حماہ صوبے میں واقع ایک گاؤں میں شامی فوجی کی کارروائی کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد شہریوں کی بتائی جا رہی ہے۔حماہ میں فری سیرئین آرمی کے ایک کمانڈر ابو قمر نے ایک میڈیا کو بتایا کہ ملکی فوج نے سنی اکثریتی آبادی پر مشتمل التريمسة نامی گاؤں پر شیلنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 220 افراد مارے گئے جبکہ تین سو سے زائد زخمی ہو گئے۔شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے بقول فوج نے اس کارروائی میں ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کا استعمال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ سات ہزار نفوس پر آباد یہ گاؤں اب مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے، ’’ یا تو لوگ مر گئے یا وہاں سے فرار ہو گئے۔شامی سرکاری ٹیلی وژن نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قتل عام‘ کی اس کارروائی کے پیچھے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ مزید کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد حکومت کی حامی فوج نے گاؤں میں داخل ہو کر لوگوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا، ’’علاقے میں موجود گھروں اور مساجد کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔فری سیریئن آرمی کے چیف رعد الاسد نے شامی عوام سے اپیل کی ہے کہ اس ’قتل عام‘ کی مذمت کرنے کے لیے وہ جمعے کے دن عام ہڑتال کریں۔ انہوں نے اس کارروائی کو لرزہ خیز جرم قرار دیا ہے۔ اگر اس قتل عام کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ شام میں گزشتہ برس مارچ میں شروع ہونے والی بغاوت کا خونریز ترین دن بن جائے گا۔شام میں قتل عام کا یہ مبینہ واقعہ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب وہاں قیام امن کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام سے متعلق نئی قرار داد کے مسودے پر بحث شروع کی ہے۔ اس حوالے سے عالمی کوششیں بدستور تعطل کا شکار نظر آ رہی ہیں۔ جمعرات کے دن روس نے شامی حکومت پر ممکنہ پابندیوں کو ایک مرتبہ پھر رد کر دیا
No comments:
Post a Comment