Sunday, July 29, 2012
Thursday, July 26, 2012
قتل عام بند کرو ورنہ برما کے مفادات پر حملے کریں گے۔طالبان کی دھمکی
پاکستانی طالبان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری جرائم کے حوالے سے میانمار کو دھمکی دی ہے۔ پاکستانی حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تعلقات فوری طور پر ختم کر دے۔روہنگیا مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان کے خلاف جرائم کی خبروں پر پاکستانی طالبان کی طرف سےکہا گیا ہے، ’’ہم آپ کے خون کا بدلہ لیں گے۔‘‘ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تر تعلقات ختم کرتے ہوئے اسلام آباد میں میانمار کا سفارت خانہ بند کر دے، ’’ورنہ ہم نہ صرف برما کے مفادات پر حملے کریں گے بلکہ پاکستان میں برما کے ساتھیوں کو بھی ایک ایک کر کے نشانہ بنائیں گے۔ اسلام آباد میں میانمار کے سفارت خانے سے اس دھمکی پر رد عمل جاننے کے لیے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تاہم پاکستان سے باہر حملوں کے حوالے سے اس تنظیم کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ 2010ء میں نیویارک کے ٹائم اسکوائر پر بم دھماکے کی ناکام کوشش کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ تھا۔ اس حملے کی کوشش کے جرم میں ایک امریکی شہری فیصل شہزاد عمر قید کاٹ رہا ہے۔میانمار کے مشرقی علاقے میں راکھنی بدھ کمیونٹی اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان حالیہ فسادات کے باعث درجنوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس کے پاس روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی معتبر اطلاعات ہیں۔ ان میں خواتین کی عصمت دری، املاک کی تباہی اور ان کی غیر قانونی ہلاکتیں شامل ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق ان مظالم میں راکھنی بدھوں کے علاوہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی ملوث ہیںایمنسٹی کی طرف سے مزید بتایا گیا کہ روہنگیا آبادی والے علاقوں سے سینکڑوں مردوں اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ایمنسٹی کے مطابق زیادہ تر گرفتاریاں من مانے طریقے سے اور امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے کی گئیں۔روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے میانمار میں آباد ہیں تاہم انہیں وہاں کی شہریت دینے کی بجائے بے وطن گردانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میانمار میں آباد روہنگیا مسلمانوں کو مظلوم ترین اقلیت قرار دیتی ہے
Monday, July 23, 2012
ٹی وی ڈرامے میں حضرت عمرؓ کا کردار: علما اختلافات شدید تر
مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن "ایم بی سی" کی تیار کردہ رمضان ڈرامہ سیریز ایک ایسے وقت میں ٹی وی پر نشر کے لیے پیش کی جا رہی ہے جب علماء اور دینی حلقے اب بھی "تمثیل صحابہ" کی حمایت اور مخالف میں تقسیم ہیں۔ یہ ڈرامہ سیریز اس سال رمضان المبارک میں "ایم بی سی" نیٹ ورک پر نشر کی جائے گی۔علماء کی ایک کثیر تعداد جلیل القدر صحابی رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کردار کو ڈرامائی شکل دینے اور ان کی خدمات کو عام کرنے کے لیے ان کی تمثیل کی حامی ہے جبکہ علماء کا دوسرا گروپ اس دلیل کے تحت اس کی مخالفت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کی دور جدید میں ڈرامائی تشکیل ان کی توہین کے متراف ہے۔
خیال رہے کہ "ایم بی سی" گروپ کی جانب سے ایک سال قبل ڈرامہ سیریز عمر فاروق نشر کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد علماء اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ایم بی سی کے زیر اہتمام تیار کی جانے والی اس سیریز میں حضرت عمر فاروق کی اسلام کی اشاعت، دعوت، اسلامی ریاست کے قیام، ان کے شخصی خصائل اور خاص طور پر عمر فاروق عالم اسلام کے ایک بہترین "رول ماڈل" پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تمثیل انبیاء و صحابہ درست نہیں!
مصر کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازھر کی سپریم علماء کمیٹی کے رکن ڈاکٹر محمد رافت عثمان نے"کہا کہ "ہم ڈارمہ سیریز عمر فاروق کے بارے میں پہلے بھی اپنے رائے دے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں جامعہ الازھر کی اسلامک ریسرچ اکیڈیمی آج بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ انبیائے کرام، صحابہ کرام بالخصوص عشرہ مبشرہ اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل غلط ہے، اس سے ان بزرگ شخصیات کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ حضرت عمر فاروق بھی ایک جلیل القدر صحابی رسول ہیں اور عشرہ مبشرہ میں بھی ان کا نام شامل ہے لہٰذا ان کی تمثیل جائز نہیں ہو گی"۔
مصر کے ایک دوسرے عالم دین شیخ عبدالفتاح عساکر نے "کہا کہ "قرآن مجید میں کہیں بھی صحابہ کرام کی تمثیل کی ممانعت موجود نہیں ہے"، جبکہ شیخ ابراھیم رضا نے کہا کہ "میں بعض شرائط کے تحت تمثیل صحابہ کا قائل ہیں بہ شرطیکہ تمثیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کی وضاحت مقصود ہو اور اس کے لیے صحابہ کرام کی کسی شخصیت کو بطور مثال پیش کیا جائے۔ اس کےعلاوہ کسی دوسری شکل میں صحابہ کی تمثیل جائز نہیں ہو گی۔
مکہ مکرمہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر شعبے کے سابق چیئرمین الشیخ ڈاکٹر احمد الغامدی نے کہا کہ "میں خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کی تمثیل پر مبنی ڈرامہ سیریز کی پہلے بھی حمایت کر چکا ہوں کیونکہ میرے پاس تمثیل صحابہ کی ممانعت میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہوتی۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر الغامدی نے کہا کہ "ڈرامہ سیریز میں حضرت عمر فاروق کی توہین کا پہلو تب نکلے گا جب ان کی شخصیت کو غلط انداز میں پیش کیا جائے گا اور حقائق کو ٹھکرایا جائے گا جبکہ ہم نئی نسل کو حضرت عمر فاروق کی شخصیت کی خوبیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں جن سے عام لوگ واقف نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خلفاء راشدین اور دیگر بزرگ ہستیوں کی تمثیل اس مقصد کے لیے جائز ہے کہ ہم ان کے ذریعے اسلام کی سنہری اقدار کے بارے میں اپنے عوام کو آگاہ کریں۔ فلم "حضرت عمر فاروق" کی اسلام کے لئے خدمت تصور کی جانی چاہیے کیونکہ اس کا مقصد بھی اسلامی اقدار و روایات کو عام کرنا ہے"۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں شیخ الغامدی نے کہا کہ جو لوگ تمثیل صحابہ کے قائل نہیں اور وہ اسے مطلق حرام قرار دیتے ہیں وہ اپنی دلیل کے جواز کے لیے قرآن کریم یا سنت نبوی سے کوئی دلیل پیش کریں تو میں بھی مان جاؤں گا۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں سعودی عالم دین نے کہا کہ صحابہ کرام کی تمثیل کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بعض لوگ صحابہ کرام اور عام لوگوں میں خلط ملط کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تمثیل صحابہ کی ممانعت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے۔ صحابہ کرام کا بلند مقام و مرتبہ مسلمانوں میں پہلے ہی سے راسخ ہے۔
مقام صحابہ اور ڈرامہ سیریز
ڈرامہ سیریز میں صحابی رسول کی شکل میں کسی دوسرے شخص کو بہ طور تمثیل پیش کرنے کےمخالف مصری عالم دین ڈاکٹر رافت عثمان نے کہا کہ "انبیاء، رسل اور صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور برگزیدہ بندوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ڈرامے میں ان کی شکل یا شبیہ بنا کر پیش کرنا ان کی توہین ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت "إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين" (کہ اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران علیہ السلام کو تمام جہانوں میں سے اپنے پسندیدہ بندوں میں چن لیا تھا" بطور دلیل پیش کی اور کہا کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندگان خاص میں شمار کر لے ان کی تمثیل کیوں کر جائز ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ ہمیں کسی صحابی کی تمثیل کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے اظہار کے بجائے صحابہ کرام کے بلند مقام و مرتبے کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ایک دوسرے عالم دین ڈاکٹر محمد الشحات الجندی نے کہا کہ "عشرہ مبشرہ اور چاروں خلفاء الراشدین کسی تمثیل سے مبریٰ ہیں۔ ان کا ڈرامائی کردار پیش کرنا صحابہ کرام کی صریحا توہین ہے۔ اسلام نے ان جلیل القدر شخصیات کو بہت اونچا مقام عطا کیا ہے۔ ان کی شخصیات، تعلیمات، افکار اور اعمال ہی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی تمثیل نہیں۔ میرے خیال میں تکریم صحابہ اسی طرح وجوب کا درجہ رکھتی ہے جس طرح تکریم رسول وجوب کا درجہ رکھتی ہے۔
خیال رہے کہ "ایم بی سی" گروپ کی جانب سے ایک سال قبل ڈرامہ سیریز عمر فاروق نشر کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد علماء اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ایم بی سی کے زیر اہتمام تیار کی جانے والی اس سیریز میں حضرت عمر فاروق کی اسلام کی اشاعت، دعوت، اسلامی ریاست کے قیام، ان کے شخصی خصائل اور خاص طور پر عمر فاروق عالم اسلام کے ایک بہترین "رول ماڈل" پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تمثیل انبیاء و صحابہ درست نہیں!
مصر کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازھر کی سپریم علماء کمیٹی کے رکن ڈاکٹر محمد رافت عثمان نے"کہا کہ "ہم ڈارمہ سیریز عمر فاروق کے بارے میں پہلے بھی اپنے رائے دے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں جامعہ الازھر کی اسلامک ریسرچ اکیڈیمی آج بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ انبیائے کرام، صحابہ کرام بالخصوص عشرہ مبشرہ اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل غلط ہے، اس سے ان بزرگ شخصیات کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ حضرت عمر فاروق بھی ایک جلیل القدر صحابی رسول ہیں اور عشرہ مبشرہ میں بھی ان کا نام شامل ہے لہٰذا ان کی تمثیل جائز نہیں ہو گی"۔
مصر کے ایک دوسرے عالم دین شیخ عبدالفتاح عساکر نے "کہا کہ "قرآن مجید میں کہیں بھی صحابہ کرام کی تمثیل کی ممانعت موجود نہیں ہے"، جبکہ شیخ ابراھیم رضا نے کہا کہ "میں بعض شرائط کے تحت تمثیل صحابہ کا قائل ہیں بہ شرطیکہ تمثیل کا مقصد اسلامی تعلیمات کی وضاحت مقصود ہو اور اس کے لیے صحابہ کرام کی کسی شخصیت کو بطور مثال پیش کیا جائے۔ اس کےعلاوہ کسی دوسری شکل میں صحابہ کی تمثیل جائز نہیں ہو گی۔
مکہ مکرمہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر شعبے کے سابق چیئرمین الشیخ ڈاکٹر احمد الغامدی نے کہا کہ "میں خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کی تمثیل پر مبنی ڈرامہ سیریز کی پہلے بھی حمایت کر چکا ہوں کیونکہ میرے پاس تمثیل صحابہ کی ممانعت میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہوتی۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر الغامدی نے کہا کہ "ڈرامہ سیریز میں حضرت عمر فاروق کی توہین کا پہلو تب نکلے گا جب ان کی شخصیت کو غلط انداز میں پیش کیا جائے گا اور حقائق کو ٹھکرایا جائے گا جبکہ ہم نئی نسل کو حضرت عمر فاروق کی شخصیت کی خوبیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں جن سے عام لوگ واقف نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خلفاء راشدین اور دیگر بزرگ ہستیوں کی تمثیل اس مقصد کے لیے جائز ہے کہ ہم ان کے ذریعے اسلام کی سنہری اقدار کے بارے میں اپنے عوام کو آگاہ کریں۔ فلم "حضرت عمر فاروق" کی اسلام کے لئے خدمت تصور کی جانی چاہیے کیونکہ اس کا مقصد بھی اسلامی اقدار و روایات کو عام کرنا ہے"۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں شیخ الغامدی نے کہا کہ جو لوگ تمثیل صحابہ کے قائل نہیں اور وہ اسے مطلق حرام قرار دیتے ہیں وہ اپنی دلیل کے جواز کے لیے قرآن کریم یا سنت نبوی سے کوئی دلیل پیش کریں تو میں بھی مان جاؤں گا۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں سعودی عالم دین نے کہا کہ صحابہ کرام کی تمثیل کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بعض لوگ صحابہ کرام اور عام لوگوں میں خلط ملط کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تمثیل صحابہ کی ممانعت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے۔ صحابہ کرام کا بلند مقام و مرتبہ مسلمانوں میں پہلے ہی سے راسخ ہے۔
مقام صحابہ اور ڈرامہ سیریز
ڈرامہ سیریز میں صحابی رسول کی شکل میں کسی دوسرے شخص کو بہ طور تمثیل پیش کرنے کےمخالف مصری عالم دین ڈاکٹر رافت عثمان نے کہا کہ "انبیاء، رسل اور صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور برگزیدہ بندوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ڈرامے میں ان کی شکل یا شبیہ بنا کر پیش کرنا ان کی توہین ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت "إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين" (کہ اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران علیہ السلام کو تمام جہانوں میں سے اپنے پسندیدہ بندوں میں چن لیا تھا" بطور دلیل پیش کی اور کہا کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندگان خاص میں شمار کر لے ان کی تمثیل کیوں کر جائز ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ ہمیں کسی صحابی کی تمثیل کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے اظہار کے بجائے صحابہ کرام کے بلند مقام و مرتبے کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ایک دوسرے عالم دین ڈاکٹر محمد الشحات الجندی نے کہا کہ "عشرہ مبشرہ اور چاروں خلفاء الراشدین کسی تمثیل سے مبریٰ ہیں۔ ان کا ڈرامائی کردار پیش کرنا صحابہ کرام کی صریحا توہین ہے۔ اسلام نے ان جلیل القدر شخصیات کو بہت اونچا مقام عطا کیا ہے۔ ان کی شخصیات، تعلیمات، افکار اور اعمال ہی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی تمثیل نہیں۔ میرے خیال میں تکریم صحابہ اسی طرح وجوب کا درجہ رکھتی ہے جس طرح تکریم رسول وجوب کا درجہ رکھتی ہے۔
Saturday, July 21, 2012
ایک آیت جس کو پڑھ کر پانچ سو افراد مسلمان ہو گئے
ممتاز سعودی عالم ابو عبد الرحمن محمد العریفی کہتے ہیں كه میں یمن گیا اور شیخ عبد المجید زندانی سے ملا جو جید عالم دین ہیں اور قرآن کریم کے علمی اعجاز او ر سائنسی تجربات جو قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں پر معمور ہیں اور شیخ نے اس پر کافی کام کیا ہے۔ میں نے شیخ سے پوچھا کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں میں نے کہا مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں۔
شیخ کہنے لگے۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے انکشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے اُن کا وہم ہے ) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے پھر اس نے مثالیں دیں مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا، اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔
شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں، پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا۔
شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں اُس نے کہا وہ کیسے؟
شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پڑھی
سورہ النّسا
شیخ کہنے لگے۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے انکشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے اُن کا وہم ہے ) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے پھر اس نے مثالیں دیں مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا، اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔
شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں، پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا۔
شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں اُس نے کہا وہ کیسے؟
شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پڑھی
سورہ النّسا
'' إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا(٥٦)۔
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے (56)۔
یعنی کہ جب اہل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی تواللہ نئی جلد اورکھال دےگا تاکہ نافرمان لوگ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے۔شیخ کہتے ہیں جب مین نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے ؟
سب نے کہا ترجمہ صحیح ہے، وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا۔شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ، انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا، وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُس نے کہا مجھے قرآن کا ترجمہ دو، شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا۔شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے
یعنی کہ جب اہل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی تواللہ نئی جلد اورکھال دےگا تاکہ نافرمان لوگ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے۔شیخ کہتے ہیں جب مین نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے ؟
سب نے کہا ترجمہ صحیح ہے، وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا۔شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ، انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا، وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُس نے کہا مجھے قرآن کا ترجمہ دو، شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا۔شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے
برما میں مسلمانوں کا قتل عام رمضان میں بھی جاری ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ میانمر میں اس وقت بھی مسلمان آبادی کے خلاف مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے کہاہے کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود بدھ راہبوں کی جانب سے روہنگیہ مسلمانوں پر تشدد کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔تنظیم نے اس کی ذمہ دار ملکی سیکورٹی فورسز پر بھی عائد کی ہے۔ میانمر میں رواں سال مئی میں شروع ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔تنظیم نے میانمر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیہ برادری کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرے۔
صرف 2گھنٹے کا روزہ اور 21گھنٹے کھانا پینا ترک کرنیوالے مسلمان
زمین کی اپنے محور اور سورج کے گرد گردش نہ صرف موسمی تغیرات کا باعث ہے بلکہ اس سے ماہ صیام کے دوران خطہ زمین پر بسنے والے مسلمانوں کے اوقاتِ سحر و افطارمیں بھی نمایاں فرق واقع ہوتا ہے۔ماہ رمضان کی آمد کے موقع پر اسی فرق پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی ملک ڈنمارک میں موجود مسلمان اس سال اکیس گھنٹے کا طویل روزہ رکھیں گے جبکہ دوسری جانب براعظم جنوبی امریکا کے ملک ارجنٹائن میں محض ساڑھے نو گھنٹے
کا روزہ ہو گا۔شمالی روس کا شہر "مورمانسک" اس اعتبار سے اپنی الگ انفرادیت رکھتا ہے جہاں طلوع و غروب آفتاب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں کے مسلمان شہری سورج کی روشنی میں سحر و افطار کا اہتمام کریں گے۔ علما اور فقہا نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے اور ان کے روزے کا وقت بیس گھنٹے پر محیط ہو گا
ماسکو میں ایک نوعمر لڑکی اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے دوران استاد کی گفتگو بغور سن رہی ہے
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس شہر میں گرمیوں میں دن رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے جبکہ سردیوں کے موسم میں دن سکڑ کر صرف دو گھنٹے رہ جاتا ہے اورسردیوں کے رمضان میں مسلمان صرف دو گھنٹے روزہ رکھتے ہیں۔قطبی دائرے سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں پر گرمیوں کے دو ماہ بائیس مئی سے بائیس جولائی تک سورج کے طلوع و غروب کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر سورج کی گردش آنکھوں کے سامنے جاری رہتی ہے۔ بائیس جولائی کے بعد سورج زمین کی اوٹ میں آنا شروع ہوتا ہے اور سردیوں کے دو مہینے دسمبر اور جنوری میں رات پھیل کر بائیس اور تئیس گھنٹوں کے درمیان چلی جاتی ہے۔روزے کی طوالت کے ساتھ ساتھ اس سال رمضان المبارک پچھلے تینتیس سال کے بعد سب سے گرم ترین موسم میں آیا ہے۔ دنیا کے ممالک کے بارے میں معلومات جمع کرنے والی ویب سائٹ "آل کنٹریز" کے مطابق اس سال کا رمضان گذشتہ 33 برس کا گرم ترین رمضان ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق آئیس لینڈ میں روزے کا وقت بیس گھنٹے بیس منٹ، روس کے شہر ماسکو میں رات تین سے اگلی رات دس بجے تک انیس گھنٹے کا روزہ ہو گا۔ کینیڈا میں اٹھارہ گھنٹے، سعودی عرب، فرانس، انگلینڈ، مصر اور جرمنی میں سولہ گھنٹے سے زائد تک روزے کا وقت رہے گا۔طویل ترین روزے کے اوقات کے ساتھ ساتھ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن کے ہاں روزے کا دورانیہ محض چند گھنٹے ہو گا۔ آسٹریلیا میں دس گھنٹے، جنوبی افریقہ کے ممالک میں ساڑھے دس اور ارجنٹائن کے مسلمان ساڑھے نو گھنٹے کھانا پینا ترک کریں گے۔
Thursday, July 19, 2012
رمضان: تمام ٹی وی چینلز کے اسلامی پروگرام فحش اداکاراؤں کے حوالے کیوں ہوئے؟ اہم انکشافات
مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے شروع ہونے میں کوئی زیادہ وقت نہیں ہے اور پاکستان میں مختلف نجی چینلوں نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے رمضان کی خصوصی نشریات کے لیے اسلامی پروگرام تیار کیے ہیں جن کی تشہیری مہم اپنے عروج پر ہے۔ماہ رمضان کی نسبت سے تیار ہونے والے یہ خصوصی اسلامی پروگرام سحری اور افطاری کے وقت نشر کیے جاتے ہیں۔ویسے تو ماہ رمضان کی خصوصی نشریات کے اسلامی پروگراموں کے لیے مختلف علماء کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں تاہم تقریبا تمام ہی ٹی وی چینلز نے یہ پروگرام فحش فلموں میں برہنہ اور نیم برہنہ ہو کر کام کرنے والی اداکاراؤں اور ڈانسرز کے حوالے کردئے ہیں۔ اس بار جب بھی کوئی پاکستانی سحری یا افطاری کےو قت ٹی وی لگائے گا اسے عریاں فلموں میں کام کرنے والی ان اداکاراؤں کا نظارہ کرنے پڑے گا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہ ایک ہولناک کہانی اور پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کا کھلا ثبوت ہے مگر اس بارے میں بات کرنے سے قبل ہم یہ بتاتے چلیں کہ ماہ رمضان کے خصوصی اسلامی پروگراموں کو کن عریاں اداکاراؤں کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام وینا ملک کا ہے جو ایک ایکسپریس ٹی وی چینل کے ذیلی چینل ہیرو ٹی وی پر ’استغفار‘ کے نام سے ایک پروگرام کررہی ہے۔وینا ملک کے اس پروگرام کا اشتہار آج کل دکھایا جا رہا ہے۔وینا ملک فحش فلموں کی معروف اداکارہ ہیں۔ وہ مکمل برہنہ ہو کر فلمی رسالوں کے لئے تصاویر کھنچوانے کے لئے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹی وی پروگرامز میں کیمرے کے سامنے بعض جنسی افعال بھی ریکارڈ کراچکی ہیں جو کہ ایک بھارتی ٹی وی کے لئے تھے اور نشر بھی کئے گئے جس پر پاکستان میں کافی غصہ بھی دیکھا گیا تھا۔ ایک اور ٹی وی پر سعدیہ امام نامی اداکارہ بھی اسلامی پروگرام کریں گی۔ انٹر نیٹ پر ان کی نیم برہنہ تصاویر بھری پڑی ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر وہ فحش سین کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ ایک اور سابق ڈانسر اور اداکارہ مایا خان بھی ایک ٹی وی پر اسلامی پروگرام کریں گی۔اے آر وائی پر اسلامی پروگرام کرنے والی مایا خان سابق ڈانسر ہیں مگر عمر زیادہ ہوجانے کے سبب اب بھی ڈانس کو بطور پیشہ جاری نہیں رکھ سکتیں اس لئے وہ ٹی وی پروگرامز کرتی ہیں۔ ان کی نیم برہنہ تصاویر بھی انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اسلامی پروگرامز ان عریاں اداکاراؤں کے حوالے کرنے پر پاکستان میں خاصا ردعمل دیکھا جا رہا ہے مگر ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے پیمرا نے اس پر کوئی ایکشن لینے سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ تمام پاکستانی ٹی وی چینلز امریکی پروگرام برائے میڈیا سے مالی تعاون حاصل کرتے ہیں جب کہ تیکنیکی تعاون وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ ایک برس سے امریکہ اور برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے یہ دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والے اسلامی پروگرامز سے شدت پسندی پھیل رہی ہے لہذا انہیں بند کیا جانا چاہئے کیونکہ ان پروگرامز میں علما آ کر تمام پاکستانیوں سے براہ راست مخاطب ہوجاتے ہیں اور انکا پیغام آسانی سےپھیل جاتا ہے۔اسی دبائو کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا کہ اسلامی پروگرامز تو بند نہ کئے جائیں البتہ ان کی میزبانی فحش اداکاراؤں کے حوالے کردی جائے تاکہ ان پروگرامز سے کسی قسم کا اسلامی تاثر نہ جائے اور معاشرے میں اسلام پسندی نہ پھیلے۔اس کا آغاز رمضان سے کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے کچھ عرصہ قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے خاصی جارحانہ رپورٹ بھی جاری کی تھی۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی حلقے کیبل ٹی وی کی آمد پر اس کے شدید مخالف تھے اور اسے فحش غیر ملکی درآمد قرار دیتے تھے لیکن آج مذہب انہی نشریات پر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ٹی وی پر ایک نئی نسل کے اسلامی مبلغین کا ظاہر ہونا ماحول کو لبرل لوگوں سے تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔پاکستان میں کسی بھی دن اگر آپ ٹی وی دیکھیں تو آپ کو سوپ سیریلز، گرما گرم سیاسی مباحثے اور ایک نئے انداز میں پیش کیا جانے والے اسلام نظر آئے گا۔ان پروگراموں کا بنا بنایا ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے سوالات اور مسائل کے لیے کال کرتے ہیں اور شو میں موجود مذہبی ماہرین ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کے میزبان بیک وقت مذہبی رہنما اور سلیبرٹی ہوتے ہیں اور اپنے ناظرین کے لئے چھوٹے فتوے جارے کرتے نظر آتے ہیں۔ برطانوی ادارے کے دعوے کے مطابق ان پروگراموں کے میزبان اور ان کے پروگرم اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں جیسا کہ فرحت ہاشمی پر الزام لگا کے وہ پیسے خرد برد کر کے کینیڈا بھاگ گئیں تاکہ تحقیقات سے بچ سکیں۔ فرحت کسی قسم کی بدعنوانی سے مکمل طور پر انکاری ہیں۔ دوسری طرف مہر بخاری جو کہ ایک سیاسی شو کی میزبانی کرتی ہیں مگر ان پر اس وقت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا جب انہوں نے اپنے ایک مہمان کو ملحد قرار دیا تھا۔ مذہبی علما کے بارے میں انتہائی توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بی بی سی کا کہنا تھا کہایک اور ملاّ نے پاکستان کی عریاں اداکارہ وینا ملک سے براہ راست ٹی وی پر تکرار کی جس سے پہلے انہوں نے اداکارہ کے طرزِ عمل پر تنقید کی جس کا ویڈیو کلپ بعد میں بہت مشہور ہوا۔ان تمام مبلغین میں سر فہرست عامر لیاقت ہیں جو کہ کراچی میں اپنے چمکتے دمکتے سٹوڈیو سے ایک گھنٹے کا براہ راست پروگرام ہفتے کے پانچ دن کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں عامر لیاقت ایک ’مشورہ بیگم‘ جیسے شخص کا کردار کرتے ہیں جو اپنے ناظرین کے مذہبی مسائل کا حل اپنے مشوروں سے کرتا ہے۔ستمبر دو ہزار آٹھ کو عامر لیاقت نے اپنا ایک پورا پروگرام احمدیوں کے عقائد کے بارے میں مختص کیا۔ اس پروگرام میں دو علماء نے کہا کہ ایسا کوئی بھی جو اپنے آپ کو ایک جھوٹے نبی سے منسوب کرتا ہے وہ واجب القتل ہے۔
ایک احمدی ڈاکٹر خالد یوسف نے جب یہ پروگرام نواب شاہ میں دیکھا تو ان کو ایک دھچکا لگا کہ ایک مشہور چینل کس طرح یہ کا مواد نشر کر سکتا ہے؟ ’جو قتل کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر پیش کر رہے تھے ایک اچھے مسلمان کے فریضے کے طور پر۔‘اس پروگرام کے چوبیس گھنٹوں کے اندر جماعت احمدیہ میرپور خاص کے امیر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو قتل کر دیا گیا اور مذید چوبیس گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر خالد یوسف کے والد کو جو کہ مقامی جماعت احمدیہ کے امیر تھے دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت نے ان قتل کی واردتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کے ’مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے جو ہوا اس پر دکھ ہے اور میں ان خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کا میری ذات سے اور میرے پروگرام میں کہی گئی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘عامر لیاقت اب بھی اپنا شو پیش کرتے ہیں بلکہ اب واپس پاکستان کے ایک مقبول ترین ٹی وی چینل جیو ٹی وی پر آ گئے ہیں جہاں سے ان کو اس پروگرام کے بعد نکال دیا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق
پاکستان کے بڑھتے ہوئے آزاد ٹی وی چینل جنرل مشرف کی دور صدارت کی باقیات ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سلیبرٹی ملاّ عدم برداشت کا پیغام دے رہے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ٹی وی انڈسٹری کو قوائد و ظوابط کی اشد ضرورت ہے۔
پیمرا جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے جس کو ٹی وی چینلز پر نظر رکھنے کا کام سپرد گیا ہے۔ اس کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ ایسے پروگراموں کو روکے گا جو کہ ’گروہی اور فرقہ وارانہ رویوں اور ناموافقت‘ کو ترویج دیں۔مگر اس ادارے نے ٹی وی پر آنے والے ملائوں خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ پیمرا کہ جنرل مینیجر نے کہا کہ وہ مذہبی پروگراموں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے کیونکہ یہ ’آگ لگانے‘ کے مترادف ہو گا۔لیکن پاکستان میں فحش فلموں میںکام کرنے والی اداکارہ وینا ملک نے کھل کر اپنی آواز ان ٹی وی کے مبلغوں کے خلاف اٹھائی ہے۔ وینا کو اس وقت ٹی وی پر مذہبی علماء کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ہندوستان جا کر بگ برادر نامی پروگرام میں حصہ لیا اور براہ راست ٹی وی پر جنسی عمل کا ایک حصہ کر کے دکھایا۔ بی بی سی کے مطابق جب علماء نے ان کے طرز عمل کو ’شرمناک‘ اور ’غیر اسلامی‘ قرار دیا تو وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیا۔
وینا نے کہا کہ ’میں اپنے آپ کے لئے بول رہی تھی جب میں نے کہا کہ ہر عورت کی مرضی ہے وہ جو چاہے پہنے یا پہنے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں حقوق نسواں کی کوششیں اقلیتوں کے حقوق کی کوششوں سے جڑی ہیں اور چند لوگ ہیں جو اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ میں بات کر سکتی تھی جو میں نے کی۔ سیٹیزنز فار ڈیموکریسی کے منصور رضا نے کہا کہ وینا بمقابلہ ملاّ واقعہ نے وینا کو پاکستانی لبرلز کی جدوجہد کی علامت کے طور پر سامنے پیش کیا۔ وینا کا پاکستانی بائیں بازو کی پسندیدہ ہونا وقت کے بدلنے کی علامت ہے۔ بی بی سی نے دعوی کیا کہ
منصور رضا نے مزید کہا کہ ’میں ایسی گھریلو خواتین کو جانتا ہوں جو برقع پہنتی ہیں مگر وہ وینا کو ہیرو مانتی ہیں۔ اس نے وہ سب کہ دیا جو ہم کہنا چاہتے تھے۔‘بی بی سی کا دعوی ہے کہ وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیاجس ٹی وی چینل نے یہ پروگرام نشر کیا تھا ان کا مؤقف ہے کہ وہ یہ سب عوام کی ضرورت پر کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ مشکل دینی مسائل کا آسان حل بتا رہے ہیں۔ لیکن ایک طویل جدوجہد کے بعد اب فحش فلموں میں جنسی اداکاری کرنے والی اداکارہ وینا ملک کو ہی اسلامی پروگرام کا میزبان بنا دیا گیا ہے اور اب وہ رمضان میں لوگوں کو بتائیں گی کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل کیا جائے۔
اسی حوالے سے کچھ عرصہ قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے خاصی جارحانہ رپورٹ بھی جاری کی تھی۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی حلقے کیبل ٹی وی کی آمد پر اس کے شدید مخالف تھے اور اسے فحش غیر ملکی درآمد قرار دیتے تھے لیکن آج مذہب انہی نشریات پر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ٹی وی پر ایک نئی نسل کے اسلامی مبلغین کا ظاہر ہونا ماحول کو لبرل لوگوں سے تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔پاکستان میں کسی بھی دن اگر آپ ٹی وی دیکھیں تو آپ کو سوپ سیریلز، گرما گرم سیاسی مباحثے اور ایک نئے انداز میں پیش کیا جانے والے اسلام نظر آئے گا۔ان پروگراموں کا بنا بنایا ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے سوالات اور مسائل کے لیے کال کرتے ہیں اور شو میں موجود مذہبی ماہرین ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کے میزبان بیک وقت مذہبی رہنما اور سلیبرٹی ہوتے ہیں اور اپنے ناظرین کے لئے چھوٹے فتوے جارے کرتے نظر آتے ہیں۔ برطانوی ادارے کے دعوے کے مطابق ان پروگراموں کے میزبان اور ان کے پروگرم اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں جیسا کہ فرحت ہاشمی پر الزام لگا کے وہ پیسے خرد برد کر کے کینیڈا بھاگ گئیں تاکہ تحقیقات سے بچ سکیں۔ فرحت کسی قسم کی بدعنوانی سے مکمل طور پر انکاری ہیں۔ دوسری طرف مہر بخاری جو کہ ایک سیاسی شو کی میزبانی کرتی ہیں مگر ان پر اس وقت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا جب انہوں نے اپنے ایک مہمان کو ملحد قرار دیا تھا۔ مذہبی علما کے بارے میں انتہائی توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بی بی سی کا کہنا تھا کہایک اور ملاّ نے پاکستان کی عریاں اداکارہ وینا ملک سے براہ راست ٹی وی پر تکرار کی جس سے پہلے انہوں نے اداکارہ کے طرزِ عمل پر تنقید کی جس کا ویڈیو کلپ بعد میں بہت مشہور ہوا۔ان تمام مبلغین میں سر فہرست عامر لیاقت ہیں جو کہ کراچی میں اپنے چمکتے دمکتے سٹوڈیو سے ایک گھنٹے کا براہ راست پروگرام ہفتے کے پانچ دن کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں عامر لیاقت ایک ’مشورہ بیگم‘ جیسے شخص کا کردار کرتے ہیں جو اپنے ناظرین کے مذہبی مسائل کا حل اپنے مشوروں سے کرتا ہے۔ستمبر دو ہزار آٹھ کو عامر لیاقت نے اپنا ایک پورا پروگرام احمدیوں کے عقائد کے بارے میں مختص کیا۔ اس پروگرام میں دو علماء نے کہا کہ ایسا کوئی بھی جو اپنے آپ کو ایک جھوٹے نبی سے منسوب کرتا ہے وہ واجب القتل ہے۔
ایک احمدی ڈاکٹر خالد یوسف نے جب یہ پروگرام نواب شاہ میں دیکھا تو ان کو ایک دھچکا لگا کہ ایک مشہور چینل کس طرح یہ کا مواد نشر کر سکتا ہے؟ ’جو قتل کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر پیش کر رہے تھے ایک اچھے مسلمان کے فریضے کے طور پر۔‘اس پروگرام کے چوبیس گھنٹوں کے اندر جماعت احمدیہ میرپور خاص کے امیر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو قتل کر دیا گیا اور مذید چوبیس گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر خالد یوسف کے والد کو جو کہ مقامی جماعت احمدیہ کے امیر تھے دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت نے ان قتل کی واردتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کے ’مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے جو ہوا اس پر دکھ ہے اور میں ان خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کا میری ذات سے اور میرے پروگرام میں کہی گئی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘عامر لیاقت اب بھی اپنا شو پیش کرتے ہیں بلکہ اب واپس پاکستان کے ایک مقبول ترین ٹی وی چینل جیو ٹی وی پر آ گئے ہیں جہاں سے ان کو اس پروگرام کے بعد نکال دیا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق
پاکستان کے بڑھتے ہوئے آزاد ٹی وی چینل جنرل مشرف کی دور صدارت کی باقیات ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سلیبرٹی ملاّ عدم برداشت کا پیغام دے رہے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ٹی وی انڈسٹری کو قوائد و ظوابط کی اشد ضرورت ہے۔
پیمرا جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے جس کو ٹی وی چینلز پر نظر رکھنے کا کام سپرد گیا ہے۔ اس کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ ایسے پروگراموں کو روکے گا جو کہ ’گروہی اور فرقہ وارانہ رویوں اور ناموافقت‘ کو ترویج دیں۔مگر اس ادارے نے ٹی وی پر آنے والے ملائوں خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ پیمرا کہ جنرل مینیجر نے کہا کہ وہ مذہبی پروگراموں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے کیونکہ یہ ’آگ لگانے‘ کے مترادف ہو گا۔لیکن پاکستان میں فحش فلموں میںکام کرنے والی اداکارہ وینا ملک نے کھل کر اپنی آواز ان ٹی وی کے مبلغوں کے خلاف اٹھائی ہے۔ وینا کو اس وقت ٹی وی پر مذہبی علماء کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ہندوستان جا کر بگ برادر نامی پروگرام میں حصہ لیا اور براہ راست ٹی وی پر جنسی عمل کا ایک حصہ کر کے دکھایا۔ بی بی سی کے مطابق جب علماء نے ان کے طرز عمل کو ’شرمناک‘ اور ’غیر اسلامی‘ قرار دیا تو وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیا۔
وینا نے کہا کہ ’میں اپنے آپ کے لئے بول رہی تھی جب میں نے کہا کہ ہر عورت کی مرضی ہے وہ جو چاہے پہنے یا پہنے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں حقوق نسواں کی کوششیں اقلیتوں کے حقوق کی کوششوں سے جڑی ہیں اور چند لوگ ہیں جو اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ میں بات کر سکتی تھی جو میں نے کی۔ سیٹیزنز فار ڈیموکریسی کے منصور رضا نے کہا کہ وینا بمقابلہ ملاّ واقعہ نے وینا کو پاکستانی لبرلز کی جدوجہد کی علامت کے طور پر سامنے پیش کیا۔ وینا کا پاکستانی بائیں بازو کی پسندیدہ ہونا وقت کے بدلنے کی علامت ہے۔ بی بی سی نے دعوی کیا کہ
منصور رضا نے مزید کہا کہ ’میں ایسی گھریلو خواتین کو جانتا ہوں جو برقع پہنتی ہیں مگر وہ وینا کو ہیرو مانتی ہیں۔ اس نے وہ سب کہ دیا جو ہم کہنا چاہتے تھے۔‘بی بی سی کا دعوی ہے کہ وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیاجس ٹی وی چینل نے یہ پروگرام نشر کیا تھا ان کا مؤقف ہے کہ وہ یہ سب عوام کی ضرورت پر کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ مشکل دینی مسائل کا آسان حل بتا رہے ہیں۔ لیکن ایک طویل جدوجہد کے بعد اب فحش فلموں میں جنسی اداکاری کرنے والی اداکارہ وینا ملک کو ہی اسلامی پروگرام کا میزبان بنا دیا گیا ہے اور اب وہ رمضان میں لوگوں کو بتائیں گی کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل کیا جائے۔
Monday, July 16, 2012
Sunday, July 15, 2012
اسلام پسند مصری صدر عدالت کے سامنے سرنڈر : فیصلوں کی پاسداری کا اعلان
مصرکے صدر محمد مرسی نے اعلیٰ آئینی عدالت کے پارلیمان کی بحالی کے لیے صدارتی فرمان کو کالعدم قرار دینے سے متعلق فیصلے کا احترام کرنے کا اعلان کیا ہے۔صدر مرسی کے دفترکی جانب سے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ''اگر آئینی عدالت کا کل کا حکم پارلیمان کو اس کی ذمے داریاں ادا کرنے سے روکتا ہے تو ہم اس کا احترام کریں گے کیونکہ ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں''۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ''موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں،اداروں اور عدلیہ کی سپریم کونسل سے مشاورت کی جائے گی''۔ انھوں نے کہا کہ ''انھوں نے مصری ججوں کے احکامات کی پاسداری کا عزم کررکھا ہے۔وہ ریاستی اختیارات کو منظم انداز میں بروئے کار لانے کے خواہاں ہیں اور کسی بھی محاذ آرائی سے بچنا چاہتے ہیں''۔سپریم دستوری عدالت نے منگل کو صدر محمد مرسی کے برخاست شدہ پارلیمان (پیپلز اسمبلی) کو بحال کرنے اور اس کا اجلاس بلانے سے متعلق جاری کردہ حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور پیپلز اسمبلی کی بحالی کے لیے جاری کردہ صدارتی فرمان کو منجمد کرنے کا حکم دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ اس کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے اور پارلیمان کے ایوان زیریں کو برخاست کرنے کے سابقہ فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد مرسی نے گذشتہ اتوار کو منصب صدارت سنبھالنے کے صرف آٹھ روز بعد ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے ذریعے سپریم آئینی عدالت کے منتخب پیپلز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور ایوان کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی لیکن مصر کی اعلیٰ آئینی عدالت نے ایک روز بعد ہی صدر مرسی کے حکم نامے کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد وہ فوج اور عدلیہ کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے تھے اور فوج کا یہ کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سپریم آئینی عدالت نے صدر محمد مرسی کے حکم نامے کے ردعمل میں کہا تھا کہ اس کے تمام فیصلوں کی پابندی لازمی ہے۔عدالت کے ججوں نے سوموار کو صدارتی حکم پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس منعقد کیا تھا جس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ''عدالت کے تمام احکامات اور فیصلے حتمی ہیں اور ان کے خلاف اپیل دائر نہیں کی جاسکتی ہے۔تمام ریاستی اداروں کے لیے ان کی پابندی لازمی ہے''۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد صدر مرسی اور مصر کی اعلیٰ عدالت اور مسلح افواج کی سپریم کونسل کے درمیان نئی محاذآرائی اور اختیارات کی جنگ نے جنم لیا ہے اور اب واضح طور پر اسلامی جماعتوں کی بالادستی والی تحلیل شدہ پارلیمان اور عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی ایک طرف اور طاقتور عسکری کونسل اور اس کی حامی اعلیٰ عدلیہ دوسری جانب کھڑے ہیں اور ان کے درمیان اختیارات کی علانیہ جنگ جاری ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر کی عسکری اور سیاسی قیادت کو محاذ آرائی سے گریز کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے موجودہ بحران کا حل تلاش کریں۔انھوں نے کہا کہ ''مصری عوام کو وہ کچھ ملنا چاہیے جس کے لیے وہ احتجاجی مظاہرے کرتے رہے تھے اور انھوں نے ووٹ دیے تھےاور یہ ایک مکمل منتخب حکومت ہے جو ملک کو آگے لے جانے کے لیے فیصلے کرے''۔ہلیری کلنٹن ہفتے کے روز مصر کے دورے پر قاہرہ آئیں گی۔
Friday, July 13, 2012
شامی فوج کا قتل عام 250 افراد ہلاک،گھروں اور مساجد کو آگ لگا دی گئی
حماہ صوبے میں واقع ایک گاؤں میں شامی فوجی کی کارروائی کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد شہریوں کی بتائی جا رہی ہے۔حماہ میں فری سیرئین آرمی کے ایک کمانڈر ابو قمر نے ایک میڈیا کو بتایا کہ ملکی فوج نے سنی اکثریتی آبادی پر مشتمل التريمسة نامی گاؤں پر شیلنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 220 افراد مارے گئے جبکہ تین سو سے زائد زخمی ہو گئے۔شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے بقول فوج نے اس کارروائی میں ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کا استعمال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ سات ہزار نفوس پر آباد یہ گاؤں اب مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے، ’’ یا تو لوگ مر گئے یا وہاں سے فرار ہو گئے۔شامی سرکاری ٹیلی وژن نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قتل عام‘ کی اس کارروائی کے پیچھے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ مزید کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد حکومت کی حامی فوج نے گاؤں میں داخل ہو کر لوگوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا، ’’علاقے میں موجود گھروں اور مساجد کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔فری سیریئن آرمی کے چیف رعد الاسد نے شامی عوام سے اپیل کی ہے کہ اس ’قتل عام‘ کی مذمت کرنے کے لیے وہ جمعے کے دن عام ہڑتال کریں۔ انہوں نے اس کارروائی کو لرزہ خیز جرم قرار دیا ہے۔ اگر اس قتل عام کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ شام میں گزشتہ برس مارچ میں شروع ہونے والی بغاوت کا خونریز ترین دن بن جائے گا۔شام میں قتل عام کا یہ مبینہ واقعہ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب وہاں قیام امن کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام سے متعلق نئی قرار داد کے مسودے پر بحث شروع کی ہے۔ اس حوالے سے عالمی کوششیں بدستور تعطل کا شکار نظر آ رہی ہیں۔ جمعرات کے دن روس نے شامی حکومت پر ممکنہ پابندیوں کو ایک مرتبہ پھر رد کر دیا
تحریک انصاف کی رہنما نےاسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع 16 جولائی کو بلا لیا
اسلام آباد ميں امريکي سفارتخانے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وفاقي دارالحکومت ميں ايک ايليٹ اسکول چین ، بیکن ہائوس نے ہم جنس پرستوں کا اجتماع اسی مہینے کی سولہ تاریخ کو اپنے ہیڈ آفس میں بلا لیا ہے ۔ اسکول کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس کی جانب سے ہم جنس پرستوں کے حقوق پر مباحثے کا اہتمام کيا ہے جو 16جولائي کو اسلام آباد ميں اسکول کي مرکزي برانچ ميں ہوگا، مذکورہ اسکول اس مباحثے کو ”ميونخ ڈي بيٹس“ پروگرام کے تحت منعقد کررہا ہے، واضح رہے کہ ان اسکولوں کے سلسلے کي سربراہ ايک خاتون ہيں جو ملک ميں تيزي سے ابھرنے والي تحریک انصاف کی سينئر عہديدار بھي بتائي جاتي ہيں۔ ان کے شوہر پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور وہ مشرف کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اب وہ تحریک انصاف میں عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں۔ لوگ انہیں خورشید محمود قصوری کے نام سے جانتےہیں۔ ان کی اہلیہ دی ایجوکیٹر اور بیکن ہائوس کے نام سے اسکولوں کی چین چلاتی ہیں جہاں مغربی تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں اس سےپہلے بھی کئی تنازعات کھڑے ہوتے رہے ہیں جن میں رمضان میں ڈانس پارٹیاں کرانا بھی شامل ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس وقت چونکہ پاکستان میں امریکی سفیر ہم جنس پرست ہیں اس لئے اسلام آباد میں ان کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہم جنس پرستی اہم جز قرار پائی ہے اس لئے اکثر لوگ ہم جنس پرست بن رہے ہیں یا اپنے آپ کو ہم جنس پرست ظاہر کررہے ہیں۔اسی لئے تحریک انصاف کے سینئر رہنما خورشید محمود قصوری کی اہلیہ نے ا پنے اسکول بیکن ہائوس کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کا ایک اجتماع اسی ماہ کی سولہ تاریخ کو منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں امریکی سفیر بھی شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس انہی دنوں امریکی سفیر نے ہم جنس پرستوں کا اجتماع بلایا تھا۔
پاکستان میں ہم جنس پرست زیر زمین منظم ہو رہے ہیں اور ان کے باقاعدگی سے اجتماعات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بیرون ملک تنظیموں سے بھی روابط ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستوں کی تحریک خاموشی سے مگر منظم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس حوالے سے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو امریکی سفارتخانے کا تعاون حاصل ہے۔ خود امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس جون 2011 کو امریکی سفیر نے ہم جنس پرست گروپوں کو سفارتخانے مدعو کیا تھا اور ان کو ان کے حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً 75 افراد نے شرکت کی جن میں سفارتخانے کا عملہ، امریکی فوجی، غیر ملکی سفارتکار، پاکستان میں ایڈووکیسی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں کے پاکستان چیپٹر کے رہنما شامل تھے۔پڑوسی ملک بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی جس میں شرکاء کو پاکستان میں بھی امریکہ کی جانب سے اس مقصد کیلئے حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا گیا۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے گذشتہ 26 جون کو جاری پریس ریلیز میں یہ بات عام کی گئی کہ ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ اور گیزاینڈلیبیئنس ان فارن افیئرز ایجنسیز (جی ایل آئی ایف اے اے) کے ارکان نے امریکی سفارت خانے میں پہلے ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب گذشتہ 26 جون کو منعقد کی۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں ایک ایسے وقت جب انتہا پسند عناصر پورے معاشرے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ایسے میں اجتماع میں انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے امریکی سفارت خانے کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اس تقریب میں مشن آفیسرز، امریکی فوجی نمائندوں، غیرملکی سفارتکار اور پاکستان میں گے، لیسبین، ہائی سیکسوڈل اینڈ ٹرانس جینڈر (جی ایل بی ٹی) ایڈووکیسی گروپ کے نمائندوں سمیت 75 افراد نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے رسمی ریمارکس میں ناظم الامور نے امریکی صدر باراک اوباما کے 31 مئی 2011 کے قابل فخر اعلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنسی و صنفی شناخت سے ماوراء تمام کیلئے مساوی حقوق کی جدوجہد خود کو ازسرنو وقف کرتے ہیں۔ پاکستانی ہم جنس پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور نے کہا گو کہ ان کی جدوجہد ابتدائی مراحل میں ہے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی سفارت خانہ نہ صرف ان کا حامی بلکہ ہر قدم پر ان کے شانہ بشانہ ہے۔
اس کے بعد اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہم جنس پرستوں کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر پریڈ تھی۔ ہم جنس پرستی کی نشانی والی آٹھ رنگوں کی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کرسکے مگر وہ لوگ جو انھیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب رہتے ہیں، انھیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے۔ہم جنس پرستوں نے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اپنے گروپس بنائے ہیں جن کے کئی سو ممبران ہیںپریڈ میں شریک نوجوان ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے تردید کی تھی کہ ملک میں ہم جنس پرست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پریڈ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت کو بتایا جائے ہم موجود ہیں اور ہمیں تسلیم کیا جائے۔ان کے ساتھی تحسین کا کہنا تھا ’اس پریڈ سے پہلے بہت بحث مباحثہ ہوا، کافی ڈر اور خوف بھی تھا کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر انسان ڈر کر زندگی گذار رہا ہے۔ ان حالات میں ہم اتنے بڑے حق کے لیے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ بعد میں ہم نے یہ سوچا کہ ہر چیز کی ابتدا کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہے کسی کوتو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ یہ سوچ کر ہمارا ڈر اور خوف جاتا رہا۔‘
سولہ سالہ مانی طالب علم ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہم جنس پرستی کے بارے میں بچپن ہی سے معلوم ہو جاتا ہے مگر گھر والوں کو بتانا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے جذبات، احساسات اور رجحان کو سمجھنے کے لیے انہیں شعور نہیں ہے۔ اگر بتا دیا جائے تو گھر والے ہم پر پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ہمیں تیسری جنس سمجھنے لگتے ہیں۔‘
مانی کا کہنا ہے کہ نئی نسل انٹرنیٹ سے باخبر ہے اور اسی کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے۔ ’انٹر نیٹ پر کئی راستے موجود ہیں جہاں آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔‘ ان کے ایک اور ساتھی ڈیوڈ کے مطابق درمیانے درجے کے خاندان یا مڈل کلاس کے علاوہ بڑے گھرانوں کے کئی لوگ بھی ان کےگروپس میں موجود ہیں۔
تحسین انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’یہاں اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ جو آپ نہیں ہیں وہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر آپ لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو پھر لڑکی سے کیسے شادی کرسکتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہم جنس پرستوں کو خاندانی اور سماجی دباؤ کے تحت لڑکیوں سے شادی کرنی پڑی مگر بعد میں ان لڑکیوں کی زندگی برباد ہوئی۔ اس لیے کہ وہ ان لڑکیوں کو چھوتے تک نہیں ہیں۔‘
کراچی میں ہم جنس پرستوں کے مخصوص مقامات ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ شہر سے باہر ساحل سمندر اور فارم ہاؤس ان کی بڑی پارٹیوں کا مرکز ہیں جس کے لیے سنیچر کی شام مختص ہوتی ہے۔ تحسین کے مطابق ہم جنس پرست منظم ہیں اور ان کی پارٹیاں مقامی اور ملکی سطح کی ہوتی ہیں جن میں کئی سو لوگ شریک ہوتے ہیں۔
’اس سے پہلے چھاپے نہیں پڑتے تھے مگر اب پولیس جان بوجھ کر آتی ہے اور پارٹی بند کردیتی ہے۔ آرگنائزرز سے پیسے چھین لیے جاتے ہیں اور کھانا اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔ اس پارٹی میں کوئی بھی غیر قانونی چیز نہیں ہوتی۔ اس میں نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی نہیں کیا جاتا صرف ملنے ملانے کی پارٹی اور ڈانس ہوتا ہے۔‘پاکستان کے ہم جنس پرستوں کا انٹرنیشنل لسبیئن اینڈ گے ایسوسی ایشن سمیت برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے رابطہ ہے۔ تحسین کے مطابق ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحفظ یا حقوق وہ اپنے ملک میں تو دلا سکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے، یہاں انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ہم جنس پرستی پاکستان کے قوانین اور مذہبی حوالے سے ناقابل قبول ہے اور ملکی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزاء دس سال قید یا کوڑے ہیں۔پاکستان میں کچھ واقعات ایسےبھی ہوئے ہیں جن میں کچھ لوگوں نے خود کو ہم جنس پرست قرار دے کر بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کی۔ مگر مانی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے سیاسی پناہ مل سکتی ہے۔’ اگر کوئی راستہ نظر آتا ہے تو وہاں سے صحیح اور غلط دونوں لوگ گذرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو حقیقی ہم جنس پرست ہیں وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
پاکستان میں ہم جنس پرستی نہ تو لوگوں اور نہ ہی میڈیا میں کبھی موضوعِ بحث رہی ہے۔ انگریزی اخبارات میں بیرون ملک ہم جنس پرستوں کی کہانیاں اور تبصرے پڑھنے کوتو ملتے ہیں مگر پاکستان کے ہم جنس پرستوں کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعلامیے میں تمام اداروں اور رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے
پاکستان میں ہم جنس پرست زیر زمین منظم ہو رہے ہیں اور ان کے باقاعدگی سے اجتماعات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بیرون ملک تنظیموں سے بھی روابط ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستوں کی تحریک خاموشی سے مگر منظم طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس حوالے سے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو امریکی سفارتخانے کا تعاون حاصل ہے۔ خود امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس جون 2011 کو امریکی سفیر نے ہم جنس پرست گروپوں کو سفارتخانے مدعو کیا تھا اور ان کو ان کے حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس اجتماع میں تقریباً 75 افراد نے شرکت کی جن میں سفارتخانے کا عملہ، امریکی فوجی، غیر ملکی سفارتکار، پاکستان میں ایڈووکیسی تنظیموں اور ہم جنس پرستوں کے پاکستان چیپٹر کے رہنما شامل تھے۔پڑوسی ملک بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی جس میں شرکاء کو پاکستان میں بھی امریکہ کی جانب سے اس مقصد کیلئے حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا گیا۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے گذشتہ 26 جون کو جاری پریس ریلیز میں یہ بات عام کی گئی کہ ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ اور گیزاینڈلیبیئنس ان فارن افیئرز ایجنسیز (جی ایل آئی ایف اے اے) کے ارکان نے امریکی سفارت خانے میں پہلے ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب گذشتہ 26 جون کو منعقد کی۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں ایک ایسے وقت جب انتہا پسند عناصر پورے معاشرے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، ایسے میں اجتماع میں انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے امریکی سفارت خانے کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اس تقریب میں مشن آفیسرز، امریکی فوجی نمائندوں، غیرملکی سفارتکار اور پاکستان میں گے، لیسبین، ہائی سیکسوڈل اینڈ ٹرانس جینڈر (جی ایل بی ٹی) ایڈووکیسی گروپ کے نمائندوں سمیت 75 افراد نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے رسمی ریمارکس میں ناظم الامور نے امریکی صدر باراک اوباما کے 31 مئی 2011 کے قابل فخر اعلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنسی و صنفی شناخت سے ماوراء تمام کیلئے مساوی حقوق کی جدوجہد خود کو ازسرنو وقف کرتے ہیں۔ پاکستانی ہم جنس پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور نے کہا گو کہ ان کی جدوجہد ابتدائی مراحل میں ہے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی سفارت خانہ نہ صرف ان کا حامی بلکہ ہر قدم پر ان کے شانہ بشانہ ہے۔
اس کے بعد اب گزشتہ دنوں کراچی میں ہم جنس پرستوں کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر پریڈ تھی۔ ہم جنس پرستی کی نشانی والی آٹھ رنگوں کی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کرسکے مگر وہ لوگ جو انھیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب رہتے ہیں، انھیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے۔ہم جنس پرستوں نے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اپنے گروپس بنائے ہیں جن کے کئی سو ممبران ہیںپریڈ میں شریک نوجوان ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے تردید کی تھی کہ ملک میں ہم جنس پرست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پریڈ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت کو بتایا جائے ہم موجود ہیں اور ہمیں تسلیم کیا جائے۔ان کے ساتھی تحسین کا کہنا تھا ’اس پریڈ سے پہلے بہت بحث مباحثہ ہوا، کافی ڈر اور خوف بھی تھا کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر انسان ڈر کر زندگی گذار رہا ہے۔ ان حالات میں ہم اتنے بڑے حق کے لیے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ بعد میں ہم نے یہ سوچا کہ ہر چیز کی ابتدا کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہے کسی کوتو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ یہ سوچ کر ہمارا ڈر اور خوف جاتا رہا۔‘
سولہ سالہ مانی طالب علم ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہم جنس پرستی کے بارے میں بچپن ہی سے معلوم ہو جاتا ہے مگر گھر والوں کو بتانا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمارے جذبات، احساسات اور رجحان کو سمجھنے کے لیے انہیں شعور نہیں ہے۔ اگر بتا دیا جائے تو گھر والے ہم پر پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ہمیں تیسری جنس سمجھنے لگتے ہیں۔‘
مانی کا کہنا ہے کہ نئی نسل انٹرنیٹ سے باخبر ہے اور اسی کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے۔ ’انٹر نیٹ پر کئی راستے موجود ہیں جہاں آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔‘ ان کے ایک اور ساتھی ڈیوڈ کے مطابق درمیانے درجے کے خاندان یا مڈل کلاس کے علاوہ بڑے گھرانوں کے کئی لوگ بھی ان کےگروپس میں موجود ہیں۔
تحسین انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’یہاں اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ جو آپ نہیں ہیں وہ کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر آپ لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو پھر لڑکی سے کیسے شادی کرسکتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہم جنس پرستوں کو خاندانی اور سماجی دباؤ کے تحت لڑکیوں سے شادی کرنی پڑی مگر بعد میں ان لڑکیوں کی زندگی برباد ہوئی۔ اس لیے کہ وہ ان لڑکیوں کو چھوتے تک نہیں ہیں۔‘
کراچی میں ہم جنس پرستوں کے مخصوص مقامات ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ شہر سے باہر ساحل سمندر اور فارم ہاؤس ان کی بڑی پارٹیوں کا مرکز ہیں جس کے لیے سنیچر کی شام مختص ہوتی ہے۔ تحسین کے مطابق ہم جنس پرست منظم ہیں اور ان کی پارٹیاں مقامی اور ملکی سطح کی ہوتی ہیں جن میں کئی سو لوگ شریک ہوتے ہیں۔
’اس سے پہلے چھاپے نہیں پڑتے تھے مگر اب پولیس جان بوجھ کر آتی ہے اور پارٹی بند کردیتی ہے۔ آرگنائزرز سے پیسے چھین لیے جاتے ہیں اور کھانا اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔ اس پارٹی میں کوئی بھی غیر قانونی چیز نہیں ہوتی۔ اس میں نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی نہیں کیا جاتا صرف ملنے ملانے کی پارٹی اور ڈانس ہوتا ہے۔‘پاکستان کے ہم جنس پرستوں کا انٹرنیشنل لسبیئن اینڈ گے ایسوسی ایشن سمیت برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے رابطہ ہے۔ تحسین کے مطابق ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحفظ یا حقوق وہ اپنے ملک میں تو دلا سکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں کرسکتے، یہاں انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ہم جنس پرستی پاکستان کے قوانین اور مذہبی حوالے سے ناقابل قبول ہے اور ملکی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزاء دس سال قید یا کوڑے ہیں۔پاکستان میں کچھ واقعات ایسےبھی ہوئے ہیں جن میں کچھ لوگوں نے خود کو ہم جنس پرست قرار دے کر بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کی۔ مگر مانی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے سیاسی پناہ مل سکتی ہے۔’ اگر کوئی راستہ نظر آتا ہے تو وہاں سے صحیح اور غلط دونوں لوگ گذرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو حقیقی ہم جنس پرست ہیں وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
پاکستان میں ہم جنس پرستی نہ تو لوگوں اور نہ ہی میڈیا میں کبھی موضوعِ بحث رہی ہے۔ انگریزی اخبارات میں بیرون ملک ہم جنس پرستوں کی کہانیاں اور تبصرے پڑھنے کوتو ملتے ہیں مگر پاکستان کے ہم جنس پرستوں کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعلامیے میں تمام اداروں اور رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے
Wednesday, July 11, 2012
غیر مخلوط کلاسوں کا نیا امریکی رحجان
پڑھنے میں آیا ہے کہ امریکی ریاست کنساس میں نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ بٹھانے کا رواج ـ'متعارف'کروایا گیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اب تک یہ تجربہ نہایت کامیاب جارہا ہے۔کیونکہ اب لڑکے اور لڑکیاں اب سکون سے کینٹین میں کھاسکتے ہیں۔اور کلاسوں میں بھی توجہ دے سکتے ہیں۔ان کے اپنے الفاظ کے مطابق ''غیر ضروری اچھل کود اور 'فلرٹنگ'سے بھی نجات مل گئی ہے۔ چونکہ لڑکے اور لڑکیوں کو اب ایک دوسرے پر اچھا تاثر ڈالنے کیلئے بننے سنورنے پرمحنت ضائع نہیں کرنی پڑتی، اس کے اچھے تعلیمی نتائج سامنے آرہے ہیں''۔۔۔۔۔۔ہم اس پر تبصرہ کیا کریں ایک محاورہ یہاں یاد آرہا ہے۔جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے؛''۔۔جہاں کا تھا، گھوم پھر کر وہیں واپس آیا!'
Sunday, July 8, 2012
Monday, July 2, 2012
پاکستان سے علیحدہ ہو جاؤ،ساتھ دینگے،امریکہ کی گلگت کے قوم پرستوں کو پیش کش
پاکستان کو بھارت میں ضم کردیا جائے۔ پاکستانی وزیر ریلوئے کی ہرزہ سرائی
وفاقي وزير ريلوے غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ایک ملک بنا دیا جائے جب کہ عام انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہيں آرہے،بر وقت انتخابات نہ ہونے کہ وجہ بيان کرتے ہو ئے وفاقي وزير کا کہنا تھا کہ خيبر پختونخوا اور بلوچستان ميں صورت حال کے پيش نظر شايدبروقت انتخابات نہ ہو سکيں. ميڈيا سے گفتگو ميں ان کا مزيد کہنا ہے کہ حکومت کوپوراوقت نہ ملا توآيندہ کوئي حکومت وقت پورانہيں کرسکے گي.خطے ميں دير پا امن کے لئے انہوں نے تجويز پيش کرتے ہو ئے پاکستان اور بھارت کو ایک ملک بنا دیا جائے۔ واضح رہے کہ وہ پہلے بھی ایسی بات کرچکے ہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)