طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کے حامل جرمن جریدے ۔ٹائیٹینک نے اکتوبر میں
ایک اسلام ایڈیشن بازار میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ایڈیشن میں جرمنی کی
سابقہ خاتون اول بیٹینا وولف کے بارے میں لطیفے بھی شامل ہوں گے۔جرمن جریدے
’ٹائیٹینک‘ کے اکتوبر کے شمارے کا سر ورق ایک بڑی تصوپر پر مشتمل ہے، جس
میں ایک باریش شخص کو ایک ہاتھ سے ایک خنجر لہراتے دکھایا گیا ہے جبکہ
دوسرے سے اُس نے سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف کی اہلیہ بیٹینا وولف کو تھام
رکھا ہے۔ اس کے نیچے درج عبارت یہ تاثر دیتی نظر آتی ہے کہ گویا بیٹینا
وولف پیغمر اسلام سے متعلق بننے والی متنازعہ فلم میں اداکاری کے جوہر دکھا
رہی ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس طرح کا سرورق بہت سے مسلمان ملکوں
میں مغربی دُنیا کے خلاف جاری ہنگاموں کو مزید ہوا دینے کا باعث نہیں بنے
گا، اس جریدے کے چیف ایڈیٹر لیو فشر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’نہیں مجھے
ایسا نہیں لگتا۔ میرے خیال میں تو یہ اُلٹا عرب دنیا میں حالات کو تھوڑا سا
ٹھنڈا کرنے کا باعث بنے گا۔ مَیں نے خود بھی قرآن کئی مرتبہ پڑھا ہے اور
مجھے ایک بھی ایسی عبارت یا سورۃ نظر نہیں آئی، جو اس طرح کے سرورق کی
ممانعت کرتی ہو۔ قرآن بیٹینا وولف کا مذاق اڑانے کی ممانعت نہیں کرتا۔ اور
یہ بات مَیں ہر اُس مسلمان کو سمجھاؤں گا، جو اس بابت مجھ سے کوئی سوال
کرےگا۔لیو فشر کے خیال میں بیٹینا وولف اپنی نئی کتاب کی تشہیر کے لیے ہر
حربہ استعمال کرنا چاہیں گی، یہاں تک کہ وہ کسی اسلام مخالف فلم میں بھی
کام کرنے پر تیار ہو جائیں گی اور یہ کہ اس سرورق کے ذریعے وہ اسی نکتے کو
اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔لیو فشر نے رواں ہفتے بدھ کو فرانسیسی جریدے ’چارلی
ہیبڈو‘ میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کا بھی یہ کہہ
کر دفاع کیا کہ مسلم دنیا میں جاری ’جنونی ہنگاموں‘ پر یہی درست رد عمل ہے۔
جمعرات کو سینکڑوں مسلمانوں نے تہران میں واقع فرانسیسی سفارت خانے پر
حملہ کیا اور محض پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی ہی ان مظاہرین کو سفارت
خانے پر دھاوا بولنے سے روک سکی۔ آج جمعے کو مزید احتجاجی مظاہروں کے قوی
امکان کے پیش نظر فرانس ہی نہیں جرمنی نے بھی متعدد ملکوں میں اپنے سفارتی
مشنوں کے لیے حفاظتی انتظامات زیادہ سخت کر دیے ہیں۔جرمن وزیر خارجہ گیڈو
ویسٹر ویلے نے ’ٹائیٹینک‘ کے اسلام ایڈیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب
میں ایسے مزید اقدامات سے پرہیز کرنے پر زور دیا، جو انتہا پسند مسلمانوں
کو مزید اشتعال دلانے کا باعث بنیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’اظہار رائے کی آزادی
اس بات کی آزادی نہیں ہے کہ آپ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی توہین کریں یا
اُنہیں گالی دیں‘۔ آئینی تحفظ کے جرمن محکمے کے صدر ہنس گیورگ ماسن نے بھی
خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر متنازعہ فلم کی جرمنی میں نمائش ہوئی یا
پیغمبر اسلام کے خاکے جرمن اخبارات میں شائع ہوئے تو نہ صرف جرمنی کے اندر
پُر تشدد واقعات خارج از امکان نہیں ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں جرمن مراکز
کو بھی خطرہ ہے۔جرمن جریدے ’ٹائیٹینک‘ کے مدیر اعلیٰ لیو فشر کے مطابق اس
طرح خود پر سنسر شپ عائد کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ احتجاجی مظاہرے کرنے والے
ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیں گے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ
’ٹائیٹنک‘ کے منتظمین اپنے جریدے کی فروخت بڑھانے کے لیے ایک ایسے موضوع کا
سہارا لے رہے ہیں، جو آج کل ہر شخص کی زبان پر ہے۔ اس سال جولائی میں اس
جریدے کے ٹائیٹل پر پاپائے روم کی تصویر شائع ہوئی تھی اور اُس ایڈیشن کی
ستر فیصد زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ نہ صرف کئی ایک کیتھولک مسیحیوں کو
اس ٹائیٹل پر اعتراض تھا بلکہ پاپائے روم کی جانب سے بھی اس جریدے کے خلاف
عدالت سے رجوع کیا گیا تھا
No comments:
Post a Comment