Search This Blog

Total Pageviews

Monday, October 22, 2012

Safety lesson- About Your Cellphone

Very Important about your cellphone 




















Saturday, October 13, 2012

ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش

ملالہ حملہ : حقیقت یا سازش
 تحریر: محمد عمران
 
ملالہ یوسفزئی کو اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے گل مکئی کے قلمی نام سے برطانوی ریڈیو بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر جنگ بیتی کو 
اپنے
 انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسفزئی کو اسی ویب پوسٹس پرنہ صرف شہرت ملی بلکہ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ملالہ نے ڈائری کے ان صفحات پر اس خوف و کرب کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سوات وادی میں رات کے سناٹے میں گونجتی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اسے مضطرب کرتی تھی
اب سوال یہ ہے کہ ٢ سال پہلے
ملالہ
کی عمر ١١ سال تھی . اور ١١ سال کی بچی کچھ اس طرح  سے ڈائری لکھ سکتی ہے ؟ . افغانستان کے طالبان پہلے ہی پاکستانی طالبان سے
 لا تعلقی
 کا اظہار کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہی کے وہ اسکول جلانے اور خودکش حملوں کے خلاف ہیں . تو پھر یہ کون ہیں ؟ یاد رکھیں پاکستان میں حالات خراب رہیں اس کا فایدہ امریکا کو ہوگا پاکستان کو نہیں .
ملالہ  کے لیے جس طرح حکومتی سطح پر اقدامات کیے گے ہین بہت اچھی بات ہے . مگر کاش یہ سب قوم کی ہرملالہ کے لیے بھی کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا

 یہ حملہ عمران خان کے لانگ مارچ کے بعد ہوا  لانگ مارچ کے بعد پورے دنیا من ڈرون اٹیک کے بارے میں باتیں شروع ہو گیی تھیں مگر اس حملے کے بعد سب لوگ خاموش ہو گیے ہیں . تو فایدہ کس کو ہوا ؟ الله جانتا ہے کے حقیقت کیا ہی مگر کوئی سازش ضرور ھے
.
تو جناب کل امریکہ نواز میڈیا کی طرف سے پاکستانی عوام پہ یہ وحی منکشف کی گئی ہے کہ ایک تیرہ سالہ بچی اسکو طالبان نے اسکے علمی کاوشوں اور اسکے علم کی انتہا پہ ہونے کے سبب مار ڈالا ہے۔۔ اور ہمارے بے عقل عوام اور حد ہے کئی اسلامی جماعتیں بھی اس
پروپیگنڈے میں اگئیں ہیں ۔۔ مجھے کوئی یہ بتائیے کہ اس بچی یا لڑکی اس کے پاس ایسا کونسا خاص علم تھا جو کہ لال مسجد کی ۳۰۰۰ عالمہ لڑکیوں کے پاس بھی نہین تھا۔۔

اور کیا ان عالمہ کو بھی طالبان نے مارا تھا۔۔۔ہمارے ہاں کے بڑی سے بڑی یونیورسٹی کی کسی طلبہ میں وہ علم نہیں تھا۔۔ ایک سوال یہ ہے کہ ایک ایسی بچی جس نے کبھی پہلے کوئی تحریر نہ لکھی نہ چھپی ، -- کیسے اچانک BBC نے اسکی تحریریں جن کو ڈائیری کا نام دیا دیا گیا پیش کرنی شروع کر دیں؟ کیا BBC کی صحافت کا یہی معیار ہے ؟0 --- نا بالغوں کی ڈائری پیش کرنا ؟؟ ذرا سوچیں ! ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں جب
کی شخص کو اپنے مقاصد کے لئے چن لیتی ہیں تو میڈیا کے زریعے اس کو رفتہ رفتہ دیو مالائی حیثیت کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔۔
میں اس بچی پر حملہ کی حمایت نہیں بلکہ شدید مذمت کرتا ہوں۔۔
ان امریکہ نواز میڈیا سے یہ کوئی پوچھے کہ کیا کسی طالبان کے افیشل ترجمان نے کوئی ویڈیو جاری کی ہے جسمیں انہونے اسکی ذمہ داری قبول کی ہو؟ یا یہ اس منافق میڈیا پہ وحی نازل ہوئی ہے کہ اسے طالبان نے مارا ہے ۔۔ اگر ویڈیو ہے تو وہ منظر عام پہ کیوں نہین ہے۔۔۔

بندر اپنے بچے سے بہت پیار کرتا ہے ۔۔ اسکو ہر وقت اپنی گود میں لٹکائے رہتا ہے۔۔ یہاں تک کہ اگر وہ مر بھی جائے توبھی اسے نہیں چھوڑتا۔۔ مگر جب وہ زمین پہ بیٹھتا ہے اور زمین اسے گرم لگتی ہے تو اسے بچے کو اپنے نیچے دے کے اس پہ بیٹھ جاتا ہے ۔۔ ایجینسیز نے پہلے خود اسکو عوام میں خاص کر مغرب میں معروف کروایا ۔۔ اسکے بعد اسے ایوارڈ دلوایا۔۔ اسکے بعد جب وہ معروف ہو گئی تو اسکا کام تمام کردیا ۔ اور اسکا مقصد اسلام اور طالبان کو بدنام کرنا، شدت پسند ٹھہرانا اور عورتوں کو ان سے متنفر کرنے کے ساتھ ساتھ سوات میں اپریشن اور آرمی بجھیجنے کے لئے ایک بہانہ ہے ۔۔ اج بھی کافر اسی فلسفہ پہ عمل پیرا ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاو، تو یہ کہتے ہیں کہ (نہیں صاحب) ہم ہی تو صلاح و اصلاح کروانے والے ہین ۔..........


میر التجا ہے اپ لوگوں سے کہ اپنے اپ رحم کریں اور امریکہ ایجنٹ میڈیا اور مغرب کی اندھی تقلید کی عینک اتار کہ اپنے عقل کا استعمال کریں اور ان خبیثوں کے چالوں کو سمجھیں اور انکا منہ توڑ جواب دیں ۔۔۔............

شئیر کریں اس منافق میڈیا کا توڑ کے لئے جزاک اللہ —
کیا ملالہ یوسف زئی ایک کردار تھا؟ جسے استعمال کیا گیا؟ اوپر اٹھایا گیا! اور پھر ثمر پانے کے لیے اسے گولی مار دی....تاکہ نام نہاد طالبان کے خلاف لوگوں کو مشتعل کیا جائے؟ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
 

ملالہ حملہ۔ بلی تھیلے سے باہرآگئی۔ شمالی وزیرستان پر بھرپور حملے کا فیصلہ


پاکستان کے شمال مغربی علاقے سوات میں چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملے اور اس کے ردعمل کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر بھرپور کوریج کا ڈراپ سین سامنے آ گیا ہے اور وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے  اور اس کا تقریبا فیصلہ ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر جمعہ کو آمد کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت وہاں فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی''۔انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے لیے ظالمان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چودہ سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملہ نہیں کیا بلکہ پوری قوم پر حملہ کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے ایک نیا دعویٰ یہ کیا کہ ''وہ شمالی وزیرستان سے روزانہ کی بنیاد انٹیلی جنس رپورٹس موصول کر رہے ہیں اور ان رپورٹس سے یہ پتا چلا ہے کہ علاقے میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور یہی لوگ حملے میں ٕملوث ہیں''۔ ذرائع کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راول پنڈی میں کورکمانڈروں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی وہاں کی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی جائے گی اور آپریشن کے خدو خال طے کئے جائین گے۔واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کو پاکستانی میڈیا میں غیر معمولی کوریج دی گئی ہے اور یہ واقعہ گذشتہ چار روز سے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی خبروں، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں چھایا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز ملالہ پر حملے اور اب اس کی حالت کے بارے میں پل پل کی مسلسل خبریں دے رہے ہیں حالانکہ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونی والی مزید دو لڑکیوں کا  کسی نے نام تک نہیں لیا اور ملالہ حملے کے دوسرے دن ہی امریکی ڈرون حملے میں ایک مدرسہ تباہ کیا گیا  جس میں 18 عورتیں اور بچے مارے گئے مگر کسی نے  اس پر اس قدر شور  نہیں کیا۔ اس کے برعکس  میڈیا پر طالبہ پر قاتلانہ حملے اور اس پر ردعمل کے ڈانڈے شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے ملائے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر بھرپور تشہیر کر کے دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بعد شمالی وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بُک (کتاب چہرہ) کے صارف بہت سے لکھاریوں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں اور نثر و نظم کی صورت میں مذمت کی ہے اوراس بہادر لڑکی کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی بعض حضرات نے بالکل بجا طور پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں مارے گئے کم سن بچوں اور زخمیوں کی اس انداز میں مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور انھیں کیوں بھُلا دیا گیا ہے؟ بعض لکھاریوں نے پاکستانی میڈیا کی بھیڑ چال پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور انھوں نے ماضی میں اسی طرح کے پیش آئے چار پانچ واقعات کو میڈیا پر اچھالے جانے اور خاص طور پر سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے لگانے کے واقعہ کی ویڈیو کا ذکر کیا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد جعلی ثابت ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے خاص طور پر حالیہ برسوں میں بے پایاں ترقی کی ہے لیکن جس تیزی سے اس نے ترقی کی اور ماضی کی نسبت آزادی حاصل کی ،اس کے مقابلے میں وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو بہ طریق احسن انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔صحافت کی پیشہ ورانہ نزاکتوں سے نابلد میڈیا مالکان کا صحافیوں سے عموماً یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چینل پر سب سے پہلے خبر دیں۔چنانچہ ایک چینل سے وابستہ صحافی حضرات اچانک پیش آئے کسی واقعہ کی عجلت میں غیر مصدقہ خبر تو ''سب سے پہلے'' کے چکر میں دے دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ دوسرے چینلوں یا متعلقہ اداروں اور حکام سے اس کی تصدیق کے لیے فون کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو دو مختلف ٹی وی چینلز پر نشرکردہ ایک ہی خبر کی تفصیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ناظرین الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

Thursday, October 11, 2012

ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے مشہور امریکی رقاصہ میڈونا سر عام برہنہ ہوگئی

Medonna

ملالہ یوسف زئی اس وقت قوم کی آنکھ تارا بنی ہوئی ہے۔ اور اوباما سے لیکر اقوام متحدہ کےجنرل سیکرٹری بان کی بون  سب نے ہی ملالہ یوسف زئی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری کوفون کرکے ملالہ يوسف زئی پر حملے کی مذمت کی ہے۔ امريکي وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا ہے کہ لڑکيوں کي تعليم کے ليے آواز بلند کرنے والی ملالہ يوسف زئی بہادری کی علامت ہيں۔افغان صدرحامد کرزئی نے صدرآصف علی زرداری سے فون پر ملالہ يوسف زئی کے حملے پرافسوس کا اظہار کيا۔ حامد کرزئی نے کہا کہ ملالہ يوسف زئی اور ديگر طالبات پرحملے کی شديد مذمت کرتے ہيں۔دوسری جانب گرل اسکاؤٹس سے خطاب ميں امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ يوسف زئی پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہيں۔ انہوں نے ملالہ يوسف زئي کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہارکيا۔ہليری کلنٹن نے کہا کہ ملالہ پر حملہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کچلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔واضح رہے کہ مشہور امریکی رقاصہ اور گلوکارہ میڈونا نے  ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لئے برہنہ ہو کر رقص کیا۔  آج جب وہ اپنے شو کے لئے آئی تو اس نے بتایا کہ وہ ملالہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتی ہے کیونکہ طالبان کے خلاف  ملالہ ایک استعارہ تھی اس دوران  جب وہ برہنہ ہوئی تو اس نے اپنی برہنہ  کمر  سب کو دکھائی جس پر ملالہ کانام لکھا تھا پھر وہ اسی برہنہ حالت میں ہی  کنسرٹ میں گانا گایا اور اس سے  یکجہتی کا اظہار کیا۔

نیٹو پر افغان فوجی حملوں کو روکا نہیں جا سکتا۔جنرل ڈیمپسی کا اعتراف

General Dempsy


امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارٹن ای ڈیمپسی نے کہا 
ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے اہلکاروں پر کیے جانے والے داخلی حملوں میں کمی ضرور ممکن ہے البتہ انہیں مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے یہ بات امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جنرل ڈیمپسی نے کہا ہے کہ مغربی اتحاد نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس ایسے داخلی حملوں کو روکنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ڈیمپسی نے بتایا کہ جن نئے اہلکاروں کو فوج میں بھرتی کیا جا رہا ہے ان کی تربیت مزید بہتر انداز میں کی جاری ہے۔ جنری ڈیمپسی نے مزید بتایا کہ افغانستان میں نیٹو افواج پر کیے جانے والے داخلی حملوں کی روک تھام کے لیے کاوٴنٹر انٹیلی جنس ایجنٹس کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔جنرل ڈیمپسی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نیٹو افواج چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں افغان سکیورٹی اہلکاروں یا ان کے لباس میں ملبوس افراد کی جانب سے اس قسم کے داخلی حملوں کو مکمل طور پر روکنا ناممکن سی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم داخلی حملوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی تو ضرور لا سکتے ہیں لیکن انہیں روک نہیں سکتے‘۔ جنرل ڈیمپسی کا کہنا ہے، ’طالبان جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ افغان سکیورٹی اہلکاروں اور نیٹو افواج کا تعاون ہی وہ اہم چیز ہے جو بالآخر ان کی شکست کا ذریعہ بنے گا

ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا انکشاف


وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی انٹیلی جنس انفارمیشن نہیں ہے کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ملالہ یوسف زئی کی زندگی کیلئے آئندہ 36 گھنٹے بہت اہم ہیں۔ اسلام آباد میں سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفت گو میں رحمان ملک کاکہناتھاکہ حکیم الله محسود کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کے کئی گروپ بن چکے ہیں،اس لیے وہ طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ واقعی یہ حملہ طالبان نے ہی کیا ہے بلکہ یہ کسی دشمنی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے  یا پھر کسی اور گروپ کی طرف سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ملالہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم اس کے والدین نے سیکورٹی لینے سے انکار کر دیا تھا۔رحمان ملک نے کہا کہ انہوں نے آئی جی خیبرپختون خوا کو ہدایت ہے کہ ملالہ اور اس کے والدین کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے۔
 واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے یہ بیان آنے سے پہلے بھی سرکاری سطح پر اب تک طالبان کا نام لے کر کسی نے بھی مذمت نہیں کی ہے حتی کہ آرمی چیف نے بھی صرف لفظ دہشت گرد کہا۔  صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلی سرکاری عہدےد ار اس حملے  کا ذٕمہ دار طالبان کو ٹھہرانے کے بجائے دہشت گردوں کو ٹھہرا رہےہیں  جب کہ میڈیا بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طالبان کا نام لے کر مذمت کی جائے۔ اس مہم میں بی  بی سی اور امریکی نشریاتی ادارے پیش پیش ہیں۔ سب سے پہلے بی بی سی نے ہی دعوی کیا کہ حملہ طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پھر اس کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کرنے والے کون تھے یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مہربانی سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر سیاست دان مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنے مذمتی بیانات میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس بابت پارلیمان کی متفقہ قرار داد اور فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل ذکر ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی واقعے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پشاور آمد اور ہسپتال میں ملالہ یوسفزئی کی خیریت معلوم کرنا انتہائی احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن فوجی سربراہ نے دورے کے بعد ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا  لیکن اس میں انہوں نے طالبان کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’دہشت گرد‘ کہا ہے۔ اور یہی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بارے میں دیکھنے کو ملا ہے۔وزیر اعظم کا کل کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان ہو یا صدر آصف علی زرداری کا مذمتی بیان کسی نے طالبان لفظ استعمال نہیں کیا۔کچھ لوگوں کے خیال میں شاید ان کے نزدیک طالبان کے لیے اب بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے جس کے باعث وہ انہیں نام سے یاد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ریاست طالبان کے سامنے بےبس ہے۔
 دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والوں کی شناخت ہوگئی، دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، افغان صدر سے شکایت کی ہے کہ دہشت گردوں کوسرحد پار آنے سے روکیں، حملہ کرنے والے دہشت گردکہیں بھاگ نہیں سکتے انہیں گرفتار کرکے ہرحال میں قرارواقعی سزا دی جائے گی۔ وہ سی ایم ایچ پشاور میں زخمی طالبہ کی عیادت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے سے متعلق فیصلہ فی الحال موٴخرکردیا گیا امریکا اور لندن میں نیوروسرجن تیار ہیں اگرضرورت پڑی تو انہیں پاکستان بلایاجائے گا، پوری قوم ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لیے دعا کرے، دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے اورہمیں یہ بھی پتا ہے کہ وہ کتنے دن پہلے سوات میں آئے تھے اورانہوں نے کن کن لوگوں کو استعمال کیا اورکیا طریقہ واردات اختیارکیا، آئی جی خیبرپختونخوا نے ملالہ کے والدکو تین مرتبہ سیکورٹی دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کے لیے صدر آصف زرداری نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ ایک سوال کے جواب رحمن ملک نے کہا کہ مناسب وقت پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوگا اور ابھی مناسب وقت نہیں ہے۔
 دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو دوبارہ قتل کی دھمکیوں کے پیش نظر سیکورٹی اور علاج معالجہ کے امور پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر قتل کی تازہ دھمکیوں کے پیش نظر ملالہ یوسفزئی کے لیے نیا سیکورٹی حصار قائم کر دیا گیا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے گھرکے اندر لیڈی پولیس کمانڈوز اور باہر انسداد دہشت گردی تعینات ہوں گے پیشگی اجازت کے بغیر میل جول پر پابندی ہوگی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا کہ ملالہ یوسفزئی کی حفاظت کے لیے خیبر پختونخوا آئی جی نے دو مرتبہ سیکورٹی دستے بھیجے مگر انکے والد ضیاء الدین نے انکارکر دیا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی زندگی کی حفاظت کے لیے نیا سیکورٹی کوڈ نافذکیا جائے گا گھرکے اندر لیڈی پولیس اور باہر مرد پولیس کمانڈوز تعینات ہوں گے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسفزئی کے واقعہ میں ڈرائیور بھی قصور وار تھا۔ اسکول سے گھر واپسی کے وقت دو لڑکوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسکول وین کو روکا اور انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ ہماری ایک بچی گم ہوگئی ہے اسے تلاش کر رہے ہیں اسکے بعد ایک لڑکے نے ڈرائیورکو باتوں میں مصروف کرلیا ۔

Sunday, October 7, 2012

چیف جسٹس افتخار چوہدری اگلے ہفتے استعفی دے دیں گے۔ اہم شخصیت کا دعوی

CJOP Iftikhar Muhammad Chaudhary
اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بار پھر نئے چہروں کے ساتھ بعض عناصر ایک انتہائی بااثر شخصیت کے ساتھ مل کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک ”مہلک“ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاکہ مذکورہ بااثر شخصیت یہ ثابت کرسکے کہ عدالت اس کے ساتھ انصاف نہیں کررہی۔ اس منصوبے کی تیاریوں میں شامل ایک شخص نے  اس نمائندے کو اشارہ دیا کہ یہ ”دھماکا“ اگلے ہفتے میں کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ حکومت بظاہر ایک غیر جانبدار تماشائی کی طرح رویہ رکھنے کے باوجود عدلیہ پر حملے کی حمایت کرے گی ۔ تاہم کچھ روز قبل جب   اس نمائندے نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سے رابطہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ہے۔ کوئی اشارہ نہیں دیا جارہا کہ آیا اس ”دھماکا خیز مواد“ کی نوعیت کیسی ہے لیکن دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ”حقائق“ سے پردہ اُٹھانے والی پریس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ہی چیف جسٹس مستعفی ہوجائیں گے۔ اس نئے ”دھماکے“ کے موجدوں میں سے ایک موجد موجودہ نظام میں بااثر اور طاقتور لوگوں کے غلط کام ، ان کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی تباہی دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ باوجود اس کے ذریعہ نے اصرار کیا کہ یہ عدلیہ اور میڈیا ہیں جو پاکستان کے مفاد کو سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی اس معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کرے گی تاہم تاثر یہی دیا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لاپتہ افراد اور بلوچستان بحران کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے خوش نہیں، تاہم ایک ذریعے نے حال ہی میں اس نمائندے کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ٹریپ گیٹ اسکینڈل میں آئی ایس آئی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی میڈیا رپورٹس کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی کو ان معاملات سے دور رہنے کی سخت ہدایت کی ہیں۔ ملک ریاض نے حال ہی میں اس نے ملنے والے صحافیوں کو یہ معلومات فراہم کی تھیں جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں نے مبینہ طور پر رقم وصول کرتے ہوئے ڈاکٹر ارسلان کی ویڈیو بنائی تھی ۔ تاہم ڈاکٹر ارسلان نے ان الزامات سے انکار جبکہ آئی ایس آئی حکام نے بھی ایسی رپورٹس کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات بھی کی گئی تھی لیکن اس کے نتائج تاحال معلوم نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ٹریپ گیٹ کے منظر عام پر آنے کے وقت میڈیا میں یہ کہا جارہا تھا کہ اسکینڈل برطانوی میڈیا میں زوروشور سے سامنے آئے گا ۔ اس اسکینڈل کے منتظر اور اس سے خوش ہونے والے افراد کو ایسا نہ ہونے پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسکینڈل پاکستانی میڈیا میں پہلے منظر عام پر آگیا

ایران اور حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو شام پہنچ گئے، باغیوں کا قتلِ عام


شامی اپوزیشن کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ لبنان کی طاقتور ملیشیا کے جنگجوؤں کو لیکر 25 بسیں شامی علاقے میں داخل ہوئیں ہیں تاہم اس دعوے کی کسی دوسرے آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ ادھر برطانوی اخبار "ٹائمز" نے شام میں حزب اللہ کے 1500 جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ اخبار نے اتنی ہی تعداد میں ایرانیوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جس کا تعلق پاسداران انقلاب سے بتایا جاتا ہے۔اخبار نے اس امر کا انکشاف شامی ایئرفورس سے منحرف ہونے والے ایک سابق عہدیدار کے حوالے سے کیا ہے۔ یہ عہدیدار امسال اگست میں سرکاری فوج سے منحرف ہونے کے بعد ان دنوں لبنان میں مقیم ہے۔ٹائمز' کے مطابق حزب اللہ کے ارکان شام کی سرکاری فوج کو لاجسٹک امداد کے علاوہ افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیز وہ فوج میں شامل شوٹرز کو پیشہ وارانہ تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ارکان سرکاری فوج میں شامل کرائے کے قاتلوں کو گینگ وار کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔
حزب اللہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید کے باوجود تنظیم کے مقرب ذرائع، شامی جیش الحر اور خفیہ معلومات تک رسائی رکھنے والے باخبر سفارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لیکر جنگی ساز و سامان تک پہنچا رہی ہے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری اور تنظیم کے دیگر عہدیداروں پر شامی بحران میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں ہیں۔
یہ رپورٹ حزب اللہ کے متعدد اہلکاروں بشمول سرکردہ رہنما علی حسین ناصیف المعروف ابو العباس کی شام میں ہلاکت کے چند دن بعد سامنے آئی ہے۔حزب اللہ نے لبنان میں ناصیف کی تدفین کے موقع پر حزب اللہ کے اہم رہنما موجود تھے، جنہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ناصیف، شام میں اپنا جہادی فرض ادا کرتے ہوئے کام آئے جبکہ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ابو العباس حمص کے قصبے القصیر میں مارے گئے

Tuesday, October 2, 2012

فرانسیسی گلوکارہ اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب اوڑھ کرٹی وی پرآئیں توانکے مداح حیران رہ گئے۔


فرانسیسی گلوکارہ اسلام قبول کرنے کے بعد حجاب اوڑھ کرٹی وی پرآئیں توانکے مداح حیران

رہ گئے۔

دوہزارنوسے پردۂ سکرین پرغائب رہنے کے بعد سابق فرانسیسی گلوکارہ حجاب اوڑھ کرجب ایک ٹیلی ویژن چینل کے ذریعے منظرعام پرآئیں توان کے غیرمسلم مداح انہیں اسلامی حجاب میں دیکھ کرحیران اورپریشان ہوگئے۔ اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ وہ ماضی میں منشیات اورنشہ آورادویہ استعمال کرتی رہی ہیں، تاہم ایک مسلمان دوست سے ملنے کے بعد اور قرآن مجید کوپڑھ کر اور سمجھ کرانہوں نے اسلام قبول کیا۔ دیام کا حجاب کے بارے میں فرانسیسی گلوکارہ نے کہا کہ پردے کوایک شرعی حکم سمجھتی ہیں۔ اورمسلمان ہونے کے بعد سے بہت خوش ہیں۔