دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی فتح کے لئے ’’عوامی سفارت کاری‘‘ نامی
منصوبے کے تحت پاکستانی صحافتی اداروںمیں اہم ذمہ داریاںادا کرنے والے
تمام صحافیوں کو امریکہ وبرطانیہ لے جا کر خصوصی تربیت دینے کا فیصلہ ہوا
ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں دو سو سے زائد پاکستانی صحافی امریکہ و
برطانیہ میں اس وقت تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس نمائندے کو ملنے والی
دستاویزات کے مطالعے سے حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں، ایسے
پاکستانی صحافی، جنہیں قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت
قومی اداروں کی پوشیدہ کارروائیوں اور تشدد کا سامنا رہا، وہ اس پروگرام کے
تحت امریکہ یا برطانیہ میں تربیت حاصل کرچکے تھے۔دستاویزات کے مطالعے سے
یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں غیر ملکی اداروں کی جانب سے
دی جانے والی اسکالر شپس پاکستانی طلباء کے لئے ہوتی تھیں مگراب امریکہ اور
برطانیہ کی طرف سے دی گئی ان اسکالر شپس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ
صحافت کے طلباء کے لئے نہیں بلکہ صرف ان پاکستانی صحافیوں کے لئے ہیں جو
کسی بھی پاکستانی صحافتی ادارے میں اہم ذمہ داری پر فائزہوں، تربیت کے بعد
انہیں ہر حال میں پاکستان واپس آ کر اپنی اس ملازمت کو جاری رکھنا ہو
گا۔ واشنگٹن میں پاکستانی صحافتی حلقوں نے بھی اس حیرت انگیز امریکی
پروگرام کے بارے میں تفصیلات اس نمائندے کوبتاتے ہوئے، اپنی تشویش کا
اظہار کیا۔ اگر یہ پروگرام منصوبے کے مطابق جاری رہتا ہے تو پاکستان دنیا
کا وہ واحد ملک بن جائے گا، جس کے تمام صحافتی اداروں کے اکثر اہم افراد
امریکہ اور برطانیہ سے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے خصوصی تربیت
حاصل کر چکے ہوں گے۔ پاکستانی صحافیوں کے لئے جاری کردہ داخلہ فارمز میں
امریکی اور برطانوی اداروںنے واضح طور پر لکھا ہے کہ اس تربیت اور امریکہ و
برطانیہ کے دورے کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر کردار ادا کرنے
کے لئے رائے عامہ کے رہنمائوں اور پالیسی سازوں کو تیار کرنا ہے۔ واشنگٹن
کے پاکستانی صحافتی حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس پروگرام کے خالق دراصل
ایک پاکستانی وفاقی وزیر ہی ہیں، انہوں نے ہی یہ حیرت انگیز تجویز
واشنگٹن میں ہونے والے تین روزہ اسٹریٹجک مذاکرات میں پیش کی تھی، جسے
امریکیوںنے نا صرف فورا قبول کیا بلکہ رواں برس سے عمل درآمد بھی شروع
کردیا۔ مذکورہ وزیر نے21 اکتوبر2010 کو واشنگٹن میں پاکستانی صحافیوں سے
گفتگو میں فخریہ اس بات کا تذکرہ کیا تھا اور اگلے روز کے کئی اخبارات نے
یہ خبر بھی شائع کی تھی۔امریکی انڈر سیکریٹری جوڈتھ مائیکل، اب اس پروگرام
کے بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں،اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے دوران بھی وہی پاکستانی
وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ کے ساتھ ان معاملات پر مذاکرات میں اپنے عملے
کی سربراہی کررہے تھے۔ برطانیہ کے ایک اور امریکہ کے تین مختلف اداروں کے
تعاون سے جاری اس انوکھے پروگرام کے بارے میں، اس نمائندے نے چاروں متعلقہ
اداروں سے تصدیق چاہی تو ہر ایک ادارے نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے اس
پروگرام کی تصدیق کی۔ تمام اہم پاکستانی صحافیوں کو تربیت دینے کے لئے سب
سے زیادہ سرگرم اس وقت امریکی محکمہ خارجہ ہے، یہ محکمہ ہر سال125
پاکستانی صحافیوں کو ایک سال کے لئے امریکہ لے جا رہا ہے۔ پاکستان میں یو
ایس ایجوکیشن فائونڈیشن اس معاملے کو ڈیل کرتی ہے۔ معلومات کے حصول کے لئے
کی گئی ای میل کے جواب میں یو ایس ایجوکیشن فائونڈیشن نے اپنی ویب سائٹ کے
وزٹ کا مشورہ دیا، وہاں موجود تفصیلات اس پروگرام کی جزئیات کی تصدیق کرتی
ہیں۔ ویب سائٹ پر شرائط کے ضمن میں واضح لکھا ہے کہ صرف وہ پاکستانی صحافی
اس پروگرام کے لئے اہل ہیں جو کم از کم پانچ برس سے میڈیا سے منسلک ہوں
اور اس وقت کسی بھی اخبار یا صحافتی ادارے میں کسی اہم ذمہ داری پر فائز
ہوں۔اس پروگرام کے تحت دو سال کی تربیت دی جارہی ہے۔
Sunday, December 9, 2012
Saturday, November 3, 2012
.....ملالہ پر ہمیں کوئی ملال نہیں.....
.....ملالہ پر ہمیں کوئی ملال نہیں.....
تحریر: ام ہانی
تحریر: ام ہانی
ہر طرف غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، پوری دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ کافر ہوں یا مسلمان، ہر کوئی غم کے آنسو بہارہا ہے، ہر طرف سے مذمتی بیانات جاری کئے جارہے ہیں۔ مساجد سے لے کر اسکول کالجوں تک، مندروں سے لے کر گرجا گھروں تک، ہر جگہ دعائیہ اجتماعات منعقد ہورہے ہیں۔ ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دینے کی نویدیں سنائی جارہی ہیں۔ وزیر داخلہ پاکستان سے لے کر وزیرخارجہ امریکہ تک، صدرِ پاکستان سے لے کر صدر افغانستان تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک، حتی کہ صدرِ امریکہ سے لے کر امریکی گلوکارہ میڈونا تک، ہر کوئی غمِ فراق میں گھلا جارہا ہے۔ کیونکہ سوات کی رہنے والی ایک چودہ پندرہ سالہ:
.....معصوم سی لڑکی.....
ملالہ یوسف زئی کو معاشرے میں انتہاپسند کہلانے والے چند لوگوں نے سر پر گولی مار کر قتل کرنے کی کوشش کی!
سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ کو کس جرم کی پاداش میں گولی ماری گئی؟ اس کا ایسا کیا قصور تھا کہ اس کو یہ سزا دی گئی؟ اس نے ایسا کونسا فعل انجام دیا تھا جس بناء پر صنف نازک ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا کیا گیا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کو قتل کرکے فاسفورس بموں سے جلانے والے، مظلوم ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے والے، معصوم آمنہ کو اس کے خواہش کے برعکس اس کی کافر والدہ کے حوالے کرنے والے، مہاجرین ِسوات کے کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو اغواء کرکے قحبہ خانوں کی زینت بنانے والے، عراق میں دوائیاں روک کر دس لاکھ عراقی بچوں کو موت کی نیند سلانے والے، آخر آج ملالہ کے غم میں کیوں گھلے جارہے ہیں؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ملالہ کو کس جرم کی پاداش میں گولی ماری گئی؟ اس کا ایسا کیا قصور تھا کہ اس کو یہ سزا دی گئی؟ اس نے ایسا کونسا فعل انجام دیا تھا جس بناء پر صنف نازک ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا کیا گیا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جامعہ حفصہ کی ہزاروں معصوم بچیوں کو قتل کرکے فاسفورس بموں سے جلانے والے، مظلوم ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے والے، معصوم آمنہ کو اس کے خواہش کے برعکس اس کی کافر والدہ کے حوالے کرنے والے، مہاجرین ِسوات کے کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو اغواء کرکے قحبہ خانوں کی زینت بنانے والے، عراق میں دوائیاں روک کر دس لاکھ عراقی بچوں کو موت کی نیند سلانے والے، آخر آج ملالہ کے غم میں کیوں گھلے جارہے ہیں؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
روزنامہ امت کراچی میں ملالہ یوسف زئی پر13/10/2012 شائع ہونے والی رپورٹ میں کچھ یوں لکھا تھا:
”مینگورہ کے ایک سینئر صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ ایک حساس لڑکی ہے اور ذہین بھی، مگر اس کی ڈائریوں میں بھی اور بعد میں اس کے تمام معاملات میں اس کے والد کا ضرورت سے زیادہ اعتماد اورغیر محتاط رویہ تھا، جس نے ملالہ کو خطرے کی زد میں لاکھڑا کیا۔ ذرائع کے مطابق مینگورہ کی میڈیا برادری کو اس بات کا علم ہے کہ ملالہ کی بیشتر ڈائریاں اس کے والد کی لکھی ہوئی ہیں۔ ڈائری کی زبان اور رائٹنگ ایک چوتھی جماعت کی بچی کے دماغ کی عکاس نہیں ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک ڈائری میں ملالہ کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’برقع‘‘ پتھر کے دور کی یادگار ہے اور داڑھی دیکھ کر ’’فرعون‘‘ یا د آجاتا ہے“۔
”مینگورہ کے ایک سینئر صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ ایک حساس لڑکی ہے اور ذہین بھی، مگر اس کی ڈائریوں میں بھی اور بعد میں اس کے تمام معاملات میں اس کے والد کا ضرورت سے زیادہ اعتماد اورغیر محتاط رویہ تھا، جس نے ملالہ کو خطرے کی زد میں لاکھڑا کیا۔ ذرائع کے مطابق مینگورہ کی میڈیا برادری کو اس بات کا علم ہے کہ ملالہ کی بیشتر ڈائریاں اس کے والد کی لکھی ہوئی ہیں۔ ڈائری کی زبان اور رائٹنگ ایک چوتھی جماعت کی بچی کے دماغ کی عکاس نہیں ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک ڈائری میں ملالہ کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’برقع‘‘ پتھر کے دور کی یادگار ہے اور داڑھی دیکھ کر ’’فرعون‘‘ یا د آجاتا ہے“۔
اسی طرح 11اکتوبر 2012 روز نامہ امت کراچی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کچھ یوں لکھا تھا:
”سوات کے ایک اور ذمہ دار صحافی نے
’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملالہ کے حوالے سے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری غیر
ملکی اور ملکی الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر ملکی این جی او کی بھی ہے،
جو اس بچی کے نام سے اپنے مطلب کی چیزیں چلاتے رہے۔ اس معاملے میں ملالہ
کے قریبی عزیز بھی شریک ہیں، ورنہ 2009ء میں 9 برس کی ملالہ کی ’’ڈائریاں‘‘
پڑھیں (جوکہ اس وقت بی بی سی پر شائع ہوتی تھیں) تو وہ جس پختہ سوچ کی
عکاس ہیں، وہ ایک بچی کی نہیں۔ ان (صحافی ) کے بقول اوباما کو ہیرو قرار
دینے والا انٹرویواس بچی کا نہیں بلکہ وہ گواہ ہیں کہ بعض مواقع پر اسے لکھ
کر دیا جاتا تھا اور بعض اوقات تو ریکارڈنگ روک کر بتایا جاتا تھا کہ وہ
یہ بات کہے۔ ایسے میں ان کے نزدیک ملالہ پر حملوں کی ذمہ داری مسلح افرادکے
ساتھ ان پر بھی عائد ہوتی ہے، جنہوں نے ایک ’’عالمی کھیل‘‘ میں اس معصوم
بچی کو استعمال کیا.ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی (طالبان کے خلاف
بننے والے) سوات قومی جرگہ کے مرکزی ترجمان اور ایک این جی او’’گلوبل پیس
کونسل
‘‘(Globle Peace Concil) کے صدر ہیں“۔
چنانچہ ان خدمات پرملالہ یوسف زئی کو ملکی اور غیر ملکی طور پر مختلف
ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 19دسمبر 2011ء کو اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نے
ملالہ کو پہلے (Pakistan’s National Peace Prize) کے ایوارڈ سے نوازا اور
2011ء میں اس کو عالمی طورپر (International Children's Peace Prize) بھی
عطا کیا گیا اور 3جنوری 2012ء کو حکومت پاکستان نے ملالہ کی خدمات کا
اعتراف کرتے ہوئے سوات کے ایک گورنمنٹ اسکول کو اس کے نام سے منسوب کردیا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]
”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْ حَرْبٌ, وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔ (تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔
چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)
’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔
دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)
’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ ملالہ یوسف کے باپ کا تو قصور سمجھ آتا ہے مگر خود ملالہ تو ایک معصوم بچی تھی، اور اسلام تو کافروں کی عورتوں اور بچوں کی جان لینے سے بھی منع کرتا ہے تو کس طرح ایک مسلمان بچی کا خون بہانا حلال ہوگیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفار کا ساتھ دینے والے کا حکم انہی کفار کے حکم جیسا ہے، بالکل اسی طرح کفار کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا حکم بھی انہی کفار کی عورتوں اور بچوں جیسا ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ بلاضرورت ان کفار کا، اور ان کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کفار کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ بطور ان کی جان کی حرمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن سکتے ہیں جبکہ مرتدین کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ ان کا مسلمان ہونا ہے۔
چنانچہ شریعت میں کفار ومرتدین کے معصوم الدّم لوگوں یعنی ان کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کا قتل کرنا حرام ہے، مگر اُنہیں اس حالت میں قتل کرنا جائز ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اُٹھالیں یا ایسے کام سرانجام دیں کہ جو لڑائی کے کاموں کے معاون بنیں۔ خواہ یہ جاسوسی کرنے یا امداد دینے یا رائے دینے یا اسی طرح کے دوسرے کام ہوں۔ اس کا ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جس کو رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
((قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَيْءٍ فَبَعَثَ رَجُلًا، فَقَالَ: «انْظُرْ عَلَامَ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَى امْرَأَةٍ قَتِيلٍ. فَقَالَ: «مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ» قَالَ: وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَبَعَثَ رَجُلًا. فَقَالَ: «قُلْ لِخَالِدٍ لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيفًا)) (سنن أبی داود،ج۷،ص۴۷۲،رقم الحدیث:۵۹۲۲)
’’اُنہوں نے کہا کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں (شریک) تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھے ہوتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا دیکھو یہ لوگ کس چیز پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ تو وہ آدمی (واپس) آیا اور کہا، کہ ایک مقتول عورت پر، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، یہ تو لڑنے کی اہل نہ تھی۔ (راوی) کہتے ہیں کہ اس لشکر کے ہر اول دستے پر خالد بن ولید مامور تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا کہ: ’’خالد سے کہو کہ کسی عورت کو قتل کرے اور نہ کسی مزدورکو‘‘۔
چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهَا لَوْ قَاتَلَتْ لَقُتِلَتْ‘‘ (فتح الباری ج۹ص۴۲۲)
’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لڑائی کرے تو قتل کی جائے گی‘‘۔
امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)
’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله " قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك "‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)
’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔
ذراامام النووی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کیجئے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دیکر اور دشمن کی اطاعت کرکے اور دشمن کو لڑائی پر اُبھار کر یا اسی قسم کے دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:
’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)
’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔
ذرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس فرمان پرغورکریں کہ ’’ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یا فعل سے لڑے‘‘۔ یہ بات اور امام نووی کی سابقہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں کا قتل قصداً حرام ہے، اگر وہ مسلمانوں کے مخالف جنگجوؤں کی اپنے اقوال یا افعال کے ساتھ مدد کریں گے تو اُنہیں نشانہ بناکر قتل کرنا جائز ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
((انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ)) (سنن ابی داود،ج۷،ص۵۹۱،رقم الحدیث۷۴۲۲)
’’اللہ کا نام لے کر نکلو، اور اس اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوتے ہوئے، اور بہت زیادہ بوڑھے شیخ کو قتل کرو اور نہ بچے کو اور نہ چھوٹے کو اور نہ عورت کو، اور غنیمتوں میں خیانت نہ کرو، اور اپنی غنیمت کو اکٹھا کرو، اور اصلاح کرو۔، بلاشبہ نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔
عون المعبود کی شرح کرتے ہوئے مؤلف فرماتے ہیں کہ:
’’أَيْ إِلَّا إِذَا كَانَ مُقَاتِلًا أَوْ ذَا رَأْيٍ،وَقَدْ صَحَّ أَمْرُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِقَتْلِ زَيْدِ بْنِ الصِّمَّةِ وَكَانَ عُمْرُهُ مِائَةً وَعِشْرِينَ عَامًا أَوْ أَكْثَرَ وَقَدْ جِيءَ به في جيش هوازن للرأي،الظَّاهِرُ أَنَّهُ بَدَلٌ أَوْ بَيَانٌ أَيْ صَبِيًّا دُونَ الْبُلُوغِ وَاسْتُثْنِيَ مِنْهُ مَا إِذَا كَانَ مَلِكًا أَوْ مُبَاشِرًا لِلْقِتَالِ،أَيْ إِذَا لَمْ تَكُنْ مُقَاتِلَةً أَوْ مَلِكَةً ‘‘ (عون المعبود،ج۶،ص۷۳،رقم:۷۴۲۲)
’’یعنی، مگر یہ کہ وہ لڑنے والا ہو یا دشمن کو رائے دینے والا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’نہ بچے کو نہ چھوٹے کو‘‘ سے اُس کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو بادشاہ ہو یا لڑائی میں براہ راست حصہ لینے والا ہو اور ’’نہ کسی عورت کو‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر وہ لڑنے والی نہ ہو یا ملکہ نہ ہو‘‘۔
امام ابن عبد البر نے میں فرمایا:
’’ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَاتَلَ مِنَ النِّسَاءِ وَالشُّيُوخِ أَنَّهُ مُبَاحٌ قَتْلُهُ وَمَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِتَالِ مِنَ الصِّبْيَانِ وَقَاتَلَ قُتِلَ ‘‘ (الاستذکار ۴۷/۴۱)
’’علماء کا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتوں اور بوڑھوں میں سے لڑے تو اسکا قتل کرنا جائز ہے۔ اور بچوں میں جو لڑنے کی قدرت رکھے اور لڑے تو اُسے بھی قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام ابن قدامہ نے بھی اسی بات پرعلماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں، بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں جائز ہے کہ جب وہ لڑائی میں اپنی قوم کی کسی بھی قسم کی اعانت کریں۔
امام ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ويحرم قتل المرأة والصبي إن لم يقاتلا عند الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة فإن قاتلا قتلا. ۔‘‘ (مشارع الاشواق،ج۲،ص۳۲۰۱۔ہداۃ المجتھد،ج۱،ص۰۰۴)
’’کفار کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اگر وہ نہ لڑیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، اما م احمد رحمہ اللہ، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق مگر جب وہ لڑیں تب ان کو مارا جائے گا‘‘۔
امام ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جیسے کہ کوئی بھی ان میں سے لڑے (یعنی عورتوں اور بچوں میں سے) تو ان کو قتل کرنا چاہئے تاکہ ان کے نقصان سے بچا جاسکے۔ یہ اس لئے کہ (جنگ) میں یہ جائز ہے اور اسی طرح پاگل شخص کو نہیں مارا جائیگا جب تک وہ نہ لڑے اور اگر بچہ اور پاگل لڑے تو ان کو قتل کیا جائیگا‘‘۔(شرح فتح القدیر،ج۵،ص۳۰۲)
امام ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور اس طرح اس کی اجازت ہے کے گونگے، بہرے کو قتل کیا جائے اور جس کا ایک ہاتھ یا ٹانگ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ وہ لڑسکتے ہوں (گھوڑے پر) اور اس طرح عورت کو قتل کیا جائیگا اگر وہ لڑے‘‘۔(حاشیہ ابن عابدین،ج۳،ص۵۲۲)
ابن قاسم نے الحاشیہ میں یہ اجماع نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ونقل عن ابن تيمية أيضا أن أعوان الطائفة الممتنعة وأنصارها منها فيما لهم وعليهم‘‘
’’ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی سے نقل کیا ہے کہ (اسلام کے خلاف) طاقت وشوکت (سے لڑنے) والی جماعت کے مددگار اُسی حکم کے تحت شمار کئے جائیں گے جوکہ حکم اس جماعت کے لئے ہے۔ جو کچھ اس (لڑنے والی جماعت) پر ہے وہی ان کے مددگاروں پر اور اُن پر وہی لاگو ہوگا جوکہ اس جماعت کا ہوگا‘‘۔
کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کونسی بندوق اور توپ لے کر میدان میں آئی تھی بلکہ اس نے تو صرف چند آرٹیکل لکھے تھے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جوکہ صرف اپنی رائے اور قول سے کفار کی مدد نصرت کررہا تھا اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ جو حکم لڑنے والے کفار کا تھا وہی حکم اس کا تھا:
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلَاءِ الرِّجَالِ الْمَذْكُورِينَ ذَا رَأْيٍ يُعِينُ بِهِ فِي الْحَرْبِ، جَازَ قَتْلُهُ ؛ لِأَنَّ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ قُتِلَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَهُوَ شَيْخٌ لَا قِتَالَ فِيهِ، وَكَانُوا خَرَجُوا بِهِ مَعَهُمْ، يَتَيَمَّنُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونَ بِرَأْيِهِ، فَلَمْ يُنْكِرْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَتْلَهُ. وَلِأَنَّ الرَّأْيَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَعُونَةِ فِي الْحَرْبِ ۔‘‘ (المغنی لابن قدامۃ،کتاب الجھاد:۸/۸۷۴)
’’اسی طرح جو شخص مذکورہ افراد (معذور اور خواتین وغیرہ) میں سے ہوں مگر وہ صاحب الرائے ہو۔ یعنی ایک اچھی رائے اور کارگر مشورہ کے ساتھ وہ جنگ میں کافروں کی مدد کرتا ہوتو اس کو قتل کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوازن قبیلہ کے ایک بوڑھے سردار اور انتہائی زیرک ومعاملہ فہم شخص دُرید بن صِمّہ کو جنگ حنین میں قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بہت بوڑھا آدمی تھا۔ اس میں لڑنے کی ذرا بھی سکت نہ تھی ۔ لیکن جب بنو ہوازن رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل نکلے تو وہ اپنے اس بوڑھے شخص کو باعث برکت سمجھتے اور اس کی جنگی واقفیت سے اس کا تعاون حاصل کرتے تھے۔ جب اس کو قتل کیا گیا تونبی اکرم ﷺ نے اس کے قتل پر کوئی تنقید اور انکار ظاہر نہیں فرمایا تھا۔ کیونکہ حالت جنگ میں رائے اور مشورہ دینا تعاون اور مدد کی سب سے بڑی صورت ہے۔‘‘
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ ْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)
’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘
یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔
غرضیکہ ملالہ یوسف زئی امریکہ کی برپا کردہ جنگ میں ہر اول سپاہی کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس نے سوات آپریشن سے قبل اور اس کے دوران بی بی سی پر ’’ڈائری‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ کر نہ صرف نفاذِ شریعت کرنے والوں کے خلاف زہر اگلا تھا بلکہ شریعت کے واضح احکامات کے استہزاء اور تمسخر کی مرتکب ہوئی تھی اور وہ آج بھی وہ یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے پر اسی طرح عمل پیرا تھی۔
لہذا اس پر حملہ طالبان نے کیا ہو یا پھر کوئی یہ سمجھے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہوئی ہو، اس کے باوجود ہر وہ مسلمان جوکہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاری کی مددو نصرت کرنے والے کے حکم سے بھی واقف ہو، اس کا یہ دیرینہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملالہ پر حملہ ہونے پر پُرملال ہونے کے بجائے اس بات کا برملا اعلان کرے کہ:
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]
”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْ حَرْبٌ, وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔ (تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔
چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)
’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔
دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)
’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ ملالہ یوسف کے باپ کا تو قصور سمجھ آتا ہے مگر خود ملالہ تو ایک معصوم بچی تھی، اور اسلام تو کافروں کی عورتوں اور بچوں کی جان لینے سے بھی منع کرتا ہے تو کس طرح ایک مسلمان بچی کا خون بہانا حلال ہوگیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفار کا ساتھ دینے والے کا حکم انہی کفار کے حکم جیسا ہے، بالکل اسی طرح کفار کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کا حکم بھی انہی کفار کی عورتوں اور بچوں جیسا ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ بلاضرورت ان کفار کا، اور ان کا ساتھ دینے والے مرتدین کی عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کفار کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ بطور ان کی جان کی حرمت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن سکتے ہیں جبکہ مرتدین کی عورتوں اور بچوں کا تحفظ اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ ان کا مسلمان ہونا ہے۔
چنانچہ شریعت میں کفار ومرتدین کے معصوم الدّم لوگوں یعنی ان کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کا قتل کرنا حرام ہے، مگر اُنہیں اس حالت میں قتل کرنا جائز ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اُٹھالیں یا ایسے کام سرانجام دیں کہ جو لڑائی کے کاموں کے معاون بنیں۔ خواہ یہ جاسوسی کرنے یا امداد دینے یا رائے دینے یا اسی طرح کے دوسرے کام ہوں۔ اس کا ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جس کو رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
((قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ فَرَأَى النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى شَيْءٍ فَبَعَثَ رَجُلًا، فَقَالَ: «انْظُرْ عَلَامَ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَى امْرَأَةٍ قَتِيلٍ. فَقَالَ: «مَا كَانَتْ هَذِهِ لِتُقَاتِلَ» قَالَ: وَعَلَى الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَبَعَثَ رَجُلًا. فَقَالَ: «قُلْ لِخَالِدٍ لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيفًا)) (سنن أبی داود،ج۷،ص۴۷۲،رقم الحدیث:۵۹۲۲)
’’اُنہوں نے کہا کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں (شریک) تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھے ہوتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا دیکھو یہ لوگ کس چیز پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ تو وہ آدمی (واپس) آیا اور کہا، کہ ایک مقتول عورت پر، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، یہ تو لڑنے کی اہل نہ تھی۔ (راوی) کہتے ہیں کہ اس لشکر کے ہر اول دستے پر خالد بن ولید مامور تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا کہ: ’’خالد سے کہو کہ کسی عورت کو قتل کرے اور نہ کسی مزدورکو‘‘۔
چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهَا لَوْ قَاتَلَتْ لَقُتِلَتْ‘‘ (فتح الباری ج۹ص۴۲۲)
’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لڑائی کرے تو قتل کی جائے گی‘‘۔
امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)
’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله " قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك "‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)
’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔
ذراامام النووی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کے اس قول پر غور کیجئے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دیکر اور دشمن کی اطاعت کرکے اور دشمن کو لڑائی پر اُبھار کر یا اسی قسم کے دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:
’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)
’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔
ذرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس فرمان پرغورکریں کہ ’’ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یا فعل سے لڑے‘‘۔ یہ بات اور امام نووی کی سابقہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں کا قتل قصداً حرام ہے، اگر وہ مسلمانوں کے مخالف جنگجوؤں کی اپنے اقوال یا افعال کے ساتھ مدد کریں گے تو اُنہیں نشانہ بناکر قتل کرنا جائز ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
((انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا، وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ)) (سنن ابی داود،ج۷،ص۵۹۱،رقم الحدیث۷۴۲۲)
’’اللہ کا نام لے کر نکلو، اور اس اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوتے ہوئے، اور بہت زیادہ بوڑھے شیخ کو قتل کرو اور نہ بچے کو اور نہ چھوٹے کو اور نہ عورت کو، اور غنیمتوں میں خیانت نہ کرو، اور اپنی غنیمت کو اکٹھا کرو، اور اصلاح کرو۔، بلاشبہ نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔
عون المعبود کی شرح کرتے ہوئے مؤلف فرماتے ہیں کہ:
’’أَيْ إِلَّا إِذَا كَانَ مُقَاتِلًا أَوْ ذَا رَأْيٍ،وَقَدْ صَحَّ أَمْرُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِقَتْلِ زَيْدِ بْنِ الصِّمَّةِ وَكَانَ عُمْرُهُ مِائَةً وَعِشْرِينَ عَامًا أَوْ أَكْثَرَ وَقَدْ جِيءَ به في جيش هوازن للرأي،الظَّاهِرُ أَنَّهُ بَدَلٌ أَوْ بَيَانٌ أَيْ صَبِيًّا دُونَ الْبُلُوغِ وَاسْتُثْنِيَ مِنْهُ مَا إِذَا كَانَ مَلِكًا أَوْ مُبَاشِرًا لِلْقِتَالِ،أَيْ إِذَا لَمْ تَكُنْ مُقَاتِلَةً أَوْ مَلِكَةً ‘‘ (عون المعبود،ج۶،ص۷۳،رقم:۷۴۲۲)
’’یعنی، مگر یہ کہ وہ لڑنے والا ہو یا دشمن کو رائے دینے والا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’نہ بچے کو نہ چھوٹے کو‘‘ سے اُس کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو بادشاہ ہو یا لڑائی میں براہ راست حصہ لینے والا ہو اور ’’نہ کسی عورت کو‘‘ کا مطلب ہے کہ اگر وہ لڑنے والی نہ ہو یا ملکہ نہ ہو‘‘۔
امام ابن عبد البر نے میں فرمایا:
’’ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَاتَلَ مِنَ النِّسَاءِ وَالشُّيُوخِ أَنَّهُ مُبَاحٌ قَتْلُهُ وَمَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِتَالِ مِنَ الصِّبْيَانِ وَقَاتَلَ قُتِلَ ‘‘ (الاستذکار ۴۷/۴۱)
’’علماء کا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتوں اور بوڑھوں میں سے لڑے تو اسکا قتل کرنا جائز ہے۔ اور بچوں میں جو لڑنے کی قدرت رکھے اور لڑے تو اُسے بھی قتل کیا جائے گا‘‘۔
امام ابن قدامہ نے بھی اسی بات پرعلماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں، بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں جائز ہے کہ جب وہ لڑائی میں اپنی قوم کی کسی بھی قسم کی اعانت کریں۔
امام ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ويحرم قتل المرأة والصبي إن لم يقاتلا عند الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة فإن قاتلا قتلا. ۔‘‘ (مشارع الاشواق،ج۲،ص۳۲۰۱۔ہداۃ المجتھد،ج۱،ص۰۰۴)
’’کفار کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اگر وہ نہ لڑیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، اما م احمد رحمہ اللہ، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق مگر جب وہ لڑیں تب ان کو مارا جائے گا‘‘۔
امام ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جیسے کہ کوئی بھی ان میں سے لڑے (یعنی عورتوں اور بچوں میں سے) تو ان کو قتل کرنا چاہئے تاکہ ان کے نقصان سے بچا جاسکے۔ یہ اس لئے کہ (جنگ) میں یہ جائز ہے اور اسی طرح پاگل شخص کو نہیں مارا جائیگا جب تک وہ نہ لڑے اور اگر بچہ اور پاگل لڑے تو ان کو قتل کیا جائیگا‘‘۔(شرح فتح القدیر،ج۵،ص۳۰۲)
امام ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور اس طرح اس کی اجازت ہے کے گونگے، بہرے کو قتل کیا جائے اور جس کا ایک ہاتھ یا ٹانگ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ وہ لڑسکتے ہوں (گھوڑے پر) اور اس طرح عورت کو قتل کیا جائیگا اگر وہ لڑے‘‘۔(حاشیہ ابن عابدین،ج۳،ص۵۲۲)
ابن قاسم نے الحاشیہ میں یہ اجماع نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ونقل عن ابن تيمية أيضا أن أعوان الطائفة الممتنعة وأنصارها منها فيما لهم وعليهم‘‘
’’ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی سے نقل کیا ہے کہ (اسلام کے خلاف) طاقت وشوکت (سے لڑنے) والی جماعت کے مددگار اُسی حکم کے تحت شمار کئے جائیں گے جوکہ حکم اس جماعت کے لئے ہے۔ جو کچھ اس (لڑنے والی جماعت) پر ہے وہی ان کے مددگاروں پر اور اُن پر وہی لاگو ہوگا جوکہ اس جماعت کا ہوگا‘‘۔
کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کونسی بندوق اور توپ لے کر میدان میں آئی تھی بلکہ اس نے تو صرف چند آرٹیکل لکھے تھے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جوکہ صرف اپنی رائے اور قول سے کفار کی مدد نصرت کررہا تھا اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ جو حکم لڑنے والے کفار کا تھا وہی حکم اس کا تھا:
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَمَنْ كَانَ مِنْ هَؤُلَاءِ الرِّجَالِ الْمَذْكُورِينَ ذَا رَأْيٍ يُعِينُ بِهِ فِي الْحَرْبِ، جَازَ قَتْلُهُ ؛ لِأَنَّ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ قُتِلَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَهُوَ شَيْخٌ لَا قِتَالَ فِيهِ، وَكَانُوا خَرَجُوا بِهِ مَعَهُمْ، يَتَيَمَّنُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونَ بِرَأْيِهِ، فَلَمْ يُنْكِرْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَتْلَهُ. وَلِأَنَّ الرَّأْيَ مِنْ أَعْظَمِ الْمَعُونَةِ فِي الْحَرْبِ ۔‘‘ (المغنی لابن قدامۃ،کتاب الجھاد:۸/۸۷۴)
’’اسی طرح جو شخص مذکورہ افراد (معذور اور خواتین وغیرہ) میں سے ہوں مگر وہ صاحب الرائے ہو۔ یعنی ایک اچھی رائے اور کارگر مشورہ کے ساتھ وہ جنگ میں کافروں کی مدد کرتا ہوتو اس کو قتل کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوازن قبیلہ کے ایک بوڑھے سردار اور انتہائی زیرک ومعاملہ فہم شخص دُرید بن صِمّہ کو جنگ حنین میں قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بہت بوڑھا آدمی تھا۔ اس میں لڑنے کی ذرا بھی سکت نہ تھی ۔ لیکن جب بنو ہوازن رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل نکلے تو وہ اپنے اس بوڑھے شخص کو باعث برکت سمجھتے اور اس کی جنگی واقفیت سے اس کا تعاون حاصل کرتے تھے۔ جب اس کو قتل کیا گیا تونبی اکرم ﷺ نے اس کے قتل پر کوئی تنقید اور انکار ظاہر نہیں فرمایا تھا۔ کیونکہ حالت جنگ میں رائے اور مشورہ دینا تعاون اور مدد کی سب سے بڑی صورت ہے۔‘‘
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ ْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)
’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘
یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔
غرضیکہ ملالہ یوسف زئی امریکہ کی برپا کردہ جنگ میں ہر اول سپاہی کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس نے سوات آپریشن سے قبل اور اس کے دوران بی بی سی پر ’’ڈائری‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھ کر نہ صرف نفاذِ شریعت کرنے والوں کے خلاف زہر اگلا تھا بلکہ شریعت کے واضح احکامات کے استہزاء اور تمسخر کی مرتکب ہوئی تھی اور وہ آج بھی وہ یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے پر اسی طرح عمل پیرا تھی۔
لہذا اس پر حملہ طالبان نے کیا ہو یا پھر کوئی یہ سمجھے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہوئی ہو، اس کے باوجود ہر وہ مسلمان جوکہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاری کی مددو نصرت کرنے والے کے حکم سے بھی واقف ہو، اس کا یہ دیرینہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملالہ پر حملہ ہونے پر پُرملال ہونے کے بجائے اس بات کا برملا اعلان کرے کہ:
.....ملالہ پرہمیں کوئی ملال نہیں.....
Monday, October 22, 2012
Saturday, October 13, 2012
ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش
ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش
تحریر: محمد عمران
ملالہ
یوسفزئی کو اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے گل مکئی کے
قلمی نام سے برطانوی ریڈیو بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر جنگ بیتی کو
اپنے
انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسفزئی کو اسی ویب پوسٹس
پرنہ صرف شہرت ملی بلکہ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ملالہ نے ڈائری کے
ان صفحات پر اس خوف و کرب کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سوات وادی میں رات کے
سناٹے میں گونجتی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اسے مضطرب کرتی تھی
اب سوال
یہ ہے کہ ٢ سال پہلے
ملالہ
کی عمر ١١ سال تھی . اور ١١ سال کی بچی کچھ
اس طرح سے ڈائری لکھ سکتی ہے ؟ . افغانستان کے طالبان پہلے ہی پاکستانی
طالبان سے
لا تعلقی
کا اظہار کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہی کے وہ اسکول جلانے
اور خودکش حملوں کے خلاف ہیں . تو پھر یہ کون ہیں ؟ یاد رکھیں پاکستان میں
حالات خراب رہیں اس کا فایدہ امریکا کو ہوگا پاکستان کو نہیں .
ملالہ کے لیے جس طرح حکومتی سطح پر اقدامات کیے گے ہین بہت اچھی بات ہے . مگر کاش یہ سب قوم کی ہرملالہ کے لیے بھی کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا
یہ حملہ عمران خان کے لانگ مارچ کے بعد ہوا لانگ مارچ کے بعد پورے دنیا من ڈرون اٹیک کے بارے میں باتیں شروع ہو گیی تھیں مگر اس حملے کے بعد سب لوگ خاموش ہو گیے ہیں . تو فایدہ کس کو ہوا ؟ الله جانتا ہے کے حقیقت کیا ہی مگر کوئی سازش ضرور ھے
.
تو
جناب کل امریکہ نواز میڈیا کی طرف سے پاکستانی عوام پہ یہ وحی منکشف کی
گئی ہے کہ ایک تیرہ سالہ بچی اسکو طالبان نے اسکے علمی کاوشوں اور اسکے علم
کی انتہا پہ ہونے کے سبب مار ڈالا ہے۔۔ اور ہمارے بے عقل عوام اور حد ہے
کئی اسلامی جماعتیں بھی اس
پروپیگنڈے میں اگئیں ہیں ۔۔ مجھے کوئی یہ
بتائیے کہ اس بچی یا لڑکی اس کے پاس ایسا کونسا خاص علم تھا جو کہ لال مسجد
کی ۳۰۰۰ عالمہ لڑکیوں کے پاس بھی نہین تھا۔۔
اور
کیا ان عالمہ کو بھی طالبان نے مارا تھا۔۔۔ہمارے ہاں کے بڑی سے بڑی
یونیورسٹی کی کسی طلبہ میں وہ علم نہیں تھا۔۔ ایک سوال یہ ہے کہ ایک ایسی
بچی جس نے کبھی پہلے کوئی تحریر نہ لکھی نہ چھپی ، -- کیسے اچانک BBC نے
اسکی تحریریں جن کو ڈائیری کا نام دیا دیا گیا پیش کرنی شروع کر دیں؟ کیا
BBC کی صحافت کا یہی معیار ہے ؟0 --- نا بالغوں کی ڈائری پیش کرنا ؟؟ ذرا
سوچیں ! ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں جب
کی شخص کو اپنے مقاصد کے لئے چن لیتی ہیں تو میڈیا کے زریعے اس کو رفتہ رفتہ دیو مالائی حیثیت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔۔
میں اس بچی پر حملہ کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہوں۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان
نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ
اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو
ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔
بندر اپنے بچے
سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔ اسکو ہر وقت اپنی گود میں لٹکائے رہتا ہے۔۔ یہاں تک
کہ اگر وہ مر بھی جائے توبھی اسے نہیں چھوڑتا۔۔ مگر جب وہ زمین پہ بیٹھتا
ہے اور زمین اسے گرم لگتی ہے تو اسے بچے کو اپنے نیچے دے کے اس پہ بیٹھ
جاتا ہے ۔۔ ایجینسیز نے پہلے خود اسکو عوام میں خاص کر مغرب میں معروف
کروایا ۔۔ اسکے بعد اسے ایوارڈ دلوایا۔۔ اسکے بعد جب وہ معروف ہو گئی تو
اسکا کام تمام کردیا ۔ اور اسکا مقصد اسلام اور طالبان کو بدنام کرنا، شدت
پسند ٹھہرانا اور عورتوں کو ان سے متنفر کرنے کے ساتھ ساتھ سوات میں اپریشن
اور آرمی بجھیجنے کے لئے ایک بہانہ ہے ۔۔ اج بھی کافر اسی فلسفہ پہ عمل
پیرا ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاو، تو یہ کہتے
ہیں کہ (نہیں صاحب) ہم ہی تو صلاح و اصلاح کروانے والے ہین ۔..........
میر التجا ہے اپ لوگوں سے کہ اپنے اپ رحم کریں اور امریکہ ایجنٹ میڈیا اور
مغرب کی اندھی تقلید کی عینک اتار کہ اپنے عقل کا استعمال کریں اور ان
خبیثوں کے چالوں کو سمجھیں اور انکا منہ توڑ جواب دیں ۔۔۔............
شئیر کریں اس منافق میڈیا کا توڑ کے لئے جزاک اللہ —
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا!
اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف
لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش
تحریر: محمد عمران
ملالہ
یوسفزئی کو اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے گل مکئی کے
قلمی نام سے برطانوی ریڈیو بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر جنگ بیتی کو
اپنے
انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسفزئی کو اسی ویب پوسٹس
پرنہ صرف شہرت ملی بلکہ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ملالہ نے ڈائری کے
ان صفحات پر اس خوف و کرب کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سوات وادی میں رات کے
سناٹے میں گونجتی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اسے مضطرب کرتی تھی
اب سوال
یہ ہے کہ ٢ سال پہلے
ملالہ
کی عمر ١١ سال تھی . اور ١١ سال کی بچی کچھ
اس طرح سے ڈائری لکھ سکتی ہے ؟ . افغانستان کے طالبان پہلے ہی پاکستانی
طالبان سے
لا تعلقی
کا اظہار کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہی کے وہ اسکول جلانے اور خودکش حملوں کے خلاف ہیں . تو پھر یہ کون ہیں ؟ یاد رکھیں پاکستان میں حالات خراب رہیں اس کا فایدہ امریکا کو ہوگا پاکستان کو نہیں .
ملالہ کے لیے جس طرح حکومتی سطح پر اقدامات کیے گے ہین بہت اچھی بات ہے . مگر کاش یہ سب قوم کی ہرملالہ کے لیے بھی کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا
یہ حملہ عمران خان کے لانگ مارچ کے بعد ہوا لانگ مارچ کے بعد پورے دنیا من ڈرون اٹیک کے بارے میں باتیں شروع ہو گیی تھیں مگر اس حملے کے بعد سب لوگ خاموش ہو گیے ہیں . تو فایدہ کس کو ہوا ؟ الله جانتا ہے کے حقیقت کیا ہی مگر کوئی سازش ضرور ھے
.
.
تو
جناب کل امریکہ نواز میڈیا کی طرف سے پاکستانی عوام پہ یہ وحی منکشف کی
گئی ہے کہ ایک تیرہ سالہ بچی اسکو طالبان نے اسکے علمی کاوشوں اور اسکے علم
کی انتہا پہ ہونے کے سبب مار ڈالا ہے۔۔ اور ہمارے بے عقل عوام اور حد ہے
کئی اسلامی جماعتیں بھی اس
پروپیگنڈے میں اگئیں ہیں ۔۔ مجھے کوئی یہ
بتائیے کہ اس بچی یا لڑکی اس کے پاس ایسا کونسا خاص علم تھا جو کہ لال مسجد
کی ۳۰۰۰ عالمہ لڑکیوں کے پاس بھی نہین تھا۔۔
اور
کیا ان عالمہ کو بھی طالبان نے مارا تھا۔۔۔ہمارے ہاں کے بڑی سے بڑی
یونیورسٹی کی کسی طلبہ میں وہ علم نہیں تھا۔۔ ایک سوال یہ ہے کہ ایک ایسی
بچی جس نے کبھی پہلے کوئی تحریر نہ لکھی نہ چھپی ، -- کیسے اچانک BBC نے
اسکی تحریریں جن کو ڈائیری کا نام دیا دیا گیا پیش کرنی شروع کر دیں؟ کیا
BBC کی صحافت کا یہی معیار ہے ؟0 --- نا بالغوں کی ڈائری پیش کرنا ؟؟ ذرا
سوچیں ! ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں جب
کی شخص کو اپنے مقاصد کے لئے چن لیتی ہیں تو میڈیا کے زریعے اس کو رفتہ رفتہ دیو مالائی حیثیت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔۔
میں اس بچی پر حملہ کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہوں۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان
نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ
اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو
ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔
بندر اپنے بچے
سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔ اسکو ہر وقت اپنی گود میں لٹکائے رہتا ہے۔۔ یہاں تک
کہ اگر وہ مر بھی جائے توبھی اسے نہیں چھوڑتا۔۔ مگر جب وہ زمین پہ بیٹھتا
ہے اور زمین اسے گرم لگتی ہے تو اسے بچے کو اپنے نیچے دے کے اس پہ بیٹھ
جاتا ہے ۔۔ ایجینسیز نے پہلے خود اسکو عوام میں خاص کر مغرب میں معروف
کروایا ۔۔ اسکے بعد اسے ایوارڈ دلوایا۔۔ اسکے بعد جب وہ معروف ہو گئی تو
اسکا کام تمام کردیا ۔ اور اسکا مقصد اسلام اور طالبان کو بدنام کرنا، شدت
پسند ٹھہرانا اور عورتوں کو ان سے متنفر کرنے کے ساتھ ساتھ سوات میں اپریشن
اور آرمی بجھیجنے کے لئے ایک بہانہ ہے ۔۔ اج بھی کافر اسی فلسفہ پہ عمل
پیرا ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاو، تو یہ کہتے
ہیں کہ (نہیں صاحب) ہم ہی تو صلاح و اصلاح کروانے والے ہین ۔..........
میر التجا ہے اپ لوگوں سے کہ اپنے اپ رحم کریں اور امریکہ ایجنٹ میڈیا اور
مغرب کی اندھی تقلید کی عینک اتار کہ اپنے عقل کا استعمال کریں اور ان
خبیثوں کے چالوں کو سمجھیں اور انکا منہ توڑ جواب دیں ۔۔۔............
شئیر کریں اس منافق میڈیا کا توڑ کے لئے جزاک اللہ —
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا!
اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف
لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
میں اس بچی پر حملہ کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہوں۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔
بندر اپنے بچے
سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔ اسکو ہر وقت اپنی گود میں لٹکائے رہتا ہے۔۔ یہاں تک
کہ اگر وہ مر بھی جائے توبھی اسے نہیں چھوڑتا۔۔ مگر جب وہ زمین پہ بیٹھتا
ہے اور زمین اسے گرم لگتی ہے تو اسے بچے کو اپنے نیچے دے کے اس پہ بیٹھ
جاتا ہے ۔۔ ایجینسیز نے پہلے خود اسکو عوام میں خاص کر مغرب میں معروف
کروایا ۔۔ اسکے بعد اسے ایوارڈ دلوایا۔۔ اسکے بعد جب وہ معروف ہو گئی تو
اسکا کام تمام کردیا ۔ اور اسکا مقصد اسلام اور طالبان کو بدنام کرنا، شدت
پسند ٹھہرانا اور عورتوں کو ان سے متنفر کرنے کے ساتھ ساتھ سوات میں اپریشن
اور آرمی بجھیجنے کے لئے ایک بہانہ ہے ۔۔ اج بھی کافر اسی فلسفہ پہ عمل
پیرا ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاو، تو یہ کہتے
ہیں کہ (نہیں صاحب) ہم ہی تو صلاح و اصلاح کروانے والے ہین ۔..........
میر التجا ہے اپ لوگوں سے کہ اپنے اپ رحم کریں اور امریکہ ایجنٹ میڈیا اور مغرب کی اندھی تقلید کی عینک اتار کہ اپنے عقل کا استعمال کریں اور ان خبیثوں کے چالوں کو سمجھیں اور انکا منہ توڑ جواب دیں ۔۔۔............
شئیر کریں اس منافق میڈیا کا توڑ کے لئے جزاک اللہ —
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا! اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا! اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
ملالہ حملہ۔ بلی تھیلے سے باہرآگئی۔ شمالی وزیرستان پر بھرپور حملے کا فیصلہ
پاکستان کے شمال مغربی علاقے سوات میں چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملے اور اس کے ردعمل کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور کوریج کا ڈراپ سین سامنے آ گیا ہے اور وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور اس کا تقریبا فیصلہ ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر جمعہ کو آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت وہاں فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی''۔انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے لیے ظالمان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چودہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملہ نہیں کیا بلکہ پوری قوم پر حملہ کیا ہے۔
وزیر داخلہ نے ایک نیا دعویٰ یہ کیا کہ ''وہ شمالی وزیرستان سے روزانہ کی بنیاد انٹیلی جنس رپورٹس موصول کر رہے ہیں اور ان رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ علاقے میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور یہی لوگ حملے میں ٕملوث ہیں''۔ ذرائع کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی میں کورکمانڈروں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی وہاں کی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی جائے گی اور آپریشن کے خدو خال طے کئے جائین گے۔واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کو پاکستانی میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی گئی ہے اور یہ واقعہ گذشتہ چار روز سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی خبروں، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں چھایا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز ملالہ پر حملے اور اب اس کی حالت کے بارے میں پل پل کی مسلسل خبریں دے رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونی والی مزید دو لڑکیوں کا کسی نے نام تک نہیں لیا اور ملالہ حملے کے دوسرے دن ہی امریکی ڈرون حملے میں ایک مدرسہ تباہ کیا گیا جس میں 18 عورتیں اور بچے مارے گئے مگر کسی نے اس پر اس قدر شور نہیں کیا۔ اس کے برعکس میڈیا پر طالبہ پر قاتلانہ حملے اور اس پر ردعمل کے ڈانڈے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے ملائے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر بھرپور تشہیر کر کے دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بُک (کتاب چہرہ) کے صارف بہت سے لکھاریوں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں اور نثر و نظم کی صورت میں مذمت کی ہے اوراس بہادر لڑکی کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی بعض حضرات نے بالکل بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں مارے گئے کم سن بچوں اور زخمیوں کی اس انداز میں مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور انھیں کیوں بھُلا دیا گیا ہے؟ بعض لکھاریوں نے پاکستانی میڈیا کی بھیڑ چال پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور انھوں نے ماضی میں اسی طرح کے پیش آئے چار پانچ واقعات کو میڈیا پر اچھالے جانے اور خاص طور پر سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقعہ کی ویڈیو کا ذکر کیا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد جعلی ثابت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں بے پایاں ترقی کی ہے لیکن جس تیزی سے اس نے ترقی کی اور ماضی کی نسبت آزادی حاصل کی ،اس کے مقابلے میں وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بہ طریق احسن انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔صحافت کی پیشہ ورانہ نزاکتوں سے نابلد میڈیا مالکان کا صحافیوں سے عموماً یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چینل پر سب سے پہلے خبر دیں۔چنانچہ ایک چینل سے وابستہ صحافی حضرات اچانک پیش آئے کسی واقعہ کی عجلت میں غیر مصدقہ خبر تو ''سب سے پہلے'' کے چکر میں دے دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ دوسرے چینلوں یا متعلقہ اداروں اور حکام سے اس کی تصدیق کے لیے فون کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو دو مختلف ٹی وی چینلز پر نشرکردہ ایک ہی خبر کی تفصیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ناظرین الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
Thursday, October 11, 2012
ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے مشہور امریکی رقاصہ میڈونا سر عام برہنہ ہوگئی
Medonna |
ملالہ یوسف زئی اس وقت قوم کی آنکھ تارا بنی ہوئی ہے۔ اور اوباما سے لیکر
اقوام متحدہ کےجنرل سیکرٹری بان کی بون سب نے ہی ملالہ یوسف زئی پر حملے
کی شدید مذمت کی ہے۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری کوفون کرکے
ملالہ يوسف زئی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ امريکي وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے
کہا ہے کہ لڑکيوں کي تعليم کے ليے آواز بلند کرنے والی ملالہ يوسف زئی
بہادری کی علامت ہيں۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری سے فون پر
ملالہ يوسف زئی کے حملے پرافسوس کا اظہار کيا۔ حامد کرزئی نے کہا کہ ملالہ
يوسف زئی اور ديگر طالبات پرحملے کی شديد مذمت کرتے ہيں۔دوسری جانب گرل
اسکاؤٹس سے خطاب ميں امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ يوسف
زئی پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہيں۔ انہوں نے ملالہ يوسف زئي کے
اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہارکيا۔ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ پر حملہ
اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کچلنے والوں کے خلاف سخت
کارروائی کی جائے۔واضح رہے کہ مشہور امریکی رقاصہ اور گلوکارہ میڈونا نے
ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے برہنہ ہو کر رقص کیا۔ آج جب وہ اپنے شو کے
لئے آئی تو اس نے بتایا کہ وہ ملالہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتی ہے کیونکہ
طالبان کے خلاف ملالہ ایک استعارہ تھی اس دوران جب وہ برہنہ ہوئی تو اس
نے اپنی برہنہ کمر سب کو دکھائی جس پر ملالہ کانام لکھا تھا پھر وہ اسی
برہنہ حالت میں ہی کنسرٹ میں گانا گایا اور اس سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
نیٹو پر افغان فوجی حملوں کو روکا نہیں جا سکتا۔جنرل ڈیمپسی کا اعتراف
General Dempsy |
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارٹن ای ڈیمپسی نے کہا
ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے اہلکاروں پر کیے جانے والے داخلی حملوں میں کمی ضرور ممکن ہے البتہ انہیں مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے یہ بات امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جنرل ڈیمپسی نے کہا ہے کہ مغربی اتحاد نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس ایسے داخلی حملوں کو روکنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ڈیمپسی نے بتایا کہ جن نئے اہلکاروں کو فوج میں بھرتی کیا جا رہا ہے ان کی تربیت مزید بہتر انداز میں کی جاری ہے۔ جنری ڈیمپسی نے مزید بتایا کہ افغانستان میں نیٹو افواج پر کیے جانے والے داخلی حملوں کی روک تھام کے لیے کاوٴنٹر انٹیلی جنس ایجنٹس کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔جنرل ڈیمپسی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نیٹو افواج چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں افغان سکیورٹی اہلکاروں یا ان کے لباس میں ملبوس افراد کی جانب سے اس قسم کے داخلی حملوں کو مکمل طور پر روکنا ناممکن سی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم داخلی حملوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی تو ضرور لا سکتے ہیں لیکن انہیں روک نہیں سکتے‘۔ جنرل ڈیمپسی کا کہنا ہے، ’طالبان جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ افغان سکیورٹی اہلکاروں اور نیٹو افواج کا تعاون ہی وہ اہم چیز ہے جو بالآخر ان کی شکست کا ذریعہ بنے گا
ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا انکشاف
وفاقی
وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی
پر حملے کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی انٹیلی جنس
انفارمیشن نہیں ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ملالہ یوسف زئی کی زندگی
کیلئے آئندہ 36 گھنٹے بہت اہم ہیں۔ اسلام آباد میں سابق برطانوی وزیر خارجہ
ڈیوڈ ملی بینڈ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفت گو میں رحمان ملک
کاکہناتھاکہ حکیم الله محسود کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کے کئی گروپ بن
چکے ہیں،اس لیے وہ طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ واقعی یہ حملہ
طالبان نے ہی کیا ہے بلکہ یہ کسی دشمنی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے یا پھر کسی
اور گروپ کی طرف سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا
حکومت نے ملالہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم اس کے والدین
نے سیکورٹی لینے سے انکار کر دیا تھا۔رحمان ملک نے کہا کہ انہوں نے آئی جی
خیبرپختون خوا کو ہدایت ہے کہ ملالہ اور اس کے والدین کو خصوصی سیکورٹی
فراہم کی جائے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے یہ بیان آنے سے پہلے بھی سرکاری سطح پر اب تک طالبان کا نام لے کر کسی نے بھی مذمت نہیں کی ہے حتی کہ آرمی چیف نے بھی صرف لفظ دہشت گرد کہا۔ صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلی سرکاری عہدےد ار اس حملے کا ذٕمہ دار طالبان کو ٹھہرانے کے بجائے دہشت گردوں کو ٹھہرا رہےہیں جب کہ میڈیا بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طالبان کا نام لے کر مذمت کی جائے۔ اس مہم میں بی بی سی اور امریکی نشریاتی ادارے پیش پیش ہیں۔ سب سے پہلے بی بی سی نے ہی دعوی کیا کہ حملہ طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پھر اس کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کرنے والے کون تھے یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مہربانی سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر سیاست دان مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنے مذمتی بیانات میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس بابت پارلیمان کی متفقہ قرار داد اور فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی واقعے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پشاور آمد اور ہسپتال میں ملالہ یوسفزئی کی خیریت معلوم کرنا انتہائی احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن فوجی سربراہ نے دورے کے بعد ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا لیکن اس میں انہوں نے طالبان کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’دہشت گرد‘ کہا ہے۔ اور یہی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بارے میں دیکھنے کو ملا ہے۔وزیر اعظم کا کل کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان ہو یا صدر آصف علی زرداری کا مذمتی بیان کسی نے طالبان لفظ استعمال نہیں کیا۔کچھ لوگوں کے خیال میں شاید ان کے نزدیک طالبان کے لیے اب بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے جس کے باعث وہ انہیں نام سے یاد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ریاست طالبان کے سامنے بےبس ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے یہ بیان آنے سے پہلے بھی سرکاری سطح پر اب تک طالبان کا نام لے کر کسی نے بھی مذمت نہیں کی ہے حتی کہ آرمی چیف نے بھی صرف لفظ دہشت گرد کہا۔ صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلی سرکاری عہدےد ار اس حملے کا ذٕمہ دار طالبان کو ٹھہرانے کے بجائے دہشت گردوں کو ٹھہرا رہےہیں جب کہ میڈیا بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طالبان کا نام لے کر مذمت کی جائے۔ اس مہم میں بی بی سی اور امریکی نشریاتی ادارے پیش پیش ہیں۔ سب سے پہلے بی بی سی نے ہی دعوی کیا کہ حملہ طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پھر اس کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کرنے والے کون تھے یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مہربانی سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر سیاست دان مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنے مذمتی بیانات میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس بابت پارلیمان کی متفقہ قرار داد اور فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی واقعے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پشاور آمد اور ہسپتال میں ملالہ یوسفزئی کی خیریت معلوم کرنا انتہائی احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن فوجی سربراہ نے دورے کے بعد ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا لیکن اس میں انہوں نے طالبان کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’دہشت گرد‘ کہا ہے۔ اور یہی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بارے میں دیکھنے کو ملا ہے۔وزیر اعظم کا کل کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان ہو یا صدر آصف علی زرداری کا مذمتی بیان کسی نے طالبان لفظ استعمال نہیں کیا۔کچھ لوگوں کے خیال میں شاید ان کے نزدیک طالبان کے لیے اب بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے جس کے باعث وہ انہیں نام سے یاد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ریاست طالبان کے سامنے بےبس ہے۔
دریں
اثنا وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے
والوں کی شناخت ہوگئی، دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، افغان صدر سے شکایت
کی ہے کہ دہشت گردوں کوسرحد پار آنے سے روکیں، حملہ کرنے والے دہشت
گردکہیں بھاگ نہیں سکتے انہیں گرفتار کرکے ہرحال میں قرارواقعی سزا دی جائے
گی۔ وہ سی ایم ایچ پشاور میں زخمی طالبہ کی عیادت کے بعد صحافیوں سے
گفتگوکر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے
جانے سے متعلق فیصلہ فی الحال موٴخرکردیا گیا امریکا اور لندن میں
نیوروسرجن تیار ہیں اگرضرورت پڑی تو انہیں پاکستان بلایاجائے گا، پوری قوم
ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لیے دعا کرے، دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے
اورہمیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ کتنے دن پہلے سوات میں آئے تھے اورانہوں نے کن
کن لوگوں کو استعمال کیا اورکیا طریقہ واردات اختیارکیا، آئی جی
خیبرپختونخوا نے ملالہ کے والدکو تین مرتبہ سیکورٹی دینے کی پیشکش کی تھی
لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کے
لیے صدر آصف زرداری نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ ایک سوال کے جواب رحمن
ملک نے کہا کہ مناسب وقت پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوگا اور ابھی
مناسب وقت نہیں ہے۔
دہشت
گردوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو دوبارہ قتل کی
دھمکیوں کے پیش نظر سیکورٹی اور علاج معالجہ کے امور پر آرمی چیف جنرل
اشفاق پرویزکیانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر
داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر قتل کی تازہ دھمکیوں کے پیش نظر ملالہ یوسفزئی
کے لیے نیا سیکورٹی حصار قائم کر دیا گیا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی
حفاظت کے لیے گھرکے اندر لیڈی پولیس کمانڈوز اور باہر انسداد دہشت گردی
تعینات ہوں گے پیشگی اجازت کے بغیر میل جول پر پابندی ہوگی۔ وزیر داخلہ
رحمن ملک نے بتایا کہ ملالہ یوسفزئی کی حفاظت کے لیے خیبر پختونخوا آئی جی
نے دو مرتبہ سیکورٹی دستے بھیجے مگر انکے والد ضیاء الدین نے انکارکر دیا
اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے نیا
سیکورٹی کوڈ نافذکیا جائے گا گھرکے اندر لیڈی پولیس اور باہر مرد پولیس
کمانڈوز تعینات ہوں گے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی کے واقعہ
میں ڈرائیور بھی قصور وار تھا۔ اسکول سے گھر واپسی کے وقت دو لڑکوں نے ہاتھ
کے اشارے سے اسکول وین کو روکا اور انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ ہماری ایک
بچی گم ہوگئی ہے اسے تلاش کر رہے ہیں اسکے بعد ایک لڑکے نے ڈرائیورکو باتوں
میں مصروف کرلیا ۔
Sunday, October 7, 2012
چیف جسٹس افتخار چوہدری اگلے ہفتے استعفی دے دیں گے۔ اہم شخصیت کا دعوی
CJOP Iftikhar Muhammad Chaudhary |
اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بار پھر نئے چہروں کے ساتھ بعض عناصر ایک
انتہائی بااثر شخصیت کے ساتھ مل کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک
”مہلک“ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاکہ مذکورہ بااثر شخصیت یہ
ثابت کرسکے کہ عدالت اس کے ساتھ انصاف نہیں کررہی۔ اس منصوبے کی تیاریوں
میں شامل ایک شخص نے اس نمائندے کو اشارہ دیا کہ یہ ”دھماکا“ اگلے ہفتے
میں کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ حکومت بظاہر ایک غیر جانبدار تماشائی کی طرح
رویہ رکھنے کے باوجود عدلیہ پر حملے کی حمایت کرے گی ۔ تاہم کچھ روز قبل
جب اس نمائندے نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سے رابطہ کیا تھا تو انہوں
نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ہے۔ کوئی
اشارہ نہیں دیا جارہا کہ آیا اس ”دھماکا خیز مواد“ کی نوعیت کیسی ہے لیکن
دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ”حقائق“ سے پردہ اُٹھانے والی پریس کانفرنس کے
انعقاد کے ساتھ ہی چیف جسٹس مستعفی ہوجائیں گے۔ اس نئے ”دھماکے“ کے موجدوں
میں سے ایک موجد موجودہ نظام میں بااثر اور طاقتور لوگوں کے غلط کام ، ان
کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی تباہی دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔
باوجود اس کے ذریعہ نے اصرار کیا کہ یہ عدلیہ اور میڈیا ہیں جو پاکستان کے
مفاد کو سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ فوج اور آئی ایس
آئی اس معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کرے گی تاہم تاثر یہی دیا جارہا ہے کہ
اسٹیبلشمنٹ لاپتہ افراد اور بلوچستان بحران کے معاملے پر چیف جسٹس آف
پاکستان سے خوش نہیں، تاہم ایک ذریعے نے حال ہی میں اس نمائندے کو بتایا کہ
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ٹریپ گیٹ اسکینڈل میں آئی ایس آئی کے
مبینہ طور پر ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ
انٹیلی جنس ایجنسی کو ان معاملات سے دور رہنے کی سخت ہدایت کی ہیں۔ ملک
ریاض نے حال ہی میں اس نے ملنے والے صحافیوں کو یہ معلومات فراہم کی تھیں
جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں نے مبینہ طور
پر رقم وصول کرتے ہوئے ڈاکٹر ارسلان کی ویڈیو بنائی تھی ۔ تاہم ڈاکٹر
ارسلان نے ان الزامات سے انکار جبکہ آئی ایس آئی حکام نے بھی ایسی رپورٹس
کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے
اس معاملے کی تحقیقات بھی کی گئی تھی لیکن اس کے نتائج تاحال معلوم نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ٹریپ گیٹ کے منظر عام پر آنے کے وقت میڈیا
میں یہ کہا جارہا تھا کہ اسکینڈل برطانوی میڈیا میں زوروشور سے سامنے آئے
گا ۔ اس اسکینڈل کے منتظر اور اس سے خوش ہونے والے افراد کو ایسا نہ ہونے
پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسکینڈل پاکستانی میڈیا میں پہلے منظر
عام پر آگیا
ایران اور حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو شام پہنچ گئے، باغیوں کا قتلِ عام
شامی اپوزیشن کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ لبنان کی طاقتور ملیشیا کے
جنگجوؤں کو لیکر 25 بسیں شامی علاقے میں داخل ہوئیں ہیں تاہم اس دعوے کی
کسی دوسرے آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ ادھر برطانوی اخبار "ٹائمز"
نے شام میں حزب اللہ کے 1500 جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ اخبار نے
اتنی ہی تعداد میں ایرانیوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جس کا تعلق پاسداران
انقلاب سے بتایا جاتا ہے۔اخبار نے اس امر کا انکشاف شامی ایئرفورس سے
منحرف ہونے والے ایک سابق عہدیدار کے حوالے سے کیا ہے۔ یہ عہدیدار امسال
اگست میں سرکاری فوج سے منحرف ہونے کے بعد ان دنوں لبنان میں مقیم
ہے۔ٹائمز' کے مطابق حزب اللہ کے ارکان شام کی سرکاری فوج کو لاجسٹک امداد
کے علاوہ افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیز وہ فوج میں شامل شوٹرز کو
پیشہ وارانہ تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ارکان سرکاری فوج میں
شامل کرائے کے قاتلوں کو گینگ وار کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔
حزب اللہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید کے باوجود تنظیم کے مقرب ذرائع، شامی جیش الحر اور خفیہ معلومات تک رسائی رکھنے والے باخبر سفارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لیکر جنگی ساز و سامان تک پہنچا رہی ہے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری اور تنظیم کے دیگر عہدیداروں پر شامی بحران میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں ہیں۔
یہ رپورٹ حزب اللہ کے متعدد اہلکاروں بشمول سرکردہ رہنما علی حسین ناصیف المعروف ابو العباس کی شام میں ہلاکت کے چند دن بعد سامنے آئی ہے۔حزب اللہ نے لبنان میں ناصیف کی تدفین کے موقع پر حزب اللہ کے اہم رہنما موجود تھے، جنہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ناصیف، شام میں اپنا جہادی فرض ادا کرتے ہوئے کام آئے جبکہ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ابو العباس حمص کے قصبے القصیر میں مارے گئے
حزب اللہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید کے باوجود تنظیم کے مقرب ذرائع، شامی جیش الحر اور خفیہ معلومات تک رسائی رکھنے والے باخبر سفارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لیکر جنگی ساز و سامان تک پہنچا رہی ہے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری اور تنظیم کے دیگر عہدیداروں پر شامی بحران میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں ہیں۔
یہ رپورٹ حزب اللہ کے متعدد اہلکاروں بشمول سرکردہ رہنما علی حسین ناصیف المعروف ابو العباس کی شام میں ہلاکت کے چند دن بعد سامنے آئی ہے۔حزب اللہ نے لبنان میں ناصیف کی تدفین کے موقع پر حزب اللہ کے اہم رہنما موجود تھے، جنہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ناصیف، شام میں اپنا جہادی فرض ادا کرتے ہوئے کام آئے جبکہ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ابو العباس حمص کے قصبے القصیر میں مارے گئے
Tuesday, October 2, 2012
فرانسیسی گلوکارہ اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب اوڑھ کرٹی وی پرآئیں توانکے مداح حیران رہ گئے۔
فرانسیسی گلوکارہ اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب اوڑھ کرٹی وی پرآئیں توانکے مداح حیران
رہ گئے۔
دوہزارنوسے پردۂ
سکرین پرغائب رہنے کے بعد سابق فرانسیسی گلوکارہ حجاب اوڑھ کرجب ایک ٹیلی
ویژن چینل کے ذریعے منظرعام پرآئیں توان کے غیرمسلم مداح انہیں اسلامی
حجاب میں دیکھ کرحیران اورپریشان ہوگئے۔ اپنے
ایک ٹی وی انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ وہ ماضی میں منشیات اورنشہ
آورادویہ استعمال کرتی رہی ہیں، تاہم ایک مسلمان دوست سے ملنے کے بعد اور
قرآن مجید کوپڑھ کر اور سمجھ کرانہوں نے اسلام قبول کیا۔ دیام کا حجاب کے
بارے میں فرانسیسی گلوکارہ نے کہا کہ پردے کوایک شرعی حکم سمجھتی ہیں۔
اورمسلمان ہونے کے بعد سے بہت خوش ہیں۔
Saturday, September 29, 2012
شرمناک امریکی قدم: گستاخ فلمساز کی گرفتاری قتل سے بچانے کیلئے کی گئی
حضرت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے فلمساز کی
گرفتاری اس جرم کی سزا کیلئے نہیں بلکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل سے
بچانے کیلئے کی گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف ہوا ہے اس رپورٹ سے جو امریکہ میں
اس کی گرفتاری کے موقع پر سامنے آئی ہے۔
امریکا
کی ایک وفاقی عدالت نے اسلام مخالف فلم بنانے والے مصری نژاد قبطی عیسائی
شاتم رسول نیولا باسیلی نیکولا کو عبوری ضمانت کی خلاف ورزی کے جرم میں جیل
بھیج دیا ہے۔ پچپن سالہ ملعون فلم ساز کو امریکی مارشلز نے کسی نامعلوم
مقام سے جمعرات کو گرفتار کیا تھا اور اسے لاس اینجلس کی ایک عدالت میں پیش
کیا گیا۔اس وقت اس نے عام کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اسے ہتھکڑیاں لگا کر اور
چہرہ ڈھانپ کر عدالت لایا گیا۔
''مسلمانوں کی معصومیت'' کے نام سے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت آمیز فلم بنانے والے اس پروڈیوسر کو 2011 میں بنک فراڈ کے ایک مقدمے میں ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔اب اس کے خلاف اس امر کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ کیا وہ اپنی رہائی کے لیے طے شدہ ضمانتی شرائط کی خلاف وزی کا مرتکب تو نہیں ہوا؟البتہ اس کے خلاف شرانگیز فلم بنانے، مسلمانوں کے نبی کی توہین اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے جرم میں کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی ہے۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں نیکولا کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر مجسٹریٹ جج سوزان سیگل نے کہا کہ ''عدالت کو اس موقع پر مدعاعلیہ پر کوئی اعتماد نہیں رہا ہے''۔اس کے بعد جج نے ملزم کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی اور اسے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
عدالت کے ریکارڈ کے مطابق نیکولا کو گذشتہ سال بنک فراڈ کے مقدمے میں رہائی کے وقت طے شدہ شرائط کے تحت رہا کیا گیا تھا اور اس کو پروبیشن آفیسر کی اجازت کے بغیر انٹرنیٹ اور کوئی عرفیت استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن اس نے اس عبوری ضمانت کی آٹھ خلاف ورزیاں کی ہیں۔
جج سیگل نے قرار دیا کہ مدعا علیہ مسلسل دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے متعدد عرفی نام استعمال کیے تھے۔عدالت میں اس گستاخ رسول کے وکیل نے کہا کہ اس کے موکل کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔اس نے عدالت سے بند کمرے کی سماعت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میڈیا کو اس کی کوریج کی اجازت نہ دی جائے۔ رپورٹروں کو عدالت میں مقدمے کی براہ راست سماعت کو ملاحظہ کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے لیے ایک بلاک دور واقع ایک کمرے میں ویڈیو کیمرے کے ذریعے عدالتی کارروائی دیکھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔جج نے فلم بنانے والے کلوز سرکٹ کیمرے کے لیے بھی یہ ہدایت جاری کی تھی کہ نیکولا باسیلی کی تصویر نہ دکھائی جائے۔ وکیل صفائی اسٹیوسیڈن نے دس ہزار ڈالرز کے ضمانتی مچلکوں کے بدلے میں اپنے موکل کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا لیکن جج نے یہ درخواست مسترد کردی۔وکیل نے موقف اختیار کیا کہ لاس اینجلس کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں اس کے موکل کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ اس علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس موقع پر پراسیکیوٹرز نے کہا کہ نیکولا جیل سے اپنی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے عدالت میں اپنے نام تک بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔اب اس کو دوبارہ جیل بھیجا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان ،مصر،لیبیا ،تیونس ،پاکستان اور دوسرے ممالک میں شرانگیز فلم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان ،افغانستان ،سعودی عرب اور بنگلہ دیش نے توہین آمیز فلم نہ ہٹانے پرویڈیو شئیرنگ ویب سائٹ یوٹیوب تک رسائی بلاک کردی ہے۔
گیارہ ستمبر کو شرانگیز فلم کے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے کے بعد سے بیس سے زیادہ مسلم ممالک میں امریکی سفارت خانوں یا قونصل خانوں کے باہر پرتشدد مظاہرے کیے گئے ہیں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر مشتعل مظاہرین کے حملے میں امریکی سفیر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
گذشتہ جمعہ کو پاکستان میں ملک گیر ہڑتال کی گئی تھی۔ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہوئے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی اور بعض شہروں میں پرتشدد مظاہروں میں تیس افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔پاکستان کے وزیرریلوے غلام احمد بلور نے اسلام مخالف فلم ساز کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز مقرر کررکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ملعون فلم ساز کو قتل کرنے والے کو یہ انعامی رقم دیں گے۔حکومت پاکستان ان کے اس اعلان سے اظہار لاتعلقی کرچکی ہے
''مسلمانوں کی معصومیت'' کے نام سے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت آمیز فلم بنانے والے اس پروڈیوسر کو 2011 میں بنک فراڈ کے ایک مقدمے میں ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔اب اس کے خلاف اس امر کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ کیا وہ اپنی رہائی کے لیے طے شدہ ضمانتی شرائط کی خلاف وزی کا مرتکب تو نہیں ہوا؟البتہ اس کے خلاف شرانگیز فلم بنانے، مسلمانوں کے نبی کی توہین اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے جرم میں کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی ہے۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں نیکولا کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر مجسٹریٹ جج سوزان سیگل نے کہا کہ ''عدالت کو اس موقع پر مدعاعلیہ پر کوئی اعتماد نہیں رہا ہے''۔اس کے بعد جج نے ملزم کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی اور اسے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
عدالت کے ریکارڈ کے مطابق نیکولا کو گذشتہ سال بنک فراڈ کے مقدمے میں رہائی کے وقت طے شدہ شرائط کے تحت رہا کیا گیا تھا اور اس کو پروبیشن آفیسر کی اجازت کے بغیر انٹرنیٹ اور کوئی عرفیت استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن اس نے اس عبوری ضمانت کی آٹھ خلاف ورزیاں کی ہیں۔
جج سیگل نے قرار دیا کہ مدعا علیہ مسلسل دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے متعدد عرفی نام استعمال کیے تھے۔عدالت میں اس گستاخ رسول کے وکیل نے کہا کہ اس کے موکل کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔اس نے عدالت سے بند کمرے کی سماعت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میڈیا کو اس کی کوریج کی اجازت نہ دی جائے۔ رپورٹروں کو عدالت میں مقدمے کی براہ راست سماعت کو ملاحظہ کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے لیے ایک بلاک دور واقع ایک کمرے میں ویڈیو کیمرے کے ذریعے عدالتی کارروائی دیکھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔جج نے فلم بنانے والے کلوز سرکٹ کیمرے کے لیے بھی یہ ہدایت جاری کی تھی کہ نیکولا باسیلی کی تصویر نہ دکھائی جائے۔ وکیل صفائی اسٹیوسیڈن نے دس ہزار ڈالرز کے ضمانتی مچلکوں کے بدلے میں اپنے موکل کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا لیکن جج نے یہ درخواست مسترد کردی۔وکیل نے موقف اختیار کیا کہ لاس اینجلس کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں اس کے موکل کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ اس علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس موقع پر پراسیکیوٹرز نے کہا کہ نیکولا جیل سے اپنی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے عدالت میں اپنے نام تک بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔اب اس کو دوبارہ جیل بھیجا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان ،مصر،لیبیا ،تیونس ،پاکستان اور دوسرے ممالک میں شرانگیز فلم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان ،افغانستان ،سعودی عرب اور بنگلہ دیش نے توہین آمیز فلم نہ ہٹانے پرویڈیو شئیرنگ ویب سائٹ یوٹیوب تک رسائی بلاک کردی ہے۔
گیارہ ستمبر کو شرانگیز فلم کے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے کے بعد سے بیس سے زیادہ مسلم ممالک میں امریکی سفارت خانوں یا قونصل خانوں کے باہر پرتشدد مظاہرے کیے گئے ہیں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر مشتعل مظاہرین کے حملے میں امریکی سفیر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
گذشتہ جمعہ کو پاکستان میں ملک گیر ہڑتال کی گئی تھی۔ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہوئے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی اور بعض شہروں میں پرتشدد مظاہروں میں تیس افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔پاکستان کے وزیرریلوے غلام احمد بلور نے اسلام مخالف فلم ساز کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز مقرر کررکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ملعون فلم ساز کو قتل کرنے والے کو یہ انعامی رقم دیں گے۔حکومت پاکستان ان کے اس اعلان سے اظہار لاتعلقی کرچکی ہے
شاہستہ واحدی جیو ٹی وی کے مالک میرشکیل الرحمن سےدوسری شادی کریں گی
شاہستہ واحدی شکیل الرحمن |
ڈاکٹر شاہستہ واحدی اپنے پہلے شوہر اظہر علی سے طلاق ہونے کے بعد جیو
نیوز ٹی وی نیٹ ورک کے مالک میر شکیل الرحمن سے دوسری شادی کے متعلق پلان
کر رہی ہیں۔شاہستہ واحدی کے پہلے شوہر سے 3 بچے ہیں۔جبکہ میر شکیل الرحمن
بھی شادی شدہ ہیں اور ان کے جوان بچے ہیں۔ شاہستہ واحدی جوان اور خوبصورت
ہیں، جیو میں ان کا صبح کا پروگرام بہت مقبول ہےاور جس کی وجہ ان کی
خوبصورتی بھی ہے۔ جبکہ شکیل الرحمن بہت امیر اور اثرو رسوخ رکھنے والے شخص
ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ شاہستہ واحدی شکیل الرحمن سے دوسری شادی کیلئے
تیار ہیں۔ جب ان سے شکیل الرحمن سے شادی کے متعلق پوچھا گیا تو وہ خاموش
رہیں اور اس موضوع پر بات نہیں کی۔
طالبان نے امریکی ٹینک اڑا دیا، 7فوجی ہلاک
افغانستان
میں طالبان کے حملے میں سات امریکی فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ اتحادی فوج کے
ٹینک سے گاڑی ٹکرانے سے ایک آٹھ سالہ لڑکا ہلاک ہوگیا۔ غیر ملکی خبر رساں
ادارے کے مطابق صوبہ فارح میں طالبان نے امریکی فوج کے ایک ٹینک کو دھماکہ
خیز مواد سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں سات امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔ دریں
اثناء صوبہ ہلمند میں عام شہریوں کی گاڑی اتحادی فوج کے ٹینک سے ٹکرانے کے
باعث ایک آٹھ سالہ لڑکا ہلاک جبکہ اس کی ماں زخمی ہوگئی۔
Thursday, September 27, 2012
Cold war inside Pakistani Presidential Palace
Cold war inside Pakistani Presidential Palace
بلاول زرداری اور پاکستانی وزیرخارجہ کے معاشقے پر صدر زرداری پریشان
By Preeta Memon
Later President Zardari came to know about the contents of the romantic greetings card sent by his foreign minister, he immediately called Hina Rabbani Khar and expressed anger for her extra-marital affairs with his "minor son". At this stage, Hina Rabbani Khar in harsh tone criticized Zardari's "meanness" and asked him to refrain from "poking nose into her personal affairs". The Pakistani foreign minister even threatened to resign from the ministry as well as membership of Pakistan People's Party if President Zardari didn't apologise for his "inappropriate behavior". The matter was immediately brought into attention of Bilawal Bhutto by Hina Rabbani Khar and on hearing the news of his father's "rudeness" towards Hina; Bilawal also threatened of leaving the post of chairman of Pakistan People's Party and leave the country by the end of the year. It is learnt from dependable sources within the Zardari family that Bilawal Bhutto has made his mind to bid farewell to politics and leave the country either by end of 2012 or early next year, while Hina Rabbani Khar is also expected to resign from the ministry almost at the same time.
While the hidden cold war between the father and the son is getting complex every day, Hina Rabbani Khar on the other end is negotiating a settled divorce with her husband millionaire businessman Firoze Gulzar, from whom she has two daughters named Annaya and Dina. One of the common family friends of Gulzars and Khars is assigned to mediate the settled divorce. It is learnt that, Hina Rabbani Khar is offloading her shares of Polo Lounge in the name of her children following the settlement of the divorce, while she also has signalled to waive Firoze Gulzar from paying her any alimony after the divorce. Trouble between Hina Rabbani Khar and Firoze Gulzar reportedly began two years back when Firoze was caught in having extra-marital affairs with one of the female staffers of his business ventures. She brought this matter to the attention of her father and later they collected some evidence of extra-marital affairs of Firoze Gulzar. At this stage, being terribly shocked at the betrayal of her husband, Hina Rabbani Khar attempted to commit suicide by taking sleeping pills. The incident was kept out of attention of Pakistani media. During such extreme adverse time, relations started growing between Hina Rabbani Khar and Bilawal Bhutto, which ultimately turned into romantic affairs. It is learnt from the intelligence source that, President Asif Ali Zardari is vehemently opposing his son's willingness of knotting marital relations with a woman with two children, saying it would not only jeopardize Bilawal's political career but would also invite political doom for the ruling Pakistan People's Party (PPP). Being aggrieved by his son's ego and determination in making family with Hina Rabbani Khar, Asif Ali Zardari played key-role behind using country's intelligence agencies in spreading the scandal about the evasion of electricity bills worth 70 million Rupees by Galaxy Textile Mills, a company owned by Khar's husband Firoze Gulzar and father-in-law. The media reports also alleged that she and her husband are also among many other beneficiaries of NRO - an ordinance drafted to save corruption money and provide immunity to the corrupt.
At this stage, sensing his father's aggressive attitude towards Hina Rabbani Khar, Bilawal expressed anger and even threatened of resigning from the post of Presidency of Pakistan People's Party. He even told Asif Ali Zardari that he would settle in Switzerland with Hina Rabbani Khar and her daughters, though later he even told his father that, Hina might leave her daughters with her husband after the divorce. It may be mentioned here that, Bilawal Bhutto's mother Benazir Bhutto left a hidden wealth worth a few billion dollars in Switzerland and Bilawal is the legal nominee of all those properties. The secret affairs between Bilawal Bhutto and Hina Rabbani Khar came to the knowledge of Asif Ali Zardari, when the duo was caught in compromised situation inside the official residence of the President, where his son Bilawal Bhutto also resides. Later, President Zardari collected mobile call records between Bilawal and Hina and found evidences of relations between the two. The relations became much exposed to Asif Ali Zardari, when Hina Rabbani Khar sent Bilawal a greeting card on his birthday on September 21, 2011 with hand-written message stating – "The foundation of our relations is eternal and soon we shall be just ourselves."
Asif Ali Zardari reportedly also made numerous attempts to reconcile relations between Firoze Gulzar and Hina Rabbani Khar with the target of making an end to Hina-Bilawal romance. But nothing worked as Hina was unwilling for such reconciliation. A confirmed report of a Western intelligence agency even stated Asif Ali Zardari's secret attempt of getting Hina Rabbani Khar assassinated. Through one of his friends in Dubai, President Zardari even contacted the underworld killer gang offering US$ 2 million for the murder of Hina Rabbani Khar.
Bilawal Bhutto is the legal nominee of Benazir Bhutto's secret wealth worth US$ 930 million in Switzerland along with some properties. In 1994, executives of the two Swiss companies wrote, promising to pay "commissions" totalling 9 percent to three offshore companies controlled by Asif Ali Zardari and Nusrat Bhutto [Benazir's mother]. A Cotecna letter in June 1994 was direct: "Should we receive, within six months of today, a contract for inspection and price verification of goods imported into Pakistan," it read, "we will pay you 6 percent of the total amount invoiced and paid to the government of Pakistan for such a contract and during the whole duration of that contract and its renewal." Similar letters, dated March and June 1994, were sent by Societe Generale de Surveillance, promising "consultancy fees" of 6 percent and 3 percent to two other offshore companies controlled by the Bhutto family. According to Pakistani investigators, the two Swiss companies inspected more than US$15.4 billion in imports into Pakistan from January 1995 to March 1997, making more than US$ 131 million. Bhutto family companies made US$ 11.8 million from the deals. For Societe Generale de Surveillance, with 35,000 employees and more than $ 2 billion a year in earnings, the relationship with the Bhutto family has been painful. In addition to doing customs inspections, the company awards certificates of technical quality. In effect, its business is integrity.
Thanks Weekly Blitz
بلاول زرداری اور پاکستانی وزیرخارجہ کے معاشقے پر صدر زرداری پریشان
پاکستان کی نوجوان اور شادی شدہ خاتون وزیر خارجہ جن کے حسن کے چرچے بھارتی
ایوانوں میں تھرتھری پھیلاتے تھے اب انہوں نے پاکستان ایوان صدر میں بھی
تھرتھری پھیلا دی ہے اور پاکستان صدر کے نوجوان بیٹے بلاول ذرداری بھی ان
کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ایک غیر ملکی میگزین کی رپورٹ کے مطابق اس
قضیے سے پاکستانی ایوانوں میں سخت کشیدگی اور سرد جنگ شروع ہوچکی ہے مگر
حنا ربانی کھر اور بلاول زردداری اپنے معاشقے میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ
حنا ربانی کھر کی ایک بیٹی بھی ہے۔ بنگلہ دیشی جریدے بلیٹنز کے مطابق
دونوں ایک دوسرے کو تحائف بھیج رہے ہیں اور عیدے اور سالگرہ کے موقع پر ایک
دوسرے کو تحائف اور پیغامات بھیج کر تجدید محبت کی گئی ہے۔صدر زرداری کو
ایوان صدرمیں حنا ربانی کھر اور بلاول کی ایک رومانوی ملاقات کے دوران اس
بات کا علم ہوا کہ دونوں کس حد تک نکل چکے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے
دونوں کے موبائل فونز کے ریکارڈ سے بھی ثبوت حاصل کئے جو رومانوی گفتگو پر
مشتمل تھے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اس پر صدر زرداری نےمشتعل ہو کر حنا
ربانی کھر کو ایوان صدر میں طلب کیا اور انہیں اپنے بیٹے سے دور رہنے کو
کہا جس پر حنا ربانی کھرنے بھی غصے کا اظہار کیا اور انتہائی سخت لہجے میں
کہا کہ وہ ان کی ذاتی زندگی سے دور رہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر صدر نے
فورا ان کے معافی نہ مانگی تو وہ وزارت اور پی پی کو چھوڑ دیں گی۔ جب یہ
بات بلاول کے علم میں آئی تو اس نے بھی پی پی اور ملک چھوڑنے کی دھمکی دی
جس پر صدر کو اندازہ ہوا کہ معاملہ کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ انتہائی باخبر
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول زرداری نے رواں برس کے آخر میں پارٹی اور ملک
چھوڑنے کا پروگرام بنا رکھا ہے اور اسی عرصے میں حنا ربانی کھر کی جانب سے
بھی مستعفی ہونے کا امکان ہے۔ رپورٹ مین دعوی کیا گیا ہے کہ باپ اور بیٹے
کے درمیان سرد جنگ گہری ہوتی جارہی ہے اور دوسری جانب حنا ربانی کھر نے بھی
اپنے شوہر فیروز گلزار سے طلاق لینے کے لئے بات چیت شروع کردی ہے۔ رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر اپنے شوہر کے دوسری عورتوں سے تعلقات پر
دل برداشتہ تھیں اور جیسے ہی بلاول نے انہیں سہارا دیا وہ جھولی میں آ
گریں۔ کہا جا رہا ہے کہ دونوں پریمی شادی کر کے سوئیٹزر لینڈ میں مقیم ہونے
کا سوچ رہے ہیں۔
Affair between Hina Rabbani Khar and Bilawal Bhutto Zardari
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور بلاول زرداری کا اسکینڈل کس طرح پکڑا گیا؟ نئے انکشافات
By Preeta Memon
One of the Western intelligence agencies has revealed the hidden fact
about romantic relations between youngest foreign minister of Pakistan,
Hina Rabbani Khar and Bilawal Bhutto, the son of President Asif Ali
Zardari and slain Pakistani Prime Minister Benazir Bhutto. The report
even indicated a 'cold feud' between the father and the son, following
Bilawal's decision of marrying Hina Rabbani Khar, as she is poised to
end her marital relations with millionaire businessman Firoze Gulzar,
from whom she has two daughters named Annaya and Dina. Born on November
19, 1977, Hina Rabbani Khar hails from an influential feudal and
landowner family and is the daughter of politician and landowner Nur
Rabbani Khar and the niece of Ghulam Mustafa Khar, a former Governor of
Punjab. The Khar family has roots in the village of Khar Gharbi
located in Kot Adu – a tehsil (subdivision) in Muzaffargarh District in
Punjab; and has many land holdings. The Khar family owns an estate that
includes fisheries, mango orchards, and sugarcane fields as well as a
local steel mill.After graduating from local high school, Khar attended the Lahore University of Management Sciences (LUMS) in 1995, and earned B.Sc. in Economics with cum laude in 1999. The same year, she went to United States to resume her higher studies and attended the post-graduate school of the University of Massachusetts Amherst, and subsequently earned a Master's degree in Hospitality and Tourism Management in 2002.
Hina Rabbani Khar was brought into national prominence and national political arena by Prime Minister Shaukat Aziz in 2004, who publicly appointed her into the Finance ministry. In previous 2002 general elections, she successfully contested and secured the parliamentary constituency of her father, after most members of the family were disqualified. With financial support of her father, she campaigned on a newly founded PML (Q Group) platform against Pakistan Muslim League. After the elections, Khar was elected as a Member of Parliament, representing the NA-177, Muzaffargarh-II constituency in Punjab, a position her father had held previously, but a new law requiring all candidates to hold a university degree meant he could not run that year. The Guardian wrote, "In deference to local sensibilities about the place of women, her landlord father Noor addressed rallies and glad-handed voters; Hina stayed largely at home, with not even her photo appearing on the posters." In 2005, she was elevated as the deputy minister of economic affairs and served under Shaukat Aziz. As deputy minister, she dealt extensively with the donor community during the 2005 earthquake that hit Northern Pakistan.
In 2007, she made an unsuccessful attempt to renew her alliance with PML-Q, but the party denied her a ticket platform to campaign for re-election in 2008, she was later invited by the senior members of the Pakistan Peoples Party and successfully campaign for her constituency for a second time. The PPP secured plurality of the votes and formed a left-wing alliance with the Awami National Party, MQM and PML-Q. They nominated and elected Yousaf Raza Gillani as Prime Minister.
It is learnt from the intelligence source that, President Asif Ali Zardari is vehemently opposing his son's willingness of knotting marital relations with a woman with two children, saying it would not only jeopardize Bilawal's political career but would also invite political doom for the ruling Pakistan People's Party (PPP). Being aggrieved by his son's ego and determination in making family with Hina Rabbani Khar, Asif Ali Zardari played key-role behind using country's intelligence agencies in spreading the scandal about the evasion of electricity bills worth 70 million Rupees by Galaxy Textile Mills, a company owned by Khar's husband Firoze Gulzar and father-in-law. The media reports also alleged that she and her husband are also among many other beneficiaries of NRO - an ordinance drafted to save corruption money and provide immunity to the corrupt.
At this stage, sensing his father's aggressive attitude towards Hina Rabbani Khar, Bilawal expressed anger and even threatened of resigning from the post of Presidency of Pakistan People's Party. He even told Asif Ali Zardari that he would settle in Switzerland with Hina Rabbani Khar and her daughters, though later he even told his father that, Hina might leave her daughters with her husband after the divorce. It may be mentioned here that, Bilawal Bhutto's mother Benazir Bhutto left a hidden wealth worth a few billion dollars in Switzerland and Bilawal is the legal nominee of all those properties. The secret affairs between Bilawal Bhutto and Hina Rabbani Khar came to the knowledge of Asif Ali Zardari, when the duo was caught in compromised situation inside the official residence of the President, where his son Bilawal Bhutto also resides. Later, President Zardari collected mobile call records between Bilawal and Hina and found evidences of relations between the two. The relations became much exposed to Asif Ali Zardari, when Hina Rabbani Khar sent Bilawal a greeting card on his birthday on September 21, 2011 with hand-written message stating – "The foundation of our relations is eternal and soon we shall be just ourselves."
It may be mentioned here that, Bilawal Bhutto is 11 years younger than Hina Rabbani Khar. Earliest this year, Bilawal Bhutto was caught in sex scandal with some unknown females.
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور بلاول زرداری کا اسکینڈل کس طرح پکڑا گیا؟ نئے انکشافات
رپورٹ: پریٹی میمن
پاکستانی خاتون وزیر خارجہ اور بلاول زرداریبھاگ کرجلد ہی سوئیٹزرلینڈ میں
شادی کرنے والے ہیں۔ یورپ کی ایک بہت ہی اعلی خفیہ ادارے نے اپنی مصدقہ
رپورٹ میں پاکستان کی کم عمر اور حسینہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور
پاکستانی صدر زرداری کے واحد اور نوجوان بیٹے بلاول کے درمیان پلنے والے
رومانس کا تفصیلی اور ویڈیوز کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بلاول بھٹو پاکستان کے سب
سے بڑی پارٹی پی پی پی کے صدر بھی ہیں اور مقتول بے نظیر بھٹو کے واحد
بیٹے اور سوئیٹزرلینڈ میں چھپائی گئی ان کی اربوں ڈالر کی خفیہ دولت کے
قانونی وارث بھی ہیں۔ بلاول زرداری نے جب سے اپنے والد اور پاکستانی صدر
زرداری کو یہ فیصلہ سنایا ہے کہ وہ حنا ربانی کھر سے شادی کرنےجا رہے ہین
تب سے وہ شاک میں ہیں اور باپ بیٹے کے درمیان سرد جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔
عین اسی دوران حنا ربانی کھر نے اپنےارب پتی شوہر فیروز گلزار کو بتا دیا
ہے کہ وہ بلاول سے عشق کرتی ہین اور ان سے شادی کرنا چاہ رہی ہیں اس لئے وہ
انہیں طلاق دے دیں۔ حنا ربانی کھر کی اس شوہر سے دو بیٹیاں ہیں جن کے نام
انایا اور دینا ہیں۔ حنا ربانی کھر 19نومبر 1977 کو پیدا ہوئی تھیں اور ان
کے والد مشہور اور متنازعہ سیاستدان غلام مصطفی کھر ہیں۔ یہ بھی اپنی
بیویوں کےلئے مشہور رہے ہیں اور ان کی رومانوی داستانیں دلچسپی سے سنائی
جاتی ہیں۔ پاکستا ن کی انتہائی بڑی زمیندار اور وڈیرہ فیملی سے تعلق رکھنے
والی حنا ربانی کھر کا خاندان گائوں کھر غربی، تحصیل کوٹ ادو مظفر گڑھ
پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور غلام ربان کھر پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں۔ اس
خاندان کے کئی باغات اور بہت بڑی زمینیں ہیں جب کہ یہ ایک اسٹیل مل کا بھی
مالک ہے۔حنا ربانی کھر نے پہلے پاکستان میں لاہور کی لمس یونیورسٹی سے 1995
میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہ لندن چلی گئں اور وہاں 1999 تک تعلیم حاصل
کرتی رہیں، اس کے بعد امریکہ چلی گئیں یونیورسٹی آف میس چیسٹیس سے ماسٹر کی
ڈگری ہاسپیٹل اور ٹورازم منیجمنٹ میں حاصل کی اور یہ تھا سن 2002۔
اس کے بعد 2004 میں شوکت عزیز نے ان کو پاکستانی سیاست میں متعارف کرایا۔ کہا جاتا ہے کہ شوکت عزیز عورتوں کے رسیا تھے اور ہر عورت پر ڈورے ڈالتے تھے۔ اس سے قبل 2002 میں حنا ربانی کھر کے خاندان کے تمام افراد انتخابات کے لئے نااہل ہوچکے تھے کیونکہ کسی کےپاس بھی بی اے کی ڈگری نہ تھی اس لئے انہوں نے اپنی بیٹی حنا ربانی کھر کو آگے کردیا جو آسانی سے جیت کر قومی اسمبلی میں آگئیں جہاں سے 2004 میں رنگین مزاج وزیر اعظم شوکت عزیز نے انہیں اپنا وزیر خزانہ بنا لیا۔ اس وقت حنا ربانی کھر پی پی کی ممبر نہیں بلکہ ق لیگ کی ممبر تھیں اور ق لیگ ہی برسر اقتدار تھی۔ 2005 تک حنا ربانی کھر شوکت عزیز کی سرپرستی میں کام کرتی رہیں اور ان کی مددگار کاکام کرتی تھیں۔ خاتون اور حسین ہونے کی وجہ سے انہیں بہت جلد کامیابی ملتی تھی۔ مثلا 2005 کے زلزلے میں انہیں امداد مانگنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہوں نے کامیابی سے یہ کر کے دکھایا۔
2008 میں جب انتخابات ہونے جا رہے تھے تو حنا ربانی کھر نے ق لیگ چھوڑ کر پی پی میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر وہ یوسف رضا گیلانی کی پی پی حکومت میں بھی وزیر بن گئیں۔
یورپی خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اپنے بیٹے بلاول زرداری کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ تعلقات رکھنا ٹھیک ہے مگر ایک شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں سے شادی کرنا درست نہیں بلکہ پاگل پن ہے۔ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے نا صرف بلاول کا سیاسی کیئریر ختم ہو کر رہ جائے گا بلکہ پی پی کی قیادت بھی زرداری خاندان سے نکل کر کھر خاندان کے پاس جا سکتی ہے۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پاکستانی صدر ہی ہیں کہ جن کی ایما پر اب حنا ربانی کھر اور ان کے شوہر کی ٹیکسٹائل مل کے بجلی کے بھاری بل معاف کرانے کا اسکینڈل خفیہ اداروں کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے تاکہ انہیں سبق سکھایا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حنا ربانی کھر، ان کے شوہر اور ان کا خاندان این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے اور بڑے گھپلوں میں ملوث ہے جنہیں اب کھولنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس مرحلے پر اپنے والد کا جارحانہ رویہ دیکھ کر بلاول کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے حنا ربانی کھر اور ان کے خاندان کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں، اس نے اپنے والد صدر زرداری کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے حنا ربانی کھر کو ستانا بند نہ کیا تو وہ پی پی کی صدارت سے استعفی دے کر ملک چھوڑ جائے گا۔ بلاول نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حنا ربانی کھر سےشادی کر کے سوئیٹزر لینڈمین مقیم ہو گا جہاں حنا ربانی کھر کی دونوں بیٹیاں بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ بعد میں بلاول نے اپنے والد صدر زرداری کوبتایا کہ حنا ربانی کھر اس بات پر راضی ہوگئی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں،طلاق کے بعد اپنے شوہر کےپاس ہی چھوڑ جائین گی۔ واضح رہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی خفیہ دولت سوئیٹزر لینڈ میں چھپا رکھی ہے جو کہ کئی ارب ڈالر بنتی ہے اور اس دولت کا قانونی وارث بلاول ہی ہے۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر اور بلاول کے درمیاں تعلقات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایوان صدر اسلام آباد میں صدرزرداری نے اپنی آنکھوں سے دونوں کو تنہائی میں دیکھ لیا۔ حناربانی ایوان صدر آئی تھیں جب کہ بلاول وہیں پر مقیم ہین۔ اس کےبعد صدر زرداری نے دونوں کےموبائل کا ریکارڈ نکلوایاتو ہوشربا انکشافات منتظر تھے۔ ایک اور انکشاف حنا ربانی کھر کی طرف سے بلاول کو بھیجا گیا ایک کارڈ تھا جس ان کے ہاتھ سے لکھا تھا:
ہمارے تعلقات کی بنیاد ہمارے اندر ہی ہے اور بہت جلد ہم ایک دوسرے کے ہوجائین گے۔
اس سب نے صدر زرداری کو ہلاکر رکھ دیا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پارہے اور سرد جنگ عروج پر ہے۔ یاد رہے کہ بلاول زرداری عمرمیں حنا ربانی کھر سے 11 سال چھوٹے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھی بلاول زرداری کا کچھ لڑکیوں کے ساتھ ایک جنسی اسکینڈل سامنے آیا تھا۔
بحوالہ: ہفت روزہ بلیٹز۔
اس کے بعد 2004 میں شوکت عزیز نے ان کو پاکستانی سیاست میں متعارف کرایا۔ کہا جاتا ہے کہ شوکت عزیز عورتوں کے رسیا تھے اور ہر عورت پر ڈورے ڈالتے تھے۔ اس سے قبل 2002 میں حنا ربانی کھر کے خاندان کے تمام افراد انتخابات کے لئے نااہل ہوچکے تھے کیونکہ کسی کےپاس بھی بی اے کی ڈگری نہ تھی اس لئے انہوں نے اپنی بیٹی حنا ربانی کھر کو آگے کردیا جو آسانی سے جیت کر قومی اسمبلی میں آگئیں جہاں سے 2004 میں رنگین مزاج وزیر اعظم شوکت عزیز نے انہیں اپنا وزیر خزانہ بنا لیا۔ اس وقت حنا ربانی کھر پی پی کی ممبر نہیں بلکہ ق لیگ کی ممبر تھیں اور ق لیگ ہی برسر اقتدار تھی۔ 2005 تک حنا ربانی کھر شوکت عزیز کی سرپرستی میں کام کرتی رہیں اور ان کی مددگار کاکام کرتی تھیں۔ خاتون اور حسین ہونے کی وجہ سے انہیں بہت جلد کامیابی ملتی تھی۔ مثلا 2005 کے زلزلے میں انہیں امداد مانگنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہوں نے کامیابی سے یہ کر کے دکھایا۔
2008 میں جب انتخابات ہونے جا رہے تھے تو حنا ربانی کھر نے ق لیگ چھوڑ کر پی پی میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر وہ یوسف رضا گیلانی کی پی پی حکومت میں بھی وزیر بن گئیں۔
یورپی خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اپنے بیٹے بلاول زرداری کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ تعلقات رکھنا ٹھیک ہے مگر ایک شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں سے شادی کرنا درست نہیں بلکہ پاگل پن ہے۔ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے نا صرف بلاول کا سیاسی کیئریر ختم ہو کر رہ جائے گا بلکہ پی پی کی قیادت بھی زرداری خاندان سے نکل کر کھر خاندان کے پاس جا سکتی ہے۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پاکستانی صدر ہی ہیں کہ جن کی ایما پر اب حنا ربانی کھر اور ان کے شوہر کی ٹیکسٹائل مل کے بجلی کے بھاری بل معاف کرانے کا اسکینڈل خفیہ اداروں کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے تاکہ انہیں سبق سکھایا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حنا ربانی کھر، ان کے شوہر اور ان کا خاندان این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے اور بڑے گھپلوں میں ملوث ہے جنہیں اب کھولنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس مرحلے پر اپنے والد کا جارحانہ رویہ دیکھ کر بلاول کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے حنا ربانی کھر اور ان کے خاندان کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں، اس نے اپنے والد صدر زرداری کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے حنا ربانی کھر کو ستانا بند نہ کیا تو وہ پی پی کی صدارت سے استعفی دے کر ملک چھوڑ جائے گا۔ بلاول نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حنا ربانی کھر سےشادی کر کے سوئیٹزر لینڈمین مقیم ہو گا جہاں حنا ربانی کھر کی دونوں بیٹیاں بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ بعد میں بلاول نے اپنے والد صدر زرداری کوبتایا کہ حنا ربانی کھر اس بات پر راضی ہوگئی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں،طلاق کے بعد اپنے شوہر کےپاس ہی چھوڑ جائین گی۔ واضح رہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی خفیہ دولت سوئیٹزر لینڈ میں چھپا رکھی ہے جو کہ کئی ارب ڈالر بنتی ہے اور اس دولت کا قانونی وارث بلاول ہی ہے۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر اور بلاول کے درمیاں تعلقات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایوان صدر اسلام آباد میں صدرزرداری نے اپنی آنکھوں سے دونوں کو تنہائی میں دیکھ لیا۔ حناربانی ایوان صدر آئی تھیں جب کہ بلاول وہیں پر مقیم ہین۔ اس کےبعد صدر زرداری نے دونوں کےموبائل کا ریکارڈ نکلوایاتو ہوشربا انکشافات منتظر تھے۔ ایک اور انکشاف حنا ربانی کھر کی طرف سے بلاول کو بھیجا گیا ایک کارڈ تھا جس ان کے ہاتھ سے لکھا تھا:
ہمارے تعلقات کی بنیاد ہمارے اندر ہی ہے اور بہت جلد ہم ایک دوسرے کے ہوجائین گے۔
اس سب نے صدر زرداری کو ہلاکر رکھ دیا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پارہے اور سرد جنگ عروج پر ہے۔ یاد رہے کہ بلاول زرداری عمرمیں حنا ربانی کھر سے 11 سال چھوٹے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھی بلاول زرداری کا کچھ لڑکیوں کے ساتھ ایک جنسی اسکینڈل سامنے آیا تھا۔
بحوالہ: ہفت روزہ بلیٹز۔
Subscribe to:
Posts (Atom)