرز نے یہ بات واضح طور پر بتائی کہ وہ ایساف والوں کو بتاتے رہے ہیں کہ سوات، ملاکنڈ اور مہمند سے بھاگے ہوئے پاکستان  مخالف طالبان کنڑ میں ہیں اور وہ پاکستان پر حملہ کرتے ہیں لیکن امریکی اتحادی افواج ان شدت پسندوں کے خلاف وہ کارروائی نہیں کرتے۔ اس وقت میجر جنرل نادر زیب خان نے سلالہ کی چیک پوسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ چیک پوسٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں سے کنڑ کی طرف سے آنے والے  پاکستان  مخالف طالبان پر اچھی طرح نظر رکھی جاسکتی ہے۔ ان کے بقول یہ چیک پوسٹ انہوں نے بڑی مشکل سے قائم کی ہے اور وہاں لاجسٹک سپورٹ بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ اکثر طور پر اس کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ امریکی چاہتا ہے کہ پاکستان  صرف ایسے طالبان کے خلاف کارروائی کرئے جو امریکہ کے مخالف ہوں اور افغانستان میں جا کر امریکی فوجیوں پر حملے کرتے ہوں، اور پاک فوج کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا کرتے  ہیں تو پھر یہ طالبان پاکستان کے مخالف ہو کر پاکستان پر حملے شروع کردیتے ہیں، اس لئےامریکہ ان طالبان کو خود ہی افغانستان  میں مقا بلہ کر کے ختم کردے۔ امریکی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ تھی اور وہ یہ کام پاکستان سے کرانا چاہتی تھی مگر ا ب پاکستان یہ کام مزید کرنے پر تیار نہ تھا اور اسی لئے کشیدگی بڑھ رہی تھی اور اس کا نتیجہ سلالہ پوسٹ پر حملے کی صورت میں نکلا اور جواب میں پاکستان نے شسمی ائیر بیس اور امریکی سپلائی لائن کو بنایا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اور جوابی کارروائی ضرور کریں گے، لہذا پاک فوج انتہائی چوکنا ہے۔

بمباری سےقبل پاک امریکہ فوج میں کئی گھنٹے شدید جنگ ہوئی

اسلام آباد میں اہم ترین عسکری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مہمند ایجنسی میں امریکی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں 28 پاکستانی فوجیوں کی شہادت دراصل کہانی  کا ایک حصہ ہے، دوسرا حصہ یہ  ہے کہ اس فضائی حملے سےقبل کئی گھنٹےتک امریکی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جس میں امریکی فوجیوں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور اسی کے بعد انہوں نے فضائی مدد طلب کی اور پاکستان فوجیوں کو  ہیلی کاپٹرز سے راکٹ باری اور فائرنگ کر کے شہید کیا گیا۔ اس واقعے کی مزید تفصیلات یہ ہیں کہ امریکی اسیشل فورسز کا ایک دستہ پاکستانی سرحد کے قریب ایک پاکستانی گائوں پر شب خون مارنا چاہتا تھا جیسا کہ امریکہ ایک بار پہلے بھی کرچکے ہیں اور اس کا ذکر امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب، دی اوباماز وار، میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ ہفتے اور جمعے کی درمیانی شب تین بجے کےقریب امریکی اسپیشل فورسز کا ایک دستہ ہیلی کاپٹرز سے پاکستانی سرحد کے قریب اترا۔ ہیلی کاپٹرز کی آواز سن کر پاکستانی فوجی الرٹ ہوگئے اور انہوں نے گشتی پارٹیاں بھی فوری طور پر علاقے میں بھیج دیں۔ اسی دوران امریکیاسپیشل فورسز کی ٹیم سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میںداخل ہوئی  تو  سامنے پاکستانی فوجی تیار کھڑے تھے  اور اس طرح جھڑپ شروع ہوئی۔ کئی گھنٹے کے بعدامریکی دستوں نے فضائی مدد طلب کی اور امریکی ہیلی کاپٹرز نے موقع پر پہنچ کر شدید فائرنگ اور راکٹ باری کی جس سے اکثر پاکستانی فوجی شہید ہوگئے۔ اس جھڑپ میں کئی امریکی بھی ہلاک ہوئے جنہیں امریکی ہیلی کاپٹرز اٹھا کر  لے گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی اپنے پیچھے کافی سامان بھی چھوڑ گئے تھے جو صبح کے وقت وہاں پہچنے والے قبائلیوں نے جمع کر کے پاکستانی فوج کے حوالے کیا۔ قبائلیوں میں اس لئے بھی زیادہ غصہ ہے کہ پاکستانی فوجی انہیں امریکی فوجیوں سے بچاتے ہوئے شہید ہوئے۔ واضح رہے  کہ نیٹو کےترجمان بھی اس بارے میں گذشتہ روز تصدیق کرچکے ہیں کہ علاقے میں امریکی فوجی دستے موجود تھے اور انہوںنے ہی اپنے اوپر حملے کے بعد ہیلی کاپٹرز بلائے تھے۔
آئی ایس اے ایف (ایساف) کے ترجمان نے ہفتہ کو اس وقت  یہ چشم کشا انکشاف کیا کہ جب انہوں نے یہ کہا کہ مہمند ایجنسی میں نیٹو اور ایساف ہیلی کاپٹرز کا حملہ دراصل علاقے میں موجود ” ایساف کی گراؤنڈ فورسز“ کی جانب سے مدد مانگنے پر ردعمل کے طور پر کیا گیا ۔ پاکستانی ٹی وی جیو کے پروگرام میں اینکر ثناء بچہ سے بات چیت کرتے ہوئے ترجمان کارلسٹن جیکب نے کہا کہ یہ افغان نیشنل سیکورٹی فورسز اور اتحادی فوج کا مشرقی کنڑ کے قریب آپریشن تھا جو صبح کے دھندلکے میں جاری تھا، اس موقع پر فضائی مدد طلب کی گئی اور اس امر کا بہت امکان ہے کہ یہ فضائی حملہ اسی وقت کیا گیا اور اس کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا ، ترجمان نے بار باریہ بھی کہا کہ وہ تحقیقات کا انتظار کر رہا ہے اور جونہی مکمل تصویر واضح ہوتی ہے تو وہ اس پر تبصرہ کریگا۔