اسلام آباد ميں امريکي سفارتخانے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وفاقي دارالحکومت ميں ايک ايليٹ اسکول چین ، بیکن ہائوس نے ہم جنس پرستوں کا اجتماع اسی مہینے کی سولہ تاریخ کو اپنے ہیڈ آفس میں بلا لیا ہے ۔ اسکول کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس کی جانب سے ہم جنس پرستوں کے حقوق پر مباحثے کا اہتمام کيا ہے جو 16جولائي کو اسلام آباد ميں اسکول کي مرکزي برانچ ميں ہوگا، مذکورہ اسکول اس مباحثے کو ”ميونخ ڈي بيٹس“ پروگرام کے تحت منعقد کررہا ہے، واضح رہے کہ ان اسکولوں کے سلسلے کي سربراہ ايک خاتون ہيں جو ملک ميں تيزي سے ابھرنے والي تحریک انصاف کی سينئر عہديدار بھي بتائي جاتي ہيں۔ ان کے شوہر پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور وہ مشرف کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اب وہ تحریک انصاف میں عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں۔ لوگ انہیں خورشید محمود قصوری کے نام سے جانتےہیں۔ ان کی اہلیہ دی ایجوکیٹر اور بیکن ہائوس کے نام سے اسکولوں کی چین چلاتی ہیں جہاں مغربی تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں اس سےپہلے بھی کئی تنازعات کھڑے ہوتے رہے ہیں جن میں رمضان میں ڈانس پارٹیاں کرانا بھی شامل ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس وقت چونکہ پاکستان میں امریکی سفیر ہم جنس پرست ہیں اس لئے اسلام آباد میں ان کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہم جنس پرستی اہم جز قرار پائی ہے اس لئے اکثر لوگ ہم جنس پرست بن رہے ہیں یا اپنے آپ کو ہم جنس پرست ظاہر کررہے ہیں۔اسی لئے تحریک انصاف کے سینئر رہنما خورشید محمود قصوری کی اہلیہ نے ا پنے اسکول بیکن ہائوس کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کا ایک اجتماع اسی ماہ کی سولہ تاریخ کو منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں امریکی سفیر بھی شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس انہی دنوں امریکی سفیر نے ہم جنس پرستوں کا اجتماع بلایا تھا۔
پاکستان میں ہم جنس پرست زیر زمین منظم ہو رہے ہیں اور ان کے باقاعدگی سے اجتماعات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بیرون ملک تنظیموں سے بھی روابط ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستوں کی تحریک خاموشی سے مگر منظم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس حوالے سے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو امریکی سفارتخانے کا تعاون حاصل ہے۔ خود امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس جون 2011 کو امریکی سفیر نے ہم جنس پرست گروپوں کو سفارتخانے مدعو کیا تھا اور ان کو ان کے حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً 75 افراد نے شرکت کی جن میں سفارتخانے کا عملہ، امریکی فوجی، غیر ملکی سفارتکار، پاکستان میں ایڈووکیسی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں کے پاکستان چیپٹر کے رہنما شامل تھے۔پڑوسی ملک بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی جس میں شرکاء کو پاکستان میں بھی امریکہ کی جانب سے اس مقصد کیلئے حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا گیا۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے گذشتہ 26 جون کو جاری پریس ریلیز میں یہ بات عام کی گئی کہ ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ اور گیزاینڈلیبیئنس ان فارن افیئرز ایجنسیز (جی ایل آئی ایف اے اے) کے ارکان نے امریکی سفارت خانے میں پہلے ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب گذشتہ 26 جون کو منعقد کی۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں ایک ایسے وقت جب انتہا پسند عناصر پورے معاشرے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ایسے میں اجتماع میں انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے امریکی سفارت خانے کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اس تقریب میں مشن آفیسرز، امریکی فوجی نمائندوں، غیرملکی سفارتکار اور پاکستان میں گے، لیسبین، ہائی سیکسوڈل اینڈ ٹرانس جینڈر (جی ایل بی ٹی) ایڈووکیسی گروپ کے نمائندوں سمیت 75 افراد نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے رسمی ریمارکس میں ناظم الامور نے امریکی صدر باراک اوباما کے 31 مئی 2011 کے قابل فخر اعلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنسی و صنفی شناخت سے ماوراء تمام کیلئے مساوی حقوق کی جدوجہد خود کو ازسرنو وقف کرتے ہیں۔ پاکستانی ہم جنس پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور نے کہا گو کہ ان کی جدوجہد ابتدائی مراحل میں ہے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی سفارت خانہ نہ صرف ان کا حامی بلکہ ہر قدم پر ان کے شانہ بشانہ ہے۔
اس کے بعد اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہم جنس پرستوں کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر پریڈ تھی۔ ہم جنس پرستی کی نشانی والی آٹھ رنگوں کی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کرسکے مگر وہ لوگ جو انھیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب رہتے ہیں، انھیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے۔ہم جنس پرستوں نے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اپنے گروپس بنائے ہیں جن کے کئی سو ممبران ہیںپریڈ میں شریک نوجوان ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے تردید کی تھی کہ ملک میں ہم جنس پرست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پریڈ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت کو بتایا جائے ہم موجود ہیں اور ہمیں تسلیم کیا جائے۔ان کے ساتھی تحسین کا کہنا تھا ’اس پریڈ سے پہلے بہت بحث مباحثہ ہوا، کافی ڈر اور خوف بھی تھا کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر انسان ڈر کر زندگی گذار رہا ہے۔ ان حالات میں ہم اتنے بڑے حق کے لیے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ بعد میں ہم نے یہ سوچا کہ ہر چیز کی ابتدا کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہے کسی کوتو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ یہ سوچ کر ہمارا ڈر اور خوف جاتا رہا۔‘
سولہ سالہ مانی طالب علم ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہم جنس پرستی کے بارے میں بچپن ہی سے معلوم ہو جاتا ہے مگر گھر والوں کو بتانا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے جذبات، احساسات اور رجحان کو سمجھنے کے لیے انہیں شعور نہیں ہے۔ اگر بتا دیا جائے تو گھر والے ہم پر پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ہمیں تیسری جنس سمجھنے لگتے ہیں۔‘
مانی کا کہنا ہے کہ نئی نسل انٹرنیٹ سے باخبر ہے اور اسی کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے۔ ’انٹر نیٹ پر کئی راستے موجود ہیں جہاں آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔‘ ان کے ایک اور ساتھی ڈیوڈ کے مطابق درمیانے درجے کے خاندان یا مڈل کلاس کے علاوہ بڑے گھرانوں کے کئی لوگ بھی ان کےگروپس میں موجود ہیں۔
تحسین انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’یہاں اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ جو آپ نہیں ہیں وہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر آپ لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو پھر لڑکی سے کیسے شادی کرسکتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہم جنس پرستوں کو خاندانی اور سماجی دباؤ کے تحت لڑکیوں سے شادی کرنی پڑی مگر بعد میں ان لڑکیوں کی زندگی برباد ہوئی۔ اس لیے کہ وہ ان لڑکیوں کو چھوتے تک نہیں ہیں۔‘
کراچی میں ہم جنس پرستوں کے مخصوص مقامات ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ شہر سے باہر ساحل سمندر اور فارم ہاؤس ان کی بڑی پارٹیوں کا مرکز ہیں جس کے لیے سنیچر کی شام مختص ہوتی ہے۔ تحسین کے مطابق ہم جنس پرست منظم ہیں اور ان کی پارٹیاں مقامی اور ملکی سطح کی ہوتی ہیں جن میں کئی سو لوگ شریک ہوتے ہیں۔
’اس سے پہلے چھاپے نہیں پڑتے تھے مگر اب پولیس جان بوجھ کر آتی ہے اور پارٹی بند کردیتی ہے۔ آرگنائزرز سے پیسے چھین لیے جاتے ہیں اور کھانا اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔ اس پارٹی میں کوئی بھی غیر قانونی چیز نہیں ہوتی۔ اس میں نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی نہیں کیا جاتا صرف ملنے ملانے کی پارٹی اور ڈانس ہوتا ہے۔‘پاکستان کے ہم جنس پرستوں کا انٹرنیشنل لسبیئن اینڈ گے ایسوسی ایشن سمیت برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے رابطہ ہے۔ تحسین کے مطابق ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحفظ یا حقوق وہ اپنے ملک میں تو دلا سکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے، یہاں انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ہم جنس پرستی پاکستان کے قوانین اور مذہبی حوالے سے ناقابل قبول ہے اور ملکی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزاء دس سال قید یا کوڑے ہیں۔پاکستان میں کچھ واقعات ایسےبھی ہوئے ہیں جن میں کچھ لوگوں نے خود کو ہم جنس پرست قرار دے کر بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کی۔ مگر مانی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے سیاسی پناہ مل سکتی ہے۔’ اگر کوئی راستہ نظر آتا ہے تو وہاں سے صحیح اور غلط دونوں لوگ گذرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو حقیقی ہم جنس پرست ہیں وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
پاکستان میں ہم جنس پرستی نہ تو لوگوں اور نہ ہی میڈیا میں کبھی موضوعِ بحث رہی ہے۔ انگریزی اخبارات میں بیرون ملک ہم جنس پرستوں کی کہانیاں اور تبصرے پڑھنے کوتو ملتے ہیں مگر پاکستان کے ہم جنس پرستوں کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعلامیے میں تمام اداروں اور رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے
پاکستان میں ہم جنس پرست زیر زمین منظم ہو رہے ہیں اور ان کے باقاعدگی سے اجتماعات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بیرون ملک تنظیموں سے بھی روابط ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستوں کی تحریک خاموشی سے مگر منظم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس حوالے سے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو امریکی سفارتخانے کا تعاون حاصل ہے۔ خود امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس جون 2011 کو امریکی سفیر نے ہم جنس پرست گروپوں کو سفارتخانے مدعو کیا تھا اور ان کو ان کے حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً 75 افراد نے شرکت کی جن میں سفارتخانے کا عملہ، امریکی فوجی، غیر ملکی سفارتکار، پاکستان میں ایڈووکیسی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں کے پاکستان چیپٹر کے رہنما شامل تھے۔پڑوسی ملک بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی جس میں شرکاء کو پاکستان میں بھی امریکہ کی جانب سے اس مقصد کیلئے حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا گیا۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے گذشتہ 26 جون کو جاری پریس ریلیز میں یہ بات عام کی گئی کہ ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ اور گیزاینڈلیبیئنس ان فارن افیئرز ایجنسیز (جی ایل آئی ایف اے اے) کے ارکان نے امریکی سفارت خانے میں پہلے ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب گذشتہ 26 جون کو منعقد کی۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں ایک ایسے وقت جب انتہا پسند عناصر پورے معاشرے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ایسے میں اجتماع میں انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے امریکی سفارت خانے کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اس تقریب میں مشن آفیسرز، امریکی فوجی نمائندوں، غیرملکی سفارتکار اور پاکستان میں گے، لیسبین، ہائی سیکسوڈل اینڈ ٹرانس جینڈر (جی ایل بی ٹی) ایڈووکیسی گروپ کے نمائندوں سمیت 75 افراد نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے رسمی ریمارکس میں ناظم الامور نے امریکی صدر باراک اوباما کے 31 مئی 2011 کے قابل فخر اعلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنسی و صنفی شناخت سے ماوراء تمام کیلئے مساوی حقوق کی جدوجہد خود کو ازسرنو وقف کرتے ہیں۔ پاکستانی ہم جنس پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور نے کہا گو کہ ان کی جدوجہد ابتدائی مراحل میں ہے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی سفارت خانہ نہ صرف ان کا حامی بلکہ ہر قدم پر ان کے شانہ بشانہ ہے۔
اس کے بعد اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہم جنس پرستوں کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر پریڈ تھی۔ ہم جنس پرستی کی نشانی والی آٹھ رنگوں کی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کرسکے مگر وہ لوگ جو انھیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب رہتے ہیں، انھیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے۔ہم جنس پرستوں نے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اپنے گروپس بنائے ہیں جن کے کئی سو ممبران ہیںپریڈ میں شریک نوجوان ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے تردید کی تھی کہ ملک میں ہم جنس پرست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پریڈ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت کو بتایا جائے ہم موجود ہیں اور ہمیں تسلیم کیا جائے۔ان کے ساتھی تحسین کا کہنا تھا ’اس پریڈ سے پہلے بہت بحث مباحثہ ہوا، کافی ڈر اور خوف بھی تھا کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر انسان ڈر کر زندگی گذار رہا ہے۔ ان حالات میں ہم اتنے بڑے حق کے لیے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ بعد میں ہم نے یہ سوچا کہ ہر چیز کی ابتدا کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہے کسی کوتو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ یہ سوچ کر ہمارا ڈر اور خوف جاتا رہا۔‘
سولہ سالہ مانی طالب علم ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہم جنس پرستی کے بارے میں بچپن ہی سے معلوم ہو جاتا ہے مگر گھر والوں کو بتانا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے جذبات، احساسات اور رجحان کو سمجھنے کے لیے انہیں شعور نہیں ہے۔ اگر بتا دیا جائے تو گھر والے ہم پر پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ہمیں تیسری جنس سمجھنے لگتے ہیں۔‘
مانی کا کہنا ہے کہ نئی نسل انٹرنیٹ سے باخبر ہے اور اسی کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے۔ ’انٹر نیٹ پر کئی راستے موجود ہیں جہاں آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔‘ ان کے ایک اور ساتھی ڈیوڈ کے مطابق درمیانے درجے کے خاندان یا مڈل کلاس کے علاوہ بڑے گھرانوں کے کئی لوگ بھی ان کےگروپس میں موجود ہیں۔
تحسین انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’یہاں اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ جو آپ نہیں ہیں وہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر آپ لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو پھر لڑکی سے کیسے شادی کرسکتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہم جنس پرستوں کو خاندانی اور سماجی دباؤ کے تحت لڑکیوں سے شادی کرنی پڑی مگر بعد میں ان لڑکیوں کی زندگی برباد ہوئی۔ اس لیے کہ وہ ان لڑکیوں کو چھوتے تک نہیں ہیں۔‘
کراچی میں ہم جنس پرستوں کے مخصوص مقامات ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ شہر سے باہر ساحل سمندر اور فارم ہاؤس ان کی بڑی پارٹیوں کا مرکز ہیں جس کے لیے سنیچر کی شام مختص ہوتی ہے۔ تحسین کے مطابق ہم جنس پرست منظم ہیں اور ان کی پارٹیاں مقامی اور ملکی سطح کی ہوتی ہیں جن میں کئی سو لوگ شریک ہوتے ہیں۔
’اس سے پہلے چھاپے نہیں پڑتے تھے مگر اب پولیس جان بوجھ کر آتی ہے اور پارٹی بند کردیتی ہے۔ آرگنائزرز سے پیسے چھین لیے جاتے ہیں اور کھانا اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔ اس پارٹی میں کوئی بھی غیر قانونی چیز نہیں ہوتی۔ اس میں نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی نہیں کیا جاتا صرف ملنے ملانے کی پارٹی اور ڈانس ہوتا ہے۔‘پاکستان کے ہم جنس پرستوں کا انٹرنیشنل لسبیئن اینڈ گے ایسوسی ایشن سمیت برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے رابطہ ہے۔ تحسین کے مطابق ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحفظ یا حقوق وہ اپنے ملک میں تو دلا سکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے، یہاں انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ہم جنس پرستی پاکستان کے قوانین اور مذہبی حوالے سے ناقابل قبول ہے اور ملکی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزاء دس سال قید یا کوڑے ہیں۔پاکستان میں کچھ واقعات ایسےبھی ہوئے ہیں جن میں کچھ لوگوں نے خود کو ہم جنس پرست قرار دے کر بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کی۔ مگر مانی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے سیاسی پناہ مل سکتی ہے۔’ اگر کوئی راستہ نظر آتا ہے تو وہاں سے صحیح اور غلط دونوں لوگ گذرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو حقیقی ہم جنس پرست ہیں وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
پاکستان میں ہم جنس پرستی نہ تو لوگوں اور نہ ہی میڈیا میں کبھی موضوعِ بحث رہی ہے۔ انگریزی اخبارات میں بیرون ملک ہم جنس پرستوں کی کہانیاں اور تبصرے پڑھنے کوتو ملتے ہیں مگر پاکستان کے ہم جنس پرستوں کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعلامیے میں تمام اداروں اور رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے
No comments:
Post a Comment