ٹی وی کا اسلام
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے، ایسی درس گاہ جس کا سکھایا ہوا سبق اتنا مثر ہے کہ ہمیشہ کے لیے بچے کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے، بچے سے ماں کی محبت کا اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ۔ اس کی کوشش یہی ہوگی کہ بچے دین دار بنیں، بچے دین دار اسی وقت بن سکتے ہیں جب مائیں اپنے بچے کہ دین کی طرف راغب کریں، بچوں کا رجحان دین کی طرف ہوجائے یہ اسی سورت میں ممکن ہے جب ہم ان کہ دینی ماحول فراہم کریںگے۔ علماءحق سے جڑنے کی ترغیب دیں گے ان کی صحبت میں بیٹھنے کی ترغیب دیں گے ۔” فلانے پروگرام میں کوئی صاحب یہ بات کہہ رہے تھے اور وہ صاحب بہت قابل ہیں، بہت اچھا پروگرام ہے اس کو دیکھنا چاہیے بڑی معلومات ہوتی ہیں ہم تو اس پروگرام سے بہت سیکھتے ہیں“۔
ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک صاحب ذاکر نائیک کے نام سے آتے ہیں جو یہودیوں کا پہنا وا پہنتے ہیں، ٹائی لگاتے ہیں اور انتہائی غلط دینی معلومات بہت وثوق اور دلیلوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ایک خاتون سے ہماری ملاقات ہوئی، کہنے لگیں کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ عورت کے چہرے کا پردہ ہے ، کہنے لگیں ذاکر نائیک نے اپنے پروگرام میں بتایا ہے میں نے خود سنا ہے کہ عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے اور اس بات پر دلیل دی۔ ان محترمہ سے میں نے کہا کہ قرآن کریم پر ایمان ہے؟ کہنے لگیں ہاں! ہم نے کہا سورة الاحزاب میں صاف طور پر لکھا ہے۔ ” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے، بیٹیوں سے اور دوسرے مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے چہرے کو تھوڑی تک چادروں سے ڈھانپ لیا کرو“۔ اب آپ بتائیں قرآن صحیح کہہ رہا ہے کہ نعوذباللہ ذاکر نائیک درست ہے، آج کی مسلمان عورتیں ذاکر نائیک سے اس قدر متاثر ہیں کہ اس کو غلط ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اس کے متعلق کہتی ہیں کہ وہ تو بہت عالم فاضل ہیں اس کے پاس تو بہت علم ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہی اس کا علم ہے کہ اس نے قرآن مجید کی آیات کو اپنی خود ساختہ دلیل سے غلط کردیا۔ ٹی وی کے ذریعے تو اسی طرح کی دینی معلومات مل سکتی ہے ، ٹی وی تو ذریعہ ہی مسلمانوں کو دیں سے دور کرنے کا ہے۔ ہم تو اپنے اللہ کے جتنے بھی شکر گزار ہوں کم ہے کہ اس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا ، ہمارے پاس تو دین کو سیکھنے کے لیے قرآن و حدیث موجود ہے، ہمیں کہیں اور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہی انسان کی مکمل اصلاح کا ذریعہ اور دنیا آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔
No comments:
Post a Comment