Search This Blog

Total Pageviews

Saturday, September 29, 2012

شرمناک امریکی قدم: گستاخ فلمساز کی گرفتاری قتل سے بچانے کیلئے کی گئی


حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے فلمساز کی گرفتاری اس جرم کی سزا کیلئے نہیں بلکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل سے بچانے کیلئے کی گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف ہوا ہے اس رپورٹ سے جو امریکہ میں اس کی گرفتاری کے موقع پر سامنے آئی ہے۔
امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے اسلام مخالف فلم بنانے والے مصری نژاد قبطی عیسائی شاتم رسول نیولا باسیلی نیکولا کو عبوری ضمانت کی خلاف ورزی کے جرم میں جیل بھیج دیا ہے۔ پچپن سالہ ملعون فلم ساز کو امریکی مارشلز نے کسی نامعلوم مقام سے جمعرات کو گرفتار کیا تھا اور اسے لاس اینجلس کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔اس وقت اس نے عام کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اسے ہتھکڑیاں لگا کر اور چہرہ ڈھانپ کر عدالت لایا گیا۔
''مسلمانوں کی معصومیت'' کے نام سے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت آمیز فلم بنانے والے اس پروڈیوسر کو 2011 میں بنک فراڈ کے ایک مقدمے میں ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔اب اس کے خلاف اس امر کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ کیا وہ اپنی رہائی کے لیے طے شدہ ضمانتی شرائط کی خلاف وزی کا مرتکب تو نہیں ہوا؟البتہ اس کے خلاف شرانگیز فلم بنانے، مسلمانوں کے نبی کی توہین اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے جرم میں کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی ہے۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں نیکولا کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر مجسٹریٹ جج سوزان سیگل نے کہا کہ ''عدالت کو اس موقع پر مدعاعلیہ پر کوئی اعتماد نہیں رہا ہے''۔اس کے بعد جج نے ملزم کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی اور اسے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
عدالت کے ریکارڈ کے مطابق نیکولا کو گذشتہ سال بنک فراڈ کے مقدمے میں رہائی کے وقت طے شدہ شرائط کے تحت رہا کیا گیا تھا اور اس کو پروبیشن آفیسر کی اجازت کے بغیر انٹرنیٹ اور کوئی عرفیت استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن اس نے اس عبوری ضمانت کی آٹھ خلاف ورزیاں کی ہیں۔
جج سیگل نے قرار دیا کہ مدعا علیہ مسلسل دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے متعدد عرفی نام استعمال کیے تھے۔عدالت میں اس گستاخ رسول کے وکیل نے کہا کہ اس کے موکل کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔اس نے عدالت سے بند کمرے کی سماعت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میڈیا کو اس کی کوریج کی اجازت نہ دی جائے۔ رپورٹروں کو عدالت میں مقدمے کی براہ راست سماعت کو ملاحظہ کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے لیے ایک بلاک دور واقع ایک کمرے میں ویڈیو کیمرے کے ذریعے عدالتی کارروائی دیکھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔جج نے فلم بنانے والے کلوز سرکٹ کیمرے کے لیے بھی یہ ہدایت جاری کی تھی کہ نیکولا باسیلی کی تصویر نہ دکھائی جائے۔ وکیل صفائی اسٹیوسیڈن نے دس ہزار ڈالرز کے ضمانتی مچلکوں کے بدلے میں اپنے موکل کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا لیکن جج نے یہ درخواست مسترد کردی۔وکیل نے موقف اختیار کیا کہ لاس اینجلس کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں اس کے موکل کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ اس علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس موقع پر پراسیکیوٹرز نے کہا کہ نیکولا جیل سے اپنی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے عدالت میں اپنے نام تک بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔اب اس کو دوبارہ جیل بھیجا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان ،مصر،لیبیا ،تیونس ،پاکستان اور دوسرے ممالک میں شرانگیز فلم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان ،افغانستان ،سعودی عرب اور بنگلہ دیش نے توہین آمیز فلم نہ ہٹانے پرویڈیو شئیرنگ ویب سائٹ یوٹیوب تک رسائی بلاک کردی ہے۔
گیارہ ستمبر کو شرانگیز فلم کے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے کے بعد سے بیس سے زیادہ مسلم ممالک میں امریکی سفارت خانوں یا قونصل خانوں کے باہر پرتشدد مظاہرے کیے گئے ہیں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر مشتعل مظاہرین کے حملے میں امریکی سفیر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
گذشتہ جمعہ کو پاکستان میں ملک گیر ہڑتال کی گئی تھی۔ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہوئے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی اور بعض شہروں میں پرتشدد مظاہروں میں تیس افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔پاکستان کے وزیرریلوے غلام احمد بلور نے اسلام مخالف فلم ساز کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز مقرر کررکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس ملعون فلم ساز کو قتل کرنے والے کو یہ انعامی رقم دیں گے۔حکومت پاکستان ان کے اس اعلان سے اظہار لاتعلقی کرچکی ہے

No comments:

Post a Comment